You are currently viewing انشائیہ ”وکیل صاحب”

انشائیہ ”وکیل صاحب”

(انشائیہ)

وکیل صاحب

رشید احمد صدیقی

ایک وکیل صاحب کی کہانی جنہوں نے اپنے گھر والوں کے دباؤ میں آکر اپنی وکالت کی تعلیم مکمل تو کر لی،لیکن تعلیم سے فراغت کے بعد کوئی کام نہ ملنے کی وجہ ان کی زندگی بڑی تنگدستی اور بدحالی سے گزرتی ہے جیسا  کہ عموماً اکثر وکلاء کا یہیں حال ہوتا ہے۔ ہر صبح وکیل صاحب اس امید کے ساتھ گھر سے نکلتے ہیں کہ آج کچھ نہ کچھ کام ضرور مل جائے تاکہ بیوی بچوں کی ضروریات پوری کی جا سکے،لیکن واپسی میں مایوسی اور ناامیدی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں لگتا۔اس قصہ کا اصل مزہ رشید صاحب کا انداز بیان ہےجو  اس قصے کو مزید دلچسپ بناتا ہے۔

متعدد ناکام حملوں کے  بعد ایک روز جون کے مہینے میں معلوم ہوا کہ ہمارا ہیرو یونیورسٹی میں حق بخشوانے میں کامیاب ہوا اور ایک نیا سوٹ، پرانی ٹائی اور اس سے پرانی ٹوپی جو ایام دماغ سوزی کی تفسیر روغنی ہو کر رہ گئی تھی، زیبِ سر کر کے کلکٹر صاحب کے بنگلے سے لے کر  نینی  تال کی بلندیوں تک ڈپٹی کلکٹر کا گز بن گیا تھا۔گرمی کا موسم جنون و مراق کے لیے مضر ہوتا ہے۔ اسی لیے نینی تال ،مسوری، شملہ،کسولی وغیرہ میں جب دو ایک گرمیاں سر سے گزر جاتی ہیں تو بقول شخصے” مغز کی گرمی”چھٹ جاتی ہے۔ مکان واپس آتے ہی والدین جو  بی- اے پاس ہو جانے کے بعد پڑھانا اتنا ہی ضروری سمجھتے ہیں جتنا حکما منضبح کے بعد مسہل دینا اور لیڈرانِ قوم اسپیچ کے بعد چندہ لینا۔ ان کو قانون کا امتحان پاس کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہ بھی ایک مدت کی سرگرانی کے بعد "نے محقق بود نہ دانش مند” ہو کر واپس آئے۔ اب جو دیکھیے تو ایک ٹوٹے ہوئے سائبان میں ایک خانہ ساز کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ سامنے ان کے خیالات کی طرح ڈانواں ڈول ایک میز ہے جس کا ایک پاؤں کسی حادثے کی نذر ہو گیا تھا،اس کے نیچے تین اینٹیں تلے اوپر رکھی ہوئی ہیں۔ اوپر تین چار کتابیں ہیں جن کودیکھ کر دل ہی دل میں کڑھتے تھے، اتنے میں ایک گاؤں سے کوئی دہقاں اونچی دھوتی،کندھے پر لاٹھی اور لاٹھی کے سرے پر اس کا ایک جوڑا جوتا،جس پر تیل اور گرد کی تہیں جم چکی تھیں۔ پشت پر پیتل کا یک لوٹا اور ایک میلی مختصر پوٹلی باہم دست و گریباں، کچھ بوکھلایا ہوا کچھ چوکنا رک کر آتے ہوئے دیکھا۔ فوراً سب سے موٹی کتاب کو اس بد حواسی کے ساتھ کھینچ کر بیچ میں سے پڑھنا شروع کر دیا کہ دوسری کتابیں میز پر منتشر ہوگئیں۔ اس خلفشار میں میز کا پایہ اینٹ پر سے کھسک گیا لیکن ڈگمگائی ہوئی میر کو ایک طرف سے اپنے پاؤں سے سنبھال کر فوراً دریائے فکر میں غوطے لگانے لگے، ساتھ ہی ساتھ کنکھیوں سے دہقاں کو بھی دیکھتے جاتے تھے۔ بد قسمتی سے اس کا رخ دوسری طرف مائل ہو گیا۔ انہوں نے مایوسی سے کتاب کو میز پر ٹیک دیا۔ میز پہلے ہی سے ڈگمگا رہی تھی ، ہل چل سے قلابازی کھا گئی  قہرِ درویش برجانِ درویش۔ سر جھکائے ہوئے کانٹے درست کر رہے تھے کہ ایک دوسرا موکل نظر آیا معاً اپنی حالتِ زار کا اندازہ کیا  اور سر اٹھا کر کرسی پر واپس آنا چاہتے تھے لیکن  یہ بھول گئے کہ سر میز کے نیچے ہے۔ اٹھے تو سر میز سے ٹکرا گیا کسان قریب آیا ،چوٹ کی وجہ سے ایک ہاتھ مقامِ ماؤف پر ، آنکھیں ڈبڈبائی ہوئیں ، کچھ خفت ،کچھ غصہ لیکن  یہ سب حالتیں اس امید پر قابل ِبرداشت تھیں جو نووارد کی ذات سے وابستہ تھی۔

