جنسی ہیجان اور نوجوان نسل

جنسی ہیجان اور نوجوان نسل

(مولانا ذکی الرحمٰن غازی مدنی)

جنسی خواہش یا جنسی جذبہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی سرشت میں رکھا ہے۔ خالص عقلی لحاظ سے غور کریں تو جنسی عمل ایک گندہ عمل ہے، مگر چونکہ نوعِ انسانی کی بقاء واستمرار کے لیے یہ ناگزیر ہے، اس لیے حکیم وخبیر رب نے اس کے اندر ایسی آسودگی اور شادمانی رکھ دی ہے کہ عمر کے ایک مرحلے میں پہنچنے کے بعد انسان لامحالہ اس جانب شدید میلان اور حد درجہ جاذبیت محسوس کرتا ہے۔ اس بارے میں لمبی چوڑی باتیں کرنے کی ضرورت نہیں۔ میں بس اس پوشیدہ طاقت اور خوابیدہ جذبے کو کنٹرول میں رکھنے کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔

یہ جنسی جذبہ اور یہ فطری طاقت پیٹرول کی مانند ہے۔ اگر ہم اسے صحیح طریقے سے صحیح جگہ کام میں لائیں گے تو یہ ایک نفع بخش طاقت ثابت ہوگی، لیکن اگر اس پیٹرول کو آگ سے نزدیک کر دیا جائے تو یہی انرجی بھک سے اڑ جائے گی، اور اس کی تباہی بہت بھیانک روپ اختیار کرلے گی۔ اس وقت یہ پوری بستی ،پورے شہر، پورے ملک بلکہ پوری دنیا میں تباہی اور انارکی پھیلا سکتی ہے، پورے سماجی تانے بانے کو جلا کر راکھ کر سکتی ہے اور اشرف المخلوقات انسان کو جانوروں سے بدتر (اسفل سافلین) بنا دیتی ہے۔

تم نے اگر پہاڑ دیکھاہے تو اس کی اونچائی پر جگہ جگہ سالم چٹانیں رکھی دیکھی ہوں گی۔ حیرانی ہوتی ہے کہ یہ چٹانیں وہاں تک کیسے پہنچیں۔ تمہارےوجود میں پنہاں یہ جنسی طاقت بھی ایک بھاری بھرکم چٹان ہے جو کسی اونچے پہاڑ کی چوٹی پر ٹکی ہوئی ہے۔ شاید صدیاں گزر جائیں اور یہ ٹس سے مس نہ ہو، لیکن اگر کسی نے آکر اسے ذرا ہلا دیا تو یہ لڑھک جائے گی، اور اگر ایک بار یہ لڑھک گئی تو ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اس کی رفتار بڑھتی جائے گی اور پھر وہ وقت آئے گا کہ دنیا کی کوئی طاقت اسے پستیوں میں گرنے اور تباہی مچانے اور راستے میں آئی ہر شے کو پیس دینے سے نہیں روک سکتی ہے۔

نوجوان نسل کے اندر جنسی جذبات اور شہوانی تقاضوں کو ہوا دینے والی، بلکہ بھڑکانے والی بہت سی چیزیں آج چہار سو سماج میں پھیلی ہوئی ہیں۔ سیکس کے بارے میں سوچنا اور اپنی چشمِ تصور اور قوتِ تخیل کو اس راستے میں لگانا اس آگ کے بھڑکنے کی ایک بنیادی وجہ ہے۔ ماہرینِ نفسیات کے مطابق فرصت، بے کاری اور رشتوں ناطوں اور سماجی مراسم وتعلقات سے علاحدگی اور دوری بھی ایک سبب ہے جس سےنوجوانوں میں جنسی جذبات کو مہمیز مل رہی ہے۔

