میر تقی میر کی یاد میں!!
مولانا صابر حسین ندوی
آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم
اب جو ہے خاک انتہاء ہے یہ
پھولوں میں گلاب، آسمان پر قوس و قزح، پہاڑوں سے گرتی دودھیا آبشاریں، فلک کی وسعت، زمین سی وساطت، سمندر کی گہرائی اور زندگی کی معنویت سے لبریز شاعری کا مالک کون ہے؟ کس کی سخن وری سننے اور سنانے والے کے دل کی دھڑکن تیز کردیتی ہے، غم کے بحر بیکراں میں ڈبو کر رکھ دیتی ہے، رنج و الم کا سایہ فگن کر دیتی ہے، شب دیجور کا عالم آنکھوں کے سامنے لے آتی ہے، دل کی گہرائیوں میں پتھر پڑنے اور پھر اس کا موم بن کر بہہ جانے کا احساس کرواتی ہے، انہیں سنئے تو ایسا لگنے لگتا ہے بَس سارے زمانے کا درد انہیں کے سینے میں تھا، وہ تھے تو آبروئے غم تھا، سوز، درد اور گداز تھا، قبائیں چاک کر کے انہیں دیکھتی تھیں، فضائیں مڑ مڑ کر ان کا دیدار کرتی تھیں، ان پر غموں کی بارش ہوتی ہے، وہ بھی قطرہ قطرہ نہیں بلکہ جھماجھم اور موسلادھار بارش جس سے غریبوں کے مکاں بہہ جائیں، اجڑے دلوں کی دھڑکن تھم جائے، ہر کوئی دہائی مانگے، ہر کسی کی زبان پر ترس اور آہ کی صدائیں ہوں، کوئی تسلی بھی دے تو اسے کوہ گراں لگے، اپنے دل کے خزینے پر اسے گمان بھی ہو اور وہ اسی کو سرمایہ حیات جانے، لوگوں کو رلائے اور خود بھی روئے، عشق و محبت اور اس راہ کے گمشدہ لوگوں کا تو وہ ماوی و ملجا ہے، ٹوٹے دل کو انہیں کی شاعری میں قرار ملتا ہے اور ہزار بار ملتا ہے، بلکہ رنجور شخص انہیں اپنا غمخوار بنا لیتا ہے، اپنا یار اور دوست بنا کر سینے سے لگا لیتا ہے، ایک ایک مصرعہ پڑھتا ہے اور آہیں بھرتا ہے، کون ہے جس نے عشق کیا ہو، دل کی بازی لگائی ہو، پھر دل ہار بیٹھا ہو، اس راہ کے سنگریزوں سے الجھ کر دل چکنا چور کرلیا ہو اور وہ اس کی شاعری کی بارگاہ میں پناہ نہ لے؟ دل کا درد اس کے دربار میں رکھ کر مداوا نہیں بلکہ اس میں اضافہ نہ کرے؛ کیونکہ ان کی شاعری میں کبھی کبھی ایسا بھی لگتا ہے کہ وہ سوز کا علاج نہیں چاہتے؛ بلکہ اس میں روز بروز اضافہ کہ خواہش رکھتے ہیں، جب یہی کل سرمایہ ہے، تو پھر علاج کیسا؟ درد کیسا؟ احساس درد کہاں کا؟ سخن اور سخن وری کے میدان کا وہ استاد زمانے میں میر تقی میر کے نام سے مشہور ہے:
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو ساراجانے ہے
چلتے ہو تو چمن کو چلیے سنتے ہیں کہ بہاراں ہے
پات ہرے ہیں پھول کھلے ہیں کم کم باد وباراں ہے
میر تقی میرؔ کا انتقال ٢٠/ستمبر ١٨٨٠ء مرکز ادب و فن لکھنو میں ہوا، گہوارہ ادب کی گود میں آخری سانس لی، درد کی ایک بستی بسا کر آج ہی کے دن اس بستی سے جداہوئے اور بہت سے ہم پیالوں، ہم نوالوں کو روتا بلکتا چھوڑ دیا، یوں ان کو اس جہان فانی سے گزرے دو سو برس سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے؛ تاہم اردو شاعری میں ان کی عظمت کا اعتراف آج بھی کیاجاتا ہے، اور ہمیشہ کیا جاتا رہے گا، یہ کہنا بجا ہے کہ شاعری میں ان کے بعد آنے والے درد کے سوداگروں نے اصلاً