یکساں سول کوڈ قطعاً غیر اسلامی

یکساں سول کوڈ ،قطعا غیر اسلامی

محمد قمر الزماں ندوی
استاد / مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

تقدیر کے پابند جمادات و نباتات
مومن فقط احکام الٰہی کا ہے پابند

اس وقت ہندوستانی مسلمان عجیب و غریب صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں ، مخالف طاقتیں مسلمانوں کو ہر طرف سے خوف زدہ اور ہراساں کرنے کی کوشش کررہے ہیں ، ان کو مجبور و بے بس کرنے کے لئے پوری چال چل رہے ہیں ، دو ہزار چوبیس کے الیکشن میں جیت کے لئے ان کے پاس کوئی مدعا نہیں ملا، تو یکساں سول کوڈ کو الیکشن کا موضوع اور ایشو بنا لیا ہے اور وہ اس پر اگلا الیکشن جیتنا چاہ رہے ہیں ۔ یہ بات یاد رہے کہ یکساں سول کوڈ کا معاملہ صرف مسلمانوں کا نہیں ہے ،یہاں کے بہت سے ذاتی اور دھرم کے لوگوں کے لئے بھی اس میں پریشانی اور دقت کا مسئلہ ہے ،اس لئے مسلمانوں کو جذباتی ہو کر نہیں، بہت ہی دانشمندی اور ذہانت سے اور قانونی چارہ جوئی کے ذریعہ اس چیلنج کا مقابلہ کرنا ہے ۔وہ تو چاہتے ہی ہیں کہ یہ موضوع گرمائے اور ہندؤ مسلم میں خلیج پیدا ہو ،دوریاں بڑھے اور اس کا سیدھا فائدہ اگلے انتخاب میں اس کو ملے ۔۔ بہر حال اس تمہیدی گفتگو کی بعد میں اصل موضوع پر آتا ہوں کہ یکساں سول کوڈ سے کیا کیا نقصانات ہوں گے اور ہمارا ایمان و عقیدہ اور عائلی و معاشرتی نظام کس قدر تہس نہس ہو کر رہ جائے گا، اور خود ملک و قوم کا کتنا نقصان ہوگا ۔ ہم اس موضوع پر حضرت مولانا شاہ منت اللّٰہ رحمانی صاحب رح اور دیگر اکابر کے مضامین اور ان کی تقریروں سے بھی استفادہ کریں گے، تاکہ اس موضوع کا مالہ وما علیہ ہمارے ذہن میں آجائے ،اور ہم سامنے والے کو جواب دے سکیں۔۔۔
الحمدللہ ہندوستانی مسلمانوں کو یہ شرف اور عزت حاصل ہے کہ جب سے اللہ تعالیٰ نے انہیں اس سرزمین پر قدم رکھنے کا شرف بخشا، خدا کی کتاب کو اور پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو ہمیشہ سے وہ اپنے سینے سے لگائے رہے اور صرف یہی نہیں کہ حوادث و واقعات اور طوفان و مشکلات میں اس کی حفاظت کی اور اس کو مٹنے نہیں دیا ۔بلکہ اپنی محنتوں ،مشقتوں اور دیانتوں سے اس میں اضافہ بھی کیا ،مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سے ہمیں جو ، منشور ،دستور ،قانون اور گائڈ لائن قرآن وحدیث کی روشنی میں پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے ملا، ہم اس کو اپنے سینوں سے لگائے ہوئے ہیں اور ان شاءاللہ تعالیٰ قیامت تک سینوں سے لگائے رہیں گے اور اس کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لئے تیار رہیں گے ۔
آج بھی ہندوستان کے مسلمان بیدار ہیں ،ان کے دل میں یہ احساس پیدا ہوچکا ہے کہ وہ اپنے اقدار و روایات اپنے دین و شریعت کے تحفظ کیساتھ وہ ایک عزت و آبرو کی زندگی گزارے گا اور وہ اپنے مسلم پرسنل لا میں جس کی بنیادیں دین و شریعت پر ہیں، اس میں کسی قسم کی تبدیلی کو ہرگز پسند نہ کرے گا ۔ہندوستان کی حکومت کو ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کی کسی حکومت کو قانون شریعت میں مداخلت کا کوئی حق نہیں پہنچتا ۔اس لئے کہ یہ قانون انسان کا بنایا ہوا نہیں ہے،اللہ رب العزت کا نازل کردہ قانون ہے ۔یہ امانت ہے اور مسلمان اس امانت سے دست بردار نہیں ہوسکتا ۔اس امانت کو اپنے سینوں میں لگائے ہوئے زندہ رہنا چاہتا ہے ،ایک مسلمان کے لئے ضروری کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت رکھے اور ان کی لائی ہوئی شریعت پر آخری سانس تک قائم رہے ۔۔
نہ جب تک کٹ مروں میں کعبئہ یثرب کی حرمت پر
خدا شاہد ہے ،کامل میرا ایماں جونہی سکتا
قارئین باتمکین !