لائیو یا رکارڈڈ،گندے نظارے دیکھنے سے،اسی طرح صنفی اختلاط اور بے پردگی کے ساتھ جنسِ مخالف سے میل جول بھی شہوانی آگ میں گھی ڈالنے کا کام کرتا ہے۔ اسی طرح ایسے سوشل میڈیائی پلیٹ فارموں کو وزٹ کرنا یا ایسی مجلسوں میں بیٹھنا جہاں جنسی مسائل وحکایات زیرِ بحث لائے جاتے ہوں، معاشقوں اور لائن بازیوں کی بات ہوتی ہو، تو یہ چیز بھی شہوانی جذبے کو بے قابو بنا دیتی ہے۔اس سلسلے میں صحبت ، رفاقت اور کمپنی کی تاثیر کو علمِ نفسیات اور دینی تعلیمات دونوں اہم اور کلیدی بتاتے ہیں۔ بدکار وبدکردار نوجوانوں سےدوستی رکھنے والا لامحالہ ایک نہ ایک روز اس برائی میں ملوث ہوکر رہتا ہے۔

ایسے میں کیا کرنا چاہیے۔اس سلسلے میں سب سے پہلا کرنے کا کام یہ ہے کہ اپنے آپ کو مصروف اور مشغول رکھو۔ خالی دماغ شیطان کا گھر ہوتا ہے۔ جو انرجی اور ابال تمہارے اندر محسوس ہورہا ہے اس طاقت اور اضطراب کا رخ کسی مفید اور تعمیری کام کی جانب موڑ دو۔ ورزش کرنے اور اسپورٹس میں پسینہ بہانے سے بھی جسم میں بننے والی یہ اکسٹرا انرجی کھپ جاتی ہے اور اس طرح سے بھی ٹین ایج پریشر (سنِ مراہقت کا دباؤ)کافی حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔

اس سلسلے میں نوجوانوں کو روحانی واخلاقی پہلو پر بھی بھرپور توجہ دینا ہوگی۔ اللہ کے رسولﷺ نے نوجوانوں کو شادی کر لینے کا مشورہ دیا تھا اور جو اپنے مخصوص حالات کی وجہ سے شادی نہ کر سکیں انھیں روزوں کے اہتمام کا حکم فرمایا تھا۔ عمر کے ایک خاص مرحلے میں شہوانی ہیجان اور جنسی رجحان کا مقابلہ کرنے کے لیے نوجوانوں کو اس سے زیادہ طاقتور روحانی جذبہ اور دینی حساسیت اپنے اندر پیدا کرنی ہوگی۔ اس سلسلے میں اللہ اور اس کے رسولﷺ نے رہن سہن اور دید وشنید کے جو آداب بتائے ہیں اگر ڈھنگ سے ان کی پابندی کی جائے تو انشاء اللہ روح کو بالیدگی اور قلب کو طمانیت نصیب ہوتی ہے۔

اسی طرح حتی المقدور کوشش کرو کہ آپ کا حلقۂ تعارف نیک لوگوں پر مشتمل ہو۔ گندی عادات واخلاق والوں کی ہم نشینی کسی حال میں اختیار نہ کرو۔ جن جگہوں پر اور جن لوگوں کی زبان سے ہمیشہ یا اکثر وبیشتر گندی باتیں سننے کو ملتی ہیں ان سے دوری بنا لو، پھر چاہے وہ سگے رشتے دار کیوں نہ ہوں۔

اسی کے ساتھ نگاہ نیچی رکھنے کا اہتمام کرو۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص حرام سے اپنی نگاہ نیچی کرتا ہے تو اسے سینے میں ایمان کی مٹھاس اور لذت محسوس ہوتی ہے۔ تجربہ کرکے دیکھ لو۔

صنفی اختلاط اور بے پردگی تمہارے لئے زہرِ قاتل ہے۔ اتنی احتیاطوں کے باوجود اگر نفس کا شیطان برائی پر آمادہ کرے توکوئی غلط قدم اٹھانے سے پہلے ہزار بار سوچ لو کہ اس سے تمہاری زندگی میں کتنی خرابی اور تباہی پیدا ہو سکتی ہے اور اللہ کے یہاں کس منھ سے تم حاضر ہوگے۔

