(دوسرا حصہ)
یونیفارم سول کوڈ
کے موضوع پر مولانا محمد قمر الزماں ندوی صاحب سے ایک اہم انٹرویو
دانش ایاز رانچی
نائب ایڈیٹر روزنامہ الحیات رانچی
سوال ۔ کیا ہندوستان جیسے تکثیری سماج میں جہاں مختلف مذاہب ،عقائد،نظریات ،آستھا اور مختلف قبائل کے لوگ آباد ہیں ، کیا ایسے میں کامن سول کوڈ کا نفاذ ممکن ہے ؟ کیا قبائلی لوگ اور آدی واسی اور دیگر ذاتی کے لوگ اس پر راضی ہوں گے ۔؟ کیا یہ کوڈ اس تکثیری سماج کے لئے مفید ہوگا ؟
جواب ۔
کامن سول کوڈ ملک کے کسی بھی مذہب ،ذاتی اور دھرم کے حق میں بہتر اور مفید نہیں ہے ،اس سے استحکام اور بھائی چارہ کے بجائے دوریاں پیدا ہوں گی ،ناخوشگواریاں اور تلخیاں بڑھیں گی ، کیونکہ یہ ملک مختلف مذاہب اور تہذیبوں کا گلدستہ اور سنگم ہے، اور یہ ملک کئی مذاہب کی آستھا اور اعتقادات سے جڑاہوا ہے۔ایسے ملک میں جہاں ہر مذہب کے ماننے والے کے الگ الگ اپنے اپنے مذہبی اعتقادات، ملی شعار اور ریتی رواج ہوں ۔ان کو ختم کرکے کسی ایک سول کوڈ کے تابع بنانا ،مذہبی اور عقلی طور پر مناسب نہیں ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی جی کے بھوپال کی تقریر سے یہ بات بالکل واضح ہو گئی ہے کہ یکساں سول کوڈ کا اشو انہوں نےصرف انتخابی امکانات کے پیش نظر رکھ کرہی کیا ہے ، اور یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ بی جے پی کو اپنے ووٹ فیصد کم ہونے کا خوف ہے اور اسی لئے یکساں سول کوڈ کے بہانے مسلمانوں کو نشانہ بناکر وہ اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنا چاہتی ہے اور اس کو صرف ہندؤ مسلم کارڈ بنانا چاہتی ہے ، اعظم شہاب صاحب نے اپنے یکم جولائی کے مضمون میں سچ لکھا ہے کہ ،،سچائی یہ ہے کہ ملک کی سالمیت یا اتحاد کے لئے نہیں،بلکہ بی جے پی کو انتخابات میں خود کو ہندوؤں کا مسیحا بتا کر ان کا ووٹ حاصل کرنے کے لئے یو سی سی کی ضرورت ہے۔دلچپ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ یو سی سی کی مار سب سے زیادہ ہندوؤں پر پڑے گی ،جھنیں اس بھرم میں مبتلا کردیا گیا ہے کہ یہ مسلمانوں کے خلاف ہے ۔ورنہ ہندوتوا وادی طاقتیں جو نظریاتی بے چینی کی وجہ سے احساس کمتری میں مبتلا رہتی ہیں، ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ مسلمانوں اور ان کی شناخت کو ہندؤ مذہب و ہندو سماج کے لیے ایک خطرے کو طور پر پیش کرے۔ ۔
سوال :۔مسلم پرسنل لا بورڈ نے مسودہ تیار کرکے لا کمیشن کو بھیجنے کا فیصلہ لیا ہے اور اس نے کہا ہے کہ ہم اس کے لئے آخری حد تک قانونی لڑائی لڑیں گے ۔ آپ کی رائے اس بارے میں کیا ہے ؟
جواب ۔
مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس سلسلہ میں جو موقف اختیار کیا ہے کہ وہ اس کے لئے آخری حد تک قانونی لڑائی لڑیں گے اور مسلم پرسنل لا بورڈ اپنا مسودہ لا کمیشن کو بھیجے گا ۔ یہ ایک بہترین اقدام اور فیصلہ ہے، کیونکہ جمہوری ملک میں عدالت یہ تیسرا ستون ہوا کرتا ہے ۔ ۔
اس لئے تمام مسلم اداروں، تنظیموں ،جمعیتوں، جماعتوں ، اور انجمنوں کے ذمہ داران کو چاہیئے کہ اس بارے وہ سب ایک متفقہ رائے پر قائم رہیں ،مسلم پرسنل لا بورڈ کے جھنڈے تلے متحد و متفق ہوجائیں ،اسی کی قیادت میں لائحہ عمل تیار کریں اور ملک کے دیگر مذاھب کے دھرم گروؤں اور مذہبی لوگوں سے اس بارے میں رائے اور مشورہ کریں اور یہ احساس دلائیں کہ یہ مسئلہ صرف مسلمانوں کا ہی نہیں ہے، اس میں سب لوگ زد میں آرہے ہیں، ۔یکساں سول کوڈ کے نفاذ سے سبھوں کا نقصان ہے، بلکہ سب سے زیادہ نقصان ایس سی ،ایس ٹی ،آدی واسی اور قبائلی لوگوں کا ہے ۔۔
سوال ۔بہت سی مسلم جماعتیں، ادارے اور جمعیتں اپنے اپنے طور پر احتجاج درج کرا رہے ہیں ،جبکہ ابھی لاکمیشن کی طرف سرکلر جاری بھی نہیں ہوا ہے ۔آپ اس بارے میں کیا کہیں گے ۔
جواب ۔ بعض مسلم جماعتوں،تحریکوں اور اداروں کی طرف سے قبل از وقت احتجاج درج کرانے کی اپیل کرنا اور اس کے لئے سوشل میڈیا پر تشہیر کرنا ،اور سستی شہرت حاصل کرنا ،کریڈیٹ حاصل کرنے کے لئے نوجوان فارغین کو استعمال کرنا یہ بہت غیر دانشمندانہ عمل ہے ،اس سے احتیاط کرنا چاہیے ۔لاکمیشن کی طرف ابھی سرکلر جاری بھی نہیں ہوا اور کامن سول کوڈ کی صورت کیا ہوگی؟ اس کا خد و خال کیا ہوگا؟ ،اس سے پہلے ہی احتجاج درج کرانے کی اپیل کرنا کہاں تک درست ہے ،ذرا ان لوگوں کو سوچنا چاہیے ۔۔۔جب کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے یہ اعلان بھی کردیا تھا کہ لاکمیشن کی طرف سے سرکلر جاری ہونے کے بعد ہی لوگ احتجاج درجہ کرائیں ۔۔
سوال ۔ یکم جولائی کی خبر کے مطابق اتراکھنڈ بی جے پی حکومت کی طرف سے تشکیل کردہ کمیٹی نے جسٹس رنجنا پرکاش کی سربراہی میں مجوزہ یکساں سول کوڈ کا مسودہ تیار کرلیا ہے اور اسے جلد ہی حکومت کو پیش کئے جانے کا امکان ہے ۔ آپ اس کے بارے میں کیا کہیں گے ،یہ مجوزہ بل کیسا ہے ؟
جواب ۔اتراکھنڈ کا مجوزہ یکساں سول کوڈ بل شریعت اسلامی سے متصادم ہے ،جسٹس رنجنا پرکاش کی کمیٹی نے جس مجوزہ یونیفارم سول کوڈ کا مسودہ تیار کیا ہے ۔ اس میں شریعت سے متصادم جو چیزیں ہیں وہ یہ ہیں کہ طلاق میں مرد و خواتین کو یکساں اختیارات ہوگا ۔حلالہ ،عدت پر پابندی ہوگی ۔وراثت میں بیٹا بیٹی ماں اور بیوی سب کا برابر حق ہوگا اور شادی کے لئے رجسٹریشن لازمی ہوگا ۔۔لڑکیوں کی شادی کے لئے عمر میں اضافہ ہوگا ۔غرض اس مجوزہ مسودہ میں جو تجاویز ہیں وہ شریعت کے کئی قوانین سے متصادم ہیں ،جس سے مسلمانوں کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ اور بھی بہت سی چیزیں اس میں درج ہیں ،جس مشکلات بڑھیں گی ۔ مثلا بچوں کی تعداد بھی دو کئے جانے کی تجویز ہے ممکن ہے کہ اس میں اس کا اضافہ ہو کہ زیادہ کی صورت میں ووٹ کے حق سے محروم کردیا جائے ۔،میاں بیوی کے درمیان جھگڑے کی صورت میں بچے کی تحویل دادا دادی کے پاس جائے گی ۔
سوال ۔ کیا اس ملک کے تمام ریاستوں میں قانون دستور اور ضابطہ بالکل یکساں ہیں یا الگ الگ ریاستوں میں بعض مخصوص حالات اور قبائلی اور جغرافیائی صورت حال کی وجہ سے کچھ فرق و امتیاز بھی ہے؟ ۔۔ جب کہ وزیراعظم صاحب کا کہنا ہے کہ ایک گھر 🏠 میں دو قانون نہیں چل سکتا ،اس کے حوالے سے آپ اس سوال کو سمجھائیں ۔۔
