(ایمانیات سیریز: 6)
شرک
ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ
اللہ تعالیٰ کی الوہیت پر ایمان کی ضد شرک ہے۔ اگر اللہ کو معبود ماننا اور تنہا اسی کو عبادت کا مستحق سمجھنا انسان کی سب سے بڑی ذمے داری ہے، تو اس کے ساتھ کسی کو شریک وسہیم ٹھیرانا انسان کا سب سے قبیح اورشنیع جرم ہے۔
باری تعالیٰ کی نگاہ میں یہ رویہ سب سے بڑی گستاخی اور اکبر الکبائر ہے۔ یہی وہ اکلوتا گناہ ہے جس سے اگر زندگی بھر توبہ نہ کی جائے تو مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کسی حال میں بھی اسے کسی کے لیے معاف نہیں کرے گا جیسا کہ اس کا اعلان اور وعدہ ہے۔اس لیے شرک سے توبہ اشد ضروری ہے۔ارشادِ باری ہے: {إِنَّ اللّہَ لاَ یَغْفِرُ أَن یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِکَ لِمَن یَشَائ} (نسائ، ۴۸) ’’اللہ بس شرک ہی کو معاف نہیں کرتا، اس کے ماسوا دوسرے جس قدر گناہ ہیں وہ جس کے لیے چاہتا ہے، معاف کر دیتا ہے۔‘‘
اللہ کے رسولﷺ سے پوچھا گیا کہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کونسا ہے تو فرمایا :’’یہ کہ تم کسی کو اللہ کا مدِ مقابل بنائو،حالانکہ اسی نے تمھیں پیدا کیا ہے۔‘‘[أی الذنب أعظم عنداللّٰہ قال أن تجعل للّٰہ ندا وہو خلقک](صحیح بخاریؒ:۴۲۰۷۔ صحیح مسلمؒ:۸۶)
اگر انسان شرک میں مبتلا ہوجائے تواس کی دیگر نیکیاں بھی خراب اور اکارت ہوجاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے ساتھ بھی اس حوالے سے کوئی رعایت نہیں فرمائی، پھر دوسرے کس شمار قطار میں ہیں؟ ارشادِ باری ہے:{ذَلِکَ ہُدَی اللّہِ یَہْدِیْ بِہِ مَن یَشَاء ُ مِنْ عِبَادِہِ وَلَوْ أَشْرَکُواْ لَحَبِطَ عَنْہُم مَّا کَانُواْ یَعْمَلُون}(انعام،۸۸)’’یہ اللہ کی ہدایت ہے جس کے ساتھ وہ اپنے بندوں میں سے جس کی چاہتا ہے رہنمائی کرتا ہے،لیکن اگر کہیں ان لوگوں نے شرک کیا ہوتا تو ان کا سب کیا کرایا غارت ہوجاتا۔‘‘
اگر شرک پر رہتے ہوئے کوئی شخص مر جائے تو آخرت میں اسے ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم کی آگ میں ڈالا جائے گا:{ إِنَّہُ مَن یُشْرِکْ بِاللّہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَمَأْوَاہُ النَّارُ}(مائدہ، ۷۲)’’جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرایا اس پر اللہ نے جنت حرام کر دی اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔‘‘
شرک کی دو بڑی قسمیں ہیں:
[۱]شرکِ اکبر۔انسان اگر کسی عبادت کو اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کے لیے انجام دے تو یہ عمل شرکِ اکبر ہے۔ ہر قول وفعل جسے اللہ پسند کرتا ہے، اگر اسے اللہ کی خاطر انجام دیا جائے تو یہی توحید اور ایمان ہے، اور اسے کسی اور کے لیے انجام دیاجائے تو یہ شرک اور کفر ہے۔
مثال کے طور پر انسان اللہ کے سوا کسی سے دعا مانگے کہ اس کی بیماری دور کر دی جائے یا اس کے رزق میں فراوانی پیدا کر دی جائے۔ اسی طرح انسان اگر غیر اللہ پر توکل کرتا ہے یا اس کے آگے سجدہ کرتا ہے تو یہ بھی شرکِ اکبر ہے۔
ارشادِ باری ہے:{وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُونِیْ أَسْتَجِبْ لَکُمْ إِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُونَ جَہَنَّمَ دَاخِرِیْنَ}(غافر،۶۰)’’تمہارے رب نے کہا ہے کہ مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا، جو لوگ گھمنڈ میں آکر میری عبادت سے منھ موڑتے ہیں ضرور وہ ذلیل وخوار ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے۔‘‘
