احسان شناسی اور محسن کی قدر افزائی
ذکی الرحمن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ
اللہ کے رسولﷺ کی سنت کا ایک درخشاں پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں محسن کے احسانات اور کرم فرمائوں کے فضل وکرم کو یاد رکھنے جیسا بلند انسانی ادب جلوہ گر ملتا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے اپنے ارشادات سے اس کی تاکید بیان کی ہے اور اپنے کردار سے اس کی توضیح فرمائی ہے۔
محسن شناسی اور شکر گزاری کا جذبہ ایک عظیم انسانی خوبی ہے جس سے محسن کے ساتھ شکر ادا کرنے والے اور آڑے وقت میں کام آنے والے کی صالحیت واصابت اور سلیم فطرت وطبیعت کی عکاسی ہوتی ہے۔
اللہ کے رسولﷺ کی سیرت کا مطالعہ کر جائیے، آپ دیکھیں گے کہ اللہ کے رسولﷺ کسی پر احسان وکرم کرنے میں بھی بہترین اور یکتا تھے اور کسی کا احسان اور بھلائی یاد رکھنے میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔
ایک سردارِ قریش مطعم بن عدی نے اللہ کے رسولﷺ پر یہ احسان کیا کہ طائف کے دعوتی سفر کی ناکامی کے بعد اللہ کے رسولﷺ کو اپنی امان اورحفاظت میں مکہ میں داخل کرایا۔ اللہ کے رسولﷺ نے سفرِ طائف سے واپسی کے بعدعبداللہ بن اریقط کو اخنس بن شریک کے پاس اس غرض سے بھیجا تھا، مگر اس نے معذرت کر دی۔ (تاریخ طبریؒ:۲/۳۴۷۔ سیرۃ ابن ہشامؒ:۱/۳۸۱۔ البدایۃ والنہایۃ:۳/۳۴۳-۳۴۴) ابن ہشامؒ کہتے ہیں:یقینا جب اللہ کے رسولﷺ اہلِ طائف کے پاس سے واپس آئے کیونکہ اہلِ طائف نے آپﷺ کی دعوت پر لبیک نہیں کہا تھا، نہ تصدیق کی اور نہ کسی قسم کے تعاون کی پیشکش کی تو آپ ’’حرائ‘‘کے پاس ہی رک گئے اور اخنس بن شریق کے پاس پیغام بھیجااور پناہ کی درخواست کی۔ اس نے کہلایاکہ میں حلیف ہوں اور حلیف کسی کو پناہ نہیں دے سکتا۔ آپﷺ نے سہیل بن عمرو کو پیغام بھیجا تو اس نے کہا کہ ’’بنوعامر‘‘کبھی ’’بنو کعب‘‘کے خلاف پناہ نہیں دیتے۔ پھر آپﷺ نے مطعم بن عدی کے پاس یہی پیغام بھیجا تواُس نے قبول کرلیا اور خود اپنے خاندان والوں کے ہمراہ مسلح ہوکر مسجد ِ حرام آیا اور وہاں سے کہلایا کہ اب آپﷺمکہ میں داخل ہوسکتے ہیں۔ اللہ کے رسولﷺ مکہ میں داخل ہوئے، بیت اللہ کا طواف کیا اور وہاں نماز پڑھی پھر اپنے گھر لوٹ گئے۔ [۔۔۔ثم بعث إلیٰ أخنس بن شریق لیجیرہ۔۔۔۔فبعث إلیٰ المطعم بن عدی فأجابہ إلیٰ ذالک ثم تسلح المطعم وأھل بیتہ وخرجوا حتیٰ أتو المسجد ثم بعث إلیٰ رسول اللہﷺ أن ادخل، فدخل رسول اللہﷺ فطاف بالبیت وصلیٰ عندہ ثم انصرف إلیٰ منزلہ](السیرۃ النبویۃ، ابن ہشامؒ:۱/۳۸۱)
اللہ کے رسولﷺکا مطعم بن عدی نامی مشرک سردارِ مکہ کی پناہ میں مکہ میں داخل ہونے کا واقعہ مورخین وسیرت نگاروں کے مابین ایک متفق علیہ امر ہے۔ اس کی مزید وضاحت اُس قولِ نبویﷺ سے بھی ہوتی ہے جوغزوۂ بدر کے بعد آپﷺ نے ارشاد فرمایاتھا۔ اس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔
دوسری روایت میں اضافہ ملتا ہے کہ اللہ کے رسولﷺ اس رات مطعم بن عدی کے یہاں رکے۔ علی الصبح وہ اپنے چھ یا سات بیٹوں کو لے کر اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ نکلا۔ سب نے تلوار حمائل کی ہوئی تھی۔ ان کے دائرے میں رہتے ہوئے آپﷺ مسجدِ حرام میں داخل ہوئے۔ مطعم بن عدی نے آپﷺ سے طواف کرنے کو کہا اور مطاف میں اپنے لڑکوں کے ساتھ تلواریں سونت کر کھڑا ہوگا۔ ابوسفیان نے یہ ماجرا دیکھا تو مطعم بن عدی کے پاس آکر پوچھا کہ تم نے محمدؐ کو پناہ دی ہے یا اس کے دین کی پیروی کی ہے؟اس نے کہا کہ میں نے محمدؐ کو پناہ دی ہے۔ ابوسفیان نے کہا تب تمہاری امان اور معاہدہ نہیں توڑا جائے گا۔ ابوسفیان وہاں مطعم کے پاس بیٹھ گئے، اتنے میں اللہ کے رسولﷺ نے اپنا طواف پورا کر لیا اور سب کے ساتھ وہاں سے لوٹ آئے۔ اسی طرح کئی دن گزر گئے، یہاں تک کہ بالآخر اللہ کے رسولﷺ کو ہجرت کرنے کی اجازت مل گئے اور آپﷺ مدینہ منورہ تشریف لے آئے۔ آپﷺ کے ہجرت کر جانے کے کچھ روز بعد ہی مطعم بن عدی کی وفات ہوگئی۔ حضرت حسانؓ بن ثابت شاعرِ رسولﷺ نے اس قریشی سردار کی شان میں مرثیہ کہا جو آج بھی حضرت حسانؓ کے مطبوعہ دیوان میں موجود ہے۔ (دیکھیں دیوان حسانؓ:ص۲۴۳-۲۴۴)
ابن کثیرؒ کہتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے غزوۂ بدر میں گرفتار ہونے والے مشرک قیدیوں کی بابت فرمایا تھا کہ اگر آج مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور مجھ سے ان لوگوں کے بارے میں بات کرتا تو میںضرور انھیں اس کے حوالے کر دیتا۔‘‘ (البدایۃ النہایۃ:۳/۳۴۴)
اللہ کے رسولﷺکا مطعم بن عدی کی پناہ طلب کرنا اوراس کی امان میں جانا دوباتوں کی وضاحت کرتا ہے۔اولاً، وقت ِ ضرورت کسی غیر مسلم کی پناہ وجوار میں داخل ہواجاسکتا ہے۔ ثانیاً، آپ ﷺکا اسوہ ومعمول تھا کہ ہر محسن کے احسان کا بدلہ ضرور چکاتے تھے، اگرچہ وہ کوئی غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو۔ اللہ کے رسولﷺنے مطعم بن عدی کا احسان اس موقع پر بھی یاد رکھا جب کہ آپﷺ فتح ونصرت اور قوت وبے نیازی کی اوجِ ثریا پرتھے، یعنی جب آپ کے سامنے غزوۂ بدر میں قیدی بنائے گئے کفارِ قریش کو پیش کیا گیا۔ اس وقت آپﷺ کی زبانِ مبارک سے نکلا تھاکہ:’’اگر آج مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور ان متعفن سیرت وصورت لوگوں کے بارے میں مجھ سے بات کرتا تو میں اُس کی خاطر انہیں چھوڑدیتا۔‘‘ [لوکان المطعم بن عدی حیا ثم کلمنی فی ھولاء النتنیٰ لترکتھم لہ](صحیح بخاریؒ:۳۱۳۹۔ سنن ابوداؤدؒ:۲۶۸۹)
یہ احسان شناسی، وفاداری اور خیر کو یاد رکھنے کی عمدہ مثال ہے۔ مطعم بن عدی کا اس کے علاوہ ایک احسان یہ بھی رہا ہے کہ وہ گاہے گاہے قریش کی محفلوں میں آپﷺ کی طرف سے دفاع کرتا تھا۔ اس نے ایک طرف تو اپنی اولادکو آپﷺ کی حفاظت کے لیے مسلح کیا،اور دوسری طرف بعض شرپسند قریشی سرداروں کو ڈانٹتے ہوئے کہا تھا کہ یقینا تم لوگوں نے محمدﷺکے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا ہے، کم از کم اب تو ان کے تئیں غیرجانب دار ہوجائو۔‘‘ [إنکم قد فعلتم بمحمد ما فعلتم فکونوا أکف الناس عنہ](معجم کبیر، طبرانیؒ:۱۵۳۱۔ مجمع الزوائد:۶/۶۵۔ التقریب:ص۶۰۸)
اعلیٰ ترین احسان شناسی اورشکرگزاری کا ایک مظہر یہ ہے کہ آپﷺکی نصرت وحمایت کرنے کی وجہ آپﷺکے مشرک چچا ابوطالب کے لیے اخروی عذاب میں تخفیف کردی گئی۔ حضرت عباسؓ بن عبدالمطلب کی حدیث میں اس کی صراحت ملتی ہے۔ حضرت عباسؓ نے ایک مرتبہ آپﷺسے فرمایا تھا کہ آپﷺ سے آپ کے چچا ابوطالب کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکا حالانکہ وہ آپﷺ کی حمایت کرتے تھے اور آپ کے دفاع میں غضبناک ہوتے تھے۔ اس پرآپﷺنے فرمایا:’’وہ صرف اتنی آگ میں ہیں جو ان کے ٹخنوں تک پہنچتی ہے، اگر میں نہ ہوتا تو وہ آتشِ دوزخ کے انتہائی نچلے طبقے میں ہوتے۔‘‘ [ماأغنیت عن عمک فإنہ کان یحوطک ویغضب لک؟قال:ھو فی ضحضاح من نار، ولولا أنا لکان فی الدرک الأسفل من النار](صحیح بخاریؒ:۳۸۸۳، ۶۲۰۸، ۶۵۷۲، ۳۸۸۵۔ صحیح مسلمؒ:۲۰۹، ۲۱۰۔ مسند احمدؒ:۱۱۰۵۸، ۱۷۶۳، ۲۶۳۶)
