وطن، برادران وطن اور اسلام
ذکی الرحمٰن غازی مدنی
اللہ کا بے پایاں احسان ہے جس پر سرِ نیاز خود بہ خود سجدۂ شکر بجا لا رہا ہے کہ اس کی توفیق سےایک علمی کوشش زیورِ طبع سے آراستہ ہوکر منظرِ عام پر آ سکی ہے۔ ویسے اس کتاب کو کافی پہلے چھپ جانا چاہیے تھا، مگر لاک ڈاؤن کی وجہ سے رکاوٹیں کھڑی ہو گئیں اور غیر معمولی تاخیر ہوئی۔بہرحال دیر آید درست آید کے مصداق اب کتاب سامنے ہے۔ اللہ تعالیٰ اس حقیر کوشش کو قبول فرمائے۔
ذیل میں اس کا مقدمہ درج کر رہا ہوں:
مقدمہ
دنیا کے گوناگوں عوامل کے اندر ایک چیز جوہر انسان کے جذبات واحساسات میں پیوست اور وابستہ ہے، وہ اس کی اپنے وطن ومسکن کے تئیں محبت ہے۔ انسان نے جس سرزمین پر آنکھ کھولی ہوتی ہے، جہاں اس نے اپنا بچپن گزارا ہوتا ہے، جس زمین کی بولی پر اس کی زبان ٹوٹتی ہے، جس بود وباش کے لباس اس نے زیب تین کیے ہوتے ہیں، جہاں کے کھانے اس نے کھائے ہوتے ہیں وہ یادیں شعور اورتحت الشعور میں اس طرح رچ بس جاتی ہیں کہ دنیا کی کوئی زمین، کوئی جمال اور کوئی آسائش انہیں محو نہیں کر پاتی۔ جب آمد ورفت کے جدید ذرائع اور سہولتیں میسر نہیں تھیں اور لوگ انفرادی طور پر یا جوق در جوق کسی ملک یا زمین کا رخ کرتے تھے تو وہیں مرکھپ جاتے تھے، لیکن اپنے وطن کی یادیں اور بود وباش کو زندگی کی آخری سانس تک سینے سے لگائے رہتے تھے۔ خود کو کچھ حد تک بدلتے ہوئے بھی اپنی بودوباش کی چھاپ مقامی لوگوں پر چھوڑ جاتے تھے اور انہی جذبات واحساسات کے عوامل نے تہذیب وتمدن کی تاریخ مرتب کی ہے۔ یہی عوامل ومحرکات ہیں جن کی وجہ سے انسانی تہذیب وثقافت ہمیشہ کروٹیں بدلتی رہی ہے۔
عموماً لوگوں کا حال یہ ہے کہ دوسری قوموں کا یا دوسروں کے اوطان واقالیم کا جب ذکر کرتے ہیں تو بہت کم انصاف سے کام لیتے ہیں۔ دیکھا یہی جاتا ہے کہ لوگ اپنے ملک پر مشکل ہی سے دوسرے ممالک کو ترجیح دیتے ہیں اور اس کی ایک فطری وجہ ہے۔ اصل واقعہ تو یہ ہے کہ اپنا ملک ہویا دوسرے کا، اپنا دیس ہو یا پردیس، جب سب ہی کا حال یہ ہے کہ جہاں بھی جو بلایا جاتا ہے مرنے ہی کے لیے بلایا جاتا ہے۔ یورپ ہو یا امریکہ، ایشیا ہو یا افریقہ،ہند ہو یا سندھ، چین ہو یا جاپان،جہاں کہیں بھی زندگی کا بخار عناصر کے کسی خاص ریزے یا مادے کے کسی خاص ٹکڑے پر چڑھتا ہے تو ظاہر ہے کہ دم ہی لے کر اترتا ہے۔ ایسی زندگی جس کی ہر بہار کے پیچھے خزاں کے دھکے ہوں اور ہر شادی کے نقارے کے ساتھ غم کا نوحہ شروع ہوجاتا ہو،ہر صحت کو مرض دھمکیاں دے رہا ہو،الغرض جہاں ہر بقاء کا انجام فنا ہو، وہاں یہ سوال کہ اس دنیا کا کون سا خطہ اچھا ہے اور کون سا برا، تھوڑی دیر کی غفلت کا ذریعہ تو بن سکتا ہے،لیکن حقیقت جب سامنے آتی ہے تو سوئٹزرلینڈ یا کشمیر کے مرغزاروں اور صحرائے افریقہ کے واحستانوں میں سچ پوچھیے تو کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا۔
