بیٹیوں کے باپ: محمدﷺ
ذکی الرحمٰن غازی مدنی جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ
امِ ایمن برکہ نامی خاتون بڑی تیزی کے ساتھ مکہ کے بازار سے گزر رہی تھیں۔ خوشی وفرحت سے ان کا چہرا تمتمایا تھا۔ اچانک ایک خاتون سلیمہ خزاعیہ سامنے آجاتی ہیں اور وہ ان سے ٹکرا جاتی ہیں۔ سلیمہ خزاعیہ ناراض ہوکر امِ ایمن سے قدرے درشت لہجے میں گفتگو کرتی ہیں:
-امِ ایمن!کیا ہوگیا ہے؟ تم اتنی تیزی سے کہاں بھاگی جارہی ہو؟
-میں ’’الصادق الامین‘‘ محمدؐ کو خوش خبری دینے جارہی ہوں کہ ان کی اہلیہ حضرت خدیجہؓ الطاہرہ نے چوتھی بیٹی کو جنم دیا ہے۔
– (مارے حیرت واستعجاب کے سلیمہ خزاعیہ کا منھ کھلا کا کھلا رہ جاتا ہے) کیا تم واقعی انہیں چوتھی بیٹی کی خبردینے والی ہو؟
– جی ہاں !
– (تھوڑا قریب آکر رازدارانہ لہجے میں) امِ ایمن !کیا تم مجھے سچی بات نہیں بتائوگی؟
-کیا بات؟ کس بارے میں؟
-یہی کہ تمہارے مالک حضرت محمدؐکااپنی چوتھی بیٹی کی خبر سن کر کیا ردِ عمل ہوگا۔
– (ام ایمن ہنستی ہیں) تمہارے اس سوال نے مجھے وہ دن یاد دلا دیا جب حضرت خدیجہؓ نے اپنی پہلی بیٹی زینب کو جنم دیا تھا اورمجھ سے کہا گیا تھا کہ یہ خبر محمدؐ کو سنا آئوں۔ میں خوف وہراس اور اندیشوں میں گرفتار آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور مجھے توقع تھی کہ اس معصوم نومولود کا مقدر دیگر لوگوں کی بچیوں کی طرح ایک گہرے گڈھے میں زندہ دفن ہوجانا ہے۔ لیکن سلیمہ! تم یقین کرو، وہاں میں نے جو معاملہ دیکھا اس نے مجھے ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔
-کیا ہوا تھا؟
-ارے جیسے ہی محمدؐ نے سنا کہ ان کی زوجۂ محترمہؓ نے بیٹی کو جنم دیا ہے ان کا چہرا کھِل اٹھا اور مارے خوشی کے تقریباً دوڑکر وہ گھر پہنچے اور نوزائیدہ بیٹی کو گلے سے لگا لیا۔ مجھے تو ایسا لگ رہاتھا کہ گویا انھیں اس بچی کی شکل میں سعادت ومسرت کی کنجی ہاتھ آگئی ہے۔
انھوں نے بچی کو خوب چوما، سینے سے لگاکر بار بار بھینچا اور بچی کی والدہ کو ڈھیروں مبارک باد دی۔ پھر پہلا کام یہ کیا کہ قربانی کے جانوروں کو ذبح کر کے اچھا خاصہ عقیقے کا دستر خوان بچھا دیا۔ جی ہاں! تم مانو یا نہ مانو، محمدؐ کا ردِ عمل کچھ ایسا ہی تھا اور آج بھی وہ یہی کریں گے۔ “
امِ ایمن برکہ نے اتنا کہہ کر دوبارہ اپنی راہ لی، جب کہ سلیمہ خزاعیہ چہرا نیچے کیے گہری سوچ میں ڈوب گئیں۔ وہ سوچ رہی تھیں کہ انھیں تین بار اپنی چھوٹی چھوٹی بچیوں کی موت کا غم اٹھانا پڑا ہے، کیونکہ ان کے شوہر کو لڑکیاں پسند نہیں ہیں اور وہ ہمیشہ نوزائیدہ بچی کو زندہ درگور کردیتا ہے۔
اس کی سنگ دلی اور قساوت اس درجہ پہونچ گئی ہے کہ دفن ہوتے ہوئے جگر کے ٹکڑوں کے رونے چلانے سے بھی وہ نہیں پسیجتا ہے اور خود سلیمہ کی ہزار منتوں اور فریادوں کو خاطر میں نہیں لاتا ہے۔ یہ قساوت صرف ایک انہی کے شوہر کے ساتھ خاص نہیں تھی، بلکہ اس وقت کے عرب معاشرے میں زیادہ تر باپوں کا حال یہی تھا۔ اس معاشرہ میں لڑکیوں کو زندہ درگور کرنا ایک فیشن سا بن گیا تھا اور قبر کے گڈھے کو لڑکیوں کی سسرال مانا جانے لگا تھا۔
حقیقت بھی یہی تھی کہ جوشخص اپنی بچیوں کو زندہ درگور نہ کرتا، اسے زندگی بھر ذلت کے ساتھ لوگوں کے طعن وتشنیع سہنا پڑتے تھے۔ بڑی مشکل سے اگر لڑکی کا رشتہ کہیں ہوجاتا ہے تو وقتِ رخصتی بیٹی کے لیے باپ کی دعا یہی ہوتی تھی کہ ’’اللہ تمہیں توانگری میں رکھے اور تمہارے بطن سے لڑکے پیدا ہوں، لڑکیاں پیدا نہ ہوں اور اللہ تعالیٰ تمہاری بدولت تمہارے خاندان کی تعداد، عزت اور قوت میں اضافہ فرمائے۔ ‘‘
یہ دعا اس وقت مانگی جاتی تھی جب کہ لڑکی کی شادی کہیں قریبی رشتہ داری میں ہوئی ہو، اور اگر ایسا نہ ہوتا تو دعا یہ ہوا کرتی تھی کہ ’’نہ توآسانیوں میں رہے اور نہ ہی تجھ سے لڑکوں کی ولادت ہو، کیونکہ تیری وجہ سے دور دراز والوں سے قرابت بڑھانی پڑی ہے اور تیرے بچے بھی ہماری قوم کے لیے اجنبی اور غیر ہیں۔ ‘‘ (تفصیل کے لیے دیکھیں: کتاب المحبر، ابن حبیبؒ: ص۳۱۰)
حضرت سلیمہ خزاعیہ کی دانست میں اِس عرب معاشرے میں محمدؐ کا یہ رویہ ناقابلِ یقین حد تک حیرت ناک تھا۔ انھوں نے دل میں تمنا کی کہ کاش دنیا کے تمام باپ-بشمول ان کے اپنے شوہر کے-محمدؐ کی طرح ہوا کرتے۔ دراصل حضرت سلیمہ خزاعیہؓ کو اس وقت تک نہیں معلوم تھا کہ آج کا ’’الصادق الامینؐ‘‘ شخص مستقبل میں پوری انسانیت کے لیے رحمتِ الٰہی بننے والا ہے۔
اگر مان لیں کہ اس وقت ان کی نگاہوں سے غیب کی چادر ہٹا دی جاتی، تو وہ بہ آسانی دیکھ لیتی کہ الصادق الامین محمدؐ کو منصبِ رسالت تفویض کیا گیاہے اور وہ ایسادینِ حق لے کر آئے ہیں جس میں بچیوں کو زندہ درگورکرنا حرام ہے اورجس میں صنفِ نازک کو اکرام واحترام کا جائز فطری مقام بخشا گیا ہے۔
اس دین کی کتابِ منشور ودستور میں صاف لکھا ہے کہ مرد اور عورت دونوں ایک اصل سے متفرع اور ایک مصدر سے نکلے ہیں۔
{یَا أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالاً کَثِیْراً وَنِسَاء وَاتَّقُواْ اللّہَ الَّذِیْ تَسَاء لُونَ بِہِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللّہَ کَانَ عَلَیْْکُمْ رَقِیْبا} (نسائ، ۱)
’’لوگو!اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور اِن دونوں سے بہت مرد عورت دنیا میں پھیلا دیے۔ اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کرتم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو، اور رشتہ وقرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔ ‘‘
دینِ اسلام ایسی جامع ومانع شریعت لے کر آیا ہے جو سماج میں عورت کے مقام ومرتبہ کا صحیح تعین کرتی ہے اور زندگی کے تمام مراحل میں عورت کو ایک باعزت بیٹی، بہن، بیوی اور ماں کا درجہ دیتی ہے۔
لڑکیوں کی ولادت کے بارے میں اللہ کے رسولﷺ کا موقف وہی تھا جو کسی دردمند انسانی باپ کا ہونا چاہیے۔ آپﷺ بیٹیوں کی پیدائش کا نہایت خوشی وشادمانی سے خیر مقدم کرتے تھے۔ دنیا کے تمام قسی القلب اور رحمت سے خالی باپوں کے لیے آپﷺکا رویہ ایک عملی سبق ہے، جو یاد دلاتاہے کہ بیٹی کی شکل میں جنت کا پھول ان کی گود میں اس لیے ڈالا گیا ہے کہ اس کے سبب ان کے دلوں میں مامتا ابھر آئے اور والدین اس کی اچھی تعلیم وتربیت کرکے اسے اپنے لیے وسیلۂ مغفرت اور خوشنودیِ رب کا زینہ بنائیں۔
اس وقت کے عرب معاشرے میں عورت کی حالت کیا تھی اس کا اندازہ ارشادِ باری سے کیجئے:
{وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُہُمْ بِالأُنثَی ظَلَّ وَجْہُہُ مُسْوَدّاً وَہُوَ کَظِیْم٭یَتَوَارَی مِنَ الْقَوْمِ مِن سُوء ِ مَا بُشِّرَ بِہِ أَیُمْسِکُہُ عَلَی ہُونٍ أَمْ یَدُسُّہُ فِیْ التُّرَابِ أَلاَ سَاء مَا یَحْکُمُون} (نحل، ۵۸-۵۹)
’’جب ان میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خوش خبری دی جاتی ہے تو اُس کے چہرے پر کلونس چھاجاتی ہے اور وہ بس خون کا گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے۔ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے کہ اس بری خبر کے بعدکیا کسی کو منھ دکھائے۔ سوچتا ہے کہ ذلت کے ساتھ بیٹی کو لیے رہے یا مٹی میں دبا دے؟ دیکھو کیسے برے حکم ہیں جو یہ خدا کے بارے میں لگاتے ہیں۔ ‘‘
ایسے عورت بیزار سماج میں آپﷺ کا طرزِ عمل خود اس بات کی دلیل ہے کہ آپﷺ اللہ کے سچے رسول تھے اور بے پایاں خدائی رحمت وعنایت کا عظیم الشان مظہر تھے۔ ارشادِ ربانی ہے: {وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ} (انبیاء، ۱۰۷) ’’اے محمدؐ ہم نے جو تم کو بھیجا ہے تو یہ دراصل دنیا والوں کے حق میں ہماری رحمت ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول محمدﷺ کو حضرت خدیجہؓ الکبری کے واسطے سے چار بیٹیاں عطا کی تھیں۔ ان کے اسمائے گرامی بالترتیب زینبؓ، رقیہؓ، ام کلثومؓ اور فاطمہؓ الزہرا ہیں۔ یہ چاروں بیٹیاں اللہ کے رسول ﷺکی شفقت ومحبت کے سائے میں اور حضرت خدیجہؓ کی مادرانہ توجہ اور تربیت کے ساتھ بڑی ہوئیں۔ گھر کا ماحول پاکیزہ وپرجلال تھا اورخانگی فضا شرافت وبزرگی سے معطر تھی۔
بڑی بیٹی کی شادی خالہ زاد بھائی حضرت ابو العاص بن الربیع سے ہوئی، دوسری اور تیسری بیٹی کی شادی اللہ کے رسولﷺ کے چچا ابو لہب کے دونوں بیٹوں عتبہ اور عتیبہ سے ہوئی تھی۔ حضرت فاطمہؓ صغرِ سنی کی وجہ سے گھر ہی میں مقیم تھیں۔ آپﷺ کی بعثت ونبوت کے بعد حضرت خدیجہؓ اور چاروں بیٹیاں ایمان کی دولت سے بہرہ ور ہوگئیں۔
اللہ کے رسولﷺ لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے تھے، لیکن قریش اس کونہ ماننے پر بضد اور حتی الوسع کوشش کر کے اس دعوت کو روکنے کے لیےکوشاں اور سرگرداں تھے۔ اسی سلسلے میں صلاح مشورے کے لیے قریش کے سربراہوں کی مجلسیں منعقد ہوتی رہتی تھیں۔ ایک روز دورانِ مشورہ کسی شرپسند نے کہا: ’’دراصل تم نے محمدؐکو خانگی جھمیلوں اور جھگڑوں سے چھٹکارا دے رکھا ہے، اس لیے اسے آزادی ملی ہوئی ہے کہ سکون واطمینان کے ساتھ اپنی دعوت پھیلاتا رہے۔
اگر ایساہوجائے کہ اس کی بڑی بیٹی زینبؓ کو ابوالعاص طلاق دے اور رقیہؓ وامِ کلثومؓ کو عتبہ اور عتیبہ چھوڑ دیں، تو محمدؐ اپنے گھریلو مسائل میں الجھ جائے گا اور اس نئی بدعت کو چھوڑنے پر مجبور ہوجائے گا۔ ‘‘
مشورہ کے بعد اس تجویز کو پاس کر لیا گیااور آپﷺ کے تینوں دامادوں سے اس بارے میں بات کی گئی۔ تینوں دامادوں کو اس پنچایتی حکم کی تعمیل میں تردد تھا کیونکہ ہر ایک اپنی شریک ِحیات کی خوبیوں کا معترف اور ان سے محبت رکھتا تھا۔ انھیں معلوم تھا کہ ان کی بیویوں کا نعم البدل ملنا ناممکن ہے، نیزیہ کہ اُن کا ضمیر کسی دوسری بیوی کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔
مگر اس موقع پر ابولہب کی کافر وملعون بیوی نے حسد اور کینہ دکھاتے ہوئے زعمائے قریش کے اس حکم کی تعمیل کے لیے دونوں بیٹوں کو مجبور کرنا شروع کر دیا۔
اس بدبخت کی دھمکی تھی کہ میرادودھ تمہارے اوپر حرام ہوگا اگر تم محمدؐ کی دونوں بیٹیوں کو طلاق نہیں دیتے اور انھیں واپس ان کے گھرنہیں بھیجتے۔ ماں باپ اور قبیلہ کے دبائو میں ابولہب کے دونوں بیٹوں نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی اور حضرت رقیہؓ اور حضرت امِ کلثومؓ واپس اپنے میکے تشریف لے آئیں۔
قریش کے چلائے اس تیر سے آپﷺ کا شفیق ورحیم دل کس درجہ لہولہان ہوا ہوگاہوگا اور کیسی تکلیف اور اذیت محسوس کی ہوگی، ہم بس اندازہ ہی لگا سکتے ہیں۔ بارگاہِ ایزدی سے جلد ہی اچھا فیصلہ ہوااور دونوں دختران زیادہ دنوں تک میکے میں بیٹھی نہ رہیں۔
