روزہ : برکات و خصوصیات

روزہ : برکات و خصوصیات

(رمضان سیریز: 10)

روزہ: برکات اور خصوصیات

ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ

(۱) اللہ تعالیٰ نے روزے کو تمام سابقہ امتوں پر فرض رکھا ہے۔ ارشادِ باری ہے:{یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ} (البقرۃ:۱۸۳) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کردیے گئے، جس طرح تم سے پہلے کے انبیاء کے پیروئوں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقوی کی صفت پیدا ہوگی۔ ‘‘

یہاں تین چیزیں قابلِ غور ہیں:

الف) آیت میں ایمان والوں کو مخاطب کیا گیا ہے جو اعزاز و اکرام کی بات ہے، لیکن ساتھ ساتھ اس طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ ایمان کی صفت سے متصف ہونے کا لازمی تقاضا ہے کہ دیے گئے حکم کو خوشدلی سے قبول کیا جائے اور حتی الامکان اس پرعمل پیرا ہونے کی کوشش کی جائے۔

ب) ’’روزہ سابقہ تمام امتوں پر بھی فرض تھا‘‘ بتانے سے اہلِ ایمان کی دلداری اور ان کو ترغیب دینا مقصود ہے۔ اس جملہ سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ روزہ اُن دینی اوامر میں سے ایک ہے جو ابتدائے آفرینش سے ہی خلقِ خدا کی اصلاح وتربیت کے لیے ناگزیر رہے ہیں۔ نیز اس کے ذریعے امت ِ مسلمہ میں دیگر امتوں کے بالمقابل نیک کاموں میں جذبۂ مسابقت بھی ابھارا گیا ہے اورمزید اس بات کا اشارہ کیا گیا ہے کہ فریضۂ صیام کی مشقت صرف مسلمانوں پر ہی نہیں ڈالی گئی ہے۔

ج) روزے کا مقصد تقویٰ کا حصول ہے۔ تقویٰ ایک جامع کلمہ ہے جس کا معنی لحاظ کرنا ہوتا ہے۔ اس کے مفہوم میں طاعات کی انجام دہی، منہیات سے اجتناب، نفسانی خواہشات پر قابواور شبہات سے بچنا شامل ہے۔ مختصرالفاظ میں، اللہ کے اوامر و نواہی کا لحاظ کرتے ہوئے مطلق خیر کے حصول کے لیے جدوجہد ہی تقویٰ کی روح ہے۔

(۲) روزہ گناہوں کے کفارے اور کوتاہیوں کی مغفرت کا کارگر وسیلہ ہے۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’پانچوں نمازیں، جمعہ (کی نماز) دوسرے جمعہ تک اور رمضان المبارک دوسرے رمضان المبارک تک درمیان میں (واقع ہونے گناہوں) کا کفارہ کردیتے ہیں بشرطیکہ کبائر سے اجتناب کیا جائے۔ ‘‘ [الصلوات الخمس والجمعۃ الیٰ الجمعۃ ورمضان الیٰ رمضان مکفرات ما بینھنّ اذا اجتُنِبَت الکبائر] (صحیح مسلمؒ:۵۷۴)

نیز یہ کہ انسان کو اس کے اہل وعیال، مال ودولت اور پڑوسی وہمسایہ کے تعلق سے جو فتنہ (یعنی گناہ) لاحق ہوجاتا ہے اس کا کفارہ نماز، روزہ اور صدقے سے ہوجاتا ہے۔ ‘‘ [فتنۃ الرجل ی أھلہ ومالہ وجارہ تکفرھا الصلاۃ والصیام والصدقۃ] (صحیح بخاریؒ:۱۸۹۵۔ صحیح مسلمؒ:۲۸۹۲)

مزیدآپ ﷺکاارشاد ہے: ’’جس نے رمضان المبارک کے روزے ایمان اوراجر و ثواب کی نیت سے رکھے تو اس کے گزشتہ گناہ بخش دیے گئے۔ ‘‘ [من صام رمضان المبارک ایماناً واحتساباً غفر لہ ما تقدّم من ذنبہ] (صحیح بخاریؒ:۱۹۰۱۔ صحیح مسلمؒ:۱۷۵)

ایمان اور احتساب کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پر ایمان رکھا جائے اور روزوں کی فرضیت پر رضامندی کا اظہار ہو، بایں طور کہ فریضۂ صیام کودل سے ناپسند نہ کیا جائے اور نہ ہی اس پرموعود اجر وثواب کے تئیں شک وارتیاب میں مبتلا ہوا جائے۔