تاہم آدمی جس خطے میں پیدا ہوتا ہے یا پیدا کر دیا جاتا ہے، چاہتا ہے کہ جتنے دنوں بھی یہاں جینا ہے کسی نہ کسی طرح اُن دنوں میں اس علاقے کے ماحول کو حتی الوسع اپنے اندرونی احساسات کے مطابق بنا لے۔آدمی کی اسی نفسیاتی کاریگری کا نام وطن دوستی اورحب الوطنی وغیرہ ہے۔ چنانچہ وہ حب الوطنی کے اس خود آفریدہ جذبے کی تسکین کے لیے دوسرے ممالک واقالیم کے مقابلے میں اپنے وطن کی ترجیح وتفضیل کے وجوہ تلاش کرتا رہتا ہے۔
اس دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جس میں شر کا پہلو نہ پایاجاتا ہو۔ یہی حال اس عالم کے شرور اور برائیوں کا بھی ہے کہ غور کرنے کے بعد کسی نہ کسی حیثیت سے ان میں خیر کے پہلو بھی نکل ہی آتے ہیں۔ عام قاعدہ ہے کہ شر کے پہلوئوں سے قطعِ نظر کرکے صرف خیر کے پہلو سے اپنے وطن کے متعلق آدمی تسلی حاصل کرتا ہے۔اس جذبے کا شعوری یا غیر شعوری تقاضا ہوتا ہے کہ عموماً اپنے ملک کے مقابلے میں دوسرے ممالک کی خوبیوں کا اعتراف آدمی دل کھول کر نہیں کرتا۔ یہ وطن کا محدود جاہلانہ تصور ہے جس نے ہمیشہ انسانیت کو خانوں میں بانٹ کر باہم دگر برسرِ پیکار رکھا ہے۔
اس کے برخلاف وطن کا تصور وہ ہے جو اسلام نے پیش کیا ہے۔ اسلام کی نظر میں ساری دنیا انسان کا وطن ہے۔ ہر انسان آدم زاد ہے اور تمام انسان ایک ماں اور ایک باپ کی اولاد ہیں۔ اسلام نے اپنے پیروکاروں میں حب الوطنی کے نام پر بت پرستی کو کبھی انگیز نہیں کیا اور یہ اسلامی تعلیمات ہی کا اثر اور چارہ گری ہے کہ مسلم سیاحوں کی کتابیں پڑھ کر پڑھنے والا حیران وششدر رہ جاتا ہے کہ خلافِ دستور اِن سیاحوں نے انتہائی فیاضی اور فراخ دلی سے کام لیتے ہوئے ایسے ممالک کی تعریفیں بھی کی ہیں جن کے باشندوں سے نہ ان کا کوئی دینی تعلق تھا،اور نہ نسلی ونسبی رشتہ تھا۔ اور تعلق کیا معنی،ان کے مذہب کی رو سے جہاں کے باشندے کافر اور بد دین تھے۔ لیکن بہ ایں ہمہ کوئی ملک ہو، اس کے باشندوں کا مذہب ودین کچھ ہی ہو،کسی نسل کے لوگ ہوں،جو بھلائیاں اس ملک میں نظر آئیں بغیر کسی جنبہ داری اور عصبیت کے دل کھول کر ان کا اظہار مسلم سیاحوں اور تاریخ نگاروں نے کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ واقعات کے اظہار کے سلسلے میں ان کے قلم سے جہاں ایسی باتیں نکل گئی ہیں جنہیں ہم اِن ممالک کے نقائص وعیوب قرار دے سکتے ہیں،وہیں ان کی واقعیت میں بھی شک وشبہے کی بہت کم گنجائش پیدا ہوپاتی ہے۔
