ٹیپو سلطان اور اردو زبان و ادب
محمد علقمہ صفدر ہزاری باغوی
سلطان الہند شیرِ میسور ٹیپو سلطان رحمۃ اللہ علیہ (پیدائش١١٦٣ھ مطابق 1750ء، وفات ١٢١٣ھ مطابق 1799ء ) ان ہندستانی حکمرانوں، فرمانرواؤں، سریر آراؤں اور تخت نشینوں میں سے ہیں جو ایک طرف تو حاکمِ دوراں، بادشاہِ وقت، ولیِ عہد اور سلطنت خداداد میسور کے شہ نشیں تھے، وہیں دوسری طرف نہایت جری و بے باک، شہسوارِ کارزار، سیاسی بصیرت، عسکری مضبوطی، مجاہدانہ جذبات و حرارت اور قائدانہ کردار سے معمور تھے، ان کی شخصیت کا ایک وہ پہلو جس میں آپ دلِ درد مند اور فکرِ ارجمند، دینی غیرت و حمیت،فراستِ ایمانی،اسلامی احساسات و جذبات، اور حب الوطنی کے ساتھ ساتھ حب اسلامی سے سرشار نظر آتے ہیں، وہیں آپ کی شخصیت کا ایک دوسرا نمایاں اور ممتاز پہلو وہ بھی ہے جس میں آپ علومِ دینیہ و اسلامیہ میں ماہر،صاحب علم، باکمال عالم، علم دوست، کی حیثیت سے اہلِ علم کے ما بین متعارف ہیں،
آپ کے والد نواب حیدر علی خان (م 1882ء) خود نا خواندہ و نا آموختہ ہونے کے باوصف اپنے لائق و فائق فرزند اور مستقبل کے جاں نشیں کی تعلیم و تربیت کا خصوصی طور پر بند و بست کیا، ان کے لیے جملہ تعلیمی و تربیتی سہولیات و مراعات کی فراہمی میں ایک بہترین کردار ادا کیا، اور عہدِ طفولیت میں ہی ہر فن کی تعلیم ماہرینِ فن اور اصحابِ علم سے دلانے کا انتظام و انصرام فرما دیا، بعدِ ازاں فوجی و جنگی تعلیم، علمِ نجوم، سائینس، طب، انجنئرنگ وغیرہ علوم و فنون میں بھی آپ نے خاص تربیت حاصل کی، گویا کہ دینی و دنیاوی ہر دو علم سے آپ نے اپنی شخصیت کی آبیاری و آبپاشی کی، تا آں کہ آپ کو ان تمام فنون میں مہارت و ملکہ اور دسترس حاصل ہو گیا، مختلف علوم و فنون میں آپ کی استعداد و قابلیت کے ساتھ ساتھ آپ کئی ایک زبانوں کے زباں داں بھی تھے، آپ کی تعلیم یافتہ زبانوں میں اردو عربی، فارسی، کنّڑی، تیلگو، مراٹھی اور انگریزی بھی شامل تھی، اردو زبان اگر چہ آپ کی مادری زبان نا تھی، پھر بھی آپ بلا تکلف اردو میں تقریر و تحریر کی صلاحیت رکھتے تھے، اور وقتاً فوقتاً بہ زبانِ اردو گفتگو بھی فرمایا کرتے تھے،آپ کے والد نواب حیدر علی بھی اردو داں تھے، سرکاری زبان فارسی ہونے کے باوجود بھی عوام اور درباری حضرات اردو میں بھی گفتگو کرتے تھے، اردو زبان میں گفتگو کرنے والے کی کثرت کی بنا پر اردو کی حیثیت سلطنتِ خداداد میسور میں کنّڑی یا مرہٹی زبان سے کچھ کم نا تھی، سلطنتِ خداداد میں اردو زبان نے بہت زیادہ ترقی بھی کی، کیوں کہ سلطنت میں اردو کے بلند پایہ شعرا اور مصنفین رہتے تھے، جن میں کچھ شعرا بیرونِ سلطنت سے آ کر بسے ہوے تھے، اور وہیں مستقل سکونت اختیار کر کے وہیں کے ہو گیے تھے، ان تمام کو سلطنت کے جانب سے سرپرستی بھی حاصل تھی،
