داستان کا فن، آغاز و ارتقاء

      داستان کا فن آغاز و ارتقاء

از: احمد

  یہ اس وقت کی بات ہے جب لوگوں کے پاس وقت گزاری، اپنی ذہنی حرارت  و تھکان کو دور کرنے کے ذرائع بہت محدود تھے۔ آج کل کی طرح مختلف قسم کے کھیل کود، سیر و تفریح کے لیے خوبصورت مقامات، سرور و مستی کے لیے موسیقی  وغیرہ نہیں ہو اکرتے تھے۔ نہ ادبی محفلیں سجا کرتی تھیں اور نہ ہی شعر و شاعری کی مجلسیں منعقد کی جاتی تھیں۔ روز مرہ کے معمولات میں  گَلہ بانی اور اپنے کھیتو ں کام کاج کرنا شامل تھا۔دن بھر کام کرکے شام میں جب سب اکٹھا ہوتے تو ان میں کا ایک شخص جو عموماً بڑی عمر کا ہوتا تھا ، ان کی ذہنی تکان کو دور کرنے کے غرض سے قصے اور کہانیاں سناتا۔

 یہ قصے بعض دفعہ مختصر ہوتے تو بعض دفعہ  کئی کئی راتوں تک سلسلہ چلتا رہتا۔ ان قصوں کے موضوعات کا مرکز عموماً جن، پریاں، بادشاہ،دیو،جادو وغیرہ ہوا کرتے تھے۔ہر شب قصہ گو اپنے قصے کو ایسی جگہ ختم کرتا کہ اگلے دن تمام سامعین بڑی بے صبری اور بے چینی سے آگے کے واقعات سننے کے مشتاق رہتے ۔ رفتہ رفتہ یہ قصہ گوئی لوگوں کا محبوب عمل اور بہترین مشغلہ بن گیا۔ بہت جلد ہی اس نے مستقل ایک فن کی حیثیت اختیار کر لی۔

قصہ گوئی کی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو یہ اتنی ہی قدیم معلوم ہوتی ہے جتنی کہ نطق انسانی کی تاریخ۔یعنی اس روئے زمیں پر جب سے انسانوں نے بود باش اختیار کیا یہ فن کسی نہ کسی شکل میں پایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر گیان چند جین لکھتے ہیں” حکمائے یونان کے بقول قصہ گوئی   کا فن شاعری اور موسیقی کی  دیویوں سے بھی قدیم تر ہے۔ ممکن ہے بعض لوک کہانیاں پانچ ، دس ہزار سال پیشتر وجود میں آچکی ہوں”  قصہ گوئی اور داستان کا فن اردو زبان میں عربی اور فارسی کے توسط سے پہنچا ہے۔

 عربی کے مشہور افسانے الف لیلہ، السندباد، حاتم طائی  کو تراجم کے ذریعے اردو میں منتقل کیا جا چکا ہے۔ عربوں میں زمانہ جاہلیت میں یہ فن بہت مقبول تھا ڈاکٹر گیان چند دوسری جگہ لکھتے ہیں” عرب میں داستان گوئی باضابطہ ایک فن تھا جو عہد جاہلیت میں عروج پر تھا۔ چاندنی رات میں کھانے کے بعد شائقین حضرات ریت پر اکٹھا ہو جاتے تھے،سامر(قصہ گو) قصہ سناتا تھا اجرت میں اسے کھجوریں دی جاتی تھیں”(اردو کی نثری داستانیں،ص:41)یہ عرب سے منتقل ہو کر ایران پہنچا وہاں اس نے فارسی لبادہ اختیار کیا پھر ایرانی تجار اور سیاحوں کے ذریعہ  اس نے ہند کی سرزمین پہ قدم رکھا۔ اردو داں طبقہ نے اس فن کا پر جوش اور پر تپاک انداز میں آگے بڑھ کر استقبال کیااور اسے عروج و بلندی کے معراج پر پہنچایا۔