فی الوقت دنیا میں امتِ مسلمہ کے افراد مختلف النوع ممالک میں فروکش ہیں۔کچھ ملکوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں اور دوسرے ممالک ہیں جہاں مسلمان اقلیتی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر اعداد وشمار کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ مسلمان اقلیتوں کی تعداد مسلمان اکثریتی ملکوں میں رہنے والے مسلمانوں سے زیادہ ہے۔مسلمان بہرحال جہاں بھی رہے اس کا کوئی نہ کوئی وطن ہوتا ہے اور اس وطن سے اسے قلبی اور جذباتی وابستگی بھی ہوتی ہے۔ایسے میں ضرورت اس بات کی پیدا ہوجاتی ہے کہ وطن سے محبت کے تئیں اسلام کا رخ کیا ہے اور اسلام اپنے ماننے والوں سے کیا کیا مطالبے کرتا ہے اور اسلامی فریم ورک میں وطن سے محبت میں کس حد تک بڑھا جاسکتا ہے، یہ سب باتیں واضح ہونی چاہئیں۔موضوع کی اہمیت وعظمت اور ضرورت وافادیت سے غالباً کسی ہوش مند انسان کو اختلاف نہ ہوگا اور چونکہ اسلام ایک جامع دین ہے اس لیے اس بات کا بھی انکار نہیں کیاجاسکتا کہ وطن سے محبت کا شعبہ اس کے دائرۂ اثر واختیار میں داخل ہے۔یہ موضوع ایک طرف اگر دینی اعتبارواستناد رکھتا ہے تو دوسری طرف یہ امتِ اسلامیہ کے ملی وجود اور شناخت سے نیز اس کی واقعیت پسندی اور حقیقت نوازی سے بھی مربوط ہے۔
آج امتِ محمدیہ مسلم وغیر مسلم ممالک میں جن چیلنجوں کا سامنا کر رہی ہے اور جن پُر صعوبت حالات سے دوچار ہے،ان کا بھی اقتضاء ہے کہ اس حسّاس اور نازک مسئلے کے مختلف پہلوئوں کو حتی الامکان علمی مخاطبے(Discourse) کا حصہ بنایا جائے۔داخلی سطح پر امت میں انتہا پسندی،غلوآمیزی،فاسد ورکیک تاویل پسندی جیسی بیماریاں پھیلی نظرآتی ہیں تو خارجی سطح پر دشمنانِ دین کی ریشہ دوانیاں اور ہر ممکن وسیلے سے اسلام کی مخالفت زوروں پر ہے۔ایک طرف نوجوانوں کو بے راہ روی پر ابھارا جارہا ہے تو دوسری طرف اسلامی غیرت وحمیت رکھنے والے نوجوانوں کو غلط رخ پر ڈالنے کی کوشش بھی پوری قوت اور پلاننگ کے ساتھ ہو رہی ہے۔دونوں صورتوں میں نتیجتاً دین سے دوری اور وطن کو نقصان پہنچانے کی ذہنیت کو فروغ مل رہا ہے۔
کتاب کا موضوع اگر کہا جائے تو اللہ کی دو عظیم نعمتوں؛ دینِ حق اسلام اور وطن سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔دینِ حق اسلام کا خاصہ ہے کہ وہ اپنے احکام وتعلیمات کے ذریعے سے بنی نوعِ انسانی کی جملہ ضروریات وحاجات اور مصالح وفوائد کی تکمیل واتمام کرتا ہے۔اسلامی نظامِ زندگی جن آفاقی بنیادوں پر استوار ہے ان میں سے ایک بنیاد عدل وانصاف کا قیام ہے اور جس کے حیطۂ اثر میں بادشاہِ وقت سے لے کر ایک عام آدمی بھی داخل ہے۔اسلامی تصورِ حیات میں حاکم اور محکوم دونوں کے اوپر کچھ فرائض اور ذمے داریاں عائد کی گئی ہیں اور اس طرح سے دینِ فطرت اسلام نے ایسے تمام انسانی حقوق کی ضمانت وحفاظت کا سامان کر دیا ہے جو کسی بھی صالح انسانی سماج کے لیے ضروری ہوا کرتے ہیں۔