اس بس کا کیا علاج؟
قبولیت دعا کے حیرت انگیز واقعات
قسط /۸
تحریر: مسلم عبد العزیز الزامل
ترجمہ: مفتی ولی اللہ مجید قاسمی
کویت یونیورسٹی کے طلبہ کا ایک گروپ خشکی کے راستے سے عمرہ کرنے کے لیے روانہ ہوا جس کے لیے دو بسیں کرائے پر لی گئیں، ان میں سے ایک نئی تھی اور دوسری پرانی، جس کا حال یہ تھا کہ انجن میں کسی خرابی کی وجہ سے پچاس کلو میٹر چلنے کے بعد رک جاتی تھی، جسے ٹھیک کرنے میں آدھا گھنٹہ لگ جاتا۔ جب ایسا کئی بار ہوا تو لوگ اکتا گئے اور طے یہ پایا کہ ڈرائیور کے ساتھ پانچ لوگ رک جائیں اور بقیہ لوگ دوسری بس میں سوار ہوکر روانہ ہوجائیں۔
اس طرح سے ہم پانچ کے علاوہ دوسرے لوگ چلے گئے۔ اس وقت ہم لوگ ایک چھوٹی سے آبادی میں تھے جہاں نہ تو کوئی گیرج تھا اور نہ گاڑی کے پارٹس کی کوئی دوکان۔ چار وناچار ہم لوگ صلاۃِ حاجت کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور اللہ سے دعا کی کہ ہمیں اس مصیبت سے نجات دے۔ اس کے بعد بس میں سوار ہوئے۔ حالانکہ ہمارا بدن تھک کے چور ہوچکا تھا اور رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی، لیکن صلاۃ کی ادائیگی کے بعد ہم پر سکون واطمینان کی کیفیت طاری ہوگئی تھی، اس لیے کہ مؤمن کے لیے صلاۃ باعثِ سکون وراحت ہے، اللہ کے رسول ﷺ کہا کرتے تھے کہ:
«أَرِحْنَا بِهَا يَا بِلَالُ»
”بلال! صلاۃ کے ذریعے ہمیں راحت پہنچاؤ۔“
اور تھوڑی دیر بعدسب لوگ گہری نیند میں غرق ہوگئے، اور کچھ گھنٹے گزرنے کے بعد روشنی اور شور کی وجہ سے ہماری آنکھ کھل گئی، اور ہم نے سمجھا کہ شاید کسی گیرج کے پاس پہنچ گئے ہیں، لیکن بس ایسی جگہ کھڑی تھی جس کی ہم میں سے کسی کو امید نہیں تھی، وہ مدینہ منورہ میں ہوٹل کے گیٹ کے پاس تھی۔ ہم نے ڈرائیور سے پوچھا: ہم اِس وقت کہاں ہیں؟ اس نے جواب دیا: مدینہ منورہ پہنچ چکے ہیں، اور ہم لوگ ہوٹل کے گیٹ پر ہیں، تمہاری صلاۃ نے بالکل جادو کا کام کیا، اس کے بعد سے جب وہ چلی ہے تو ایک لمحے کے لیے بھی بند نہیں ہوئی، اور ہم نے بس کو ٹھیک بھی نہیں کیا تھا۔
ڈرائیور نے اپنی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ایسے کیسے ہوگیا؟ ٹھیک کیے بغیر بس کیسے چل پڑی؟ بلکہ خود اس کے اندر ایسی چستی اور پھرتی آگئی کہ وہ مسلسل ڈرائیونگ کرتے ہوئے یہاں تک لے کر آگیا حالانکہ ہماری طرح سے وہ بھی تھکا ہوا تھا۔
ہم لوگ ایک دوسرے کو حیرت اور خوشی سے دیکھ رہے تھے کہ اس قدر جلد ہماری دعا قبول ہوگئی اور بخیر وعافیت اپنی منزل پر پہنچ گئے، اور ہر ایک نے اس آیت کو دہرانا شروع کر دیا:
﴿اَمَّنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَيَكْشِفُ السُّوْۗءَ﴾ [سورۃ النمل:۶۲]
”بھلا کون ہے کہ جب کوئی بے کس پکارتا ہے تو وہ اس کی فریاد کو سنتا ہے اور مصیبت کو دور کردیتا ہے۔“
یہ واقعہ خود میری نگاہوں کے سامنے پیش آیا، میں بھی اُن پانچ لوگوں میں شامل تھا جنہیں اللہ تعالیٰ نے صلاۃِ حاجت اور دعا کی توفیق بخشی تھی۔