بھارت قتل عام اور خطرہ والے ممالک میں دوسرے نمبر پر!
سرفرازاحمدقاسمی(حیدرآباد)
برائے رابطہ: 8099695186
ملک کے طول وعرض اوریہاں کے حالات پر ایک سرسری نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پورے ملک میں چاروں طرف بے چینی اور افراتفری کا ماحول ہے۔جمہوریت،جمہوری نظام اور ملکی دستور کو تہہ و بالا کیاجارہا ہے اور پوری طرح اسکی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔جمہوریت کو پاؤں تلے کچلا اور اسکا گلا گھونٹا جارہاہے۔شدت پسند ہندو تنظیم کے غنڈے ہر جگہ دندناتے پھر رہے ہیں لیکن ان پر کوئی کارروائی نہیں ہورہی ہے۔ایسا محسوس ہورہاہے کہ اب ملک میں قانون کی کوئی حکمرانی نہیں ہے۔ملک کے کروڑوں پڑھے لکھے نوجوان بے روزگاری کی وجہ سے مایوسی کاشکار ہیں اوراسی مایوسی کے عالم میں وہ خودکشی تک کررہے ہیں۔مہنگائی آسمان چھورہی ہے،فضاء میں نفرت گھول دی گئی ہے۔ یوپی سمیت پانچ ریاستوں میں الیکشن جاری ہے۔اور ان ریاستوں کوفتح کرنےکےلئے کرناٹک میں حجاب کامسئلہ اٹھایاگیا۔کرناٹک حجاب کا مسئلہ سرخیوں میں ہے۔گذشتہ تقریباً ایک ہفتے سے یہ معاملہ ہائی کورٹ میں ہے،لیکن اسکے باوجود شیموگہ ضلع میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے۔جم کر وہاں مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔چھ لوگوں کی گرفتاری بھی ہوئی ہے اور کرفیو لگادیاگیاہے۔جسکی وجہ سے ابھی فی الحال وہاں حالات قابو میں ہیں۔لیکن خطرات کے بادل برابر منڈلارہے ہیں۔ لوگوں میں خوف ودہشت کا ماحول ہے۔شیموگہ کے ایک علاقے سے درجنوں لوگ اپنا گھر چھوڑ کر دوسری جگہ جاچکے ہیں اورنقل مکانی کرچکے ہیں۔
ظاہر ہے یہ سب خوف ودہشت کا ہی اثر ہے۔حجاب کا معاملہ کرناٹک کے جس شہر اڈپی سے اٹھا تھا اور پھر کچھ مسلم طالبہ نے اس معاملے کو عدالت سے رجوع کردیا۔کرناٹک کی بی جے پی حکومت نے حجاب پر پابندی بھی عائدکردی تھی،حجاب پر عائد پابندی کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کرنے والی ایک مسلم طالبہ کے والد کے ہوٹل پر نفرت پھیلانے والے شدت پسند ہندو تنظیم سے وابستہ ایک جتھے نے حملہ کردیا۔اڈپی پولس کے مطابق کرناٹک ہائی کورٹ سے رجوع کرنے والی 6 میں سے ایک طالبہ شفاء کے والد کے ہوٹل پر ہجوم نے پتھراؤ کیاہے۔اس پتھراؤ کی وجہ سے ہوٹل کی کھڑکی ٹوٹ گئی ہے،جبکہ بحث کے دوران شفاء کے بھائی کو بھی زدوکوب کیاگیا۔پولس نے موقع پر پہونچ کر ہجوم کو منتشر کرکے مقدمہ درج کرلیاہے۔دوسری جانب اپنے ایک ٹویٹ میں شفاء کا کہناتھا کہ انکے بھائی پر ایک جتھے کی جانب سے بہیمانہ حملہ کیاگیاہے۔صرف اسلئے کہ وہ حجاب کے حوالے سے اپنے موقف پر قائم ہیں جوان کا حق ہے۔انھوں نے مزید لکھا کہ انکی جائداد کو کیوں نقصان پہونچاگیا؟ کیا وہ اپنا حق نہیں مانگ سکتیں؟اب اگلا نشانہ کون ہوگا؟شفاء نے اڈپی پولس سے حملہ آوروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی کیاہے۔