صدیوں تک انسان ایسے جامع نظام زندگی کو اپنی عقل ودانش سے کھوجنے اور ایجاد کرنے میں سرگرداں رہا،مگر ابھی تک اس کاسراغ نہیں پاسکا اور نہ آئندہ اس کے بارے میں ایسی امید کی جاسکتی ہے، کیونکہ خالقِ کائنات سے بہتر کون ہو سکتا ہے جو اس کے لیے مناسب نظامِ حیات وضع کرے اور زندگی گزارنے کا صحیح طریقہ بتائے۔
اس کتاب میں اسلامی نظامِ زندگی کے اس خاص شعبے یا حصے سے بحث کی گئی ہے جسے عام فہم زبان میں وطن سے محبت یا حب الوطنی کہا جاتا ہے۔چنانچہ اس کتاب میں وطن کی تعریف، وطن سے محبت کے مظاہر اور دینی نقطۂ نظر سے اس کی مشروعیت وضرورت پر بات رکھی گئی ہے۔ بتایاگیا ہے کہ وطن سے مراد وطنِ اصلی بھی ہے اور وہ وطن بھی ہے جس میں انسان کسی نوکری یا کام یا کسی اور ضرورت کے تحت سکونت اختیار کر لیتا ہے۔بندۂ مومن چاہے جس ملک میں رہے، اسلام نے اس کے اوپر چند ذمے داریوں اور فریضوں کا بوجھ ڈالا ہے۔ان ذمے داریوں اور حقوق میں سرِ فہرست یہ ہے کہ انسان جس جگہ کو بھی اپنا ملک بنائے،اس سے سچی محبت کرے جس کا اظہار یوں ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے ملک کا وفادار شہری بنے اور پورے خلوص کے ساتھ ملک کی خدمت وحفاظت کرے،اس میں امن وامان کی فضا قائم رکھنے میں تعاون کرے،اور تمام قدرتی اور عوامی سہولیات کا درست استعمال کرے
اس ذمے داری کا ایک ضمنی نتیجہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے وطن کو درپیش کسی بھی خطرے سے محفوظ رکھے اور ہر طرح سے اس کا دفاع کرے۔ کتاب میں واضح کیا گیا ہے کہ اسلامی شریعت کی رو سے وطن سے محبت کی کیا بنیادیں ہو سکتی ہیں اور کیسے ان بنیادوں کا تحفظ کیا جاسکتا ہے۔ان بنیادوں میں سے ایک یہ ہے کہ انسان اپنے ملک کے قانون اور نظم ونسق کی حتی الامکان پابندی کرے،اس کا ساتھ دے اور انتظامی امور واقدامات میں ہر ایک کی طرف تعاون اورنصرت کا ہاتھ بڑھائے۔امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ایسے لوگوں کو ہاتھ سے روکا جائے جو ملکی نظم ونسق کو درہم برہم اور سماجی امن وامان کو خراب کرنا چاہتے ہیں،وطن کا شیرازہ منتشر کرنے کے خواہاں ہیں یا داخلی استحکام واستقرار اور خوش حالی وفارغ البالی کو فساد وانارکی اور بدحالی وابتری سے بدل دینا چاہتے ہیں۔ وطن سے محبت کی ان بنیادوں کی تائید میں کتاب وسنت کے دلائل ذکر کئے گئے ہیں اور توضیح وتشریح کی خاطر علمائے کرام کے اقوال وارشادات سے بھی استفادہ گیا ہے۔
بہتر سمجھا گیا کہ امتِ مسلمہ کو درپیش تحدیات وخطرات کا بھی ہلکا سا عکس پیش کر دیا جائے اور اسلام اور اہلِ اسلام کے خلاف کی جانے والی ان سازشوں کے تئیں مسلم رائے عامہ کو بیداراورانگیخت کیا جائے۔
