کپور کا فن
(کپور ایک تنقیدی و تحقیقی مطالعہ)
احمد جمال پاشا
اس انشائیے میں احمد جمال پاشا نے کنہیا لا کپور کے فن کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔جس کا انداز مزاحیہ ہے۔یعنی یہ حقیتاً ان کے فن کا جائزہ نہیں۔ اس انشائیے میں احمد جمال پاشا نے پروفیسر رشید احمد صدیقی،پروفیسر کلیم الدین احمد،ڈاکٹر عبادت بریلوی ،قاضی عبد الودود صاحب کی طرزِ تحریر کو سامنے رکھتے ہوئے کنہیا لاکپور کے فن پر تبصرہ کیا گیا ہے ۔خیال رہے کہ مذکورہ محققین کی رائے کنہیا لا کپور کے متعلق وہ ہر گز نہیں جو ذکر کیا گیا ہے۔
جو ادیب طنز نگار ہیں ان میں سے ایک آدھ سے مجھے بار بار ملنے کی خواہش ہوتی ہے۔ ان میں سے یہ حضرت کپور بھی ہیں۔ کپور کی گرفت مجھ پر اس وجہ سے ہے کہ وہ ایک مزاح نگار اور طنزنگار ہیں۔ اس کے باوجود ایسے ہیں جیسے کہ عام طور پر ہم اور آپ ہوتے ہیں۔ تنقید میں لوگ کبھی انہیں اچھا کہتے ہیں، کبھی برا، مجھے یہ دونوں باتیں ناپسند ہیں۔آرڈی نینس کسے پسند ہوتے ہیں۔ الٹی چیز سیدھی یا سیدھی چیز الٹی نظر آئے تو کوئی تعجب نہیں مگر حیرت ضرور ہوتی ہے کیوں کہ طنزنگار کا تقاضہ ہے کہ وہ یک رنگی میں ظرافت اور ظرافت میں یک رنگی پیدا کرے۔ اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ اردو ادب نے ہم کو کیا دیا تو میں تین نام لوں گا۔ غالب،اقبال اور کپور۔ غالب اور اقبال کی خطا اس وقت معاف کیجئے اور کپور کی بات کیجئے۔ جو طنز نگار اپنے قاری کو اپنا ہمراز و دم ساز نہ بنا سکے وہ طنز نگار نہیں،مولوی یا لیڈر ہوگا! خود جل کر دوسروں کو ہنساتے ہیں۔ کڑھنا اور ہنسنا وہ امتیاز ہے جو ان کے سوا کہیں نظر نہیں آتا۔ زمانے نے طنز نگاروں کے ساتھ کبھی اچھا سلوک نیں کیا۔ اس لیے کہ طنز نگار خود زمانے کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے۔ یہ بات ہمیشہ بھول جانی چاہیے۔ طنزنگاروں پر کبھی بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔
مجھے یہاں وہ باتیں ثابت نہیں کرنی ہیں جو ابھی ابھی کہی گئیں ہیں۔ ان کے بہت سے مضامین ایسے ہیں جن پر خون خرابہ ہو سکتا ہے، خون زیادہ خرابہ کم۔ ایسے ہی مضامین پر میں سر دھنا کرتا ہوں۔ یہی تاثیر دلیری اور دلبری دونوں کا باعث ہوتی ہے۔ ان کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے طنز کو ہمارا کلچر اور ہمارے کلچر کو طنز بنا دیا۔ طنزیات و مضحکات میں طنز کا یہ تصرف دوام مبارک سمجھا جائے یا نہیں حیرت انگیز ضرور ہے۔ انھوں نے طنز کی وضاحت کی ہے امامت کا دعوٰی نہیں کیا ہے۔ یہ وہی طنزنگار کر سکتا ہے جس کی گرفت زندگی پر ہو نہ کہ وہ جو زندگی یا طنزنگاری کی گرفت میں ہو۔ اس گرفت میں کپور ایسے آئے جیسے فلمی گانوں کے درمیان اور دوران میں پکے گانوں کا کوئی استاذ وارد ہوجائے۔ کپور دو اور دو پانچ مانتے ہیں، ریاضی سے یہ لگاؤ دوسروں کو ناگوار ہو تو ہو، مجھے گوارہ ہے۔ (بہ طرز پروفیسر رشید احمد صدیقی)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کپور کی طنز نگاری ہمارے ادب کے تہذیبی سرمائے کے اس سماجی اظہار سے منسلک ہے جو معاشی و معاشرتی حالات اور میکانکی قوت نقد کے ارتقاء کی جد و جہد، تخلیقی عمل اور جمود کے سماجی ٹکراؤ سے انفرادی پسندیدگی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ اس کا عمرانی مفہوم میرے نقطۂ نظر کے فلسفیانہ ربط اور اشتراکی حقیقت نگاری کی طبقاتی کشمکش کے اجتماعی شعور میں عام ہے۔ یہ ریاضیاتی تناسب اور مابعد الطبعیات کے لاشعوری تضاد کے بعد المشرقین میں مل جائے گی۔ کبھی کبھی یہ بعد المغربین کی نامیاتی صورت میں بھی ظاہر ہوتی ہے، مگر اجتماع ضدین مارکسی نقطۂ نظر سے قطعی غیر منطقی ہے، کیونکہ اس کے مثبت و منفی اثرات اپنے سطحی مفہوم کی توضیح کے لیے مروجہ عصری روایات کی مادیت، ہیئت اور مواد کی گتھیوں میں الجھ کر رہ جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی تاریخی جبریت کی عینیت پرستی جو ادب برائے زندگی کی ترویج میں زمان و مکان کو اپنی گرفت میں لاکر رجعت پرستی کا تاریخی تجزیہ کرتی ہے۔ تاریخی مادیت کے سماجی محرکات کی سطحی خارجیت کی داخلی کثافتوں سے آلود ہو کر اپنے مبہم مفہوم میں سماجی ڈھانچے کو پیش کرتی ہے۔ کپور کی واقعیت کا جامد تصور ان کے مزاحیہ نصب العین کی توجیہ کر دیتا ہے۔ طنز و ظرافت کی یہی مادی کشمکش سماجی نظام کی حکیمانہ پیروڈی پیش کرتی ہے۔ اس سے سماجی پیچیدگیوں کے مافوق الفطرت مسائل پر روشنی پڑتی ہے اور بین الاقوامی بورژ وا سماج کے مخصوص فلسفہ حیات کی ذہنی کشمکش دلتاری طبقے کے طبقاتی شعور کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ حاکم اور محکوم کی یہ کشکمش ان کے طنز کا نشانہ ہے۔”( بہ طرز پروفیسر احتشام حسین)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
” اردو میں طنزیات کا وجود محض فرضی ہے۔ یہ صفر کا نقطہ خیال یا زیبرے کے موہوم کمر۔ اس طرز کے طنز اور صحیح ظرافت میں فرقِ مشرقین ہے۔ یہ فرق یہاں کم معلوم ہوتا ہے، مگر دوسروں کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ ہے۔ یہ دلچسپ ضرور ہے لیکن اسے ظرافت سے کوئی خاص لگاؤ نہیں۔ اس کے پیش کرنے سے طنز و ظرافت کی اہمیت میں اضافہ ممکن نہیں۔ اس لحاظ سے یہ اوروں پر فوقیت رکھتا ہے۔ دنیائے طنز میں اس کی وہی اہمیت ہے جس کی حامل پطرس کی ظرافت ہے۔ یہ گویا مزاح کا بلند ترین نقطہ ہے۔ اس سے آگے فکر کی رسائی نہیں۔ اس محدود طاقت پر پروازکا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ تفصیل کی یہاں نہ گنجائش ہے نہ ضرورت، نہ وقت۔ غالباً یہ پطرس کو دیکھ کر میدان میں آئے، مگر افسوس کہ ان پطرس کے محدود اوصاف کا بھی مطلق پتہ نہیں۔ ان کی کتابوں کے دیباچے پڑھنا گویا جہاد کرنا ہے۔ لیکن اس جہاد سے بھی کوئی دینی یا دنیوی فائدہ متصور نہیں کیونکہ ان کے خیالاتِ ماخذ، واقفیت محدود، نظر سطحی، تخیل ادنیٰ، علمیت غائب، شخصیت اوسط، املاغلط، انشا غلط، برخودغلط، پھر کورانہ تقلید میں مثلِ آفتاب روشن۔ اس کا خیال بھی نہیں ہوتا کہ ان سے اور روحِ طنز سے کوئی لگاؤ بھی ہے۔ نظر حسب معمول جسم پر ہے۔ دوسرے کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ ان کی عینک مانگے کی ہے۔ آواز اپنی نہیں محض ایک صدائے بازگشت ہے۔ یہ آواز اردو طنز کی تکمیل ہے۔
یہاں جو کچھ لکھا جائے گا اس سے ان کی تحقیر مقصود نہیں۔ ان کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ یہاں صرف اتنا کہنا کافی ہوگا کہ ان کی نظری سطحی ہے۔ اسی وجہ سے ان کے قاری کو ذہنی جمنانسٹک کی ضرورت پڑتی ہے۔ مگر ان تمام باتوں کے باوجود کسی نے اب تک ‘نرم گرم’ سے بہتر کارنامہ پیش نہیں کیا۔ یہ خیال کہ ‘نرم گرم’ اردو میں طنز و ظرافت کا بہترین کارنامہ ہے نہایت حوصلہ شکن ہے۔ جس کو یہ طنز کہتے ہیں اس کا ظرافت سے دور کا لگاؤ بھی نہیں ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ طنز و ظرافت کے بیچ میں معلق ہیں۔ ان کی ہمیت باوجود قابلِ قدر اضافوں کے بہت زیادہ نہیں۔ ان کی وقعت مشاعروں کے سبحان اللہ سے زیادہ نہیں۔ اس کا سبب ان کی مزاحیہ کج روی کے سوا کچھ نہیں۔ انی حیثیت ایک ایسے طالب علم کی جیسی ہے جن کی شخصیت ایسی ہے جیسی کہ عام طور پر شخصیت ہوا کرتی ہے۔ جو ان کی قوتِ ایجاد کی کمی ظاہر کرتی ہے۔ ان کے مضامین پڑھنے کے لیے ایک عمر چاہیے۔ یہ ایک طالب علم کے کارنامے جو قابلِ رشک ہیں۔ یہ مضامین اتنے شگفتہ و دل بہار ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مصنف اس کا اہل نیں کیونکہ یہ عمر طبعی پر پہنچنے سے قبل ہی مصنف بن بیٹھے۔ یہ مضامین اسی عجلت اور کمی کا نتیجہ ہیں۔ اس سے ان کی مزاحیہ بوکھلاہٹ کا پتہ چلتا ہے۔ اس قسم کی بوکھلاہٹ کو دلیر بنا دیتی ہے اور وہ ایسی حرکتیں کر بیٹھتا ہے جس سے فرشتے لرزتے ہیں۔ اور نقاد قلم اٹھاتے ہیں”۔ (بطرز پروفیسر کلیم الدین احمد)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
” مجھےــــــ یہ کہنا ہےــــــ کہ ــــــ کپورــــــ کے مضمامین میں جو وہ لکھتے ہیں، وہ مضامین اور ان کے دوسرے مضامین جو طنزیہ و مزاحیہ ہوتے ہیں، ان مضامین میں میرے خیال میں جہاں تک میں نے ان کا تنقیدی تجزیہ کیا ہے اور میں جن نتائج پر باترتیب پہنچا ہوں ان سے صرف ایک ہی نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ مضامین اپنی جگہ پر ایسے مضامین ہیں جن میں میری دانست میں طنز ہے یعنی ان مضامین میں طنز ہےــــــ طنزــــــ میں یہ کہتا ہوں کہ ان مضامین میں اپنی جگہ پر جیسا کہ لکھ چکا ہوں طنز ہے۔ ایسا طنز جو سودا، غالب، اکبر، رشید احمد صدیقی، فرحت اللہ بیگ، پطرس، شوکت تھانوی، سعید محمد جعفری، شفیق الرحمٰن ، غلام احمد، فرقت اور کنہیالال کپور کے یہاں پایا جاتاہے۔ اور جس کی بے شمار مثالیں مغربی ادب سے پیش کی جا سکتی ہیں۔ مثلاً پوپ، سوئیفٹ،لیوکاک،مارک ٹوئن وغیرہ کے یہاں جابجا آپ کو ملے گا۔ اور قدم قدم پر ملے گا۔ یہی وہ طنز ہے جس سے کپور اپنے مضامین میں طنز کا احاطہ کرتے ہیں۔ یعنی اپنے مضامین میں طنز کو جگہ دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کے یہاں طنز آ جاتا ہے۔ دوسرے معنوں میں یوں سمجھیے کہ پیدا ہو جاتا ہے۔ ایسا طنز جو دیکھنے میں عام طور پر طنز معلوم ہو اور جوکہ اپنی جگہ پر سوائے طنز کے اور کچھ نہ ہو۔ یہ بڑی اچھی بات ہے اور ہر جگہ اس بات کا ہونا مشکل ہے۔ مگر پھر بھی انہوں نے اس مشکل کو بخوبی نبھا دیا ہے۔ نبھانا بھی ایک آرٹ ہے اور اس آرٹ میں مجھےـــــــ طنز ملتا ہے طنز۔ لہذا اس سے یہ بات بخوبی واضح، ثابت، روشن اور صاف ہوجاتی ہے کہ ان کے یہاں قاری کے علاوہ ناقد کو بھی بہ آسانی طنز دستیاب ہو جاتا ہے۔اس طنز کو جو ان کے یہاں ہے ہم سوائے طنز کے اور بھلا کہ بھی کیا سکتے ہیں، جوکہ طنز ہے یعنی طنز ہی ہے۔ اگر کچھ اور ہوتا تو بھی طنز ہوتا۔ طنز کا ہونا اس امر کی دلیل اور کلی شہادت ہے کہ ان مضامین میں ہم کو طنز مل جاتا ہے۔ ابھی میں نے دلائل و شواہد سے اس بات کو واضح کیا ہے کہ طنز نگار کپور کے یہاں مجھے طنز ملتا ہے، جس میں ظرافت کی چاشنی مغربی کے اثر سے آتی ہواور بجسہ موجود ہے۔ جس کی وجہ سے میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ ان کے یہاں جو چیز ہے وہ سوائے طنز کے اور کچھ نہیں ہو سکتی۔ میرا دل گواہی دیتا ہے کہ یہ طنز ہے۔ یہ موقع تفصیل میں جانے اور بحث کو طول دینے کا نہیں، اس لیے مختصراً عرض کرتا ہوں کہ ان کے یہاں طنز ہے جس کے لیے قسم خدا کی اب میں حلف اٹھانے تک کو تیار ہوں کہ انے یہاں طنز ہے”۔ (بہ طرز ڈاکٹر عبادت بریلوی)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اس مخطوطے کو اختلاط طباعت کی کثرت کی وجہ سے کالعدم سمجھا جائے اس لیے میں اس سے استشہاد نیں کروں گا، اقتباس بالا 92 سطر 20 خط میں جو میں نے اپنی خوش دامن کو تحریر کیا تھا۔ حاشیہ نمبر7 مجھے بانکی پور لائبریری میں ایک مخطوطہ بوسیدہ اور سقیم حالت میں کپور کا مضامین کا مل گیا ہے۔ خاندان میں جملہ پرسانِ حال کو اس کی خوش خبری پہنچادوں کہ فی زمانہ اس سے جہاد میں مصروف ہوں۔ اندازہ ہے کہ اس کا تعلق بیسویں صدی کے نصف آخر سے ہے۔ جزوئی باتوں سے قطع نظر 12 کتابوں کے 74 دفتروں میں ایک نسخہ اور بھی ناقص مقدمہ ص،101 نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر اس کو تسلیم نہ کیا جائے تو مصنف کے ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حاشیہ’ دھوبی کی کھیپ’ صفحہ 7 سطر5 باوجودیکہ مضامین طنزیہ ہیں اور ظرافت کے باب میں اضافہ کر سکتے ہیں، مگر افسوس یہ کہ ان میں جابجا مصدر کی علامتیں واضح نہیں کی گئ ہیں۔ صفت مشتبہ حالت میں ملتی ہے۔ کتاب میں صرف ایک بار ان کا استعمال ملتا ہے۔ اس سے مراد غالباً کاتب ہے جس کو شارحین نے کتابت کا غلط مطلب اخذ کرکے نہ جانے کیا قرار دے دیا ہے(ج چ ص11) صحت سے بعید ہے۔ یہ نسخہ بیسویں صدی سے متعلق ہے۔(چ غ5/3) جہاں تک میرا علم ہے مضامین نصاب میں داخل کرنے کے لیے لکھے گئے ہیں۔ ‘ ہنگامۂ تحریر’ نسخۂ تبریزی مطبوعہ الناظر جلد ہشتم 11 حوالہ بلا سند کے ہیں اس وجہ سے اسے مسترد سمجھا جائے۔ یہ مسئلہ ما بہ النزاع ہے کیوں کہ کسی مستند فرہنگ میں اس کا حوالہ نہیں ملتا۔ یہ مہملات کا ایک نادر مجموعہ ہے جو 22*12 فٹ کے 662رم صفحات پر مشتمل 170سطر فی صفحہ اب بھی مل جاتے ہیں، مگر نایاب ہیں۔ اس سلسلے میں ایک خط کا اقتباس قابلِ توجہ ہے۔ ‘میرا خط میرے نام’ رسائل میں شائع کروانے کی غرض سے تحریر کیا گیاتھا۔ اب تک کئی سال ناموں میں معمولی سی رد و بدل و ترمیم کے ساتھ شائع ہو چکا ہے۔ حافظے کے لیے ملاحظہ ہو رسالہ ، نرالی دنیا، الٹی دنیا، سیدھی دنیا اور ہنگامی دنیا۔ اس کے بعد چھپنے کی نوبت نہیں آئی کیوں کہ ہنگامہ ہو گیا تھا، گوکہ میرے اعتراضات سنگین وصحیح ہیں۔ ملاحظہ ہو” گھریلو جھگڑے ،ص:123۔ موٹر گائیڈ 12۔ کرامات الّو عرف کالاجادو یعنی ساجن موہنی 22۔
اصولی بحث میں یہاں صرف چند اعتراضات پر اکتفا کروں گا۔مثلاً کتاب کے صفحہ 34 سطر 31 میں ‘لا’ کا غلط استعمال کیا گیا ہے جس کے لیے مصنف کی تنبیہ ضروری ہے اور ہماری بحث سے خارج ، کیوں کہ اس کو معاف کرنے پر بھی اعتراض ہر گز رفع نہ ہوگا۔ پھر سند تو قطعی غلط ہے۔ حروف تہجی کی ترتیب سرے سے غلط ہے۔ ابجد کے لحاظ سے کتاب کا پہلا لفظ’ الف ‘سے شروع کرنے کے بجائے ‘یے’ سے شروع کیا گیا ہے۔ مصنف سخت تنقید کا مستحق ہے۔ 9/8/7/6/5/4/3/2/1/ ا س بات کو معترض الیہ کی جانب ہر گز نہ منسوب ہوناچاہیے۔ اس کے مایوس کن رویہ سے برانگیختہ ہو کر فحش دشنام سے کام لینا یہ بھی ایک کام ہوگا۔ اس قسم کے کاموں کی سخت ضرورت ہے۔ جن تحقیق کے شہسواروں نے اس نسخے پر اب تک بھروسہ کیا، ان کے ساتھ تنبیہی کاروائی کا ہونا سخت ضروری ہے۔ الفاظ سے جابجا مترشح ہوتا ہے کہ سہو کا زماً روا رکھا گیا ہے۔الف……ب پ ت ٹ ث،ج چ ح خ، د ڈ ذ، ر ز ژ، س ش، ص ض، ط ظ، ع غ، ف،ق،ک،گ،ل،م،ن،و ،ء،لا،ھ،ی،ے،12،11،10،9،8،7، مثلاً ‘ج’ کی جگہ ‘ح’ کا استعمال کم از کم 17 جگہ صریحاً کیا گیا ہے۔ جس کا نہ تو مزاح سے کوئی تعلق ہے اور نہ کاتب سے۔ یہ کھلا ہوا طنز ہے۔ رسالۂ حمزہ 22،23،24،25، فتح میں ‘و’ اور ‘ط’ نیک الفحت، فی افی تحت، الفتحہ کا مصدرمفارعی سکوت کی حالت میں ملتا ہے۔