یہ بہت بڑا مغالطہ ہے ،جس کو متعدد ذرائع ابلاغ سے پھیلایا جارہا ہے کہ اگر کسی ملک میں ایک ہی طرح کا قانون نافذ کردیا جائے تو ہر طرح کی شکایتیں ہر طرح کی مشکلات ،ہر طرح کی خامیاں ، الجھنیں ،دقتیں اور ہر طرح کی رکاوٹیں ختم ہو جائیں گی ۔اور وہاں امن و امان اور شانتی و صلح و آشتی کی فضا قائم ہوگی ،ہر طرف چین کی بانسری بجے گی کوئی کسی پر اتیا چار اور ظلم نہیں کرے گا ،فرقہ وارانہ کشیدگی اور فسادات نہیں ہوں گے ،سارے لوگوں کے دل مل جائیں گے اور ایک ہوجائیں گے ۔۔لیکن یاد رہے یہ بہت بڑا مغالطہ ہے، جس کو عام کیا جارہا ہے ۔
آپ میں سے اکثر لوگ جانتے ہیں کہ جنگ عظیم میں حصہ لینے والوں کا مذہب ایک تھا ،ان کا قانون ،دستور اور سول کوڈ بھی تقریباً ایک تھا ،لیکن اس کے باوجود آپس میں جو کشاکش ،کشمکش اور غدر شروع ہوئی اور پھر ایک جنگ عظیم کی صورت اختیار کرلی ،لاکھوں جانیں گئیں اور آج تک اس کے اثرات پڑ رہے ہیں ۔یہ کیسے ہوا جب کے ان کا مذہب ،ان کا کلچر ،ان کی تہذیب ان کا اسکول آف ٹھاٹ ایک تھا ،مگر یکساں سول کوڈ اس عظیم جنگ اور عالمی ابتری اور فساد کو روک نہ سکا ۔۔پھر جن کا مذہب الگ ،جن کی تہذیب الگ ،جن کا کلچر الگ ،جن کی روایات الگ ،جن سوچنے کے طریقے الگ اور جن کے محبت و عقیدت کے پیمانے اور طریقے الگ ان کو یکساں سول کوڈ کیسے ملا سکے گا اور باہم مربوط و شیر و شکر کرسکے گا ۔اس سچائی کے باوجود یکساں سول کوڈ کا نعرہ حقائق کو جاننے کے باوجود یہ سمجھا جائے کہ یہ محض سیاسی نعرہ ہے ،اس کے پیچھے سازشی نظریات و افکار کے لوگ منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرہے ہیں تاکہ یہ ملک ایک ہندؤ راج والا ملک بن جائے اور یہاں کی جمہوریت اور رنگا رنگی کا خاتمہ ہوجائے ۔۔
اس لئے اس وقت جو سب سے سنگین مسئلہ مسلمانوں کو درپیش ہے، وہ قانون شریعت مسلم پرسنل لا میں ترمیم و تنسیخ کا ہے ۔مسلم پرسنل لا کو ختم کرنے اور سول کوڈ کے نفاذ کا مسئلہ ہے ۔یہ خطرہ صرف مسلم پرسنل لا ہی کا نہیں، بلکہ مسلمانوں کے نظام میں اور ان کے ملی وجود کا خطرہ ہے ۔میں تو یہ کہوں گا کہ مسلمانوں کی زندگی اور موت کا سوال ہے۔آزادی کے بعد ہی سے یہ سازشیں چل رہی ہیں کہ مسلمانوں کے وجود کو ان کے ملی شعائر اور عائلی شناخت کو ختم کردیا جائے اور یہاں اندلس کی تاریخ دھرا دی جائے ۔۔