جواب ۔یہ ملک 75/ سال سے بغیر یو سی سی کے چل رہا ہے ۔ اس ملک کے قانون بنانے والوں نے علاقائی ،جغرافائی اور قبائلی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے بعض صوبے کے لئے دوسرے صوبے سے الگ قانون بنایا ہے ۔اس کے پیچھے بہت سی مصلحتیں تھیں اور ہیں ۔ اس ملک میں ایسے کئی قوانین ہیں جو مختلف ریاستوں کو خصوصی درجہ دیتے ہیں بلکہ ایک دوسرے سے متضاد و مخالف بھی ہیں ۔مثلا آرٹیکل 371/ جو مہاراشٹر اور گجرات کے گورنر صاحبان کو ریاست کے کچھ مقامات کی تعمیر و ترقی کے لئے خصوصی اختیار دیتا ہے۔جبکہ یوپی ،بہار ایم پی جیسی ریاستوں کے گورنر صاحبان کو یہ اختیار قطعا حاصل نہیں ہے ۔یہی آرٹیکل 371/ کچھ دیگر تشریحات کے ساتھ ناگالینڈ ،آسام منی پور آندھراپردیش تلنگانہ ،سکم ،میزروم اروناچل پردیش اور گوا کو بھی خصوصی اختیارات دیتا ہے ،جموں کشمیر کو ابھی کچھ دنوں پہلے تک خصوصی درجہ آرٹیکل 370/ حاصل تھا جو ایک دو سال ختم کردیا گیا ۔تریپورہ کے لئے آرمڈ فورس اسپیشل پاور ایکٹ ہے جو وہاں کی فوج کو خصوصی اختیارات دیتی ہے ۔ جس کے خلاف برسوں سے احتجاج ہورہا ہے ۔ان خصوصی قوانین کے علاوہ آپ غور کیجئے ایک ملک ایک ٹیکس کے نام پر جو جی ایس ٹی نافذ کی گئی ہے وہ ملک میں یکساں نہیں ہے بلکہ اکثر ریاستوں میں اس کے لئے الگ الگ درجے اور زمرے ہیں ۔اور ان سب سے بڑھ کر ذرا اس نکتہ پر غور کریں کے ملک کے آرٹیکل 369/ کے تحت مرکز کو اس بات کا مکمل اختیار ہے کہ وہ جس ریاست میں جیسا مناسب سمجھیں وہاں کے لئے خصوصی قانون بنا سکتا ہے ۔
اس کو ہم ایک اور مثال سے سمجھاتے ہیں ،ہندی ملک کی قومی زبان ہے ،اس اعتبار سے پورے اکنھڈ بھارت کی سرکاری زبان ہونی چاہئے لیکن دلچسپ اور مزے دار بات یہ ہے کہ یہاں بھی زبردست اختلاف ہے ،مختلف ریاستوں میں زبان کی پالیسی مرکزی پالیسی سے علیحدہ ہے ۔مثلا کرناٹک کیرلا تمل ناڈو میں ریاستی زبانوں کو سرکاری درجہ حاصل ہے ۔ اس کی مخالفت بھی ہوئی لیکن یہ سب احتجاج ناکام ثابت ہوئے۔تمل ناڈو میں تو اینٹی ہندی ڈے بھی منایا جاتا ہے ۔شراب اور گائے کے ذبیحہ سے متعلق بھی الگ الگ ریاستوں میں الگ الگ قانون ہیں، بہار میں شراب پابندی ،پڑوس جھارکھنڈ میں اس کی اجازت ۔ موجودہ برسر اقتدار پارٹی گائے کے ذبیحہ پر پابندی کو اپنی سب سے بڑی حصولیابی سمجھتی ہے اور اس کو ووٹ بینک کے طور پر استعمال کرتی ہے،لیکن حالت یہ ہے اروناچل،میزروم ،میگالیہ ،ناگالییڈ تریپورہ سکم ،کیرلا مغربی بنگال اور گوا جیسی ریاستوں میں اس پر کوئی پابندی نہیں ۔ان میں تو کئی ریاست میں انہیں کی حکومت ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ ایک ملک کے الگ الگ صوبے میں الگ الگ قانون ہیں اور الگ الگ رعایتں ہیں الگ الگ زبانیں ہیں اور اس کے باوجود ملک ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے اور ملک کی سالمیت و اتحاد پر فرق نہیں پڑ رہا ہے ،تو پھر مختلف مذاہب کے ماننے والے اگر اپنے اپنے دھرم اور ریتی رواج اور آستھا کے مطابق اپنی زندگی گزاریں، جس کا آئین میں پورا حق دیا گیا ہے تو کیا یہ ملک ترقی نہیں کرے گا ،وکاس نہیں کرے گا ،آگے نہیں پڑھے گا دوسرے کے ریس میں نہیں کھڑا ہوگا ،سچائی یہ ہے کہ اس مسئلہ کو جذباتی انداز سے دیکھا اور پیش کیا جارہا ہے اور اس کے پیچھے حصول اقتدار کی ہوس ہے نہ کہ ملک کی ترقی اور سالمیت کی فکر ۔
نوٹ :۔انٹرویو کا آخری حصہ کل ملاحظہ کریں ۔ دانش ایاز رانچی روزنامہ الحیات رانچی