{وَعَلَی اللّہِ فَتَوَکَّلُواْ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْن}(مائدہ،۲۳)’’اور صرف اللہ پر بھروسہ رکھو اگر تم مومن ہو۔‘‘ {فَاسْجُدُوا لِلَّہِ وَاعْبُدُوا}(نجم، ۶۲)’’سجدہ کرو اللہ کے آگے اور بندگی بجالائو۔‘‘
چنانچہ ان دعائوں اور دیگر عبادتی کاموں کو غیر اللہ کے لیے انجام دینا شرک اور کفر ہے کیونکہ کسی کو بیماری سے شفا دینا یا رزق عطا کرنا پوری طرح اللہ کی شانِ ربوبیت کے خاصیات میں شامل ہے۔ اسی طرح اللہ پر توکل کرنا اور اسی کے آگے سجدہ کرنا توحیدِ الوہیت کے دائرۂ اثر میں آتا ہے۔
[۲]شرکِ اصغر۔ اس سے مراد ہر وہ قول وعمل ہے جو شرکِ اکبر تک پہنچانے کا ذریعہ ہو یا اس میں ملوث کرنے کا سبب بنے۔ اسی کی ایک شکل ہلکی ریاکاری ہے۔ مثلاً کوئی مسلمان اس لیے نماز لمبی کرے کہ لوگ دیکھ کر اسے اللہ والا سمجھیں، یا وہ لوگوں کو سنانے اور ان کی داد وتوصیف پانے کے لیے زورسے تلاوت یا ذکر کرے۔ اللہ کے نبیﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:’’مجھے تمہارے بارے میں سب سے زیادہ اندیشہ شرکِ اصغر کا ہے۔‘‘ لوگوں نے پوچھا: ’’وہ کیا ہے اللہ کے رسول ﷺ؟‘‘ فرمایا: ’’ریاکاری۔‘‘[إن أخوف ما أخاف علیکم الشرک الأصغر قالوا ما الشرک الأصغر یا رسول اللّٰہ قال الریائ](مسند احمدؒ:۲۳۶۳۰)
اسی میں وہ ممنوعہ باتیں بھی آتی ہیں جو کمالِ توحید کے منافی ہیں۔ مثال کے طور پر اللہ کا نام چھوڑ کر کسی دوسرے کے نام کی قسم کھانا۔مثلاًزندگی کی قسم،سر کی قسم، ماں کی قسم، نبیﷺ کی قسم وغیرہ۔ اللہ کے نبیﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:’’جو اللہ کے سوا کسی کی قسم کھائے اس نے کفر اور شرک کیا۔‘‘[من حلف بغیر اللّٰہ فقد کفر أو أشرک](سنن ترمذیؒ:۱۳۳۵)
اسلام کی آمد کا ایک بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان خرافات و توہمات اورمذہبی دجل وفریب کی بیڑیوں سے آزاد ہوجائے اور اللہ کے سوا ہر ایک سے بے نیازاور مستغنی بن جائے۔ اس لیے شریعت کی رو سے کسی مردے سے یا جمادات سے کچھ مانگنا، اس کے سامنے عاجزی وانکساری کا رویہ اختیار کرنا جائز نہیں۔ یہ سب خرافات اور شرک ہے۔ البتہ کوئی شخص زندہ ہے، ہمارے سامنے موجود ہے، ہماری بات اس کے کانوں تک پہنچ رہی ہے تو اس سے ایسی چیز مانگنا درست ہے جسے دینے کی وہ صلاحیت اور استطاعت رکھتا ہے۔مثلاً تعاون کی اپیل کرنا، ڈوبتے کو بچانے کے لیے کہنا، یا دعائوں کی درخواست کرنا ٹھیک ہے۔
مرچکے انسانوں اور بے جان اشیاء سے کچھ مانگنا شرک ہے۔ کیونکہ مردہ ہو یا بے جان چیز، یہ کسی کی پکار اور طلب نہیں سن سکتے اور نہ کسی کا جواب دے سکتے ہیں۔ دعا بھی عبادت کی ایک شکل ہے، جسے اگر غیر اللہ کے لیے کیا جائے تو یہ شرک ہے۔ بعثتِ نبوی کے وقت عرب کے لوگ اسی شرک میں مبتلا تھے۔ وہ مردوں سے دعائیں مانگتے تھے یا بتوں اور آستھانوں سے منتیں کرتے تھے۔
البتہ کوئی زندہ شخص ہے جو ہماری بات سن رہا ہے اور وہ ہماری طلب پوری کرنے کی قدرت رکھتا ہے، ایسے میں اگر اس سے اس کے دائرۂ اختیار میں مدد مانگی جائے تو یہ جائز ہے۔نوعِ انسانی کی سماجی واجتماعی زندگی اسی ڈھب پر چل رہی ہے۔البتہ کسی زندہ شخص سے ایسی درخواست کرنا جس کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ اس کے دائرۂ قدرت واختیار سے باہر ہے،درست نہیں ہے۔ مثلاً کسی پیر یا شیخ سے درخواست کرنا کہ بے اولاد جوڑے کو اولاد عطا کر دے۔ یہ چیز شرکِ اکبر ہے اور شرعِ اسلام کے صریحاً خلاف ہے کیونکہ یہ غیر اللہ سے دعا مانگنے جیسا ہے۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