(رمضان سیریز: 5)
افطار کا مسنون طریقہ
ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ
اللہ کے رسولﷺ نے افطار کاوقت رات کا آنا اور دن کا چھپ جانا متعین فرمایا ہے جبکہ سورج کی ٹکیا ڈوب جاتی ہے۔ امیر المومنین حضرت عمرؓ بن خطاب روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ جب یہاں سے رات آجائے اور یہاں سے دن پلٹ جائے اور سورج غروب ہوجائے تو روزے دار کے افطار کا وقت ہوجاتا ہے۔ ‘‘ [إذا أدبر اللیل من ھاھنا وأدبر النھار من ھاھنا وغربت الشمس فقد أفطر الصائم] (صحیح بخاریؒ:۱۹۵۴۔ صحیح مسلمؒ:۱۱۰۰)
غروبِ آفتاب کے بعد افطار میں جلدی کرنی چاہیے کیونکہ اس میں اتباعِ سنت کے ساتھ ساتھ یہود ونصاریٰ کی مخالفت بھی مطلوب ہے کہ یہ لوگ اس وقت تک افطار نہیں کرتے جب تک کہ آسمان میں تارے یا چاند نظر نہ آنے لگیں۔
اللہ کے رسولﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ لوگ اس وقت تک خیر سے رہیں گے جب تک کہ وہ افطار میں جلدی کرتے رہیں۔ ‘‘ [لایزال الناس بخیر ماعجلو الفطر] (صحیح بخاریؒ:۱۹۵۷۔ صحیح مسلمؒ:۱۰۹۸)
دوسری حدیث کے الفاظ ہیں کہ میری امت میری سنت پر قائم رہے گی جب تک کہ اس کے اندر افطار کے لیے ستاروں کا انتظار نہیں کیا جائے گا۔ ‘‘ [لاتزال أمتی علی سنتی ما لم تنتظر بفطرھا النجوم] (صحیح ابن حبانؒ:۸۹۱۔ مستدرک حاکمؒ:۱/۴۳۴)
اور یہ کہ دینِ اسلام اس وقت تک باقی رہے گا جب تک کہ لوگ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے کیونکہ یہود ونصاریٰ اس میں تاخیر سے کام لیتے ہیں۔ ‘‘ [لایزال الدین ظاھرا ماعجل الناس الفطر لأن الیھود والنصاریٰ یؤخرونہ] (سنن ابوداؤدؒ:۲۳۵۲۔ مستدرک حاکمؒ:۱/۴۳۱۔ تحسین البانیؒ فی صحیح الجامع:۷۶۸۹)
غروبِ آفتاب کا علم براہِ راست مشاہدے سے یا کسی قابلِ اعتماد ذریعے (اذان، اعلان) سے بھی حاصل ہوسکتا ہے۔ حدیث ِ قدسی میں اللہ رب العزت فرماتا ہے: ’’میرے محبوب ترین بندے وہ ہیں جو افطار میں جلدی کرتے ہیں۔ ‘‘ [انّ أحبّ عبادی الیّ أعجلھم فطراً] (مسند احمدؒ: ۷۲۴۰۔ سنن ترمذیؒ:۷۰۰)
افطار میں سنت یہ ہے کہ تازہ کھجوریں استعمال کی جائیں، وہ میسر نہ ہوں تو سوکھی کھجوریں استعمال کی جائیں، وہ بھی دستیاب نہ ہوں تو پانی سے روزہ افطار کیا جائے۔ [کان النبیﷺیفطر قبل أن یصلی علی رطبات فان لم تکن رطبات فتمرات فان لم تکن تمرات حسا حسوات من مائ] (مسند احمدؒ:۱۲۶۹۸۔ سنن ابوداؤدؒ:۲۳۵۸۔ سنن ترمذیؒ:۶۹۶)
اگر مذکورہ بالا چیزیں نہ مل سکیں تو کسی بھی حلال قابلِ خوردنی شے سے روزہ افطار کیا جاسکتاہے۔
افطار کرنے میں یہ ترتیب بھی اللہ کے رسولﷺ کی رحمۃ للعالمینی کا ایک مظہر ہے۔ خالی معدے میں پہلے کوئی میٹھی چیز ڈالی جائے تو یہ جسمانی قوت کے لیے بہتر ہے، اسی طرح بہت دیر تک نہ کھانے پینے سے روزے دار کا جگر اور معدہ ایک طرح کی یبوست اور سوکھے پن کا شکار ہوجاتے ہیں، اس لیے اگر میٹھی شے کے ساتھ پانی بھی شامل کر دیا جائے تو فائدہ دوچند ہو جاتا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہماے زمانے کے معمول کے مطابق افطار کا مطلب خوب خوب کھالینا نہیں ہے۔ آپﷺ کا یہ معمول نہیں تھا اور نہ ہی یہ مفید ِ صحت ہے۔
افطار کے وقت دعا کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’روزے دار کی دعا افطار کے وقت رد نہیں کی جاتی۔ ‘‘ [انّ للصائم عند فطرہ دعوۃ لا ترد] (سنن ابن ماجہؒ:۱۷۵۳)
روزے دار کو چاہیے کہ افطار کے وقت اپنے لیے، اہلِ خانہ کے لیے اور تمام امت ِ مسلمہ کے لیے زیادہ سے زیادہ دعائوں کا اہتمام کرے۔ افطار کے وقت کی سب سے بہترین دعا جو اللہ کے رسولﷺ سے منقول ملتی ہے یہ ہے: ’’ذھب الظمأ وابتلت العروق وثبت الأجر إن شاء اللّٰہ‘‘، یعنی پیاس بجھ گئی، رگیں تر ہوگئیں اور مشیت ِ الٰہی سے اجر وثواب ثابت ہوگیا۔ ‘‘ (سنن ابوداؤدؒ:۲۳۵۷۔ مستدرک حاکمؒ:۱/۴۲۲۔ سنن بیہقیؒ:۴/۲۳۹۔ تحسین البانیؒ فی إرواء الغلیل:۹۲۰)
افطار کی ایک دوسری دعا یہ بھی ہے: ’’اللھم إنی أسألک برحمتک التی وسعت کل شیء أن تغفر لی، اللھم لک صمت وعلی رزقک أفطرت، فتقبل منی إنک أنت السمیع العلیم‘‘، یعنی اے اللہ میں تجھ سے تیری ہر چیز پر محیط ہونے والی رحمت کے توسط سے سوال کرتا ہوں کہ تو میری مغفرت فرمادے، اے اللہ میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تیرے دیے رزق پر افطار کیا، تو اسے مجھ سے قبول فرمالے کیونکہ تو ہی ہے جو سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ ‘‘ (سنن ابوداؤدؒ:۲۳۵۸، إلی أفطرت۔ سنن بیہقیؒ:۴/۲۳۹۔ ارواء الغلیل، البانیؒ:۹۱۹)
بہتر ہے کہ افطار کی ابتداء میں “بسم اللہ” کے بعد یہ دعا پڑھی جائے اور فارغ ہونے کے بعد پہلی دعا پڑھی جائے۔ اس سے دونوں دعاؤں کا اہتمام بھی ہوجائے گا اور ان کے معنی ومفہوم کی رعایت بھی ہو جائے گی۔ واللہ اعلم۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین.