مالِ غنیمت اور لوٹ مار میں فرق
(مولانا صابر حسین ندوی)
قدیم زمانے میں کسب مال کا ایک ذریعہ لوٹ کھسوٹ اور ڈاکہ زنی ہوا کرتا تھا،بلکہ یہ مال کمانے کی یہ ترکیب بہت سی جدید ترین قسموں کے ساتھ آج بھی جاری ہے، مگر زمانہ جاہلیت میں یہ بات بہت زیادہ عام تھی کہ اگر کسی انسان کو روزی روٹی کی ضرورت ہو تو وہ کسی کا مال لوٹ لے، آتے جاتے قافلوں پر حملہ ور ہوجائے اور اس پر دھاوا بول کر سب کچھ ضبط کر لے۔
دیوان عرب میں شعراء نے اس کام کو بڑے فخر سے بیان کیا ہے، جگہ جگہ پر اپنی بہادری، قوم اور قبیلہ کی محنت اور نت نئے حربے کو اپنی قابلیت و ہنرمندی میں شمار کر کے خوب واہ واہی کی ہے۔ ان کے انداز بیان سے لگتا ہے کہ وہ کوئی عظیم خیر کا کام کرتے ہوں جسے عمدہ پیرایے بیان میں ذکر کیا جائے، مگر اسلام کی آمد نے اس ذریعہ پر بندش لگائی، حلال و حرام کا فرق بتایا، محنت و جد وجہد اور عرق ریزی کا سبق سکھایا، ساتھ ہی دین الہی کیلئے جو رکاوٹ بنے، اور ان کی رکاوٹ تعدی و ظلم تک پہنچ جائے، بے قصوروں پر ظلم کیا جائے، امن وامان اور سلامتی کو خطرے میں ڈالا جائے تو پھر ایسے لوگوں کے خلاف علم جہاد بلند کرنے کی ترغیب دی، حتی الامکان جنگ ٹالنے کی کوششوں کے بعد اگر جنگ ہوجائے تو ثابت قدمی اور اسلامی تعلیمات کا خیال رکھنے کی تلقین فرمائی۔ جو صلاحیت کبھی ظلم. کیلئے استعمال ہوتی تھی اسے تعمیر کی طرف مائل کردیاگیا۔ انہیں یہ عقیدتا سمجھایا گیا کہ عین گھمسان کے دوران بھی غیر اسلامی امور حراماور سخت گناہ کا عمل ہے، جس سزا عنداللہ سخت ترین ہوگی۔
چنانچہ جو قدیم زمانے میں بہادری، جوش اور حق سے تعبیر ہوتا تھا اسے بھی منع کیا گیا، مثلی کردینا، عورتوں، بچوں، بوڑھوں کو قتل کردینا اور پھر جو کچھ مال و زر مل جائے اسے لوٹ لینے سے روکا؛ بلکہ اس کے بالمقابل کمزوروں پر رحم اور مال و دولت پر اسلامی قوانین کے اعتبار سے لازم تقسیم ضروری قرار دیا۔
یہی وہ مال ہے جو مال غنیمت کہلاتا ہے، جس میں مجاہدین، بیت المال اور امیرالمومنین کا حق ہوتا ہے، مگر ان دنوں اس مال کو کچھ مغربی ہوا کے دوش پر بہنے والے لوٹ مار سے تشبیہ دینے لگے ہیں، عجیب بات ہے کہ اسلام کی چہار دیواری کو اس کے ماننے والے ہی داغدار کرنا چاہتے ہیں، بھلا کوئی بتائے کہ اسلام نے جب غصب، ڈاکہ وغیرہ کو قطعی حرام قرار دیا تو مال غنیمت اگر نعوذبااللہ اس قسم کا ہوتا تو کیونکر حلال قرار پاتا؟
یہ افسوس کی بات ہے کہ اسلامی تعلیمات اور تاریخ انسانی سے ناواقفیت کی بنا پر اسلام کے تئیں تعصب اور اکثر نادانی کا ثبوت دیا جاتا ہے، یہ معاشرہ اور اسلامی زندگی کیلئے خطرناک ہے، آیندہ نسلوں کی پرورش و پرداخت کیلئے سم قاتل ہے، کچھ عرصہ پہلے پڑوسی ملک سے ایک نامور شخصیت نے یہی بیہودگی کی تھی، جس کا جواب تعلیم یافتہ، انٹلیکچول افراد کی جانب سے دیا گیا تھا، یہاں پر معروف قلمکار، مفکرہ ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر (سابق صدر، شعبہ اسلامی تاریخ کراچی یونیورسٹی) کی ایک تحریر پیش کرتے ہیں۔