آنکھوں کے اشارے سے مطلب دریافت کیا۔کون اندازہ کر سکتاہے کہ اس نگاہ میں یاس و امید کے کیسے مدو جزر اٹھ رہے تھےکتنے ایسے ہیں جو اس بد نصیب کی ان مبارک اور خوش آئند امیدوں کا اندازہ لگا سکتے ہیں  جو اس نے طالب علمی کے زمانے میں محنت کاور کلفت کی گھڑیوں میں ،شب کی تاریکی، صبح کی سپیدی اور شام کے دھندلکے میں مستقبل کے لیے قائم کر رکھی تھیں۔ نو وارد نے ایک دوسرے وکیل کا پتہ دریافت کیا ۔ غریب نے ایک طرف کو اشارہ کردیا۔کسان روانہ ہو گیا ۔وکیل صاحب کی مایوس نگاہیں کچھ دور تک جانے والے کے ساتھ گئیں پھر تھک ہار کر کہیں رہ گئیں۔

دن کے نو بجے ہیں وکیل صاحب نے کچھ کھاپی کر بستہ سنھالا۔ شہر کے چوراہے پر یکے کے انتظار میں جا کر کھڑے ہوئے ایک ہاتھ میں بدرنگ چھتری، دوسرے میں بستہ ، بغل میں چوغہ کی پوٹلی دو آنے سواری پر مُصر یہ ڈیڑھ آنے سے زیادہ دینے پر تیار نہیں۔ جتنے یکے والے سامنے سے گزرے سبھی سے رد و قدح ہوئی کسی نے ان کا خیال نہیں کیا، کسی نے سخت و سست بھی کہ دیا۔ غلط راستے پر کھڑے تھے ایک گھوڑے سےٹکراتے بچے۔ کانسٹبل نے ڈانٹا اور یہ بے چارے سمٹا کر ایک طرف ہو لیے۔ ایک نہایت حقیر اور شکستہ دو سواریاں پہلے سے موجود تھیں، اس میں ایک زنانی سواری بھی تھی۔ یکہ بان پیرِ فرتوت  بقول سودا گھوڑا جسے آگے سے تو بڑا کھلایا جائے اور پیچھے سے لاٹھی ماری جائے تو چلنے پر آمادہ ہو ورنہ پاؤں کے نیچے پہیے لگانے کی ضرورت ہو۔بہ ہزار دقت ڈیڑھ آنے پر معاملہ طے وا۔ یکہ بان کے ساتھ تیسری سواری ہو کر بیٹھے ، بستہ بغل میں سر پر چھتری ۔ یکہ روانہ ہوا ۔ گھوڑے کی چال ان سواریوں کی حالتِ زار کے مطابق تھی۔ ہر ایک پر وجد طاری تھا اور ہچکولوں کی تال وسم پر سر دھنتا تھا یا وکیل صاحب ضابطۂ فوجداری یا ضابطۂ دیوانی کی معلوم نہیں کس دفعہ میں غلطاں و پیچاں تھے کہ گھوڑے نے ٹھوکر لی بستہ معہ پوٹلی کے زمین پر آرہا۔ اور خود کہنیوں کے بل گھوڑے کی پیٹھ پر آرہے۔

