اردو زبان کی تاریخ
( پہلی قسط)
تحریر : احمد
اردو زبان
اردو زبان ایشیا کی مختلف زبانوں میں سے ایک ہے ۔یہ برصغیر کے ایک بڑے علاقے یعنی ہندوستان و پاکستان میں بولی جاتی ہے۔یہ ہندوستان کی اٹھارہ قومی زبانوں میں سے ایک ہے ۔بظاہر اس پر عربی و فارسی کے اثرات ہیں ،لیکن عربی و فارسی کے برعکس ہندی کی طرح یہ بھی ہند آریائی زبانوں کی ایک شاخ ہے۔ جو ہندوستان میں پیدا ہوئی ہے اور یہیں پلی بڑھی ہے۔
جیسے جیسے اردو زبان نے ترقی کی اس کی ابتداء اور آغاز کے متعلق سوالات بھی ذہن میں پیدا ہونے لگے ۔ علم اللسان سے ناواقف لوگوں کے نزدیک یہ ایک کھچڑی زبان تھی ۔جو عربی ، فارسی ، ترکی اور ہندی کے میل سے پیدا ہوئی ہے۔ اسی وجہ سے کبھی اسے عہد شاہ جہاں سےجوڑا گیا ،تو کبھی اسے عہد اکبر کی طرف منسوب کیاگیا۔ لیکن یہ تمام نظریات نہ تو محقق تھے اور نہ ہی تشفی بخش۔لہٰذا ماہر لسانیات نے فوراً بھانپ لیا کہ اس زبان کی تہہ میں کوئی نہ کوئی زبان ہےاور وہ کون سی ہے؟ آئیے ہم اس کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔
ہند آریائی زبان کا آغاز و ارتقاء
ہند آریائی زبان ہند یورپی خاندان سے تعلق رکھتی ہے ۔یہ اپنے ارتقائی مراحل میں ہند ایرانی سے گزرکر ہند آریائی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ ہند یورپی خاندان کی زبانوں کا تقابلی مطالعہ کرنے کے بعد ماہر لسانیات اس نتیجے پر پہونچتے ہیں کہ یہ تمام زبانیں کسی ایک قدیم زبان سے نکلی ہے۔لیکن’’میکس مولر‘‘کے قول کے مطابق ہند یورپی خاندان کا وجود اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ اس کے بولنے والے ایک ہی نسل کے ہوں ۔ اس کے بولنے والے کون تھے ،کہاں بستے تھے اور وہ کس طرح یورپ و ایشیا کے وسیع ترین بر اعظموں میں پھیلے ؟ آریوں کے متعلق یہ ایسے سوالات ہیں جن پر محققین آج تک متفق نہ ہو سکے۔ (مقدمہ تاریخ زبان اردو ،مسعود حسین خان)
آریوں کا اصل وطن
تقریباً تمام محققین لسانیات کا اس بات پر اتفاق ہےکہ آریوں کا اصل وطن وسط ایشیا کے علاقے ہیں ۔جہاں سے وہ دو سمتوں یعنی مغرب و مشرق میں پھیل جاتے ہیں ۔ مغرب کی طرف جانے والے آریوں کی زبان یورپ کی یونانی ، لاطینی، البینین جرمینک وغیرہ کہلائیں۔ اور مشرق کی طرف ہجرت کرنے والے آریوں کی زبان ’اوستھا ‘ تھی جس کی ترقی یافتہ شکل فارسی ہے ۔
آریوں کا داخلۂ ہندوستان
آریوں کی ہندوستان میں داخلہ کی تاریخ ۱۵۰۰ قبل مسیح بیان کی جاتی ہے۔ اور یہ حقیقت مسلم ہے کہ آریا ہند میں داخلہ سے پہلے ایک کثیر مدت ایران میں گزار چکے تھے، جہاں ان کی زبان ترقی کے منازل طے کرتے ہوئے ۲۰۰۰ ق م تک ہند ایرانی منزل پر پہونچ جاتی ہے ۔ ہند یورپی کی ہند ایرانی شکل ہی تمام زبانوں کی ماں کہلائی ،جو پہلے ایران میں پھلی پھولی اور بعد میں آریا اسے لے کر ہندوستان میں داخل ہوئے ۔