مزاح میں مرثیہ کی کیفیت کی ذمہ داری اسی لاابالی پن پر ہے ۔ 25،25 لفظ کی تصغیر میں بامعنی لفظ کثیرالاستعمال محتاج ثبوت و سند کے اعتبار سے خبط کرنے کے لائق ہیں۔ فقراتِ نثر جابجا نسخے میں ملتے ہیں جو قطعاً نامعتبر ہیں۔ عبارتِ ذیل کے نکتے اس سلسلے میں حوالے کے بعد بھی فراموش نہیں کیے جا سکتے ، کیوں کہ ءءءءءءءءءءءءءءءءپس جس سے ثابت ہو جاتا ہے کہ اس نسخے کا تعلق بیسویں صدی سے ہرگز نہیں، بلکہ اٹھارھویں صدی سے ہے۔اور مصنف مرد نہیں کوئی خاتون ہیں جن کی اردو دانی میں ہمیں شبہ ہے ءءءءءءءءءءءءءءءء عروس ضمتین بہ صفحہ اول و صفحہ ثانی میں جا بجا اشتباہ ہے۔ بھر یہ کہ کرۂ ہمزہ بحذف الف لغو اور سراسر مہمل و نامستعمل ، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ خاتون جن کو ہم کپور کے نام سے فی الحال فرض کیے لیتے ہیں ان کے’ سہو طبعی بود’ کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔،50،52،53،54،55،56،57،58،59،65،62،52،42،32،22،2…………ان طنزیات میں ‘ش’ کے ساتھ محترمہ ‘خ’ بھی آئی ہیں اور ‘ب’ کے ساتھ ‘پ’ بھی۔ مگر افسوس کہ ‘ت’ کے ساتھ ‘ٹ’ نہیں ہے۔ ورنہ ان طنزیات کی کچھ اور ہی شان پیدا ہو جاتی۔ ہائے ہوز کی سخت مٹی پلیدکی گئی ہے۔ مصنف خود اس میں اپنے طنز کا نشانہ بن گیا ہے۔ حائے حطی کی ٹھونسم ٹھانس سے طبیعت میں ایک قسم کا بھاری پن اور گراوٹ محسوس ہوتی ہے۔ طنز سطحی ہو کر رہ جاتا ہے۔ دو چشمی ہے اور ہمزہ کے ساتھ بے توجہی کھٹکتی ہے۔ ‘واؤ’ کا کثرت ِ استعمال کلاسی شان کے خلاف ہے۔ اس کو روایت سے بغاوت متصور کیاجائے گا۔
مخترعات مصنوعی جو منافقوں نے بعد میں بطور حاشیہ پیش کیے ہیں، جمع حاضر، واحد متکلم غائب کے صیغے میں چغد کا استعمال نہایت بے باکی سے کیا گیا ہے مگر اس سے محترمہ کا احمق ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ مگر یہ سند ہے کہ بیسویں صدی میں چند سنجیدہ مضمون میں بلا تکلف استعمال کیاجاتا تھا۔ یہ لفظ غریب نہیں تھا، بلکہ سماج میں اس کی اہمیت تھی مگر اس سے غلط فہمی پید ا ہوجانے کا خطرہ ہے۔ اس لیے کوئی مستند لطیفہ پیش کیا جانا چاہیے تھا۔ ضمیر ۔۔۔۔فاعل۔۔۔۔مکل۔۔۔۔صفت۔۔۔۔مصدر۔۔۔۔حرف۔۔۔۔ مفعول۔۔۔۔اس کے بعد یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ زیرِ نظر مخطوطے میں کپور نام کا فرد مرد نہیں، بلکہ عورت تھی اور طنزیہ نگاروں میں یدِ طولیٰ رکھتی تھی، جس کی تاریخی اہمیت اپنی جگہ پر مسلم ہے۔ اس پر مزید تحقیق کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ عورت بھی تھی یا نہیں۔ واللہ اعلم باالصواب۔(بطرز قاضی عبد الودود)
ماخذ:انتخابِ مضامین احمد جمال پاشا،ص: 61۔