کرایہ کے یکےاور گاڑیوں کو کچہری کے دروازے تک جانے کی اجازت نہ تھی۔ احاطہ کے باہر وکیل صاحب اتر گئے اور نظر بچا تے ہوئے کچہری کی عمارت میں آئے۔ بستہ عرائض نویسوں اور محرر کے بوریے پر رکھا ، پوٹلی سے نکال کر گاؤن زیبِ تن کیا ایک مدت گزری کبھی اس چوغہ کا رنگ سیاہ تھا  امتدادِ زمانہ اور وکیل صاحب کے پیش رووں کی سرپرستی سے اس کی رنگت ان بالوں کی سی ہو گئی تھی جن پر عرصہ سے خضاب نہ لگایا گیا ہو۔ پچھلے دامن کی گوٹ علیٰحدہ ہو کر نیم بیضاوی شکل میں ان کی بے گناہی پر خندہ دنداں نما تھی۔ اس دامن کی شہادت کے بارے میں بعض اشخاص شبہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ سعادت ایک موکل کی دراز دستی سے حاصل ہوئی تھی۔

وکیلوں کے کمرے میں پہنچے ،یہاں کس کا کون پرسانِ حال ہوتا ۔ ہمارا ہیرومایوسی و درماندگی کی تصویر بنا ہوا ایک گوشہ میں بیٹھ کر سب سے سستے سگریٹ کی ڈبیا نکال کر آخری سگریٹ پینے لگا۔ خیالات کا ہجوم کمرے میں ہوا کا گزر نہیں ۔ دھوئیں کے حلقے فضا میں تحلیل ہورہے تھے، شور پکار سے کمرہ گونج رہا تھا۔ سامنے ایک بوڑھے بنگالی وکیل کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک میلا بھدے قسم کا کورٹ اسی کپڑے کا پائجامہ، پاؤ میں کریب سول پر لگی ہوئی تھی۔ چاروں طرف موکل جھکے ہوئے تھے۔کچھ نوجوان وکیل ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے جن کو وہ کبھی کبھی بنگلہ زبان میں کچھ نہ کچھ سمجھا تے جاتے تھے۔ تھوڑی دیر میں ایک شخص ہانپتا کانپتا کمرے میں آیا اور کہنے لگا ،حضور پکار ہو رہی ہے ۔ بوڑھا بنگالی اجلاس پر پہنچا ۔ چپراسی نے جھک کر سلام کیا اور اس نے پہنچ کر دو ہی ایک جملے کہے، مقدمے کی سماعت ملتوی کر دی گئی، تاریخ بھی  بدل دی گئی ۔ روپیوں کے بوجھ سے بنگالی وکیل کی مضبوط جیب کسی قد راور لٹک گئی۔اسی دوران میں حلوائی کا چھوٹا لڑکا پیپل کے ایک ہی پتے کے ہرے  دونے میں دو گلاب جامن لایا۔ پیتل کے منجھے ہوئے لوٹے میں پانی  بھرا ہوا تھا۔ بنگالی وکیل  نے کریپ سول کا جوتا علیٰحدہ کیا۔ دونوں گلاب جامنوں کو داہنے ہاتھ کی انگشتِ شہادت اور انگوٹھے سے اٹھا کر ٹھیک حلق کے اند یکے بعد دیگرے ٹپکا دیا۔ پورے لوٹے کا پانی ایک سانس می گیا۔ انگوٹھے کو منہ سے ، منہ کو انگوٹھے سے پوچھا اور مسئلوں کی ورق گردانی میں مصروف ہو گیا۔ کوئی اندازہ نہیں کر سکتا کہ یہ شخص کتنی دولت کا مالک تھا۔ رائے بہادر ،سیـآئیـای، پانچ ہزار روپیہ ماہوار آمدنی اور بینک آف انگلینڈ میں دس لاکھ کا حصہ دار۔