ماہر لسانیات نے ہندوستان میں ہند آریائی زبانوں کے ارتقاء کو تین ادوار میں تقسیم کیا ہے :
۱] ہند آریائی کا عہد قدیم
۲] ہند آریائی کا عہد وسطٰی
۳] ہند آریائی کا عہد جدید
ہند آریائی کا عہد قدیم
ہند آریائی کا عہد قدیم ۱۵۰۰ ق م تا ۵۰۰ ق م شمار کیاجاتاہے ۔اس وقت ہند یورپی زبان ہند ایرانی منزل سے گزر کر خالص ہند آریائی شکل اختیار کرچکی تھی ۔ یہ عہد ’ ویدک عہد ‘ بھی کہلاتا ہے ۔اسی عہد میں رگ وید، یجروید ، اتھر وید اور سام وید ( ہندؤں کی مشہور مذہبی کتابیں ) لکھی گئیں ہیں۔ اس عہد میں سنسکرت زبان خوب ترقی کرتی ہے ۔اور یہ زبان سنسکرت عالموں کی زبان بن جاتی ہے ۔ اسی عہد میں’ مہا بھارت ‘ لکھی جاتی ہے۔
جب یہ زبان اپنے عروج پر تھی تو اس وقت اسے نئے سرے سے منظم کرنے کی کوشش کی گئی۔ اور صرف ایسے الفاظ کا انتخاب کیا گیا جو سب جگہ رائج ہوں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ ملکی زبان بن گئی۔ سب لوگ ادب میں ایک خاص قسم کی زبان کا استعمال کرنے لگے ۔اور بن سنور کر یہ خالص سنسکرت بن گئی۔ اس وقت اس کو یہی درجہ حاصل تھا جو آج اردو اور ہندی کو حاصل ہے۔ ملک میں جہاں جہاں آریا پھیل گئے تھے وہاں کے مذہبی ،علمی اور ادبی حلقوں میں یہ زبان بولی اور سمجھی جاتی تھی۔ جو لوگ بول نہی پاتے تھے وہ بھی اسے آسانی سے سمجھ لیتے تھے ۔
سنسکرت کے زوال کے اسباب
رفتہ رفتہ سنسکرت کا زور ٹوٹنے لگا ۔اور اس کی وجہ یہ بنی کہ سنسکرت قواعد نویسوں نے زبان کو خالص(ادبی) کرنے کے چکر میں عوام کی زبان سے اسے دور کردیا ۔جس کے نتیجے میں سنسکرت کے پہلو میں عوامی زبان بھی پروان چڑھنے لگی ۔لیکن اس کے زوال کا سب سے بڑا سبب وہ مذہبی انقلاب تھا جو ’ مہاویر سوامی ‘ (بانی جین مذہب) اور’ مہاتما گوتم بدھ‘ (بانی بدھ مذہب) کی کوششوں سے نمودار ہوا۔ دونوں نے اپنے مذہب کی اشاعت اپنے یہاں کے عوامی اور مقامی زبان میں کیا اور عوام نے اس کا استقبال کیا ۔اس طرح مذہب کی آڑ میں مقامی بولیاں بھی سر اٹھانےلگیں۔ جس کے رد عمل میں سنسکرت زبان بولنے والوں نے سختی شروع کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ ایک خاص فرقہ کی زبان بن کر رہ گئی۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
بہت ہی عمدہ انداز میں وضاحت کی ہے۔
منتظر ہوں اگلے قسط کا
شکریہ
اگلی قسط بھی ویبسائٹ پر موجود ہے، استفادہ کر سکتے ہیں