آپ جانتے ہیں یکساں سول کوڈ جیسا بھی ہو ،بہر حال غیر شرعی اور غیر اسلامی ہوگا ۔خدا نخواستہ اگر یکساں سول کوڈ ڈالا گیا، تو مسلمانوں کی معاشرتی زندگی ،عائلی نظام بہت الجھنوں میں مبتلا ہو جائے گا اور بہت سے امور اور معاملات میں ہمیں قانون کے ذریعہ مجبور کیا جائے گا کہ ہم جائز اور حلال چیزوں کو بھی چھوڑ دیں اور حرام و نائز کو قبول کرلیں ۔
ہندوستان کے قانون سازوں کا ذہن مغربی سانچوں میں ڈھلا ہے اور قانون بناتے وقت ان کے سامنے کسی مغربی ملک یورپ و امریکہ کا کوئی نہ کوئی قانون رہا کرتا ہے، جو اس کے لئے رول ماڈل ہوتا ہے ۔اس لئے یاد رہے کہ یکساں سول کوڈ پورے طور پر مغربی طرز اور ساخت کا ہوگا ،جس کی ایک مثال ،،ہندؤ کوڈ،، ہے ۔ اگر خداناخواستہ اس ملک میں یکساں سول کوڈ نافذ ہوگا ،حکومت نے یہاں یکساں سول کوڈ بنایا تو وہ موجودہ ہندؤ کوڈ کو یونیفارم سول کوڈ کا نام دے گی ،اسے تھوڑی بہت ظاہری تبدیلی کے ساتھ سول کوڈ بنا دیا جائے گا ۔۔۔ (جاری )

دستور ہند کی دفعہ 25/ اور 26/ میں بنیادی حقوق کا تحفظ دیا گیا ہے ۔لیکن دستور کی دفعہ 44/ باب 4/ میں یونیفارم سول کوڈ بنانے کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ باب رسم و رواج سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ بنیادی حقوق سے،جن کا تعلق رسم و رواج سے آگے مذہب سے ہے ۔اور پرسنل لا کی بنیادیں مذہب سے وابستہ ہیں ۔لہذا ان پر دفعہ /44 کسی طرح اثر انداز نہیں ہوسکتی ۔البتہ جن لوگوں کا پرسنل لا مذہب سے وابستہ نہ ہو، بلکہ ان کا مدار رسم و رواج پر ہو، ان پر دفعہ 44/ اثر انداز ہوسکتی ہے ۔۔
یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی شخص کو قانون شریعت کے خلاف آواز بلند کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا ۔کیونکہ نکاح ،طلاق ،وراثت حضانت ، ،خلع وغیرہ یہ شریعت کے وہ قانون ہیں ،جس میں کسی کو دخل اندازی کا کوئی حق نہیں پہنچتا ۔۔
1935ء میں یہاں کی حکومت نے مسلمانوں کو یہ یقین دلایا تھا کہ جب آزادی کے بعد اقتدار ہاتھ آئے گا، تو حکومت پرسنل لا میں ہرگز مداخلت نہیں کرے گی ۔ڈاکٹر امبیڈکر نے بھی قانون و دستور سازی کے وقت کہا تھا کہ مسلمانوں کی مرضی کے خلاف مشترکہ سول کوڈ نہیں بنایا جائے گا ۔۔۔۔۔لیکن دھیرے دھیرے قول و فعل میں تضاد آنا شروع ہوگیا اور اب اس وقت جو صورتحال ہے وہ آپ لوگوں سے مخفی نہیں ہے ۔اس کے لئے پورا تانا بانا کسا جارہا ہے اور مختلف انداز سے اس کو نافذ کرنے کی تیاری چل رہی ہے اس کے فوائد شمار کرائے جارہے ہیں اور کچھ اپنوں کو بھی استعمال کررہے ہیں ۔۔
میں نے گزشتہ مضمون میں لکھا تھا کہ یونیفارم سول کوڈ یہ کسی طرح ملک کے مفاد میں نہیں ہے ،اس سے قومی یکجھتی پھلے پھولے گی نہیں ،بلکہ متاثر ہوگی ۔اس کوڈ کا جو مجوزہ خاکہ ہے ،اس سے معلوم ہوتا ہے، کہ وہ بہت سے امور میں شریعت کے عائلی قانون سے متصادم ہوگا ۔ جودینی نقطئہ نظر سے مسلمانوں کے لئے قطعا قابل قبول نہیں ہوگا ۔اس کے علاوہ یہ کسی طرح باشندگان ملک کے مفاد میں بھی نہیں ہے۔ کیونکہ ہمارا یہ بھارت دیش مختلف مذاہب اور متنوع تہذیبوں کا ایک گلدستہ ہے اور یہی تنوع اور رنگارنگی اس کی خوبصورتی اور رعنائی ہے ،اگر اس تنوع،رنگارنگی اور ندرت کو ختم کردیا جائے گا تو پھر اس گلدستہ کی خوبصورتی متاثر ہوگی اور یکساں سول کوڈ نافذ کرکے جو خوشنما باغ دکھایا جارہا ہے ،سچائی یہ ہے کہ وہ واقعہ کے خلاف ہے ۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ مسلمان جس طرح نماز ،روزہ ،حج زکوٰۃ اور قربانی جیسی عبادت کو انجام دینے کا مکلف بنایا گیا ہے ،اتنا ہی ان پر ضروری ہے کہ وہ نکاح و طلاق میراث ،عدت ،ولایت ،حضانت اور دیگر عائلی قانون کو اپنی زندگی میں نافذ کرے ۔ اس کے بغیر وہ مکمل مسلمان نہیں ہوسکتا ۔اس لئے پرسنل لا کے سلسلہ میں تمام مذاہب اور مختلف گروہوں کے نقطئہ نظر کی رعایت کرنا ضروری ہے ،اور دستور کی روح بھی یہی ہے ۔
راقم الحروف نے گزشتہ قسط میں یکساں سول کوڈ سے مسلمانوں کو کس قدر نقصان ہوگا اور ان کے ایمان و عقیدہ اور معاشرت اور عائلی زندگی پر کیسا منفی اثر پڑے گا اور ان کو شریعت سے ہٹ کر کس طرح زندگی گزارنی پڑے گی، اس کی کچھ تفصیلات بیان کیا تھا ،اب مزید ان نقصانات کی نشاندھی کی جارہی ہے ۔ مولانا سید شاہ منت اللّٰہ صاحب رحمانی رح لکھتے ہیں ۔:
،، ہندؤ کوڈ کی بنیاد ہندؤ مذہب کی تعلیمات نہیں بلکہ مغربی نظریات ہیں ،مثلا ہندؤ کوڈ کی رو سے شادی کے بعد تین سال تک زوجین یعنی میاں بیوی میں علیحدگی کا سوال پیدا نہیں ہو سکتا ۔اوردونوں میں سے کوئی اگر علیحدگی چاہے تو اسے شادی کے بعد کم سے کم تین سال انتظار کرنا ہوگا ۔ہندؤ کوڈ نے طلاق کا اختیار بھی مردوں سے ختم کردیا ہے اور یہ صراحت کی ہے کہ مرد اور عورت میں سے جو بھی علیحدگی چاہے عدالت میں درخواست دے،عدالت اگر علیحدگی کے مطالبہ کو درست سمجھے گی، تو علیحدگی کرا دے گی ۔