حجاب کا معاملہ پورے ملک میں پھیلتا جارہاہے،مدھیہ پردیش،گجرات کے علاوہ یہ معاملہ بہاربھی پہونچ چکا ہے۔بہار میں ایک باحجاب لڑکی کو ایک سرکاری بینک میں لین دین سے روک دیاگیاتھا،یہ واقعہ ںیگوسرائے ضلع میں پیش آیا۔منصور چوک برانچ کے یوکو بینک میں وہ باحجاب لڑکی جب رقم نکالنے گئی تو تین سے چار بینک ملازمین نے انھیں برقعہ اتارنے کو کہا،جس پر لڑکی نے سخت اعتراض کیا اور اپنے والدین کو بلاکر اسکی ویڈیو بنائی،جوسوشل میڈیا پر زیر گشت ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا اب اپنے ملک میں مسلمانوں کو کیا کھانا ہے؟ کیا پینا ہے؟ کیا پہننا ہے اور کیانہیں؟ یہ سب حکومت سے پوچھ کر کرنا پڑے گا،حکومت جو طے کرے گی وہی ہمیں کرنا پڑے گا؟ پھر یہ ڈیموکریسی اور آزادی کا کیا ہوگا؟ دستور نے جو لوگوں کو بنیادی حقوق عطا کئے ہیں اسکا کیاہوگا؟کبھی کہاجاتا ہے کہ گائے کا گوشت نہیں کھانے دیاجائےگا، کبھی کہاجاتاہے کہ حجاب نہیں پہننے دیاجائے گا،کبھی کہاجاتاہے کہ اسلامی تعلیمات پر عمل کی اجازت نہیں ہے۔کسی دن نماز اور قرآن پر بھی پابندی عائد کردی جائے گی کہ تمہیں اس ملک میں رہنا ہے تو حکومت کے حکم پر چلناہوگا۔تو کیا مسلمان ان سارے فیصلوں کو مان لیں؟پھر بھارت کے جمہوری ملک ہونے کا کیا مطلب ہے؟
گذشتہ چند سالوں سے جس طرح لوگوں کے حقوق غصب کئے جارہے اور ان پر ڈاکہ ڈالا جارہاہے ،یہ بہت افسوسناک ہے۔اس طرح ملک محفوظ نہیں رکھ سکتا۔بھارت میں مسلمان اپنی مذہبی ودستوری آزادی کے ساتھ رہیں گے انشاءاللہ اس سے کسی طرح کا کوئی سمجھوتہ نہیں کیاجائےگا۔اس وقت ملک میں مسلمانوں کاوجود اورانکی شناخت خطرے میں ہے۔ہمیں اپنی بقا اور تحفظ کی جنگ کیسے لڑنا ہے یہ ہمیں طے کرناہوگا، حکومت کو بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ،ملک مسلسل کمزور ہوتاجارہاہے،اور اس کا سماجی و معاشی نظام تباہی کے دہانے پر ہے۔ اس طرح ملک کبھی ترقی نہیں کرسکتا،ملک کے ہر چھوٹے بڑے مسلئے کو وطن پرستی سے جوڑدیاجاتاہے۔گذشتہ سال نومبر میں ایک فرانسیسی مصنف کرسٹوف جیفرلاٹ نے انکشاف کیا تھاکہ ہندو انتہا پسند قوم پرست سیلف سنسر شپ کےلئے طرح طرح کے حربے استعمال کررہےہیں۔ایک اخبار کے مطابق”ہندوستان میں ہندوتوا کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو ملک وقوم دشمنی اور غداری سے جوڑا جاتاہے۔کنگس کالج لندن میں بھارتی سیاست اور سماجیات کے پروفیسر،فرانسیسی مصنف نے اپنی حالیہ کتاب’مودی کا ہندوستان،ہندو قوم پرستی اور نسل پرستانہ جمہوریت کا ظہور’نامی کتاب جو انگلش میں ہے،انھوں نے اس کتاب میں اس حوالے سے کئی سوالات اٹھائے ہیں،انھوں نے اپنی کتاب میں لکھا کہ حال ہی میں مودی نے اقوامِ متحدہ میں کھوکھلا دعویٰ کیا کہ جمہوریت نے ہندوستان میں جنم لیا۔مگر کسی نے مودی سے یہ نہیں پوچھا کہ آج بھارت میں جمہوریت کا کیاحال ہے؟وہاں تو جمہوریت زوال پذیر ہے۔سالہا سال ہندوستان میں کمزور ہوتی جمہوریت کو مختلف عالمی اداروں نے بھی دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ تسلیم کیاہے۔کرسٹوف جیفرلاٹ نے مزید لکھاکہ 2018 میں ‘ورائٹی آف ڈیموکریسی انسٹی ٹیوٹ’ نے ہندوستان کو لبرل ڈیموکریسی کے بجائے،الیکٹورل ڈیمو کریسی قرار دیا۔کیونکہ وہاں سیول سوسائٹی اور میڈیا کی آزادی سلب کی جارہی ہے۔