حضرت رقیہؓ کا نکاح بہت جلد حضرت عثمانؓ غنی سے ہوگیا۔ حضرت عثمان ؓکے مناقب وفضائل کا بیان ایک طویل کتاب کا طالب ہے۔ یہاں اتنا جان لیجئے کہ آپ قبیلۂ قریش کے نہایت عالی نسب اور متمول خاندان سے تھے۔ آپؓ سب سے پہلے آٹھ اسلام لانے والوں میں سے ایک ہیں اور جن دس صحابہؓ کو دنیا میں رہتے ہوئے جنتی ہونے کی بشارت ملی ہے، آپ ان میں سے ایک ہیں۔
سیرت کی کتابوں میں آپ کو دوہجرتوں والا (ذو الہجرتین) بھی کہا جاتا ہے کیونکہ آپﷺ نے قریش کے مظالم سے تنگ آکر اپنی زوجہ حضرت رقیہؓ کے ساتھ ملکِ حبشہ ہجرت کی تھی۔ اس طرح سے زوجین کا یہ جوڑا سب سے پہلے تاریخِ اسلام میں ہجرت کرنے والا جوڑا بن گیا۔
مدینہ منورہ کے دار الہجرت قرار پاجانے کے بعد حضرت عثمانؓ اور ان کی اہلیہؓ نے وہاں بھی ہجرت کی۔ اس طرح آپؓ کے حصہ میں دو ہجرتوں کا اجر اور مرتبہ جمع ہوگیا تھا۔ مدینہ منورہ ہجرت کے بعد حضرت رقیہؓ شدید بیمار ہوگئیں اور اسی مرض میں آپ کی وفات ہوئی۔ مورخین کہتے ہیں کہ آپ کی وفات خاص اسی دن واقع ہوئی جس دن معرکۂ بدر میں مسلمانوں کی فتح مندی کی خبر لانے والاقاصد مدینہ منورہ پہونچا تھا۔ (السیرۃ النبویۃ، ابن ہشامؒ: ۲/۲۸۵)
حضرت عثمانؓ اپنی پیاری شریکِ حیات کا صدمہ برداشت نہیں کر پارہے تھے۔ ان کی دانست میں اب اللہ کے رسولﷺ سے دامادی اور قرابت کا رشتہ منقطع ہوگیا تھا۔ آپﷺ نے اُن کی دگرگوں حالت کو دیکھتے ہوئے خیریت پوچھی توفرمایا: “جو مجھ پر گزری ہے، کیا وہ کسی اور پر بھی گزری ہے؟ اللہ کے رسولﷺ کی بیٹی میرے عقد میں تھیں، وہ وفات پاگئیں جس سے میری کمر ٹوٹ گئی ہے، مزید یہ کہ اب رسولِ خداﷺ سے قرابت کا رشتہ بھی ختم ہوگیا۔ ‘‘
اللہ کے رسولﷺ نے یہ سن کر تسلی دی اور ان کا نکاح تیسری بیٹی حضرت امِ کلثومؓ سے کردیا۔ حضرت امِ کلثومؓ بھی حضرت عثمانؓ کے عقد میں تازندگی باقی رہیں تاآنکہ چھ سال بعد سن۹ھ میں ان کی وفات ہوگئی۔ (ذو النورین عثمانؓ بن عفان، عباس محمود العقادؒ: ص۷۸-۷۹)
کہا جاتا ہے کہ حضرت عثمانؓ کو ذو النورین یعنی ’دونور والا‘ کہے جانے کی وجہ یہی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ کے دوجگرگوشے پے درپے آپؓ کے عقد میں آئے تھے، جبکہ تاریخ میں منقول نہیں ہے کہ کسی اور شخص نے بھی کسی نبی کی دو بیٹیوں کی زوجیت پائی ہے۔ ایک دوسرا قول یہ بھی ہے کہ ذو النورین آپؓ کو اس لیے کہاجاتا ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا تھا: اس انسان (حضرت عثمانؓ) کو آسمانوں میں دونور والا کہا جاتا ہے۔ ‘‘ [ذاک امرء یدعیٰ فی السماء ذا النورین] (السیرۃ النبویۃ، ابن ھشامؒ: ۲/۲۱۹)
شارحینِ حدیث کہتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ کا معمول تھا کہ قیامِ لیل کرتے ہوئے روزانہ ایک قرآنِ کریم ختم فرماتے تھے۔ چونکہ قرآنِ کریم نور ہے اور قیامِ لیل بھی نور ہے اس لیے آپ کو دو نور والا کہا جاتا ہے۔
پیچھے گزر چکا ہے کہ آپﷺ کے سب سے بڑے داماد-حضرت زینبؓ کے شوہر-کا نام حضرت ابو العاص تھا۔ قریشی سرداروں نے ان سے بھی حضرت زینبؓ کو طلاق دینے کی فرمائش کی تھی اور بدلے میں کسی بھی قریشی خاندان کی کسی بھی لڑکی سے شادی کرانے کا لالچ دیا تھا۔ مگر حضرت ابو العاص کاجواب نفی میں تھا اور انھوں نے فرمایاتھاکہ خدا کی قسم! میں ایسا کبھی نہیں کرسکتا، میں سوچ بھی نہیں سکتاکہ اپنی بیوی کوچھوڑ کر قریش کی کسی عورت کو اپنے عقد میں لائوں۔ ‘‘ (الأفراد، دارقطنیؒ: ۳/۸۲)
زمانہ تیزی سے گزرتا رہا اور آپﷺ کے مددگار چچا ابوطالب وفات پاگئے۔ کچھ ہی عرصہ بعد ہر غم کی غمگسار شریکِ زندگی حضرت خدیجہ بھی داغِ فراق دے گئیں۔ قریش کی ایذارسانی عروج کو پہونچی تو پردۂ غیب سے مدینہ منورہ کے حق میں فیصلہ ہوگیا کہ اب یہی شہرِ یثرب دعوتِ اسلام کا مرکزبنے گا۔
آپﷺ ہجرت فرما کر مدینے میں ایک صاحبِ خانہ کی مانند اطمینان وسکون سے اقامت گزیں ہوگئے۔ کچھ دنوں بعد قریش کی چھیڑ چھاڑ کے نتیجے میں ’’غزوۂ بدر‘‘ کا عظیم الشان معرکہ پیش آیا جس میں قریش کے بڑے بڑے سرغنہ اور شہسوار کام آئے اور بڑی تعداد میں قریشی جنگجوئوں کو قیدی بنا لیا گیا۔
ان قریشی قیدیوں میں ایک نام حضرت ابو العاص کا بھی تھا جو ابھی تک اسلام نہیں لائے تھے اور جنگِ بدر میں کفارِ قریش کی جانب سے لڑنے آئے تھے۔ قریش نے قیدیوں کا فدیہ دینا شروع کیاتوابو العاص کے بھائی بند نے بھی ان کے فدیہ کی رقم اکٹھا کرنے کی کوشش کی۔ ایک قیدی کا فدیہ چار ہزار درہم منظور ہوا تھا۔
حضرت ابو العاص کے فدیہ میں ان کی بیوی اور دخترِ رسولﷺ حضرت زینبؓ نے درہموں میں کمی کی وجہ سے ایک قیمتی ہار بھی بھیجا۔ حضرت زینب ؓکے پاس حضرت خدیجہؓ کا ایک قیمتی ہار تھا جوساس (حضرت خدیجہؓ) نے رخصتی سے کچھ پہلے اپنے داماد حضرت ابو العاص کو ہدیہ دیا تھا۔ مورخ ابنِ اسحاقؒ کہتے ہیں: ابو العاص کے فدیہ میں آئے مال کے اندر جب آپﷺ کی نظر اس ہار پر پڑی تو آپﷺ پر شدید رقت طاری ہوگئی،
اوراسی حالت میں صحابہؓ کرام سے فرمایا: ’’اگر (میری خاطر) تمہاری رائے بنتی ہے کہ زینبؓ کے قیدی کو چھوڑ دو اور اس کا بھیجا مال اسے لوٹا دو تو ضرور کر دو۔ ‘‘ صحابہ کرامؓ نے منشائے رسالتﷺ کی تعمیل کرتے ہوئے حضرت ابو العاص کو جانے دیا اور ان کے فدیہ کی رقم بھی واپس کردی۔ (السیرۃ النوویۃ، ابن ہشامؒ: ۲/۲۲۵)