انہیں کی دکان سے سودا کیا ہے، بالخصوص کلیم عاجز نے تو انہیں اپنے اندر بسا لیا تھا، گویا میر ان کی روح میں حلول کر گئے تھے، اسی لئے انہیں میر ثانی کہا جاتا ہے، دراصل ان کی زبان میں اتنی چاشنی ہے کہ وہ کبھی ختم نہ ہوگی، وہ مٹھاس ہر ایک زبان تک پہنچ کر رہے گا، اور ان کی فکر داستان غم میں وہ کشش ہے کہ کبھی اس کا اثر نہ مٹے گا، نسلیں آئیں گی جائیں گی مگر ان کا جلوہ برقرار رہے گا، وہ سخن وری کے سلطان بنے رہیں گے، میر تقی مرحوم اپنا تخلص میرؔ ہی رکھتے تھے، انہوں نے آگرہ ١٧٢٣ء میں زندگی کی پہلی صبح دیکھی تھی، ان کے والد کا نام محمد علی تھا؛ لیکن علی متقی کے نام سے مشہور ہوئے، ان کے بارے میں آتا ہے کہ وہ زیادہ تر گریہ و استغراق اور کیف مجذوبی میں گم رہتے تھے، والد کی وفات کے بعد میرؔ دلّی چلے گئے اور اپنی زندگی کا بڑا عرصہ وہیں گزارا، جو بچھڑوں کا مرکز، بھٹکوں کی منزل اور دارالحکومت ہوا کرتا تھا، تو وہیں یہی وہ دلی تھی جو ان کے سامنے کئی بار اجڑی اور آباد ہوئی، میر نے اپنی آنکھوں سے کئی بار اس شہر کو اُجڑتے دیکھا تھا؛ چنانچہ ان مناظر، لمحات کو انھوں نے قید کرلیا، دل میں بسا لیا اور فکر میں اتار لیا، یہی وجہ ہے کہ حالات اور واقعات کی تصویر کشی کرتے ہوئے ایسے شاہکار تخلیق کیے، جو نہ صرف اردو زبان کی قدر و منزلت میں اضافے کا باعث بنے بلکہ خدائے سخن میر تقی میرؔ کا نام بھی صدیوں کے لیے زندہ جاوید ہوگیا۔ میرؔ نے دلّی کے اُجڑنے کی المناک داستاں کا اظہار کچھ یوں کیا ہے:
دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اُجڑے دیار کے
یہ حقیقت ہے کہ ہر انسان کے پیچھے ایک کہانی ہوتی ہے، کچھ اسباب اور محرکات ہوتے ہیں جو کسی کو مزاجاً خوش و خرم بنا دیتے ہیں تو کوئی غمگینی کی چادر میں لپٹ کر رہ جاتا ہے، زندگی کی تگ و دو، حوادث زمانہ طبیعت میں نشاط تو کبھی ویرانی پیدا کردیتے ہیں، دنیا میں ایسا کوئی شخص نہیں جو حیات مستعار کی اونچ نیچ سے متاثر نہ ہوتا ہو اور اس کے سایہ تلے تاریکی یا روشنی کا سفر طے نہ کرتا ہو، میر تقی میر کی شاعری میں درد کی جو داستان بے پایاں ملتی ہے وہ بھی دراصل کسی نہ کسی پس منظر اور واقعے کی دین ہے، ان کے بچپن سے لیکر جوانی تک اور موت کی کڑواہٹ تک کشمکش کی وہ کہانیاں کارفرما ہیں جو ناقابل بیان ہیں، ایشمسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کہ ایک فرد واحد متوسط عمر میں ایسی پیچیدگیوں اور ناخوش گواریوں سے گزرے، آگرہ کی خوبصورتی اور تاج محل کی گود سے نکل کر والد مرحوم کی بے پناہ محبت و غمگینی کے ساتھ دلی کا سفر اور پھر دلی سے لکھنؤ کی عظیم داستانیں ہی تو ہیں جن سے میر کا خمیر بنتا ہے، غم و اندوہ کی مورتی تیار ہوتی ہے، صبر و استقلال اور فکری انہماکی کا دور شروع ہوتا ہے، آخر کوئی کیسے ایک سرسبز و شاداب وادی کو اجڑتا دیکھے اور دل میں کوئی اثر محسوس نہ کرے، اپنی آنکھوں کے سامنے لہراتے تلوار، طمنچے اور خونی تماشہ دیکھے اور خموشی کے سمندر میں ڈوب