(۳) روزے کا اجر وثواب کسی مخصوص تعداد کے ساتھ مقید نہیں، بلکہ اس پر بے حد وحساب اجر کا وعدہ ہے۔ حدیث ِ قدسی میں اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’آدم زاد کا ہر عمل اس کے لیے ہے سوائے روزہ کے، کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا‘‘ ۔ روزہ ایک ڈھال ہے، جب تمہارے روزے کا دن ہو تو لازم ہے کہ تم گالم گلوج اور شور شرابہ کرنے سے اجتناب کرو۔ اب اگر کوئی گالی دینے یا جھگڑا کرنے پر شدت سے اکسائے توکہہ دینا چاہیے کہ میں روزے دار ہوں۔ قسم اس ذاتِ پاک کی جس کے قبضۂ قدرت میں محمدﷺ کی جان ہے، روزے دار کے منھ کی بو اللہ تعالیٰ کو مشک کی خوشبو سے زیادہ پیاری ہے۔ روزے دار کے لیے دو فرحتوں کا حصول طے ہے: ایک جب وہ افطار کرتا ہے تو اسے فرحت حاصل ہوتی ہے، دوسرے جب وہ اپنے رب کے حضور باریاب ہوگا تواسے روزہ کی فرحت محسوس ہوگی‘‘ ۔ [قال اللہ تعالیٰ:کل عمل ابن آدم لہ إلا الصوم فانہ لی وانا اجزی بہ۔ والصیام جُنت فاذا کان صوم یوم أحدکم فلا یرفث ولا یصخب فان سابّہ أحد أوقاتلہ فلیقل انی صائم، والذی نفس محمد بیدہ لخلوف فم الصائم أطیب عند اللہ من ریح المسک، للصائم فرحتان یفرحھما، اذا أفطر فرح بفطرہ واذا لقی ربہ فرح بصومہ] (صحیح بخاریؒ:۱۹۰۴۔ صحیح مسلمؒ:۲۷۶۰)

یہاں بھی چند باتیں قابلِ غور ہیں:

الف) روزے کو اللہ رب العزت نے اپنی ذات سے مخصوص کارِ ثواب بتایا ہے جو روزے کی فضیلت کی دلیل ہے، کیونکہ اسلامی عبادات میں روزہ تنہاایسی عبادت ہے جو صرف بندے اور رب کے مابین انجام پاتی ہے اورکسی تیسرے واسطہ یا وسیلہ کا اس میں دخل نہیں ہوتا۔ اس اختصاص کا فائدہ-بقول حضرت سفیان بن عیینہؒ-یہ ہے کہ روزِ قیامت جب بندے کا محاسبہ ہوگااور گناہوں کی پاداش میں اس کے نیک اعمال سلب ہوچکیں گے تو بالآخر اللہ تعالیٰ روزے کا اجر اپنے ذمہ لے کر سارے گناہوں کی مغفرت فرمادے گا اور روزے ہی کے سبب بندے کو جنت میں داخلہ نصیب ہوجائے گا۔ ‘‘ (لطائف المعارف، ابن رجبؒ:۲/۱۲۳)

ب) اللہ تعالیٰ نے روزے کی جزا کو اپنی ذات سے منسوب کیا ہے جو عزت وکرامت کی بات ہے۔ دیگر صالح اعمال کی جزاوثواب میں کمیت کا اعتبار کیا گیا ہے اگرچہ وہ ایک نیکی کے بدلے دس یا سات سو یا اس سے کئی گنا زیادہ کیوں نہ ہو۔ لیکن روزے اور صبر کو اس قاعدہ کلیہ سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔

صبر کی تین اقسام ہوتی ہیں:

اولاً:طاعات کی ادائیگی پر صبر کرنا۔
ثانیاً:محرمات ومنہیات سے اجتناب پر صبر کرنا۔
ثالثاً:عسر ویسر ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر صبر کرنا۔

روزے میں صبر کی یہ تینوں قسمیں بہ تمام وکمال پائی جاتی ہیں۔ ارشادِ باری ہے:{ إِنَّمَا یُوَفَّی الصَّابِرُونَ أَجْرَہُم بِغَیْْرِ حِسَابٍ } (زمر، ۱۰) ’’صبر کرنے والوں کو تو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا‘‘ ۔

ج) روزہ ڈھال ہے جو روزے دار کو لغویات وفواحش کے حملوں سے محفوظ ومأمون رکھتا ہے۔ ارشادِ نبویﷺ ہے: ’’روزہ ڈھال ہے جس کے ذریعہ سے بندہ نارِ دوزخ سے بچتا ہے‘‘ ۔ [الصیام جنۃ یستجنّ بھا العبد من النار] (مسند احمدؒ:۱۵۲۹۹)