حضرت ابو العاص کو آزاد کرتے ہوئے اللہ کے رسولﷺ نے یہ وعدہ لیا تھا کہ وہ حضرت زینبؓ کو مدینہ آنے دیں گے۔ حضرت ابو العاص نے مکہ پہونچ کر اپنے بھائی ’’کنانہ‘‘ کی ہم رکابی میں علی الاعلان حضرت زینبؓ کومدینہ کے لیے روانہ کر دیا۔ حضرت زینب ؓاونٹ کے اوپر ہودج میں تشریف فرما تھیں کہ قریش کے ایک سردار ’’ہبار بن الاسود‘‘ اور اس کے کچھ لوگوں نے راستہ روک لیا۔ ’’ہبار‘‘ کے ہاتھ میں نیزہ تھا جس سے وہ بار بار حضرت زینبؓ کو مارنے کی دھمکی دے رہا تھا۔ اس وقت حضرت زینبؓ پیٹ سے تھیں، ہبار کی آپادھاپی میں آپ ہودج سے گر گئیں اور حمل ساقط ہوگیا۔
حضرت زینبؓ کے دیور ’’کنانہ‘‘ نے جب یہ ماجرا دیکھا، تو انہوں نے ترکش کے تیر نکال کر آگے رکھ لیے اور کہاکہ اب اگر کسی نے قریب آنے کی جرأت کی تو اس کے سینے میں تیر اتار دیں گے۔ لوگ بات بڑھتی دیکھ کر چیخنے چلانے لگے۔ اسی اثنا میں اُس وقت قبیلۂ قریش کے سردار ’’ابوسفیان‘‘ وہاں آگئے اور انھوں نے سرِ عام دن میں حضرت زینبؓ کو مدینہ لے جانے کے عمل کو غلط ٹھہرایا۔ انھوں نے ’’کنانہ‘‘ سے گزارش کی کہ فی الوقت وہ گھر لوٹ جائیں اور جب ماحول پر سکون ہوجائے تو رات میں کسی پہر حضرت زینبؓ کو لے کر مدینہ کے لیے نکلیں۔ پھر ایسا ہی کیا گیا۔
اللہ کے رسولﷺ کو جب اس حادثہ کی اطلاع ہوئی تو آپﷺ بیحد غضبناک ہوئے اور صحابہؓ کرام سے فرمایا کہ: ’’تم لوگ اگرکبھی ہبار اور اس کے ساتھیوں پر قابو پاجائو تو انہیں زندہ جلا دینا۔ ‘‘
اس کے بعد اگلے دن آپﷺ نے فرمایا: ’’میں نے کل کہا تھا کہ اگر تم ہبار اور اس کے ساتھیوں کو پکڑ لو تو انھیں زندہ جلا دینا، اب میری رائے بدل گئی ہے، کیونکہ آگ سے عذاب دینا سوائے اللہ کے کسی اورکے لیے جائز نہیں۔ اب اگر تم انھیں پاجائو تو صرف قتل کر دینا۔ ‘‘ (السیرۃ النبویۃ، ابن ہشامؒ: ۲/۲۲۳) واضح رہے ہبار بن اسود فتحِ مکہ کے موقع پر ایمان لے آئے تھے۔
بعد میں ایک موقع پر جب حضرت ابو العاص ایک قافلہ کو لے کر مکہ تشریف لا رہے تھے تو ان کی مٹھ بھیڑ حضرت زید ؓبن حارثہ کے زیرِ قیادت بھیجی ہوئی ایک ٹکڑی سے ہوئی۔ اسلامی سریہ کے افراد نے شام سے آرہے اس قافلہ پر قبضہ کر لیا۔ حضرت ابو العاص کسی طرح اپنی جان بچا کر مدینہ میں حضرت زینبؓ کے پاس پہونچ گئے اور ان کی پناہ طلب کی۔
حضرت زینب نے مشرک شوہر کی حالت دیکھی اور مسجد نبوی تشریف لائیں۔ اس وقت مسجد میں آپﷺ نماز کی تکبیریں کہہ رہے تھے اور لوگ بھی ایسا ہی کرتے جاتے تھے۔ حضرت زینبؓ نے یہاں بلند آوازمیں چیخ کر کہا: ’’اے مسلمانوں ! میں نے ابو العاص بن الربیع کو امان دے دی ہے۔ ‘‘
جب اللہ کے رسولﷺ نے نماز سے سلام پھیرا تو فرمایا: کیا تم لوگوں نے وہی سنا ہے جو میں نے سنا؟ لوگوں نے اثبات میں جواب دیا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’قسم اس معبودِ برحق کی جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے، تمہارے اور میرے اِس سننے سے پہلے مجھے ماجرے کا قطعی علم نہ تھااور بیشک مسلمانوں کا ادنیٰ سے ادنیٰ فرد بھی پوری جماعت کی طرف سے کسی کو امان یاپناہ دے سکتا ہے۔ ‘‘
پھر اللہ کے رسولﷺ وہاں سے ہٹ کر بیٹی زینب ؓکے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ’’میری بیٹی!اچھی طرح اس کی مہمان نوازی کرنا، مگر یاد رہے تم اس کے لیے حلال نہیں ہو اس لیے وہ تم سے کسی قسم کا تعلق نہ بنا پائے۔ ‘‘ (السیرۃ النبویۃ، ابن ہشامؒ: ۲/۲۳۴)
عام مسلمانوں نے بھی حضور رسالت مآبﷺکے پاسِ خاطر میں ابو العاص کا سامانِ تجارت انھیں واپس لوٹا دیا۔ ابو العاص اموالِ تجارت کو لے کر مکہ لوٹ آئے اور آتے ہی ہر صاحبِ حق کو اس کا حق ادا کرنا شروع کر دیا۔ سب کی امانتیں اور حقوق ادا کرنے کے بعد انھوں نے قریش کے سامنے کلمۂ شہادت پڑھا اور کہا: ’’مدینہ میں رہتے ہوئے مجھے قبولِ اسلام سے جو چیز روکے ہوئے تھی وہ یہ کہ تم میرے تئیں بدگمانی نہ کرنے لگو اور کہتے پھرو کہ ابو العاصؓ کے قبولِ ایمان کا مقصد یہ تھا کہ وہ ہمارا تجارتی مال ہڑپ کرنا چاہتا تھا۔ اب میں نے تمہارا مال اورسامانِ تجارت تمہیں لوٹا دیا ہے اور فارغ ہوں، تو اب میں اسلام لے آیا ہوں۔ ‘‘
اس کے بعد انھوں نے سیدھا مدینہ منورہ کا رخ کیااور وہاں پہونچ کر اللہ کے رسولﷺ کو اپنے اسلام لانے کی خبر دی۔ آپﷺ نے سن کر خوشی کا اظہار کیا اور تعریف فرمائی اور بیٹی زینبؓ کوجو پہلے سے اُن کے نکاح میں تھیں حوالے کر دیا۔
اس واقعہ سے ٹھیک ایک سال بعد حضرت زینبؓ کی وفات ہوئی اورپسماندگان میں اپنے شوہر کے علاوہ ایک بیٹے علی اور ایک بیٹی امامہ کوچھوڑا۔ یہ دو بچے ایک وفا شعار بیوی کی طرف سے اپنے محبوب شوہر کے لیے سامانِ تسلی تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی بیٹی ’’امامہ‘‘ ہوبہو اپنی والدہ ماجدہ پر تھیں اور اللہ کے رسولﷺ بھی اپنے لختِ جگر کے غم کو امامہ کی محبت وموانست کے ذریعہ ہی کم کرتے تھے۔
آپ ﷺاپنی نواسی امامہ سے محبت وشفقت کا امتیازی معاملہ فرماتے تھے۔ صحیحین میں مروی ہے کہ آپﷺ امامہ کو کاندھوں پر بٹھاتے اور اسی حالت میں نمازیں پڑھ لیا کرتے۔ جب سجدے کی حالت میں پہونچتے تو انھیں اتار کر ایک طرف رکھ دیتے اور دوبارہ کھڑے ہوتے وقت انھیں پھر گود میں اٹھا لیتے۔ [کان یحملھا علیٰ عاتقہ ویصلی بھا فاذا سجد وضعھا حتی یقضی صلاتہ ثم یعود فیحملھا] (صحیح بخاریؒ: ۵۶۵۰۔ صحیح مسلمؒ: ۱۲۴۱)