جائے اور سب کچھ بھول جائے، چنانچہ میر کی شاعری میں جو درد مندی اور سوز پائی پنہاں ہے اس کے بھی محرکات ہیں؛ اصل میں میر کا زمانہ قتل و خون ریزی کا تھا ہر طرف فتنہ و فساد اور لوٹ مار کا بازار گرم تھا اور اس چیز نے انسانوں کو بے حد متاثر کیا تھا، بالخصوص ١٨٥٧ء کا دور تو نقابل بیان تھا، جس وقت دہلی ویران کردی گئی، مغلیہ حکومت کا آخری چراغ بھی گل کردیا گیا، خون کی ندیاں بہا دی گئیں، علماء و مفکرین سولی چڑھا دئے گئے، پچاس ہزار سے زائد علماء کو درختوں پر لٹکا دیا گیا، یہ اور اس طرح کے متعدد مناظر میر کی آنکھوں می بَس گئے تھے، کیونکہ میر اس تباہی کے محض تماشائی نہ تھے بلکہ وہ خود اس تباہ کن معاشرہ کا ایک فرد تھے جو صدیوں کے لگے بندھے نظام کی تباہی سے تسبیح کے دانوں کی طرح بکھر کر رہ گیا تھا اور اس کو جوڑنا ہمالیہ پہاڑ کو اٹھانے کے مترادف تھا .میر نے اس سماج کے اثرات شدت سے محسوس کئے ہیں، ان کی غزلوں میں اس تباہی کے نقوش ملتے ہیں، لٹے ہوئے نگروں، شہروں اور اجڑی ہوئی بستیوں کے حالات، بجھے ہوئے دلوں کی تصویریں، زمانے کے گرد و غبار کی دھندلاہٹیں,تشبیہوں اور استعاروں کی شکل میں میر کے یہاں موجود ہیں :
روشن ہے اس طرح دل ویراں میں آگ ایک
اجڑے نگر میں جیسے جلے ہیں چراغ ایک
دل کی ویرانی کا کیا مذکور
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گپا
کہتے ہیں بار بار اگر ایک ہی جگہ ضرب لگتی رہے تو وہ چیز یا تو بکھر جاتی ہے یا پھر مضبوط ہوجاتی ہے، پتھر پر ہتھوڑا پڑتے پڑتے وہ نایاب، کمیاب اور لاجواب ہوجاتا ہے، جبکہ صحراء کی ریگ ایک معمولی ہوا پر یہاں سے وہاں اڑتی ہوئی اپنا وجود کھو دیتی ہے، انسان بھی لگ بھگ کچھ ایسا ہی ہے، بہت سے عالی ہمت زمانے کا ہتھوڑا برداشت کرتے ہوئے ایسا نکھر کر سامنے آتے ہیں کہ زمانہ ان کے استقامت و استقلال کی شہادت دیتا ہے، وہ حالات سے نبرد آزما ہو کر اور اپنے پیچھے تمام مشکلات کو چھوڑ کر یوں سر اٹھاتے ہیں کہ زمانہ انہیں سلام کرتا ہے، خود پریشانی انگشت بدنداں رہتی ہے کہ اس کا سامنا کس مخلوق سے ہوا ہے، وہ کہیں کسی پہاڑ اور بلند وبالا ہمالیہ سے تو نہیں ٹکرا گئی! تو بعض کچھ ہی ناخوشگوار واقعات سے ایسے ٹوٹ کر منتشر ہوجاتے ہیں کہ گویا ان کا کوئی وجود نہیں، وہ ہوا کے دوش پر یوں اڑ جاتے ہیں کہ پھر کسی کے خواب وخیال میں بھی نہیں آتے، مرحوم میر ان لوگوں میں سے ہیں جس نے عشق و محبت کا زخم بار بار کھایا تھا، ان کی زندگی کی ایک ایک گھڑی ان چوٹوں اور زخموں پر مبنی تھی، ایک متوسط عمر میں انہوں نے گھر کی چہار دیواری سے لیکر ملک کو بیاباں ہوتے دیکھا تھا، محبت میں رسوا ہو کر اپنا دل شکستہ ہوتے دیکھا تھا، وادی کو صحرا بنتے، سمندر کو خشکی میں اور ہریالی کو ویرانی میں بدلتے دیکھا تھا، چنانچہ میر نے ضربیں کھائیں؛ لیکن وہ اس سے اپنے اعصاب مضبوط کرتے رہے، بلند حوصلے، فکری پرواز میں کمی نہ آنے دی، بہت سے لوگ میر کی دکھ بھری شاعری دیکھ کر عش عش کرتے ہیں اور انہیں شکست