غزل
فن اور ارتقاء
غزل اردو شاعری کی تمام اصناف سخن میں سب سے مقبول ترین صنف ہے، اس کی قبولیت کا اندازہ ہم اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ آج جبکہ بہت سی اصناف شاعری بالکل معدوم اور ناپید ہو چکی ہیں ،غزل اسی شان و شوکت کےساتھ ترقی و عروج کے منازل طے کر رہی ہے، کم و بیش تمام شعراء نے اس صنف میں ہاتھ آزمائے ،اگر یہ کہا جائے کہ اردو شاعری کا سب سے بڑا ذخیرہ آج اسی صنف میں موجود ہے تو غلط نہ ہوگا ،یہی وجہ ہے کہ رشید احمد صدیقی نے اسے اردو شاعری کی آبرو قرار دیا ۔ ان کا خیال ہے کہ ہماری تہذیب غزل میں غزل ہماری تہذیب میں ڈھلی ہے۔ دونوں کی سمت و رفتار، رنگ و آہنگ ، وزن و وقار ایک دوسرے سے ملے ہیں، یہی سبب ہے کہ ہماری تہذیب کی روح غزل میں اور غزل کی روح ہماری تہذیب میں بے نقاب نظر آتی ہے ۔
مشہور ادیب اور نقاد شمیم احمد لکھتے ہیں” اگر اردو شاعری کبھی زندہ رہی تو غزل کے ساتھ رہےگی ۔ فراق گورکھپوری غزل کے متعلق تحریر کرتے ہیں:
“غزل انتہاؤں کا ایک سلسلہ ہے یعنی حیات و کائنات کے وہ مرکزی حقائق جو انسانی زندگی کو زیادہ سے زیادہ متأثر کرتے ہیں، تأثرات کی انہی انتہاؤں کا مترنم خیالات و محسوسات بن جانا اور مناسب یا موزوں ترین الفاظ و اندازِ بیان میں ان کا صورت پکڑ لینا اسی کا نام غزل ہے”(اردو شاعری کا فنی ارتقاء:۱۶)
غزل کی لغوی تعریف
غزل عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی عورتوں سے بات چیت کرنا ہے۔
اصطلاحی تعریف
اصطلاح میں غزل ایسی صنف نظم کو کہتے ہیں جس میں عشق و معاشقہ کی باتیں کی جائے ۔
امداد امام اثر غزل کی تعریف کچھ اس طرح کرتے ہیں:
غزل کے لغوی معنی عورتوں سے کلام کرنا ہے، مگر اصطلاح میں اس سے وہ صنف شاعری مراد ہے جس میں ایسے مضامین جو اعلیٰ درجہ کے واردات قلبیہ اور ارفع درجہ کے امور ذہنیہ سے خبر دیتے ہیں۔ (کاشف الحقائق: ۳۶۹)
غزل اپنے ابتدائی مراحل میں موضوع کے لحاظ سے محدود تھی اس میں صرف عشق و محبت کے جذبات تحریر کئے جاتے تھے لیکن بعد میں اس میں بہت وسعت پیدا ہوگئی، آج غزل میں ہر قسم کے موضوعات کو بیان کرنے کا چلن عام ہو چکاہے۔
غزل کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا ہر شعر ایک الگ مفہوم رکھتا ہے،ایک شعر کے مضمون کا تعلق دوسرے شعر سے ہو یہ ضروری نہیں، جبکہ دیگر اصناف شعر مثنوی ،قصیدہ وغیرہ میں تسلسل خیال کی پابندی ضروری ہوتی ہے، غزل اس قید و بند سے آزاد ہوتی ہے۔ بعض شعراء نے ایسی غزلیں بھی کہی ہے جس میں تسلسل خیال پایا جاتا ہے۔ غزل کے اشعار کی تعداد تین سے لیکر پچاس تک متعین کی گئی ہے، لیکن عموماً پانچ ،سات، نو گیارہ طاق اشعار کی ایک غزل ہوتی ہے۔
ہیئت کے اعتبار سے غزل کے اجزائے ترکیبی حسب ذیل ہیں:
مطلع،ردیف،قافیہ،مقطع،بحر
مطلع
غزل کے پہلے شعر کو مطلع کہا جاتا ہے، اس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں، یا صرف ہم قافیہ ہوتے ہیں۔
میر صاحب کی غزل کا یہ مطلع دیکھیے جو ہم قافیہ و ہم ردیف ہے:
اس عہد میں الٰہی محبت کو کیا ہوا
چھوڑا وفا کو ان نے مروت کو کیا ہوا
اس شعر میں محبت ، مروت قافیہ ہے اور شعر کے اخیر میں “کیا ہوا” ردیف۔
مرزا غالب کی یہ غزل دیکھیے:
پھر اس انداز سے بہار آئی
کہ ہوئے مہر و مہ تماشائی
دیکھو اے ساکنانِ خطۂ خاک
اس کو کہتے ہیں عالم آرائی
کہ زمین ہو گئی ہے سر تا سر
روکش سطح چرخ مینائی
مذکورہ غزل میں ردیف نہیں ہے صرف قافیہ “آئی،تماشائی،آرائی،مینائی” وغیرہ استعمال ہوا ہے۔
ردیف
اصطلاح میں ایسے مستقل کلمے کو کہتے ہیں جو کسی شعر یا مصرعے کے آخر میں قافیہ کے بعد بعینہ دہرائے جائے ۔
میر صاحب کی غزل کا یہ شعر دیکھیے:
مزم میں منہ ادھر کریں کیو کر
اور نیچی نظر کریں کیوں کر
یوں بھی مشکل ہے ووں بھی مشکل ہے