اللہ کے رسولﷺ کے ان ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ دینِ اسلام نے جن اخلاقِ کریمہ اور عاداتِ حمیدہ کی ترغیب وتحریص دی ہے اور جس کی تاکید اللہ کے رسولﷺ کی قولی وعملی سنت سے ہوتی ہے، ان میں سرِ فہرست محسن کی شکر گزاری اوراس کے احسانات کو یاد رکھنا بھی ہے اور قوت واقتداراورمال واسباب کے ہمالے پر پہنچنے کے بعد بھی دوسروں کے کئے گئے احسانات کو نہ بھولنا ہے۔ خود اللہ تعالیٰ اس جانب رہنمائی کرتا ہے۔ ارشادِ باری ہے:{ وَأَن تَعْفُواْ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَی وَلاَ تَنسَوُاْ الْفَضْلَ بَیْْنَکُمْ إِنَّ اللّہَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیْرٌ}(بقرہ، ۲۳۷) ’’اور تم نرمی سے کام لو تو یہ تقوی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ آپس کے معاملات میں فیاضی کو نہ بھولو۔ تمہارے اعمال کو اللہ دیکھ رہا ہے۔‘‘
اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’جو شخص لوگوں کا شکرگزار نہیں بنتا وہ اللہ کا شکر گزار بھی نہیں بن سکتا ہے۔‘‘ [من لا یشکر الناس لا یشکر اللہ](سنن ابوداؤدؒ:۴۸۱۱۔ سنن ترمذیؒ:۱۹۵۴۔ مسند احمدؒ:۷۵۰۴۔ الادب المفرد، بخاریؒ:۲۱۸۔ صحیح ابن حبانؒ:۳۴۰۷)
مزید فرمایا کہ جس کے ساتھ کوئی بھلائی کی جائے اور وہ بھلائی کرنے والے سے ’’جزاک اللّٰہ خیراً‘‘کہہ دے (یعنی اللہ تمہیں جزائے خیر دے کی دعا دے دے) تو گویا اس نے تعریف میں مبالغہ کر دیا۔‘‘ [من صنع الیہ معروف فقال لفاعلہ جزاک اللہ خیرا فقد ابلغ فی الثنائ](سنن ترمذیؒ:۲۰۳۵۔ سنن نسائیؒ:۱۸۰۔ صحیح ابن حبانؒ:۳۴۱۳)
دوسرے موقعے پر ارشاد فرمایا کہ جب کوئی تمہارے ساتھ بھلائی کرے تو اسے اس کا بدلا دو، اگر بدلا دینے کے لیے کچھ نہ پائو تو اس کے لیے دعا کرو اور اتنی کرو کہ تمہیں لگنے لگے کہ تم نے اس کا بدلا چکا دیا ہے۔‘‘ [من صنع الیکم معروفا فکافئوہ فإن لم تجدوا ما تکافئونہ فادعوالہ حتی تروا أنکم قد کافأتموہ](سنن ابوداؤدؒ:۱۶۷۲۔ مسند احمدؒ:۵۱۱۰۔ صحیح ابن حبانؒ:۳۴۰۸)
کسی کی بھلائیوں اور اچھائیوں کو یاد رکھنا اس وقت زیادہ ضروری ہے جبکہ احسان اور بھلائی کرنے والا صاحبِ ایمان ہو۔ اسی طرح یہ اس وقت بھی ضروری ہے جبکہ وہ ہمارا دینی بھائی نہ ہو، صرف انسانی بھائی ہو۔ مطعم بن عدی اور ابوطالب دونوں کی وفات بہ حالتِ شرک وکفر ہوئی، لیکن اس کے باوجود اللہ کے رسولﷺ نے ان دونوں کے احسانات کو ہمیشہ یاد رکھا کیونکہ کسی کے احسان کو یاد رکھنا، محسن کی شانِ کریمی کے ساتھ ساتھ احسان لینے والے شخص کی اخلاقی بلندی کا پتہ بھی دیتا ہے۔ سب سے بڑی بات یہی ہے کہ احسانات کو یاد رکھنا ایک محمود صفت وعادت ہے اور انسانی طبائع اس سے محبت کرتی ہیں، جبکہ کسی کے احسان کو بھلا دینا اور طوطا چشمی کرنا ایک مذموم اور مکروہ صفت ہے اور انسانی فطرت اس سے گھن کھاتی ہے۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