——حاضر ہے،عدالت میں پکار ہوئی ۔ چپراسی نے کرخت آواز میں مستغیثہ کو آواز دی۔ ایک غریب نوجوان شریف عورت میلے کچلے لباس میں عدالت کے دروازے پر متوحش کھڑی تھی۔ اس بدنصیب سے چپراسی کو کوئی رقم وصول نہی ہوئی تھی۔ بڑے سخت لہجے میں پوچھا تیرا وکیل کون ہے۔ غریب  عدالت سے ناواقف طرح طرح کے لوگوں کا ہجوم ، عدالت کا ایوان ، ہر طرف دوڑ، دھوپ اور ڈانٹ ڈپٹ ، یہ غریب ایک دور افتادہ گاؤں کی رہنے والی جس نے سادہ دل کسان اور مویشیوں کے علاوہ کچھ اور نہیں دیکھا تھا۔ اس  ہنگامے سے اور زیادہ مبہوت ہو گئی ۔ چپراسی نے جواب نہ پاکر دھتکار دیا۔ سامنے سے ایک وکیل کا گزر ہوا، سر چھوٹا پیٹ بڑا، نیت کھوٹی، آواز بھاری۔ عورت نے آنکھوں سے پانی کس مپرسی کی خاموش داستان سنا دی۔ وکیل اس عورت کی طرف سے اسی مقدمے کی پیروی کر چکا تھا۔ عورت کی بے بسی کو نظر انداز کر کے فیس کا طالب وہا۔ غریب نے ہزاروں منتیں کیں، بیوگی اور بے مائگی کا سانحۂ غم رو روکر سنایا لیکن وکیل نے توجہ نہ کی اور آگے بڑگ گیا۔ غریب نے ایک بار پھر عدالت تک پہنچنا چاہا لیکن  چپراسی سختی سے مانع ہوا اور مقدمہ عدم پیروی میں خارج ہو گیا۔

ایک اور وکیل صاحب کلکتہ ہائی کورٹ میں مدت تک کام کر چکے تھے، زمانے کی گردش سے مفلوک الحال ہو گئے تھے، زندگی کا آفتاب لبِ بام تھا۔ کہولت اور کمزوری کے باعث نشست و برخاست میں دقت ہوتی ہے، لیکن قانون کے روگ میں اب تک مبتلا ہیں۔ عدالت میں ان کا وجود سب پر وبال ہے۔ وکلاء یا حکام کی لائبریری میں ان کا گزر ہوتا ہے تو لوگ بے رخی سے پیش آتے ہیں تازہ نظائر کے مطالعے کے شائق ہیں اور ان کا خلاصہ اپنی اس نوٹ بک میں درج کرتے جاتے ہیں جس کے اطراف کی جلد مدت ہوئی حقِ رفاقت ادا کرکے واصل بحق ہو چکی ہے اور اِ دھر اُدھر کے دس بیس اوراق بھی غائب ہو چکے ہیں۔ ہاتھ میں میلے اور مل گجے کاغذات کا ایک پلندہ رہتا تھا جس کی نسبت یقین کے ساتھ کوئی رائے قائم نہیں کی جا سکتی  تھی۔ ملکی مسائل اور سیاسی اصول پر اس سرگرمی اور جوش کے ساتھ گفتگو کرتے کہ لوگ متحیر رہ جاتے ۔ قانونی نکات خوب سمجھتے تھے لیکن ان کا حلیہ ان کی حالت ان کی کہولت کچھ ایسے اسباب تھے کہ ان کی طرف کوئی رخ نہیں کرتا تھا۔

ان کی وضعداری کو دیکھیے ،دس بچے دن سے پانچ بجے شام تک نیچے نہ بیٹھتے اور کبھی ایک پیسہ نہ کمایا شام کو گھر کی مراجعت کرتے تو آدھ گھنٹے سے کم وقت کرایہ چکانے میں صرف نہیں کرتے تھے۔ یکہ والے  ان کی صورت دیکھ کر پناہ مانگتے  تھے۔ کہ الف لیلیٰ کے اس تسمہ پا بوڑھے کی مانند تھے جس کے پاؤں جس کسی کی گردن میں حمائل ہو جاتے تھے  اس کی جان لے چھوڑتے تھے۔ وکلاء کے کمرے سے علیٰحدہ محرروں اور عرائض نویسوں کی نشست گاہ سے متصل ایک صاحب قابلِ توجہ ہیں جو منصفی کے وکیل ہیں ۔ سر پر پٹھے جو بیچ سے علیٰحدہ کر دیے گئے تھے، بال خضاب سے سیاہ ، چہرے پر جھریاں آنکھوں میں سرمے کی تحریر ململ کی بنددار اچکن زیبِ تن، عمامہ بر فرق جیسے ابھی کہیں سکے عقد پڑھا کر چھوہارے لیے ہوئے چلے آ رہے ہیں۔ بڑی مہری کا پائجامہ جس میں چار انگل چوڑی لگی ہوئی حاشیہ کے اندر سرخ ڈورے دے دیے گئے تھے۔ اردو کی قانونی کتابوں کا بستہ سامنے تھا جس میں عرضی دعوے وغیرہ لکھنے کے مجرب نسخے تہہ کیے ہوئے تھے۔ کہا جاتا ہے  ان کے شاگرد ہمارے وہ وکیل صاحب بھی  رہ چکے تھے جن کا ذکر ابتداء میں آیا ہے۔ ایک شاگرد مسودہ لے کر اصلاح کے لیے حاضر ہوئے انہوں نے دبیز شیشوں کی عینک ناک کے کنارے پر رکھ کر میلے کچیلے ڈورے سر کے پیچھے کھسکا کر باندھ دیے ۔ کاغذ کو ہاتھ میں لے کر انتہائی فاصلے سے پڑھنا شروع کیا۔ پہلے ہی لفظ پر رکے، مسودہ زمین پر پٹک دیا، عینک لکڑی کے ایک خول میں جس کا ڈھکنا اسی وقت سے غائب تھا جب سے وکیل صاحب نے اس وادی میں قدم رکھا تھا، بند کر دی گئی۔ غریب شاگرد گھبرایا کچھ دیر تک وکیل صاحب پیچ و تاب کھاتے رہے ، آخر کار شاگرد نے ڈرتے ڈرتے عتاب کی وجہ دریافت کی تو فرمایا”میاں تمھیں عرضی دعویٰ لکھنا کیا آئےگا خاک مدتوں سے ساتھ ہو، اتنا مغز مارتا ہوں لیکن تمھارے دماغ میں کوئی بات نہیں گھستی، بس اب ہو چکا بدنامی مول لینا نہیں چاہتا”۔

شاگرد :آخر کیا غلطی ہوئی میں نے حتی الوسع نہایت کوشش سے مسودہ تیار کیا ہے۔

وکیل صاحب :اچھا تو ایک موقع او ردیتا ہوں، غور سے پڑھ جاؤ سامنے ہی غلطی ہے ہاں۔

شاباش شاگرد ایک ایک لفظ غور سے پڑھ گیا ، مسودے کو الٹ پلٹ کر دیکھتا رہا لیکن کوئی غلطی نہ پاکر کاغذ واپس کر دیا۔ اور عرض کیا” وکیل صاحب مجھے تو اب بھی کوئی غلطی نظر نہ آئی”۔

وکیل صاحب برافروختہ ہو کر بولے "کیوں خلاصہ فریاد ہے، لکھا ہے بسم اللہ ہی غلط”۔ شاگرد خاموش ہو گیا اور مایوس و ملول گھر واپس آیا۔ ایک بیوی اور دو بچے موجود تھے۔ بچے دوڑکر لپٹ گئے جیوبوں میں ہاتھ ڈال دیے” ابا میرے لیے کیا لائے ہیں؟ میں تو آج ناشپاتی ضرور لوں گی،اماں پیسے نہیں دیتی ،کہتی ہیں ابا کچہری سے ناشپاتی لائیں گے” چھوٹی لڑکی ماں کے پاس سے دوڑ کر بدقسمت باپ کے گھٹنوں میں لپٹ گئی۔ ابا کچہری نہ جایا کرو تم نہیں تھے، فاطمہ کی ماں(ہمسائی) آن کر اماں سے روپے مانگتی تھی اور جب اماں نے کہا کہ تم کچہری سے آن کر دے دوگے تو وہ بہت بگڑی اور شور مچانے لگی۔ اماں اب تک رو رہی تھیں، کھانا بھی نہیں کھایا ہے۔ کچہری سے آتے ہو تو بیمار معلوم ہوتے ہو۔ میرے ساتھ دن بھر رہا کرو ہم تم ساتھ جھولا جھولیں گے۔ کیوں اما اب بابابھی ساتھ رہیں گے تو گھر میں آکر کوئی شور نہیں مچائے گا”۔

بیوی جو ان کے لیے چشمِ براہ تھی ناہموار قدموں کی چاپ سن کر سمجھ گئی کہ آج بھی حالات میں کوئی امید افزا تبدیلی نہیں ہوئی تھی، لیکن متبسم ہو کر خیر مقدم کیا۔ بیوی کے اس اندازِ پذیرائی سے شوہر کے جذبات متلاطم ہو گئے اس نے بچوں کو گود میں لیا اور پر نم آنکھوں سے بیوی کی طرف دیکھتے ہوئے بولا "خدا کاشکر ہے میری قسمت قابلِ رشک نہیں”۔

یہ بھی پڑھیں👇👇👇

چارپائی

جواب دیں