اللہ کے رسولﷺ کی چوتھی بیٹی حضرت فاطمہؓ الزہراء ہیں جن کے بارے میں ام المومنین حضرت عائشہؓ کا تبصرہ ہے کہ ’’میں نے فاطمہ ؓسے افضل کسی کو نہ پایا، البتہ فاطمہؓ کے والدﷺ اس سے مستثنیٰ ہیں۔ ‘‘ (معجم اوسط، طبرانیؒ: ۱۳۷۔ مسندابویعلیؒ: ۱۵۳)
پھر انہی کے بارے میں زبانِ رسالتﷺ سے صادر ہوا ہے کہ: ’’فاطمہؓ جنت کی عورتوں کی سردار ہیں۔ ‘‘ [فاطمۃ سیدۃ نساء أھل الجنۃ] (صحیح بخاریؒ، باب مناقب فاطمہؓ: ۵۹۲۸۔ صحیح مسلمؒ: ۶۴۶۷)
اور یہ کہ: ’’فاطمہ میرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے، لہٰذا جس نے انھیں ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔ ‘‘ [فاطمۃ بضعۃ منی فمن أغضبھا فقد أغضبنی] (صحیح بخاریؒ: ۳۵۱۰۔ صحیح مسلمؒ: ۶۴۶۱)
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: جب فاطمہؓ اللہ کے رسولﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتی تھیں تو آپﷺ اٹھ کر استقبال کرتے تھے، بوسہ لیتے تھے اور اپنے پاس بٹھاتے تھے، اور اگر اللہ کے رسولﷺ اُن کے پاس تشریف لے جاتے تو فاطمہؓ کھڑی ہوکر خیر مقدم کرتیں، پیشانی چومتیں اور اپنے قریب بیٹھنے کو کہتی تھیں۔ (سنن ترمذیؒ: ۲۳۷۶۔ سنن ابو داؤدؒ: ۱۴۲۳)
حضرت عائشہؓ ہی سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت فاطمہؓ گھر تشریف لائیں تو ان کے چلنے کا انداز بالکل ان کے والدﷺ جیسا تھا۔ اللہ کے رسولﷺنے انھیں دیکھ کرخیر مقدم کیا اور اپنی داہنی طرف بٹھایا اور پھر کان میں کچھ سرگوشی کی جسے سن کر فاطمہؓ روپڑیں۔ آپﷺ نے دوبارہ ان کے کان میں کچھ کہا جسے سن کر وہ ہنسنے لگیں۔
میں (حضرت عائشہؓ) نے دل میں کہا کہ آج تک اتنی جلدی غمگین ہونے اور پھر خوش ہوجانے کا معاملہ نہیں دیکھا۔ بعد ازاں میں نے حضرت فاطمہؓ سے ان سرگوشیوں کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا کہ میں اللہ کے رسولﷺ کا راز افشاں نہیں کرسکتی۔
جب اللہ کے رسولﷺ کی وفات ہوگئی تو میں نے دوبارہ اس بارے میں حضرت فاطمہ ؓسے پوچھا تب انھوں نے کہا: آپﷺ نے مجھ سے کہا تھا کہ ’’حضرت جبریلؑ ہر سال میرے ساتھ ایک بار قرآن کا دور کرتے تھے لیکن انھوں نے اس سال دوبار ایساکیا ہے، جس سے مجھے لگتا ہے کہ میری وفات کا وقت قریب ہے۔
تم میرے اہلِ خانہ میں سب سے پہلے مجھ سے آملوگی اور میں تمہارے لیے بہترین سلف بن کر تمہارا منتظر رہوں گا۔ ‘‘ میں یہ سن کر روپڑی تھی۔ پھر آپﷺ نے مجھ سے کہا کہ کیاتم راضی نہیں ہو کہ تم تمام جہانوں میں عورتوں کی سردار بن جائو؟ میں یہ سن کر ہنس پڑی تھی۔ (صحیح بخاریؒ: ۵۹۲۸۔ صحیح مسلمؒ: ۶۴۶۷)
حضرت فاطمہؓ کی ولادت خاص اس دن ہوئی، جس دن آپﷺ نے تعمیرِ کعبہ کے مسئلہ میں تحکیم وثالثی فرمائی تھی۔ دراصل قریش آپﷺ کی نبوت سے پہلے خانۂ کعبہ کی ازسرِ نو تعمیر کرنا چاہتے تھے۔ لیکن جب تعمیر اس مرحلہ میں پہونچی کہ دیوارِ کعبہ میں حجرِ اسود نصب کردیا جائے، تو قریشی خاندانوں میں اختلاف پیدا ہوگیا۔ قریب تھا کہ یہ اختلاف ایک ہمہ گیر خانگی جنگ کا پیش خیمہ بن جائے، لیکن ایک بزرگ کے مشورہ سے سب نے اتفاق کر لیا کہ جو سب سے پہلے مسجد میں داخل ہوگا اس کا فیصلہ مان لیا جائے گا۔
بارے نصیب کہ سب سے پہلے آپﷺ تشریف لائے۔ آپﷺ کو دیکھتے ہی سارا مجمع بول اٹھا کہ یہ ’’الامین‘‘ ہیں ہم ان کے فیصل بننے سے راضی ہیں۔ اللہ کے رسولﷺ نے اس قضیے کا نپٹارا اس طور سے کیا کہ ایک دراز چادر بچھا ئی اور اس میں حجرِ اسود رکھ دیا اور ہر خاندان کے ایک نمائندے کو اس چادر کاکنارہ پکڑ لینے کو کہا۔ جب سب نے چادر کے کناروں کو پکڑ کر حجرِ اسود کو مطلوبہ جگہ تک بلند کر دیا تو آپﷺ نے اپنے دستِ مبارک سے حجرِ اسود کو اٹھا کر اس کی جگہ نصب فرما دیا۔ اس طرح آپﷺ کی فراست اور دانش مندی سے ایک بڑافتنہ پیدا ہونے سے رک گیا۔
ماہ وسال اسی طرح گزرتے رہے اور محمدؐ زندگی کی چالیسویں دہلیز پار کر گئے۔ اب غیب کا اشارہ ہوا کہ اللہ کا نور اور اس کی وحی محمدؐ کے قلب پر نازل کی جائے۔ اللہ کے رسولﷺ نے ابتدائے دعوت میں قریبی رشتہ داروں اور عزیز دوستوں کو اسلام کی طرف مخفی دعوت دینا شروع کر دی اوراسی حالت میں تین سال گزر گئے۔
اس کے بعد اسلام کی دعوت کو ظاہر کرنے کا حکم نازل ہو گیا۔ آپﷺ نے جہری دعوت کا آغاز کرتے ہوئے ایک مختصر سی کھانے کی نشست کا پروگرام رکھا۔ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد آپﷺ نے جملہ اقارب واعزہ کے سامنے اپنے رب کا پیغام کھول کھول کر بیان کیا۔ آپﷺ اپنے خاندان میں سے ایک ایک کا نام لے کر پکارتے اور فرماتے تھے: اے بنو عبدِ مناف میں اللہ کے مقابلے میں تمہاری کوئی مدد نہ کر سکوں گا۔ اے چچا عباسؓ بن عبدالمطلب، اے پھوپھی صفیہؓ بنت عبد المطلب، اے فاطمہؓ بنتِ محمدؐ میں تم میں سے کسی کو بھی اللہ کے مقابلے میں کوئی فائدہ نہ پہونچا سکوں گا۔ ‘‘ (السیرۃ النبویۃ، ابن ہشامؒ: ۲/۲۴۷)
حضرت فاطمہؓ نے اپنے بچپن میں قریش کی ظالمانہ حرکتوں اور تکلیف دہ اذیتوں کو بیحد انگیز کیا ہے۔ مسلمانوں کے اجتماعی مقاطعہ اور سوشل بائیکاٹ کے بعد جب سارے مسلمان ’’شعبِ ابو طالب‘‘ میں محصور ہوگئے تھے تب بھی حضرت فاطمہؓ آپﷺ کے ساتھ ہی تھیں۔
انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ کعبہ کے سائے میں مشرکین وکفار چیخ چیخ کر آپﷺ سے مجادلہ کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ: “کیا تو ہی ہے جو ہمارے معبودوں کے بارے میں ایسا ایسا کہتا ہے؟ اور اللہ کے رسولﷺ پیکرِ صبر وعزیمت بنے کہتے ہیں کہ ہاں میں ہی ہوں جو ایسا ایسا کہتا ہے۔ ‘‘ (سنن ترمذیؒ: ۳۳۴۹)
حضرت فاطمہؓ نے وہ وقت بھی دیکھا تھا جب کسی شقی القلب بد بخت نے آپﷺ کی چادر کوگردن میں بل دے کر گلا گھونٹنا چاہا تھا اور خوں آشام درندوں کے غول کی طرح قریشی سردار اس کی ہمت بڑھا رہے تھے۔ اسی اثناء میں حضرت ابوبکرؓ آتے ہیں اور انھیں اللہ کے رسولﷺ سے دور ہٹاتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں کہ کیا تم کسی کو اس لیے قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کو اپنا رب بتاتا ہے۔ ‘‘ (صحیح السیرۃ النبویۃ، ابراہیم علی: ص۹۶)
حضرت فاطمہؓ ان سب واقعات کی عینی شاہد تھیں۔ یہ واقعات ان کے معصوم دل پر کیا ستم ڈھاتے رہے ہوں گے اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ آپ ان واقعات کو دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر روتی تھیں اور اللہ کے رسولﷺ ان کو دلاسا دیتے تھے۔
آپ نے وہ دن بھی دیکھا تھا جب عقبہ بن ابی معیط نامی ایک شیطان نے مردار اونٹ کی اوجھڑی لاکر عین سجدے کی حالت میں آپﷺ کے اوپر ڈال دی تھی۔ یہ منظر دیکھ کر کم عمر بیٹی سے رہا نہ گیا اور وہ کچھ پرواہ نہ کرتے ہوئے آگے بڑھیں اور اپنے ہاتھوں سے اونٹ کی یہ اوجھڑی کمرِ مبارک سے ہٹا دی۔ اُن کی زبان سے ان شیطانوں کے لیے بددعائیں نکل رہی تھیں، تبھی اللہ کے رسولﷺ نے چہرۂ انور اٹھا کربددعا دی اور فرمایا: اے اللہ تیرے حوالے کیا قریش کے سرداروں کو، ابوجہل، عتبہ، شیبہ، عقبہ بن ابی معیط، ولید بن عتبہ اور امیہ بن خلف کو۔ ‘‘ (صحیح بخاریؒ: ۵۲۰۔ صحیح مسلمؒ: ۱۷۹۴)
حضرت فاطمہؓ کی عمر اٹھارہ سال ہوئی تو حضرت ابوبکرؓ نے خدمتِ رسالت میں حاضر ہوکر پیغام نکاح دیا جس پر فرمایا گیا کہ ابھی فاطمہؓ کی تقدیر کا انتظار باقی ہے۔ ‘‘ اس کے بعد حضرت عمرؓ آئے اور یہی مدعا رکھا جس پر یہی جواب دیا گیا۔
اس کے بعد حضرت علیؓ شرماتے ہوئے پیغامِ نکاح دینے تشریف لائے۔ وہ فرماتے ہیں کہ جب میں اللہ کے رسولﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو بولنے کی ہمت نہیں ہوسکی۔ مجھے چپ دیکھ کر اللہ کے رسولﷺ نے خود ہی پوچھا کہ کیوں آئے ہو؟ کیا کوئی ضرورت ہے؟ میں پھر بھی خاموش رہا تو آپﷺ نے فرمایا: شاید تم فاطمہؓ کا رشتہ لائے ہو؟ میں نے اثبات میں جواب دیا۔ بس پھر اس کے بعد اللہ کے رسولﷺ نے حضرت فاطمہؓ کی شادی حضرت علیؓ سے کردی۔
جس رات حضرت فاطمہؓ کی شادی حضرت علیؓ سے ہوئی اللہ کے رسولﷺ نے پانی مانگ کر وضو فرمایا اور استعمال شدہ پانی کو حضرت فاطمہؓ کے اوپر انڈیل دیا اور فرمایا: ’’اے اللہ !ان دونوں میں برکت دے اور ان دونوں پر برکت رکھ اور ان دونوں کی ذریت میں بھی برکت فرما۔ ‘‘ [اللھم بارک فیھما وبارک علیھما وبارک لھما فی نسلھما] (طبقات ابن سعدؒ: ۵/۱۴۲-۱۴۵)
حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ ایک بار میں نے اللہ کے رسولﷺ سے پوچھاکہ آپﷺ کو زیادہ محبوب کون ہے، میں یا فاطمہؓ؟ آپﷺ نے فرمایا: فاطمہؓ مجھے تم سے زیادہ محبوب ہے اور تم مجھے فاطمہؓ سے زیادہ عزیز ہو۔ ‘‘ (معجم اوسط، طبرانیؒ: ۷۶۷۵)
حضرت فاطمہؓ سے آپﷺ کا تعلقِ خاطر اور پدرانہ شفقت اس واقعہ سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ جب آپﷺ کو معلوم ہوا کہ حضرت علیؓ نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کے دشمن ابوجہل کی بیٹی سے شادی کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے تو آپ ﷺمسجدِ نبوی تشریف لائے اور غضب کی حالت میں منبر پر کھڑے ہو گئے۔
آپﷺ نے صحابہؓ کرام کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’ہشام بن مغیرہ کے خانوادے نے مجھ سے اجازت مانگی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح علیؓ بن ابی طالب سے کرنا چاہتے ہیں۔ وہ سن لیں کہ میں اس کی اجازت نہیں دیتا ہوں، نہیں دیتا ہوں، نہیں دیتا ہوں، مگر اس صورت میں کہ ابو طالب کا بیٹا پہلے میری بیٹی کو طلاق دے، پھراُن کی بیٹی کو بیاہے۔
میری بیٹی میرے دل کا ٹکڑا ہے جو چیز اسے اندیشوں میں ڈال دے وہ مجھے بھی ڈالتی ہے اور جو چیز اس کو اذیت دے وہ مجھ کو بھی دیتی ہے، مجھے ڈر ہے کہ یہ شادی اس کے لیے دین کا فتنہ بن جائے گی۔ ‘‘
اس موقع پر آپﷺ نے اپنے بڑے داماد حضرت ابو العاصؓ بن الربیع کا ذکرِ خیر کیا اور تعریف فرمائی نیز کہاکہ ’’وہ میراایساداماد تھا کہ جب جب مجھ سے کچھ کہا توسچ کہا، جب وعدہ کیا تو پورا کیا۔ یقینا میں یہاں کسی حرام کو حلال یا حلال کو حرام نہیں کررہا ہوں، لیکن ناممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولﷺ کی بیٹی اور دشمنِ خدا کی بیٹی کو ایک گھر میں جمع کر دے۔ ‘‘ (صحیح بخاریؒ: ۵۳۸/۲۹۔ صحیح مسلمؒ: ۴۴/۱۴۔ سنن ابوداؤدؒ: کتاب۱۲۔ سنن ترمذیؒ: کتاب ۴۶۔ سنن ابنِ ماجہؒ: ۹/۵۶۔ مسند احمدؒ: ۴/۳۲۶-۳۲۸)