خوردہ، کمزور اور حوصلہ پست سمجھنے کی بھول کر بیٹھتے ہیں؛ حالانکہ ان کی شاعری حوصلوں سے پر ہے، تجزیہ نگار بتاتے ہیں کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ میر کو زندگی سے بیزار شاعر کہا جائے؛ کیونکہ ان کا غم دیگر شعراء کے غموں سے مختلف ہے، ان کا غم ایک مہذب اور درد مند آدمی کا غم ہے جو زندگی کے تضاد کو گہرے طور پر محسوس کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ درد و الم کے ساگر میں غوطہ زن ہونے کے باوجود بھی میر بے حوصلہ نہیں ہوتے، وہ سپاہیانہ دم خم رکھتے ہیں، فوجی ساز و سامان کے استعاروں میں مطلب ادا کرکے زندگی کا ایسا احساس دلاتے ہیں جس میں بزدلی بہر حال ایک عیب ہے، میر کہتے ہیں :
خوش رہا جب تلک رہا جیتا
میر معلوم ہے قلندر تھا
حوصلہ شرط عشق ہے ورنہ
بات کا کس کو ڈھب نہیں آتا
انسان کی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ وہ جوں جوں حوادث زمانہ کا سامنا کرتا جاتا ہے، زندگی کو جس قدر قریب سے دیکھتا جاتا ہے، اسی قدر دنیا کی بے ثباتی اور کم مائیگی اس کے دل میں بستی چلی جاتی ہے، اکثر ہوتا یہ ہے کہ انسان اگر عیش وعشرت اور تنعم کی زندگی گزارتا رہے اور گردش ایام کی چپیٹ میں نہ آئے تو اسے لگتا ہے کہ یہ دنیا ہی سب کچھ ہے، اس کی زندگی دائمی ہے، اسے یہیں پر سب کچھ ملنا ہے، جو موج و مستی کرنی وہ سب کر لو؛ ورنہ بڑی محرومی و بدنصیبی کی بات ہے، مگر وہ لوگ جو کہ اپنی عمریں غم کی وادیوں میں گزارتے ہیں، چھوٹی موٹی خواہشات کیلئے بھی ترستے رہتے ہیں، زندگی اتھل پتھل اور اشک بار آنکھوں میں بسر کرتے ہیں، کروٹ کروٹ بے چینی اور بے اطمینانی میں گزاری ہو، وہ بہت جلد سمجھ جاتے ہیں کہ یہ دنیا فانی ہے، ہر شئی بے ثبات ہے، سب آنکھوں کا دھوکہ اور موہ مایا ہے، جب ایسا ہوتا ہے تو انسان کے اندر حیران کن تبدیلیاں دیکھنے کو ملتی ہیں، اس کی سوچ وفکر میں لطافت، باریکی اور گہرائی کا اتھاہ سمندر پیدا ہونے لگتا ہے، میر تقی میر کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے، چنانچہ یہ بات ضرور ہے کہ وہ داستان پر داستان دیکھتے دیکھتے اور کہتے، سنتے دنیا کی بےثباتی کو خوب اجاگر کرنے لگے تھے، وہ الفاظ کے جامے میں حقیقت عالم کو پیش کرنے لگے تھے، اس سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کوئی صوفی، سنت اور جوگی بات کر رہا ہے، جملے کَسے کَسے اور فکر جچی تلی ہوئی دیکھ کر انہیں فکر میں ڈوبا ہوا ایک ایسا شخص دکھنے لگتا ہے جو مافوق الفطرت ہو، اس طرح میر کی شاعری میں دنیا کی بے ثباتی خوب پائی جاتی ہے، ویسے بھی اردو شعر و شاعری کی دنیا میں بےثباتی دنیا کا احساس بہت مشہور و معروف ہے، چونکہ شعراء عموماً شاعر تبھی بنتے ہیں جب دنیا کی ضربیں کھا چکے ہوتے ہیں اور اب اس اجڑے دیار میں ان کا مَن نہیں لگتا، چنانچہ وہ دل کی کہانی اشعار کی زبانی سنانے لگتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس موضوع پر لگ بھگ تمام شعراء نے طبع آزمائی کی ہے؛ لیکن خاص طور پر میر تقی میر کی شاعری میں دنیا کی بے ثباتی کا ذکر بہترین اسلوب اور سلجھے ہوئے الفاظ میں ملتا ہے، جس کی اصل وجہ اس عھد کی غیر یقینی اور ہنگامی صورت حال تھی، جس کی وجہ سے ان کی شاعری میں دنیا سے بے ثباتی کے موضوعات پروان چڑھے:
کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسم کیا
نمود کرکے وہیں بحر غم میں بیٹھ گیا
کہے تو میر بلبلا تھا پانی کا
جس سر کو ہے یاں غرور تاج وری کا
کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا
ایک اچھے شاعر کی پہچان یہ بھی ہے کہ وہ الفاظ و احوال کے مابین صداقت کی لڑی قائم رکھے، جھوٹ، واقعہ کو توڑ مڑور کر پیش نہ کرے، صرف لفظی چٹکارے کی خاطر اپنے ضمیر اور ہنر مندی کی بولی نہ لگایے، ہر اٹھتے سورج کے سامنے نہ لیٹ جائے، طاقت و قوت اور ظاہری مفاد پر نہ مر مٹے، اپنائیت کے دام میں حق کو گول مول نہ کردے، بلکہ دل کی دل تک پہنچائے، حق گوئی و بے باکی کو اپنا زیور جانے، اگر کسی شاعر کی شاعری میں یہ عناصر نہ ہوں تو بہت مشکل ہے کہ اس کی شاعری میں پائیداری پائی جائے، اس کے بول لوگوں کے دلوں کو چھو لیں اور اسے سر آنکھوں پر رکھیں، یہ ہوسکتا ہے کہ وقتی طور پر لوگ اس کی صلاحیت اور فنکاری سے متاثر ہوجائیں؛ مگر اس کا دیر پا اثر مشکل امر ہے، چنانچہ اصحاب علم و دانش اس کا تجربہ رکھتے ہیں کہ شعراء میں بھی جو دل سے بات کہتے ہیں انہیں کی بات دل تک پہنچتی ہے، خواہ غالب ہوں یا شاعر مشرق علامہ اقبال، حالی ہوں کہ عاجز- – – – ان میں میر تقی میر کا نام بھی بڑا نمایاں ہے، ان کی شاعری میں خلوص، سادگی اور صداقت خوب پائی جاتی ہے، بلاشبہ میر کی شاعری میں ایک نہایت ہی اہم خصوصیت یہ رہی ہے کہ وہ اپنی شاعری میں فنی خلوص کو پوری صداقت سے لاتے ہیں، فنی خلوص کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ شاعر زندگی کے حادثات کو جس طرح اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے ٹھیک اسی طرح بیان کرے، اس میں نمک مرچ لگانے کی خاطر واقعہ کو نہ بدل دے، میر کی شاعری اس لئے بھی مشہور و معروف ہے کہ اس میں سچائی اور خلوص کے ساتھ ساتھ تمام باتیں بے تکلفی کے انداز میں کہی گئی ہیں، سننے والا یہ محسوس کرتا ہے کہ بَس کوئی قصہ گو اپنی داستان سنائے جارہا ہے جو انہیں میں سے ایک ہے، میر نے اپنی شاعری میں دوسروں کی طرح صرف تخیل کے گھوڑے نہیں دوڑائے، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ کہ میر عوام کے ساتھی شاعر تھے، اس کے ارد گرد کی زندگی سے حزن و ملال کے مضامین کے فوارے ابل رہے تھے میر نے انہیں مضامین کو بہترین لب و لہجہ اور سادہ الفاظ میں پیش کیا، میر کے خلوص و صداقت کا اندازہ ان اشعار سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے:
قدم رکھتی نہ تھی متاع دل
سارے عالم کو میں دکھا لایا
دل مجھے اس گلی میں لے جاکر
اور بھی خاک میں ملا لایا
ابتداء ہی میں مر گئے سب یار
عشق کی کون انتہا لایا
”میر تقی میر کی یاد میں“ ایک تبصرہ