اردو  ادب میں داستان گوئی کا آغاز ملا وجہی کی داستان “سب رس” 1635ء سے ہوتا ہے،لیکن ملا وجہی کی یہ داستان ایک تمثیلی داستان ہے اور اس کی عبارت مشکل اور پیچیدہ ہے، جس کی وجہ سے داستان کا اصل مقصد اس سے حاصل نہیں ہو سکتا۔ باقاعدہ   داستان گوئی جس میں داستان کے مقاصد کا لحاظ کیا گیا ہو  انیسوی صدی کے ابتداء سے شروع ہوتی ہے۔ پہلے عطاحسین تحسین نے “قصہ چہار درویش” کا ترجمہ  کیا۔ پھر میر امن نے  فورٹ ولیم کالج کے تحت ڈاکٹر جان گلکرسٹ کی سرپرستی میں اسی قصہ کا ترجمہ “باغ و بہار” کے نام سے سادہ اور عام فہم زبان میں 1803ء تحریر کیا ۔ فورٹ ولیم کے کالج تحت کئی داستانیں تحریر کی گئیں جن چند بہت مقبول ہوئیں جو حسب ذیل ہیں:

باغ و بہار: میر امن۔

آرائش محفل،طوطا کہانی: حیدر بخش حیدری۔

داستانِ امیر حمزہ: خلیل علی خاں ولا۔

نثرِ بے نظیر: بہادر علی حسینی۔

بیتال پچیسی: للو لال جی، مظہر علی ولا۔

سنگھاسن بتیسی: کاظم علی جواں، للو لال کوی۔

فورٹ ولیم کالج کے علاوہ انفرادی طور پر بھی انیسویں صدی کے آخر تک بے شمار داستانیں تحریر کی گئیں جن میں چند مشہور داستانیں درج ذیل ہیں:

نورتن: میر محمد بخش مہجور۔

فسانۂ عجائب: رجب علی بیگ سرور۔

گل صنوبر: نیم چند کھتری۔

الف لیلہ، بوستانِ خیال، طلسم ہوش ربا،سروش سخن،طلسم حیرت اور ان شاء اللہ خاں انشاء کی رانی کیتکی کی کہانی(1803ء شمالی ہند کی سب سے پہلی داستان) وغیرہ شامل ہیں۔

رفتہ رفتہ لوگوں کی مشغولیات میں اضافہ ہونے لگا ، لوگوں کے پاس قصہ گوئی ، داستان سننے اور کہنے کا وقت نہیں  رہا۔اس کی طوالت نے لوگوں کے دھیرے دھیرے اس سے دور کر دیا اور اس فن کے زوال کے بعد افسانے ،ناول  وغیرہ فنون وجود میں آئے۔

داستان کے اجزائے ترکیبی

تواترِ مہمات، پیچیدگی، شش وپنج، استعجاب و اضتراب اور اطناب کو داستان کے اجزائے ترکیبی قرار دیا جا سکتا ہے۔

خواجہ امان نے حدائقِ انظار(ترجمہ بوستان خیال) کے دیباچے میں داستان کی چند خصوصیات تحریر کرتے ہیں:

اول: مطلب مطول و خوشنما جس کی تمہید و بندش میں تواردِ مضمون اور تکرارِ بیان نہ ہو۔

دوم: بجز مدعائے خوش ترکیب و مطلب دلچسپ کوئی مضمون سامعِ خراش و ہزل درج نہ کیا جائے۔

سوم: لطافت زبان۔

چہارم:عبارت سریع الفہم ،جو  کہ قصہ گوئی کے فن کا لازمی جز و ہے۔

پنجم:تمہید قصہ میں بجنسہ تواریخِ گزشتہ کا لطف حاصل ہو، تاکہ نقل و اصل میں ہرگزفرق نہ ہو سکے۔

