غیب کی کنجیاں
عربی تحریر: مُسَلَّم عبد العزیز الزامل کویت
اردو ترجمہ: مولانا مفتی ولی اللہ مجید قاسمی
مشہور کویتی مفکر اور داعی شیخ احمد القطان کہتے ہیں:
ہائی وے پر میں اپنی گاڑی چلا رہا تھا، میرے ساتھ میری اہلیہ اور چھوٹا بچہ عبداللہ تھا جو راستے بھر کھیل کود کرتا رہا، اچانک ایک آواز آئی جس پر ہم نے کوئی توجہ نہیں دی، لیکن جب رات کی تاریکی میں گھر پہنچے تو معلوم ہوا کہ بچے نے گھر کی چابی گاڑی سے باہر پھینک دی تھی اور وہ آواز اس کے گرنے کی تھی، اور ہمارے پاس اس کے علاوہ دوسری کنجی نہیں تھی، اس لیے ہم گھر کے باہر حیران وپریشان کھڑے تھے کہ اب کیا کریں۔
اسی دوران قریب کی مسجد سے اذان کی آواز آئی اور مجھے یاد آیا کہ اس وقت دعا قبول ہوتی ہے، چنانچہ میں نے اذان کے بعد یہ دعا کی:اے اللہ ہمیں اس چابی کا بدل عنایت کر تاکہ ہم اپنے گھر میں رات گزار سکیں۔ میری اہلیہ کو اس دعا پر بڑا تعجب ہوا اور کہنے لگیں: شیخ! یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ ہماری اکلوتی چابی گم ہوچکی ہے، اور میں نے آپ سے بارہا کہا تھا کہ ڈبلی کیٹ چابی بنوالیں لیکن آپ نے توجہ نہیں دی، اب ہم کیا کریں؟ کہاں رات گزاریں؟ میں نے کہا: میں نے اس ہستی کے حضور درخواست پیش کردی ہے جس کے ہاتھ میں غیب کی کنجیاں ہیں جسے اس کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور اس کے بہتر ناموں میں سے ایک نام ’’الفتاح‘‘ اور دوسرا نام ’’العلیم‘‘ ہے، اس لیے وہ کنجی کی جگہ کو بخوبی جانتا ہے جیسا کہ اس نے خود فرمایا ہے:
﴿وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُہَآ اِلَّا ہُوَ۰ۭ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ۰ۭ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَۃٍ اِلَّا يَعْلَمُہَا وَلَا حَبَّۃٍ فِيْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا يَابِسٍ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ۵۹ ﴾ [سورۃ الأنعام:۵۹]
”اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں، اس کے سوا کسی کو غیب کا علم نہیں، وہ خشکی اور دریا کی تمام چیزوں کا علم رکھتا ہے، ایک پتّہ بھی گرتا ہے تو وہ اس کے علم میں ہے، زمین کی تاریکیوں میں کوئی دانہ نہیں پڑتا ہے اور نہ کوئی تر اور خشک چیز مگر وہ روشن کتاب (لوحِ محفوظ) میں موجود ہے۔“
وہ دروازہ کھولنے پر قادر ہے، اس لیے تم خواہ مخواہ اِدھر اُدھر کی بات سوچ کر پریشان مت ہو، آؤ ہم مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں اور نماز کے بعد إن شاء اللہ کوئی شکل پیدا ہوجائے گی۔
شیخ احمد کہتے ہیں کہ مسجد میں جاکر تحیۃ المسجد پڑھ رہا تھا کہ اچانک میری نگاہ ایک رحل پر پڑی جس پر ایک کنجی رکھی ہوئی تھی جو بالکل ہمارے گھر کی کنجی کی طرح تھی، میں اسے تقریباً ایک سال سے اسی جگہ دیکھ رہا تھا، گویا کہ اس کا کوئی مالک نہیں تھا، میرے دل میں خیال آیا کہ اس کے ذریعے کوشش کی جائے۔ نماز مکمل کرنے کے بعد اسے لے کر گھر آیا اور بسم اللہ الفتاح العلیم کہہ کر میں نے اسے تالے میں لگایا۔ ایک حیرت انگیز اور فرحت بخش منظر سامنے تھا، تالا کھل گیا۔ میں نےاپنی بیوی سے کہا: تم نے اللہ کے ناموں اور صفات کی عظمت کا مشاہدہ کیا؟ اللہ تعالیٰ نے یونہی اور بلا وجہ نہیں بتلایا ہے کہ اس کے نناوے نام ہیں، بلکہ اس لیے ہمیں سکھایا ہے تاکہ اس کے ذریعے دعا کریں۔
اس حادثے کو سالوں گزر چکے ہیں اور اس کے بعد سے ہمارا معمول رہا ہے کہ ہم اللہ کے نام وصفات کے ذریعے اپنے ہر معاملے میں دعا کرتے ہیں، اور ہماری دعا قبول ہوتی ہے۔ یہ حادثہ ہمارے لیے اللہ کی طرف سے ایک بڑے خیر کا ذریعہ بن گیا کہ اس نے ہمارے لیے گھر کے دروازے سے زیادہ اہم دروازہ کھول رکھا ہے اور وہ ہے ’’دعا‘‘ جس کے بارے میں حضرت عمر کہتے ہیں: مجھے اس بات کا غم نہیں ہے کہ میری دعا قبول ہوتی ہے یا نہیں، لیکن اس بات کی فکر ضرور رہتی ہے کہ دعا کی توفیق ملتی ہے یا نہیں، اگر دعا کی توفیق مل گئی تو قبولیت کی ضمانت ہے۔ (ختم)
اس قصے میں عقل مندوں کے لیے بڑی عبرت ونصیحت ہے، اور ان لوگوں کے لیے بڑا سبق ہے جو مادی اسباب پر نگاہ رکھتے ہیں اور مُسَبِّبُ الأسباب کو بھول جاتے ہیں، حالانکہ اگر کسی کو دعا پر یقین ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے زمین وآسمان کے خزانوں کو کھول دیں گے۔
غور کرنا چاہیے کہ کیسے اور کیوں وہ کنجی ایک سال تک اسی جگہ پڑی رہ گئی اور کسی نے اسے ہاتھ نہیں لگایا؟ اور کیسے وہ کنجی شیخ کے گھر کے تالے میں لگ گئی؟ اور کس نے اُن لوگوں کے دل میں یہ بات ڈالی کہ وہ اسی مسجد میں جاکر نماز ادا کریں اور کسی دوسری مسجد میں نہ جائیں؟ اور کس نے انہیں آمادہ کیا کہ وہ اسی جگہ جاکر نماز پڑھیں جہاں کنجی رکھی ہوئی ہے؟ کیا یہ گمان کیا جاسکتا ہے کہ یہ سب کچھ اتفاقی طور پر پیش آگیا؟ ہرگز نہیں۔