ایک باب میں ان بنیادی قدروں پر گفتگو کی گئی جنہیں اسلام ترجیحی طور سے ہرسماج میں جلوہ آرا دیکھنا چاہتا ہے۔ہر وطن کے اپنے شہریوں پر جوحقوق ہوتے ہیں ان کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے، نیزاسلامی ملکوں میں غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق اور غیر مسلم ممالک میں مسلم اقلیتوں کے حقوق بھی زیرِ بحث آگئے ہیں۔اسلام اپنی عدل پروری،رواداری اوراعلیٰ مقصدیت کو نقطۂ آغاز بناتے ہوئے شدومد سے زور دیتا ہے کہ ملک کے تمام باشندوں کووہاں کے قوانین اور نظم ونسق کی حفاظت کرنی چاہیے۔دینی،انفرادی اور اجتماعی ہر طرح کی مصلحتوں کا، نیز غیر مسلم ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کے ملّی مفاد کا تقاضا بھی ہے کہ وہ اپنے ملک کے نظم ونسق اور قومی وقار کا پاس ولحاظ کریں۔اس واقعیت پسندانہ رویے کے برخلاف موقف اختیار کرنے سے جو خرابیاں رونما ہوسکتی ہیں ان کے بداثرات نہ صرف ان کے اجتماعی ڈھانچے پر مرتسم ہونگے،بلکہ خود اس وجہ سے دینِ حق اسلام کی شبیہ عام لوگوں کی نظر میں مسخ ہوجائے گی۔ لہٰذا یہ ہرگز ٹھیک نہیں
اس سلسلے میں میں وطن سے انتساب کی ضرورت واہمیت پر بھی کچھ روشنی ڈالی گئی ہے۔ مسلم اقلیتوں کودرپیش مسائل ومشکلات، بالخصوص غیر اسلامی ماحول میں رہنے کی وجہ سے رونما ہونے والے معاشرتی مسائل کے بارے میں بھی اسلامی شریعت کی رہنمائی فراہم کر دی گئی ہے۔اس سلسلے میں بتایا گیا ہے کہ مسلمان اقلیتوں کے کرنے کے دو بنیادی کام ہیں۔ نمبر ایک اسلام کے پیغام کو ملک کی غیر مسلم آبادی تک پہنچانا اور نمبر دو اپنے دینی وملّی تشخص اور شناخت کی بھرپور حفاظت وصیانت کرنا۔اسی میں آئندہ نسلوں کے ایمان کی فکر وتدبیربھی شامل ہے۔
کتاب میں کوشش کی گئی ہے کہ کسی بھی جزئیے پر قابلِ اعتماد مصادر ومراجع کی روشنی میں ہی بات کی جائے۔ چنانچہ قرآنِ کریم،کتبِ حدیث اور ان کی تفاسیر وشروح پر اعتماد کیا گیا ہے۔ وطن سے محبت کرنا ایک فطری جذبہ اور دینی ضرورت ہے۔وطن سے محبت کی کچھ انسانی بنیادیں ہیں جنہیں شریعتِ اسلامیہ نے بھی تسلیم کیا ہے۔وطن سے منسوب ہوجانے کے بعد انسان چند فرائض وواجبات کا مکلف بن جاتا ہے۔ان تمام نقطوں پر اصولی گفتگو کی گئی ہے۔بہت زیادہ جزوی اور فروعی مباحث سے تعرض نہیں کیا گیا کہ ایسا کرنا باعثِ طوالت اور بے ضرورت ہوتا۔
اخیر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ جو باتیں اس کتاب میں ٹھیک اور مطابقِ حق آگئی ہیں ان پر عمل کرنے اور ان سے فائدہ اٹھانے کی ہم سب کو توفیق دے اور جو باتیں خلافِ حق وصواب اور بربنائے شیطانی وساوس اس کتاب میں راہ پاگئی ہیں ان سے ہم میں سے ہرشخص کو محفوظ ومصئون رکھے۔ آمین