خواجہ امان کی تحریر کردہ خصوصیات کے مطابق داستان کا طویل ہونا اس کی خوبی شمار کی جاتی ہے خواہ یہ طوالت بے جا ہی کیوں نہ ہو۔ بس اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ یہ طوالت واقعات کے تکرار سے پیدا نہ کیا جائے۔ داستان کو طول دینے کے لیے داستان گو اور قصہ گو مصنفین نے قصہ در قصہ یعنی ایک قصے کے اندر مزید ایک اور قصہ  کی تکنیک کا استعمال کیا اور  اس کی بہترین مثال ابن نشاطی کی پھول بن اور باغ و بہار میں ملتی ہے۔ ایک اچھے اور ماہر داستان گو کی مہارت اور خوبی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا تا کہ وہ داستان کو کس جگہ ختم کرتا ہے اور پھر اگلے دن کہاں سے شروع کرتا ہے۔ کتنی دیر داستان کو نقطۂ عروج پر پہنچا کر روک سکتا ہے۔

مسعود حسین رضوی نے داستان کو  نقطۂ عروج پر پہنچا کر  روکنے کی بہترین مثال تحریر کی ہے   لکھتے ہیں:

ایک بار دو ماہر فن داستان گویوں میں مقابلہ ہوا کہ کون کتنی دیر داستان کو روک سکتا ہے۔ ایک داستان گو نے قصے کو نقطۂ عروج پر پہنچا دیا کہ عاشق معشوق کے پاس آ گیا ہے ، دونوں کے وصل کے بیچ محض ایک  پردہ حائل ہے، جوں ہی پردہ ہٹے گا دونوں کا فصل وصل میں تبدیل ہو جائے گا۔ اس مقام پر لا کر داستان گو داستان کو روک دیتا ہے۔ اپنی وسعتِ معلومات اور طاقت لسانی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ طرفین کے جذبات اور حائل ہونے والے حجاب کا عالمانہ بیان کرتا ہے اور اس میں کئی دن صرف کر دیتا ہے۔ ہر روز سامعین اپنے دل میں یہ آرزو لیے آتے ہیں کہ آج پردہ ضرور ہٹے گا، اب کچھ بیان کرنے کو باقی نہیں رہا۔ لیکن رات کو اس حال میں واپس لوٹتے ہیں کہ بس پردہ اٹھنے میں تھوڑی کسر باقی رہ جاتی ہے۔ اس طرح اس صاحبِ کمال داستان گو نے ایک ہفتے سے زیادہ داستان کو روکے رکھا ۔

ایک کامیاب داستان نگار کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کی زبان صاف اور سلیس ہو تاکہ سننے والے کے کان پہ گراں نہ گزرے ۔ الفاظ کا انتخاب سامع کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کیا جائے، کیونکہ الفاظ اظہار خیال کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ اگر الفاظ کا انتخاب و چناؤ مناسب طریقے پر نہ کیا جائے تو دلچسپ سے دلچسپ تر مضامین بھی بے لطف اور بد مزہ معلوم ہوتے ہیں۔داستان کی عبارت سریع الفہم و عام فہم ہونی چاہیے ، تاکہ ہر خاص و عام بآسانی سمجھ سکے۔ لفاظی اور مشکل تراکیب کا استعمال داستان کیلئے عیب گردانا جاتا ہے۔

داستان کے ابتداء میں بطور تمہید کے تاریخی واقعات بھی تحریر کیے جا سکتے ہیں۔ مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ انداز ایسا ہو کہ اصل واقعہ اور فرضی واقعے میں تمیز کرنا دشوار ہو جائے ۔  سامع کو فرضی واقعہ بھی حقیقی معلوم ہو۔ ایسی باتیں بیان  کی جائے جو ممکن الوجود ہو۔ اور ایسی باتوں سے اجتناب کیا جائے مستبعد اور ناممکن ہوں۔ جب سامع کا یقین اور اعتماد حاصل ہوجائے تو خیالی اور افسانوی دنیا میں قدم رکھا جائے۔

ماخذ: 

اردو کی نثری داستانیں(ڈاکٹر گیان  چند جین)

داستان سے افسانے تک(وقار عظیم)

اردو زبان اور فنِ داستان گوئی(کلیم الدین احمد)

یہ بھی پڑھیں👇

رانی کیتکی کی کہانی https://ilmkidunya.in/رانی-کیتکی-کی-کہانب

باغ و بہار https://ilmkidunya.in/باغ-و-بہار/

داستان کا فن، آغاز و ارتقاء“ ایک تبصرہ

اپنی راۓ یہاں لکھیں