ٹیپو سلطان چوں کہ بادشاہِ وقت ہونے کے ساتھ ساتھ علم دوست شخصیت کے بھی حامل تھے، اور آپ کا علمی ذوق بھی غیر معمولی تھا، اس لیے آپ نے از خود یا اپنی سرپرستی میں تقریباً پینتالیس کتابیں تصنیف کروائی، ان میں سے جہاں اکثر کتابیں فارسی میں لکھوائی، وہیں ان میں چند ایسی کتابیں بھی ہیں جن کو اردو کا قالب و جامہ عطا کیا گیا، گویا اس حیثیت سے آپ اردو زبان کے اس زمانے کے خادمین اور محسنین میں سے ہیں جب کہ اردو کے بال و پر ابھی نشو و نما پا رہے تھے، اور یہ اپنی شاخیں ہر چہار اطراف میں پھیلانا ابھی شروع ہی کیا تھا، اردو اپنی پیدائش کے بالکل ابتدائی زمانے نا سہی لیکن ابتدائی زمانے سے بالکل قریب تر زمانے میں تھی،
آپ کی سرپرستی و زیرِ نگرانی میں تصنیف کردہ کتابوں میں سے چند اردو کتابیں جن کا تذکرہ دستیاب ہیں، مندرجہ ذیل ہیں، (١) جلوہ نامہ۔ یہ سلطان ہی کے حکم سے لکھی گئی تھی جس میں شادی بیاہ و دیگر مواقعِ مسرّت کے لیے گیت وغیرہ کو یکجا کیا گیا تھا، (٢) احکام النسا۔ ١٢٢ صفحاتچ پر مشتمل اس کتاب میں بالخصوص عورتوں کے مسائل کے پیش نظر بہ اختصار اس کا حل پیش کیا گیا تھا، جیسے کہ نام سے ہی ظاہر ہے، اس کے مصنف قاضی غلام احمد تھے، (٣) خلاصۂ سلطانی۔ یہ کتاب بھی اردو زبان میں عورتوں ہی مسائل ہی سے متعلق تھی، اس کے مصنف سید امام الدین اور عمر محمد قاضی تھے،اس کتاب کا ایک نسخہ میسور لائبریری میں اب بھی دستیاب ہے، (٤) عروس المجلس۔ ٢٩٨ صفحات پر مشتمل اس کتاب کو بہ حکم سلطان قاضی غلام قاسم صاحب مہدی نے سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر لکھی تھی، یہ وہ چند کتابیں ہیں، جن کو سلطان کے ایماء و حکم پر سلطان ہی کی سرپرستی اور ما تحتی میں اردو زبان میں تصنیف کی گیی تھی، مزید یہ کہ سلطنت خداداد کا فوجی ترانہ بھی اردو میں ہی تھا، جو اس بات پر واضح دلیل ہے کہ وہ اردو ترانہ فوجیوں اور سپاہیوں کے شب و روز کے معمولات میں داخل ہوگا، جن کو ہر ایک فوجی انفرادا اور اجتماعی اپنے زیرِ لب گنگناتا ہوگا،
ٹیپو کے دورِ سلطنت میں اردو زبان کے فروغ و رواج کے تئیں جہاں اتنی ساری تحریری و تصنیفی خدمات انجام دی گئیں، انہیں خدمات میں ایک زریں اور ممتاز کارنامہ وہ ہے جس میں اولیت و سبقت کا سہرا اور اس اختراعی عمل کے ایجاد کا تاج ٹیپو ہی کے سر جاتا ہے، یعنی ٹیپو ہی وہ شخص ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اردو اخبار کا اجرا کروایا، یعنی کہ ٹیپو اردو اخبار کے بانی بھی ہیں،
الغرض ! خلاصۂ تحریر یہ ہے کہ ٹیپو سلطانؒ سلطنتِ خداداد کے شہ نشیں ہونے کے باوصف اردو زبان و ادب کے حوالے سے وہ نمایاں اور ممتاز خدمات انجام دیے ہیں، جن سے چشم پوشی بالکل خلافِ عدل اور غیر مناسب بات ہے، اور جن کے کارنامے تاریخی اوراق و صفحات میں محفوظ ہیں، جن کو فراموش کیا جا سکتا اور نا ہی نظر انداز کرنے کی گنجائش ہے،
اب اختتام پر اردو کا وہ شعر نقل کرنا چاہتا ہوں جو جہاد کے موضوع پر ٹیپو کی لکھوائی ہوئی کتاب تحفۃ المجاھدین میں درج تھے، چند نمونے ملاحظہ ہو۔
برقِ جاں کوہِ گراں پیک اجل دستِ قضا
تیغ و گرز و تیر و تبر و خنجر ہیں ترے نام
ہر ملک کو ورد ہو انّا فتحنا دم بہ دم
جب تو ہو پا ورکاب از بہر قصہ کارزار