حقیقی روزہ
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی
جامعہ انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو
قانونی زبان میں صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھا پینے اور جماع نہ کرنے کو روزہ کہا جاتا ہے، اور اگر کوئی مقررہ وقت میں ان چیزوں سے کنارہ کشی اختیار کر لیتا ہے تو قانون کی نگاہ میں اسے روزہ دار کہا جائے گا اور سمجھا جائے گا کہ اس کے ذمے سے فرض روزہ ساقط ہو گیا ہے اور اسے دوبارہ روزہ رکھنے کا حکم نہیں دیا جائے گا ۔ مگر روزے کا مقصد ،اس کی روح، اور اسکا فیض اس وقت حاصل ہوگا جب کہ بندہ معصیت اور گناہ کے کاموں سے باز آجاۓ اس لئے رمضان کے شروع ہی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ندا دی جاتی ہے: اے خیر کے طلب گار ! قدم آگے بڑھا ۔ اور اے شر کے متلاشی ! اپنے قدم روک لے ۔اور ایک حدیث میں ہے کہ بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جنھیں بھوک اور پیاس کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا اور بہت سے رات میں نماز پڑھنے والے ایسے ہیں جنھیں نیند خراب کرنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے. ( الترغیب والترہیب للمنذری)
اور حضرت علی رض کہتے ہیں کہ کھانا پانی چھوڑ دینے کا نام روزہ نہیں ہے بلکہ روزہ یہ ہے کہ جھوٹ، باطل اور لغو کو چھوڑ دیا جائے ۔ اور حضرت جابر رض کہتے ہیں کہ جب تم روزہ رکھو تو جھوٹ اور گناہ سے کان، زبان اور آنکھ کا بھی روزہ رکھو اور غلام کو تکلیف نہ پہنچاؤ اور وقار و سکون کے ساتھ رہو ۔ لہذا روزہ کے مقصد اور فیض کو حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان سات چیزوں کی حفاظت پر خصوصی توجہ دے ۔
1_آنکھ کی حفاظت: قرآن مجید میں ہے :
* اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلًا ۔ یقین رکھو کہ کان، آنکھ اور دل سب کے بارے میں (تم سے) سوال ہوگا۔(سورہ الاسراء: 36)
* قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ ؕ ذٰلِکَ اَزْکٰی لَہُمْ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ .
مومن مردوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ یہی ان کے لیے پاکیزہ ترین طریقہ ہے۔ وہ جو کارروائیاں کرتے ہیں اللہ ان سب سے پوری طرح باخبر ہے۔(سورہ النور : 30)
اور حدیث میں ہے : نظر ابلیس کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے اورجو اللہ کے خوف کی وجہ سے بدنگاہی باز رہا تو اللہ تعالیٰ اسے ایسے ایمان سے نوازیں گے جس کی مٹھاس کو وہ اپنے دل میں محسوس کریگا۔ (الترغیب والترہیب للمنذری) اور ایک حدیث میں بدنگاہی کو زنا کہاگیا ہے( بخاری) لہذا ان تمام چیزوں سے بچنا ضروری ہے جن کا دیکھنا حرام اور ناجائز ہے جیسے کہ غیرمحرم عورت یا اس کی تصویر یا ناجائز کھیل تماشا وغیرہ۔
2_زبان کی حفاظت: اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
* مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ .
انسان کوئی لفظ زبان سے نکال نہیں پاتا، مگر اس پر ایک نگراں مقرر ہوتا ہے، ہر وقت (لکھنے کے لیے) تیار۔(سورہ ق:18)
* یٰۤاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا ۔ یُّصْلِحْ لَکُمْ اَعْمَالَکُمْ وَ یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ؕ وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا ۔
اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو، اور سیدھی سچی بات کہا کرو۔اللہ تمہارے فائدے کے لیے تمہارے کام سنوار دے گا، اور تمہارے گناہوں کی مغفرت کردے گا۔ اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاع کرے، اس نے وہ کامیابی حاصل کرلی جو زبردست کامیابی ہے۔ (سورہ الاحزاب: 70,71)
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
* جو اپنی زبان اور شرمگاہ کی حفاظت کی ذمہ داری لے تو میں اس کے لئے جنت کا ذمہ دار ہوں (بخاری)
* کسی بندے کا ایمان درست نہیں ہوگا جب تک کہ اس کا دل درست نہ ہو اور دل درست نہیں ہوگا جب تک کہ زبان درست نہ ہو.( مسند احمد)
*اللہ کی نگاہ میں سب سے بہتر کام زبان کی حفاظت ہے ۔(الترغیب والترہیب للمنذری)
* روزہ ڈھال ہے ، لہذا روزہ کی حالت میں گندی بات زبان سے مت نکالو اور نہ شور کرو ، اگر کوئی اسے گالی دے یا جھگڑا کرے تو کہدے کہ میں روزہ سے ہوں (بخاری و مسلم)
* کھانا پینا چھوڑ دینے کا نام روزہ نہیں ہے بلکہ روزہ تو یہ ہے کہ وہ بے ہودہ اور گندی بات کو چھوڑ دے ، اس لئے اگر تمہیں کوئی گالی دے یا تمہارے ساتھ جاہلوں جیسا برتاو کرے تو کہہ دو کہ میں روزہ سے ہوں (الترغیب للمنذری)
* جو شخص جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو تو اللہ کی نگاہ میں اس کے کھانا پانی چھوڑنے کی کوئی وقعت نہیں ہے ( بخاری و مسلم)
3_ کان کی حفاظت: جس طرح سے جھوٹ، غیبت ،بہتان تراشی ، چغلی اور بری بات اور فضول گوئی وغیرہ کا ارتکاب ناجائز ہے اسی طرح سے اسے سننا بھی حرام ہے ، اور اس کی شناعت کے لئے یہ کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حرام کھانے والے اور جھوٹ سننے والے کو ایک ساتھ بیان فرمایا ہے ۔ سَمّٰعُوْنَ لِلْکَذِبِ اَکّٰلُوْنَ لِلسُّحْتِ ؕ یہ کان لگا لگا کر جھوٹی باتیں سننے والے، جی بھر بھر کر حرام کھانے والے ہیں۔ اور حدیث میں ہے : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے گانا گانے سے اور گانا سننے سے ، غیبت کرنےسے اور غیبت سننے سے اور چغل خوری کرنے سے اوراسےسننے سے (الجامع الصغیر)
4_پیٹ کی حفاظت: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
* یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا ۫ۖ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ؕ اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ .
اے لوگو ! زمین میں جو حالال پاکیزہ چیزیں ہیں وہ کھاؤ (١٠٦) اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، یقین جانو کہ وہ تمہارے لیے ایک کھلا دشمن ہے۔ (سورہ البقرۃ: 168)
* وَ لَا تَاْکُلُوْۤا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ .
اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طریقوں سے نہ کھاؤ، (سورہ البقرۃ: 188)
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
* جنت میں وہ خون اور گوشت داخل نہیں ہوگا جو حرام سے پلا بڑھا ہو ، اس کے لئے تو دوزخ ہی مناسب جگہ ہے (ترمذی)
* جس نے پاکیزہ کمائی کھائی اور سنت پر عمل کیا اور لوگوں کو ایذا پہنچانے سے باز رہا وہ جنت میں داخل ہوگا (ترمذی)
5_شرمگاہ کی حفاظت: اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
* وَ الَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حٰفِظُوْنَ .اِلَّا عَلٰۤی اَزْوَاجِہِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُمْ فَاِنَّہُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ.فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآءَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْعٰدُوْن.
جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں.سوائے اپنی بیویوں اور باندیوں کے کہ ( اس میں ) ان پر کوئی ملامت نہیں.ہاں ، جو ( اپنی شہوت پوری کرنے کے لئے ) ان دو کے علاوہ کے طلب گار ہوں تو وہ حد سے گذر جانے والے ہیں .
* وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً ؕ وَ سَآءَ سَبِیْلًا.
اور زنا کے پاس بھی نہ پھٹکو، وہ یقینی طور پر بڑی بےحیائی اور بےراہ روی ہے۔(سورہ الاسراء: 32)
6,7_ہاتھ اور پیر کی حفاظت: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں (بخاری وغیرہ)
مذکورہ اعضاء کی حفاظت رمضان اور غیر رمضان دونوں میں ضروری ہے لیکن رمضان میں ان کی حفاظت کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