سر جھکائے گزر کریں کیوں کر
مذکورہ اشعار کے اخیر میں “کیوں کر” ردیف استعمال ہوا ہے۔
قافیہ
لغت میں قافیہ کے معنی پیچھے آنے کے ہیں۔ اصطلا ح میں قافیہ حروف اور حرکات کے ایسے مجموعے کو کہتے ہیں جو اشعار کے اخیر میں ردیف سے پہلے آئے، جیسےمذکورہ اشعار میں “ادھر، نظر اور گزر قافیہ کے طور پہ استعمال کیے گئے ہیں۔ ردیف شعر کیلیے لازمی نہیں مگر قافیہ کے بغیر شعر کا تصور محال ہے، اگر اشعار میں ردیف نہ ہو تو قافیہ شعر کے اخیر میں ہوگا۔
مقطع
غزل کے آخر ی شعر کو کہتے ہیں جس پر غزل مکمل ہوتی ہے ۔ اس میں عموماً شعراء اپنا تخلص استعمال کرتے ہیں، جیسے جگر مرادآبادی کی غزل کا یہ آخری شعر بطور مقطع استعمال ہوا ہے:
آنسو تو بہت سے ہیں آنکھوں میں جگر لیکن
بندھ جائے سو موتی ہے وہ جائے سو دانا ہے
بسا اوقات شعراء اپنے نام یا تخلص کے بغیر بھی مقطع کہ دیتے ہیں ،میر صاحب کی غزل کا یہ آخری شعر دیکھیے:
جانے کا نہیں شور سخن کا مرے ہر گز
تا حشر جہاں میں میرا دیوان رہے گا
بحر
بحر لغت میں سمندر یا دریا کو کہتے ہیں، شعری اصطلاح میں بحر چند ایسے موزوں کلمات کو کہتے ہیں جن پر اشعار کے وزن کو درست کیا جاتا ہے، جن اجزاء سے مل کر بحر بنتا ہے انہیں ارکان کہتے ہیں۔ ہر شعر کسی نہ کسی بحر میں کہا جاتا ہے۔ں کہا جاتا ہے۔
غزل کی تاریخ
اردو زبان میں غزل گوئی کی روایت فارسی کے توسط سے پہنچی ہے۔ شمش الدین محمد خواجہ حافظ، مصلح الدین معروف بہ شیخ سعدی، ملا جامی اور امیر خسرو وغیرہ فارسی زبان میں اعلی درجہ کی غزلیں تحریر کی ہیں۔
غزل گوئی دکن میں
اردو شاعری کی دوسری صنف کی طرح غزل کی ابتداء بھی دکن سے ہوئی، قطب شاہی سلطنت کا پانچواں فرماں روا محمد قلی قطب شاہ کو اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر کہا جاتا ہے۔ اس نے کلیات محمد قلی کے نام سے ایک کلیات تحریر کی جس میں غزل کی ایک اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔ قلی قطب شاہ کے متعلق نصیر الدین ہاشمی تحریر کرتے ہیں” سلطان کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک فطری شاعر تھا، ہر موضوع پہ نہایت کامیاب طبع آزمائی کرتا ہے”، دکنی شعراء میں لفطی ، وجہی، غواصی، برہان الدین جانم ، نصرتی ، سراج اورنگ آبادی اور ولی دکنی وغیرہ نے بھی غزلیں تحریر کی ہیں۔
ولی دکنی
دکنی شعراء میں ولی دکنی کا مقام بہت بلند ہے۔ ولی دکنی پہلے ایسے غزل گو شاعر ہیں جن کی غزلوں کو بنیاد بنا کر بعد کے شعراء نے غزلیں کہنی شروع کیں۔ مولانا ابو الکلام آزاد نے ولی دکنی کو اردو غزل کا بابائے آدم قرار دیا۔ بعض محققین شمالی ہند میں اردو شاعری کے باقاعدہ آغاز کو ولی کے دیوان کی آمدِ دلی سے تسلیم کرتے ہیں۔ ولی کی غزلوں کے چند اشعار دیکھیے:
دیکھنا ہر صبح تجھ رخسار کا
ہے مطالع مطلع انوار کا
یاد کرنا ہر گھڑی تجھ یار کا
ہے وظیفہ مجھ دل بیمار کا
غزل شمالی ہند میں
شمالی ہند کے ابتدائی دور کے غزل گو شعراء میں شاہ مبارک آبرو، خان آرزو، مرزا مظہر جان جاناں، شاہ حاتم اور فائز دہلوی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
دبستان دہلی کے شعراء
دبستان دہلی کے اہم غزل گو شعراء میں میر تقی میر، سودا، خواجہ میر درد،قائم چاندپوری، میر سوز، میر اثر ، مرزا غالب ، مومن خان مومن وغیرہ کا شمار ہوتا ہے۔
دبستان لکھنؤ کے شعراء
دبستان لکھنؤ کے شعراء میں انشاء، مصحفی، جرأت، ناسخ، حیدر علی آتش، اور امانت لکھنوی وغیرہ نے عمدہ قسم کی غزلیں تحریر کی۔
دور جدید کے شعراء
دور جدید کے غزل گو شعراء میں حسرت موہانی، فانی بدایونی، اصغر گونڈوی، یگانہ چنگیزی، جگر مرادآبادی، شاد عظیم آبادی، چکبست اور آرزو لکھنوی نے بھی فن غزل گوئی کی آب یاری کی اور اس کو عروج پر پہونچانے میں اہم کردار اد ا کیا۔