یہ سسٹم خدا کے بنائے ہوئے قانون سے صاف طور پر متصادم ہے اور اس سے ٹکراتا ہے۔ شریعت نے یعنی مسلم پرسنل لا نے اس کا پابند نہیں کیا ہے کہ نباہ ہو رہا ہو یا نہیں ،بہر حال تین سال تک زوجین میاں بیوی ایک دوسرے کو برداشت کرتے رہیں ،شریعت نے طلاق کا اختیار مرد کو دیا ہے،خلع اور فسخ کا حق عورت کو دیا ہے ،اس کے لئے مخصوص رکھا ہے ۔اس لئے اس طرح کے قوانین ایک مسلمان کی عائلی زندگی کے لئے حد درجہ نقصان دہ ہیں اور ناقابل برداشت بھی ۔۔
ہندؤ کوڈ میں وراثت کے متعلق بھی دفعات موجود ہیں ۔یہ دفعات بھی اسلام کے قانون وراثت سے ٹکراتی ہیں ۔مثلا ہندؤ کوڈ نے ماں ،بیوی ،بیٹا اور بیٹی کو برابر کا درجہ دیا ہے ۔اگر مرنے والے کے یہ چاروں وارث موجود ہوں تو جائیداد برابر تقسیم کی جائے گی اور سبھوں کو برابر حصہ ملے گا ۔جب کہ اسلام کا نظام وراثت اس وقت یہ ہوگا کہ ان چاروں کے درجات الگ الگ ہوں گے اور ہر ایک کے حصہ کی مقدار کو بھی بیان کردیا گیا ہے ۔
اس طرح ہندؤ کوڈ کا وہ پورا حصہ جو میراث سے متعلق ہے، اسلام کے قانون وراثت سے بالکل الگ اور جدا ہے ۔بہت سے لوگ جو اسلامی قانون کے لحاظ سے حقدار یا زیادہ کے حقدار ہوا کرتے ہیں ،ہندؤ کوڈ کی نظر میں اس کا حصہ کم ہوگا یا نہیں ہوگا ۔اور بہت سے وہ لوگ جو اسلامی قانون کے لحاظ سے کم کے مستحق ہیں یا جنہیں کچھ نہیں ملنا چاہیے وہ ہندؤ کوڈ کے مطابق زیادہ پاسکتے ہیں ۔اسلامی نقطئہ نظر سے اس طرح پر کچھ لوگوں کی حق تلفی ہوگی اور کچھ لوگوں کو بیجا نفع پہنچتا ہے، جو غلط ہے ۔۔دونوں قوانین کے درمیان جو فرق ہے ،اس کی یہ چند مثالیں ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ مغرب سے برآمد کیا ہوا یہ ہندؤ کوڈ مسلم پرسنل لا سے بالکل الگ اور مخالف قانون ہے ۔یکساں سول کوڈ موجودہ ہندؤ کوڈ سے زیادہ الگ اور مختلف نہیں ہوگا ،اس لئے اگر مسلم پرسنل لا کی جگہ یکساں سول کوڈ نافذ کیا گیا ،تو مسلمانوں کی عائلی زندگی کی پوری عمارت ڈھ جائے گی،، -( اقتباس از مضمون مولانا سید شاہ منت اللّٰہ صاحب رحمانی رح ماہنامہ ہدایت جئے پور شمارہ مارچ 2015ء)…(جاری)
نوٹ/ تمام قارئین سے درخواست ہے کہ اس مضمون کو تمام مسلمان بھائیوں تک ضرور پہنچائیں، اس کی روشنی میں تقریر کریں اور اس کو اخبارات میں شائع کرائیں ،نیز ہندی ،اردو اور دیگر علاقائی زبانوں میں اس کا ترجمہ کرکے لوگوں کو شئیر کریں ۔۔۔ امید کہ۔۔۔۔۔۔۔ ۔؟؟؟

اپنی راۓ یہاں لکھیں