سنن ترمذیؒ کی روایت میں منقول ہے کہ حضرت عائشہؓ سے پوچھا گیا کہ اللہ کے رسولﷺ کو سب سے زیادہ محبت کس سے تھی؟ انھوں نے کہا: حضرت فاطمہؓ سے۔ سائل نے پھر کہا کہ مردوں میں کس سے تھی؟ انھوں نے جواب دیا کہ فاطمہؓ کے شوہر حضرت علیؓ سے کہ وہ میرے علم کی حد تک روزے دار اور عبادت گذار آدمی تھے۔ ‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہؒ: ۱۲۷۴۸)
حضرت فاطمہؓ کے بطن سے دوبیٹے حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ اور دو بیٹیاں زینبؓ اور امِ کلثومؓ تولد پذیر ہوئے تھے۔ اللہ کے رسولؓ کو چاروں بچوں سے بڑی محبت تھی جو ان کے ساتھ آپﷺ کے تعامل سے ہویدا ہے۔ تاہم آپﷺ کو خصوصی محبت حسنؓ اور حسینؓ سے تھی۔ آپﷺ اکثر ان کو گود میں لے کر فرماتے تھے: ’’اے اللہ !میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں، تو بھی ان کو اپنا محبوب بنا لے۔ ‘‘ (سنن ترمذیؒ فی المناقب: ۳۷۶۹)
ایک روایت میں الفاظ یہ ہیں: ’’اے اللہ! میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں، تو بھی انہیں اپنا محبوب بنالے اورجو ان سے نفرت وبغض رکھے انھیں مبغوض بنالے۔ ‘‘ (معجم کبیر، طبرانیؒ: ۲۶۴۶)
سنن ابن ماجہؒ کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ جو انسان بھی حسنؓ اور حسینؓ سے محبت رکھتا ہے وہ مجھ سے محبت رکھتا ہے اور جو ان دونوں سے بغض رکھتا ہے وہ مجھ سے بغض رکھتا ہے۔ ‘‘ [من احب الحسن الحسین فقد احبنی ومن ابغضھما فقد ابغضنی] (سنن ابن ماجہؒ: ۱۴۳مع تحسینِ البانیؒ)
روایات میں آتا ہے کہ ایک روز اللہ کے رسولﷺ تشریف لائے اور آپﷺ کے ساتھ حضرت علیؓ، حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ بھی تھے۔ ہر ایک نے دوسرے کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ آپﷺ نے حضرت علیؓ وفاطمہؓ کو قریب کر لیا اور حسنؓ وحسینؓ کو اپنی گود میں بٹھالیا۔
پھر ان دونوں کو اپنی چادر میں ڈھانپ لیا اور آیتِ کریمہ تلاوت فرمائی: {إِنَّمَا یُرِیْدُ اللَّہُ لِیُذْہِبَ عَنکُمُ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرا} (احزاب، ۳۳) ’’اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم اہلِ بیتِ نبیؐ سے گندگی کو دور کر ے اور تمہیں پوری طرح پاک کردے۔ ‘‘ پھر فرمایا: اے اللہ یہ میرے اہلِ بیت واہلِ نسبت ہیں، تو ان سے گندگی کو دور کردے۔ ‘‘ (صحیح مسلمؒ: ۶۴۱۴۔ سنن ترمذیؒ: ۳۲۰۵)
ایک اورموقع پر آپﷺ کی پدرانہ محبت وشفقت کی عکاسی ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ آپﷺ اپنے ایک نواسے کوشانوں پر بٹھائے مسجد تشریف لائے اور اسی طرح نماز کے لیے کھڑے ہوگئے۔ نماز کے دوران سجدے میں آپﷺ انھیں آہستہ سے اپنے برابر میں رکھ دیتے تھے۔ اس طرح سے آپﷺ نے لوگوں کی امامت کی تو صحابہؓ کرام کو اس پر تعجب ہوا کہ دورانِ نماز آپﷺ نے سجدے بڑے طویل فرمائے۔
نماز پوری کرنے کے بعد لوگوں نے اس بارے میں پوچھا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! ہمیں لگتا ہے کہ یا تو آپﷺ کو کچھ ہوگیا ہے یا سجدے لمبے کرنے کے بارے میں کوئی وحی آپﷺ پر نازل ہوئی ہے۔ اللہ کے رسولﷺنے سن کر فرمایا: ایسا کچھ نہیں ہے، بس سجدے کے دوران میرا یہ بیٹا میرے اوپر سوار ہوگیا تھااور میرا دل نہ مانا کہ میں اس کا جی بھرنے سے پہلے اپنے اوپر سے اتار دوں۔ ‘‘ (سنن نسائیؒ: ۲۴۷۶۔ مسند احمدؒ: ۱۴۰۵۰)
لوگوں کے مشاہدے میں یہ بھی آیاہے کہ آپﷺ حضرت حسینؓ کے شانوں کو پکڑے ہوتے اور ان کے پیروں کو اپنے پیروں پر رکھائے ہوتے اور فرماتے: اوپر چڑھو، اور اوپر چڑھو۔ ‘‘ نواسہ اسی طرح کوشش کرکے ناناکے بدن پر چڑھتا جاتا تاآنکہ اس کے پیر اللہ کے رسولﷺ کے سینے پر پہونچ جاتے۔ اس کے بعد اللہ کے رسولﷺ ان کا منھ کھلواکر بوسہ لیتے اور کہتے جاتے: ’’اے اللہ میں اس سے محبت کرتا ہوں تو تُو بھی اس سے محبت فرما اور جو اس سے محبت کرے اس سے محبت فرما۔ ‘‘ (صحیح مسلمؒ، کتاب الفضائل: ۴/۱۸۸۲)
ایک بدوی شخص نے دیکھا کہ آپﷺ اپنے نواسہ کو بوسے لے رہے ہیں تو اس نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’’میرے دس بیٹے ہیں لیکن میں نے کبھی کسی کو بوسہ نہیں لیا۔ ‘‘ یہ سن کر سرکارِ رسالتﷺ نے فرمایا: ’’جو رحمت سے محروم ہوتا ہے اس کے ساتھ رحمت کا معاملہ نہیں کیا جاتا۔ ‘‘ (صحیح بخاریؒ: ۵۶۵۱۔ صحیح مسلمؒ: ۶۱۷۰)
مرض الوفات میں جب آپﷺ کی تکلیف بیحد بڑھ گئی تھی، توتکلیف کی شدت کو دیکھتے ہوئے حضرت فاطمہؓ کے منھ سے بے اختیار نکل گیا کہ ہائے میرے اباجان کی تکلیف!۔ یہ سن کر اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا کہ: ’’بیٹا! تمہارے والد کو آج کے بعد کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ ‘‘
وفات کے بعد حضرت فاطمہؓ روتے ہوئے کہتی تھیں کہ: ’’میرے اباجان نے اپنے رب کی دعوت پر لبیک کہا، جنت الفردوس ہی اب آپﷺ کا ٹھکانہ ہے، آج ان کی خبرِ وفات ہم جبریلؑ کو سناتے ہیں۔ ‘‘ آپﷺ کی تجہیز وتکفین کے وقت حضرت فاطمہؓ ؓکہہ رہی تھیں کہ: کیاتم لوگوں کو گواراہے کہ اپنے رسولﷺ کے رخِ انور پر مٹی ڈالو۔۔۔؟ (صحیح بخاریؒ: ۴۱۹۳)
اللہ کے رسولﷺکے اس دارِ فانی سے رحلت کرنے کے ٹھیک چھ ماہ بعد حضرت فاطمہؓ کا بلاوا بھی آگیا۔ اس طرح آپ خانوادۂ رسولﷺ میں سب سے پہلے اپنے والد سے ملنے والی بن گئیں۔ (صحیح بخاریؒ: ۲۹۲۶)