قرآن میں زناکاری کے قریب جانے سے بھی منع کیا گیا ہے۔ حرام کاری ایک دم سے نہیں ہوجاتی۔ انسان ایک ایک قدم اٹھا کر اس پستی تک پہنچتا ہے۔ عقل مند وہ ہے جو پہلے ہی قدم پر خود کو سنبھال لے اور رک جائے۔ یاد رکھو کہ شہوانی جذبات شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں۔ اس لیے جب کبھی برا خیال دل میں آئے اسے جھٹک دو، بار بار آئے تو وضو کرو کیونکہ وضو کا پانی شیطانی اثرات کو کم یا ختم کر دیتا ہے۔ پھر نماز تو مومن کی پناہ گاہ اور سہارا ہے ہی۔

مگر میں بتا دوں کہ یہ سب فارمولے محض وقتی اور عارضی ہیں۔کچھ دن تک ان سے کام چل سکتا ہے۔ ورنہ اصل علاج مناسب عمر میں شادی کر لینا ہی ہے۔شادی کے حالات ہوں تو جلد از جلد کر ڈالو۔ قرآن میں درجنوں مقامات پر شادی اور نکاح کے لیے احصان کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ احصان قلعے میں محفوظ ہوجانے کو کہتےہیں۔ اور واقعی ایسا ہی ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے کہ شادی سے نگاہ نیچی ہو جاتی ہے اور شرمگاہ کو تحفظ نصیب ہوتا ہے۔ سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جو کم سے کم خرچ میں کیا جائے۔ نوجوانوں کو اس سلسلے میں سنجیدگی سے کوشش کرنی ہوگی۔

مسلم سماج کو بھی اس تعلق سے آسانیاں پیدا کرنی چاہئیں۔ والدین کو سمجھنا ہوگا کہ اولاد اگر نیک کام کرتی ہے تو اس کا اجر ان کے کھاتے میں بھی لکھا جاتاہے، اور اگر وہ خدا نخواستہ بدکاری کا راستہ اختیار کرتی ہے تو ہمیں اس کی جواب دہی بھی کرنا پڑے گی۔

جہاں تک اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی بات ہے تو آپ کا لڑکا دو ڈھائی سال کی عمر میں ہی کھڑا ہوگیا تھا، اور ویسے جس انداز میں آپ اسے کھڑے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں اس انداز میں خود آپ ہی آج تک کہاں کھڑے ہوپائے ہو؟ انسانی تمناؤں کی کوئی انتہا تھوڑے ہی ہے۔ جتنا کماؤ کم ہے۔ جتنے پر تم خود کو مطمئن کر لیتے ہو،گزر معاش کے لیے اتنا کافی ہے۔

اور دیکھو بہو کی شکل میں رانی تلاش مت کرو، وہ رانی بن کر آئے گی تو رانی بن کر رہے گی بھی ، پھر آپ کو دقت اور پریشانی ہوگی۔ اس لیے کہتا ہوں کہ بیٹی تلاش کروتو بیٹی ملے گی اور بیٹی کا سکھ دے گی۔

دیکھ دیکھ کر بڑا دکھ ہوتا ہے کہ ایک ہی محلے اور کالونی میں لڑکیاں بھی ہیں جن کی عمر چالیس پار جارہی ہے اور اسی محلے میں لڑکے بھی ہیں جو پچاس کے لپیٹےمیں آ گئے ہیں۔ ہر ایک رشتے کی تلاش میں ہے، شادی کا خواہش مند ہے، مگر رسم ورواج کی بیڑیاں، ذات برادری کی قیدیں، اونچ نیچ کے مفروضے، تعلیمی معیار، عمدہ روزگار، چوہدویں کا چاند جیسی لغو شرطیں ہیں جن کی وجہ سے عمر کا قافلہ بڑھاپے کی سرحد چھونے لگا ہے۔ اللہ کے یہاں اس کا جواب دہ کون ہوگا؟میں؟آپ ؟یا بد بختوں کی اکثریت والا ہمارا یہ پورا سماج؟اللہ ہدایت دے۔

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

اپنی راۓ یہاں لکھیں