“جو اللہ کی راہ میں ایک دن روزہ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو نارِ دوزخ سے ستر خریف دور فرمادیتے ہیں۔ ‘‘ [من صام یوما فی سبیل اللہ باعد اللہ وجھہ عن النار سبعین خریفا] (صحیح بخاریؒ:۲۸۴۰۔ صحیح مسلمؒ:۱۱۵۳.خریف یعنی سال کیونکہ خریف یا خزاں کا موسم سال میں ایک بار ہی آتا ہے۔ یہ عربی زبان کا اسلوب ہے کہ شے کے لازمہ کو بول کر اصل شے مراد لیتے ہیں۔ )

یہ ایک روزے کے بارے میں ہے، پورے ماہِ رمضان المبارک اور مسلسل کئی سال روزے رکھنے پر کیا کچھ اجروثواب مرتب ہوسکتاہے، یہ بس سوچا ہی جاسکتا ہے۔

د) دوزخ کی آگ سے دور کرنے کے ساتھ ساتھ روزے کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ بندۂ مومن کو جنت سے قریب لے جاتا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ سے حضرت ابو امامہؓ باہلی نے سوال کیا تھا کہ مجھے کسی ایسے امر کی تلقین فرمادیجیے جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ مجھے نفع اٹھانے والا بنا دے۔ آپﷺ نے فرمایا:تم روزہ رکھنے کو لازم پکڑ لو کیونکہ اس کا متبادل کوئی نہیں ہے۔ ‘‘ [مرنی بأمر ینفعنی اللہ بہ قال:علیک بالصوم فإنہ لا مثل لہ] (مسند احمدؒ:۵/۲۴۹۔ سنن نسائیؒ:۲۲۲۰۔ تصحیح البانیؒ فی صحیح الجامع:۴۰۴۴)

د) روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہوتی ہیں۔ پہلی طیباتِ دنیا؛ طعام، مشروبات اور مناکحت کے مباح ہونے سے، اور دوسری روزِ محشر میں صائمین کے داخلے کے لیے مخصوص باب الریان (صحیح بخاریؒ:۱۸۹۷۔ صحیح مسلمؒ:۲۴۱۸) سے جنت میں داخل ہوتے ہوئے۔

اللہ کے رسولﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ یقینا جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ’’باب الریان‘‘ کہا جاتا ہے، قیامت کے روز اس سے روزے دار داخل ہوں گے اور ان کے علاوہ کوئی دوسرا اس سے داخل نہیں ہوگا۔ سب روزے دار داخل ہوچکیں گے تو اس دروازے کو بند کردیا جائے گا، بعد ازاں کوئی اس سے داخل نہیں ہوگا۔” ‘‘ [إن فی الجنۃ بابا یقال لہ الریان یدخل منہ الصائمون یوم القیامۃ لایدخل منہ أحد غیرھم فإذا دخلوا أغلق فلم یدخل منہ أحد] (صحیح بخاریؒ:۱۸۹۶۔ صحیح مسلمؒ:۱۱۵۲)

ھ) حدیث میں اشارہ ہے کہ کسی کے برانگیختہ کیے جانے پر اسے جتا دینا چاہیے کہ میری طرف سے جوابی ردِ عمل نہ ہوناکمزوری یا خوف کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ صرف روزے کے احترام ووقار کی وجہ سے ہے۔ ارشادِ باری ہے{وَلَا تَسْتَوِیْ الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُ ادْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِیْ بَیْْنَکَ وَبَیْْنَہُ عَدَاوَۃٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیْم٭وَمَا یُلَقَّاہَا إِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوا وَمَا یُلَقَّاہَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِیْمٍ } (فصلت، ۳۴-۳۵) ’’اور نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔ یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر ان لوگوں کو جوبڑے نصیبے والے ہیں‘‘ ۔

(۵) روزہ قیامت کے دن روزے داروں کی شفاعت کرے گا۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کے لیے سفارش کریں گے، روزہ کہے گا: اے میرے رب! میں نے اس بندے کو غذا اور خواہشاتِ نفس سے دور رکھا تھا، تو آپ اس کے حق میں میری سفارش قبول فرمائیے۔ قرآن کہے گا: میں نے اس کو رات میں سونے سے باز رکھا تھا، تو آپ اس کے حق میں میری سفارش قبول فرمائیے۔ آپﷺ نے فرمایا:تب ان دونوں کی شفاعت مان لی جائے گی‘‘ ۔ [الصیام والقرآن یشفعان للعبد یوم القیامۃ، یقول الصیام:أی ربّ منعتہ الطعام والشھوۃ فشفعّنی فیہ، ویقول القرآن:منعتہ النوم باللیل فشفعّنی فیہ، قال:فیُشفعان] (مسند احمدؒ:۶۶۲۶۔ مستدرک حاکمؒ:۲۰۳۶)

وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمین۔

اپنی راۓ یہاں لکھیں