حضرت خدیجہ کے بطن سے اللہ کے رسولﷺ کو دو بیٹے بھی تولد ہوئے جن کا نام قاسم اور عبد اللہ تھا۔ پہلے بیٹے کی طرف نسبت کرتے ہوئے آپﷺ کی کنیت ابو القاسم تھی جب کہ دوسرے بیٹے کی ولادت نبوت کے بعد ہونے کی وجہ سے اس کا لقب الطاہر اور الطیب پڑ گیا تھا۔ (الروض الانف، سھیلیؒ: ۱/۱۲۳۔ الاصابۃ: ۸/۶۱۔ السیرۃالنبویۃ: ۱/۲۰۲)
دونوں بیٹے چھوٹی عمر ہی میں وفات پاگئے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت قاسم چلنے لگے تھے لیکن ان کی مدتِ رضاعت پوری نہیں ہو پائی تھی کہ وفات ہوگئی۔ امام سہیلیؒ ذکر کرتے ہیں کہ: اللہ کے رسولﷺ نبوت کے بعد کسی موقع پر حضرت خدیجہؓ کے پاس تشریف لائے تو دیکھا کہ آبدیدہ ہیں۔ پوچھنے پر انھوں نے بتایا کہ یہ آنسوں حضرت قاسم کے لیے ہیں کہ ان کو اتنی مہلتِ حیات بھی نہ مل سکی کہ اپنی شیرخواری مکمل کر پاتے۔ آپﷺ نے سن کر فرمایا: ’’ان کے لیے جنت میں ایک دودھ پلانے والی دائی مقرر کردی گئی ہے جو ان کی مدتِ رضاعت کی تکمیل کرے گی۔ ‘‘
ان کے علاوہ ام المومنین حضرت ماریہؓ قبطیہ کے بطن سے آپﷺ کے یہاں حضرت ابراہیم پیدا ہوئے۔ ابراہیم کو اپنے والدِ محترمﷺ سے بڑی مشابہت تھی اور مرورِ ایام کے ساتھ یہ مشابہت ومماثلت بڑھتی جارہی تھی۔ اللہ کے رسولﷺ کو بھی ان سے نہایت تعلقِ خاطرتھا، جس کا ایک بہ ظاہر سبب یہ ہوسکتا ہے کہ ابراہیم کی ولادت، باستثنائے فاطمہؓ آپﷺ کے تمام بچوں کی موت کے بعد ہوئی تھی۔
لیکن اللہ کے رسولﷺ کی ابراہیم کے ساتھ محبت ومودت کا یہ سلسلہ زیادہ ایام تک نہ چل سکا اور وہ سخت مرض میں مبتلا ہوگئے۔ جاں کنی کے عالم میں اللہ کے رسول ﷺ کوآخری دیدارکے لیے بلایا گیا تو شدتِ تاسف والم کی وجہ سے آپﷺ اپنے آپ کھڑے نہ ہو سکے۔ حضرت عبد الرحمنؓ بن عوف نے آپﷺ کو سہارا دیا اور نخلستان تک لائے جس میں حضرت ابراہیم کو رکھا گیا تھا۔ آپﷺ نے ابراہیم کو دیکھا کہ اپنی ماں کی گود میں آخری سانسیں لے رہے ہیں تو آپﷺ نے انھیں اٹھا کر اپنی گود میں لٹا لیا۔
مارے غم کے آپﷺ کا کلیجہ چھلنی تھا اور چہرے کے خد وخال ضبطِ غم کی وجہ سے متاثر ہوگئے تھے۔ اس وقت آپﷺ کی زبان سے نکلا کہ: ’’اے ابراہیم! ہم تمہارے بدلے میں اللہ سے کچھ اور نہیں چاہتے۔ ‘‘ اس کے بعد آپﷺ پر خاموشی طاری ہوگئی اور آنکھیں بہنے لگیں۔ ابراہیم نے آخری ہچکی لی اورطائرِ روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گیا۔ والدہ ماجدہ حضرت ماریہؓ اور خالائیں چیخیں مار کر رونے لگیں، لیکن اللہ کے رسولﷺ نے انھیں منع نہیں فرمایا۔ (حیاۃ محمدﷺ، محمد حسین ہیکلؒ: ص۴۶۴)
جب زندگی سے خالی ابراہیم کے جسدِ خاکی کو تدفین کے لیے لایا گیا تو آپﷺ کی آنکھیں بے تحاشا برسنے لگیں۔ آپﷺ روتے جاتے اور فرماتے: ’’اے ابراہیم! اگر موت کا معاملہ حق اور حتمی وعدہ نہ ہوتا اورہمیں نہ معلوم ہوتا کہ ہمارے اول وآخر ایک روز مل جائیں گے، تو یقینا ہمارا غم اس سے کہیں زیادہ ہوتا۔ ‘‘ اتنا کہہ کرآپﷺ چند لمحات کے لیے خاموش ہوئے پھر فرمایا: ’’بیشک آنکھیں اشک بار ہیں، دل سوگوار ہے، مگر ہم تو وہی کہیں گے جو ہمارے رب کو راضی رکھے، لیکن ابراہیم!سچی بات یہ ہے کہ ہم تمہاری جدائی پربیحد غمگین ہیں۔ ‘‘ (صحیح بخاریؒ: ۱۰۷۶۔ صحیح مسلمؒ: ۶۱۶۷)
ایک مرتبہ آپﷺ حضرت سعد بن عبادہؓ کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے تو دیکھا کہ اُن کے اہلِ خانہ واقارب انھیں گھیرے ہوئے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر آپﷺ کی آنکھوں سے آنسوں رواں ہوگئے اور آپ کو روتا دیکھ، تمام حاضرین بھی رونے لگے۔ اللہ کے رسولﷺ نے یہ دیکھ کر فرمایا: کیا تم سنتے نہیں ہو؟ بیشک اللہ تعالیٰ آنکھ کے آنسوں پر عذاب نہیں دیتا اور نہ دل کی افسردگی پر، البتہ وہ زبان سے نکلنے والے اقوال پر عذاب دیتا ہے یا رحمت فرماتا ہے۔ ‘‘ (صحیح بخاریؒ: ۱۲۴۲)
فرزندِ رسولﷺ حضرت ابراہیم کی وفات کے دن سورج گہن ہوگیاتھا۔ عام مسلمانوں نے اس کو ایک معجزہ خیال کیا اور کہنے لگے کہ یہ آفتاب گہن فرزندِ رسولﷺ ابراہیم کے مرنے کی وجہ سے ہوا ہے۔ ایک سچے نبی کی طرح آپﷺ کو یہ بات ناگوار گزری اور آپﷺ نے مجمعِ عام میں خطاب فرماتے ہوئے کہاکہ: ’’یہ سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی بہت سی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، یہ کسی متنفس کی موت وحیات کی وجہ سے گہن نہیں ہوتے۔ چنانچہ جب تم ایساہوتے دیکھو تو تیزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ذکر اور نماز کی طرف بھاگو۔ ‘‘ (صحیح بخاری: ۹۹۴۔ صحیح مسلمؒ: ۲۱۲۹)
غور کیجئے کیا اس عملی موقف سے بڑھ کر بھی کوئی موقف ہوسکتا ہے؟ یہ عظمت وصداقت کی کونسی چوٹی تھی کہ اللہ کے رسولﷺ زندگی کے مشکل ترین لمحات میں بھی اپنے منصبِ رسالت کو فراموش نہیں کرتے اور حق وصداقت کو بیان کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتے۔ بلکہ اس سے ایک قدم اور آگے بڑھ کر آپﷺاپنے ذاتی صدمے کوبرطرف رکھ کر، امت کے غلط تصورات وتوہمات کی تصحیح واصلاح کا کام انجام دیتے ہیں۔
یقینا اللہ کے رسولﷺ کو اپنے تمام بچوں سے بے حد وحساب محبت وانسیت تھی، لیکن آپﷺاپنے پیغام اور رسالت کی خاطر کسی بھی محبت ومنفعت کو بارِ خاطر نہیں لاتے تھے۔ فخر کرو اور سجدۂ شکر بجا لائو کہ تم ایسے نبی ﷺ کی امت میں سے ہو۔
وصلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین،
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