2019 میں اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ کے ڈیموکریسی انڈیکس پر ہندوستان 10 پوائنٹ تنزلی کے بعد 51 ویں نمبر پر آگیا۔ڈیموکریسی انڈیکس میں ہندوستان ایک ناکام جمہوریت کے طور پر درج ہے،کیونکہ وہاں سماجی آزادیاں محدود ترہوتی جارہی ہیں،2020 میں فریڈم ہاؤس نے بھی اپنی سالانہ رپورٹ میں بھارت کو تشویش والے ممالک میں شامل کیا۔کتاب میں مزید لکھاگیاہےکہ فریڈم انڈیکس 2020میں جمہوریت اور انسانی آزادیوں کے حوالے سے ہندوستان سب سے زیادہ تنزلی کا شکارملک ہے۔فریڈم ہاؤس نے سکیورٹی،توہین عدالت اور غداری وغیرہ کے نام پر بننے والے کالے قوانین کے ذریعے جمہوری آوازوں کو دبائے جانے پر تشویش کا اظہار کیا،ہندوستان پریس کی آزادی کے حوالے سے بھی 9 پوائنٹس کی تنزلی کے بعد 142 ویں نمبر پر کھڑاہے۔ہندو انتہا پسند قوم پرست سیلف سنسر شپ کےلئے طرح طرح کے حربے استعمال کررہےہیں۔ہندوستان میں ہندوتوا کے خلاف ہر آواز کو ملک و قوم دشمنی اور غداری سے جوڑا جاتاہے،مگر ان تمام حقائق سے مغرب نظریں چرارہاہے”اس رپورٹ کو آپ بار بار پڑھئے اور غور کیجئے کہ آخر ہمارا ملک کدھر جارہا ہے؟اور کیا ہورہاہے؟کیسے لوگ اقتدار میں بیٹھے ہیں؟چند سالوں میں ملک کی کتنی بری حالت کردی گئی؟شاید اسی لئے لوگ یہاں رہنا نہیں چاہتے اور وہ ملک چھوڑ کر دوسرے ملک جانے کےلئے مجبور ہیں۔اپنے ملک کی شہریت چھوڑنے والوں میں بھی ہندوستان سرفہرست ہے۔30 نومبر 2021 کو مملکتی وزیر برائے داخلہ نتیانند نے پارلیمنٹ کو بتایاتھاکہ گذشتہ 5سالوں میں 6لاکھ سے زائد ہندوستانی شہریوں نے اپنی شہریت چھوڑدی ہے۔یعنی ہرسال کم وبیش ایک لاکھ 20 ہزار ہندوستانی اپنی شہریت اور اپنا ملک چھوڑ رہےہیں۔
یہ اعدادوشمار اپنی مثال آپ ہیں،کیونکہ اس سے پہلے اتنی بڑی تعداد میں ملک کے باشندوں نے اپنی شہریت نہیں چھوڑی تھی،پوری دنیا میں اپنے ملک کی شہریت چھوڑنے والوں میں ہندوستان سرفہرست ہے۔
یہ ہے مودی کا نیا بھارت۔اب آپ فیصلہ کیجئے کہ مودی جی کیسا بھارت بنارہے ہیں؟ہمارا ملک انتہائی نازک موڑ اور بارود کی ڈھیر پرکھڑا ہے۔کب کس کی جان چلے جائے،اسکے کاروبار اورعزت وعصمت پرحملہ کردیا جائے کب آپ پرآفت مسلط کردیاجائے،کچھ کہا نہیں جاسکتا۔انتہائی خطرناک اورقتل عام والے ملک میں ہمارے بھارت کودوسرا مقام حاصل ہے۔