” ایک ٹی وی اینکر کی غیر محتاط گفتگو نے ایک بڑے طبقے کو مشتعل کر دیا گو کہ اقبال آفتاب نے معافی مانگ لی ہے؛ لیکن اس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اسلامی تاریخ کے بہت سے پہلو ایسے ہیں جن کی درست اور مکمل معلومات عام طور پر بہت سے لوگوں کو نہیں، مطلق لوٹ مار تو واقعی بری چیز ہے ۔۔۔۔غیر اخلاقی ۔۔۔اور غیر قانونی ہے؛ لیکن مال غنیمت اور لوٹ مار میں بڑا فرق ہے ۔…… ۔ فتح کے بعد دشمن سے چھینا ہوا مال غنیمت کہلاتا تھا ۔ اسلام سے پہلے سے یہ طریقہ ہر قوم کا تھا کہ دشمن پر غالب آنے کے بعد ان کے ہتھیار، مال مویشی، عورتوں بچوں ہر چھوٹی بڑی چیز پر فاتح کا قبضہ ہو جاتا تھا ۔عربوں کی جنگوں میں بھی یہی طریقہ تھا، جنگی معرکوں میں اس کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ ہو ہی نہیں سکتا تھا؛ اگر آپ بھاگتے ہوئے دشمن کے ہتھیار اور جانوروں پر فوری قبضہ نہیں کریں گے اور ان کے ہتھیار اور گھوڑے یونہی میدان جنگ میں چھوڑ دیں گے تو بھاگتا ہوا دشمن پلٹ کر انہی ہتھیاروں سے آپ کا قیمہ بنا دے گا؛ لہذا شکست خوردہ دشمن کے ہتھیار اور اموال پر قبضہ جنگی لازمہ تھا۔ ہر قوم ایسا کرتی تھی کیونکہ اس کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں تھا؛ البتہ اسلام نے اس میں ایک نظم وضبط قائم کیا، مال غنیمت کو کیسے اور کہاں خرچ کیا جائے، اس کے مصارف بتائے۔سورہ انفال کی ١٤/ ویں آیت دیکھئے : اللہ تعالی فرماتے ہیں:
“جان لو کہ جو کچھ مال غنیمت تم نے حاصل کیا ہے اس کا پانچواں حصہ اللہ،اس کے رسول،اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لئے ہے”۔ اس قرآنی آیت سے پہلی بات تو یہ ثابت ہوتی ہے کہ مال غنیمت کا حاصل کرنا بالکل جائز اور درست تھا-دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ مال غنیمت کو جیسے دل چاہے ویسے خرچ نہیں کیا جا سکتا ،بلکہ اس کا پانچواں حصہ لازما حکومت وقت کے پاس جائے گا اور وہ اس کو ان مصارف میں خرچ کرنے کی پابند ہو گی جو اس ایت میں بتا دیئے گئے ہیں ۔ مال غنیمت کے باقی چار حصے کیسے اور کہاں خرچ ہوں گے، اسے سپہ سالار اور حکومت وقت پر چھوڑا گیا ہے؛ لہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے خلفا عموما مال غنیمت سپاہیوں میں اس طرح تقسیم کرتے تھے کہ پیادہ کو ایک حصہ اور سوار کو دو حصے ملتے تھے، جنگ بدر کے موقع پر حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ اپنی اہلیہ(بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کی شدید علالت کی وجہ سے شریک نہیں ہو سکے تھے لیکن رسول اللہ نے بدر کی غنیمت میں حضرت عثمان کا حصہ بھی لگایا تھا، مال غنیمت، اس کے مصارف وغیرہ پر فقہاء نے بحثیں کی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں حکومت کی آمدنی کے چند ہی ذرائع تھے مثلا فئی، زکوات اور مال غنیمت ۔بعد میں خلفا کے زمانے میں کئ ذرائع آمدنی کا اضافہ ہوا مثلا خراج، جزیہ، عشر، عشور وغیرہ مال غنیمت ہر دور میں بہت بڑا ذریعہ آمدنی سمجھا جاتا تھا ۔ اب اس جائز ذریعہ آمدنی کو غیر قانونی لوٹ مار سے کیا نسبت؟ یا اس جنگی حربے بلکہ لازمی کارروائی کو “اخلاقی گراوٹ “کہنا کیسے درست ہو سکتا ہے؟؟؟”*
✍🏻 *محمد صابر حسین ندوی*