ایک رپورٹ یہ بھی ملاحظہ فرمائیے”بھارتیہ جنتا پارٹی کے مرکز اور ریاستوں میں اقتدار پر آنے کے بعد سے ہندوتوا کے طاقتوں کی انتہا پسندانہ سرگرمیوں میں اس قدر اضافہ ہوگیاہے کہ انسانی جانوں کےلئے خطرہ والے ممالک میں بھارت دوسرے ممالک کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دوسرے نمبر پر پہونچ چکاہے،جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر بھارت کی بدنامی ہونے لگی ہے۔یونائیٹڈ اسٹیٹس ہولوکاسٹ میموریل میوزیم کے سائمن اسکاٹ سنٹر فار دی پریوینشن آف جینو سائڈ اور ڈیکی سنٹر فار انٹرنیشنل انڈر اسٹانڈنگ ڈاٹ مہتھ کالج کی مشترکہ پہل، دی ارلی وارننگ پراجیکٹ نے نومبر 2021 کو عام دستیاب ڈیٹا کی اساس پر ایک رپورٹ بڑے پیمانے پر قتل کا خطرہ رکھنے والے ممالک کی درجہ بندی کی ہے۔اس رپورٹ میں تخمینی خطرہ کے اعتبار سے ممالک کی درجہ بندی کی گئی ہے،اس تنظیم نے 2021یا 2022 میں حکومت کے زیر سرپرستی اور بغیر سرپرستی کے بڑے پیمانے پر قتل کا تخمینی خطرہ رکھنے والے 30 ممالک کی ایک فہرست پیش کی ہے۔جس میں پاکستان پہلے نمبر پر ہے جبکہ بھارت کا دوسرا نمبر ہے۔رپورٹ میں کہاگیاہے کہ گذشتہ پانچ برسوں سے بھارت زیادہ خطرہ والے 15 ممالک میں شامل رہاہے۔
ملک کی مسلم اقلیتوں کے خلاف ہندو قوم پرست قیادت کی حکومت نے منظم طور پر امتیازات میں شدت پیداکی ہے،رپورٹ میں کہاگیاہے کہ متنازعہ مسلم آبادی والے خطہ جموں وکشمیر میں حکومت نے فروری 2021 میں اپنے 18 ماہ طویل 4G انٹرنیٹ بلیک اوٹ کو ختم کیا گوکہ سخت ترین مخالف اختلاف رائے اقدامات ہنوز جاری ہیں،ہندو ہجوم کی جانب سے مسلمانوں پر حملوں کی رپورٹس 2021 جاری ہیں،ساتھ ہی قوم پرست اور بے دخلی کے نظریات کو بڑے پیمانے پر فروغ دیاجارہاہے۔دیگر اقلیتیں بشمول دلت امتیازات اور گروہی اہدافی تشدد کا شکارہیں،جبکہ شہریوں کے خلاف پولس کی قیادت میں تشدد اور من مانی گرفتاریاں ہنوز غالب ہیں۔کووڈ 19 وباء کے بیچ حکومت نے سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر کنٹرول کرتے ہوئے،اظہارِ خیال کی آزادی پر اپنی تحدیدات کو بڑھادیاہے،رپورٹ میں مزید کہاگیاہے کہ انکی ترکیب کے مطابق بھارت کے انتہائی خطرہ کے تخمینہ کےلئے اصل عوامل میں اسکی گنجان آبادی،مردوں کےلئے نقل وحرکت کی آزادی کا فقدان،بڑی تعداد میں قتل کی تاریخ اور جغرافیائی خطہ(جنوب اوروسطی ایشیاء)ہیں۔دی ارلی وارننگ پراجیکٹ اس نتیجے پر پہونچا ہے کہ نکسلائٹ،ماؤسٹس کی جانب سے 2020 کے اختتام تک بڑے پیمانے پر قتل جاری رہے،یہ خطرہ کا تخمینہ ایک نئے اورممیز غیرمملکتی یا حکومت کی نگرانی کے ایپی سوڈ کے آغاز کے امکانات سے متعلق ہے،نہ کہ جاری یا بڑھتے ایپی سوڈ سے متعلق ہے”
اس رپورٹ کو پڑھنے کے بعد ہم تو اس نتیجے پر پہونچے ہیں کہ اب نہ ملک محفوظ ہے،نہ یہاں رہنے والے لوگ محفوظ اور نہ ہی لوگوں کی جان،مال،اور عزت وآبرو محفوظ ہے،ایسے میں یہ دعویٰ کرنا کہ بھارت ایک جمہوری ملک ہے اور یہاں جمہوریت کی حفاظت ہورہی ہے ایک دیوانے کے خواب کے سوا اور کچھ نہیں۔
(مضمون نگارکل ہندمعاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