ایوان میں بحث کے بغیر قانون سازی،جمہوریت کےلئے خطرناک
✒️سرفرازاحمد قاسمی،حیدرآباد
برائے رابطہ: 8099695186
پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس جاری ہے۔پارلیمنٹ وہ جگہ ہے جہاں قانون سازی ہوتی ہے۔لوگوں کی فلاح وبہبود کےلئے قوانین بنائے جاتے ہیں۔کہاجاتاہے کہ جمہوریت کے چار انتہائی مضبوط اور اہم ستون ہیں،حکومت،عدالت،مقننہ اورمیڈیا۔یہ وہ چار ستون ہیں جس سے جمہوری نظام کو بہت تقویت ملتی ہے،جمہوریت کی بنیاد انھیں چاروں ستون پرقائم ہے۔ یہ چاروں مل کر ایک مستحکم جمہوریت کاقیام عمل میں لاتے ہیں۔ملک کے موجودہ حالات پر اگر سرسری نظر ڈالی جائے تو یہ بات بہت اچھی طرح سمجھ میں آجائے گی کہ گذشتہ چند برسوں میں ان چاروں اہم ستون کو کمزور کرنے اور اس پر شب خون مارنے کی پوری کوشش کی گئی۔2014 کے بعد سے مسلسل ملک کے جوحالات بنائے گئے ان میں جمہوریت اور جمہوری نظام کو کمزور کرنے یاختم کرنے کی پوری کوشش کی گئی۔یہ سلسلہ تاہنوز جاری ہے۔میڈیاکو تو خریدلیاگیا،چنانچہ اب ملک کا میڈیا حساس مسائل پر حکومت سے سوال پوچھنے کے بجائے وہ ادھر ادھر کی باتوں میں لوگوں کو الجھائے رکھتاہے۔
بابری مسجد معاملے میں جس طریقے سے ملک کی سب سے بڑی عدالت نے انصاف کا قتل کیا یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔حکومت جس طرح عوام مخالف اقدامات کررہی ہے یہ بھی دنیا دیکھ رہی ہے۔اب ایسے میں صرف مقننہ باقی رہ جاتاہے، کم ازکم مقننہ کو تو سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہئے تھا لیکن قانوں ساز ادارے بھی اپنے فرائض منصبی اداکرنے میں ناکام ثابت ہورہےہیں ہیں۔گویا جمہوری نظام میں اہم کردار اداکرنے والے چاروں اہم ستون اپنی ذمہ داریاں اداکرنے میں ناکام رہے یا انھیں جان بوجھ کر کمزور کیاگیا۔
ایسے میں سوال یہ ہے کہ ہم بھارت کے لوگ کیا پھر بھی یہ کہلانے کے حق دار ہیں کہ ہم دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہیں؟اور کیا ہمارے یہاں ایک مضبوط اورمستحکم جمہوریت قائم ہے؟ہندوستانی جمہوریت میں پارلیمنٹ کو انتہائی اہمیت دی جاتی ہے اور پارلیمنٹ کو جمہوریت کامندر بھی کہاجاتاہے۔ایوانوں ہی میں ملک اور ملکی عوام کے تعلق سے فیصلے کئے جاتے ہیں۔حکومت کی جانب سے بل تیار کرکے پیش کئے جاتے ہیں،ان کا جائزہ لینے کے بعد اپوزیشن کی جانب سے ان میں ترامیم و تجاویز پیش کی جاتی ہیں۔حکومتیں پھر ان ترامیم و تجاویز کا جائزہ لیتی ہیں،حکومت کے بل اور اپوزیشن پارٹیوں کی ترامیم و تجاویز پر پارلیمنٹ میں اپوزیشن اور حکومت دونوں کی جانب سے دلائل دئے جاتے ہیں،اسکی خوبیوں اور خامیوں کا تذکرہ کیاجاتاہے اور جب سارا ایوان ان بلوں کے تعلق سے ایک رائے ہوجاتاہے یا پھر اختلاف رائے کو بڑی حدتک ختم کرلیاجاتا ہے تب کہیں جاکر یہ قانون بنتاہے اور مقننہ اس پر مہر لگاتی ہے۔پارلیمنٹ کے ایوانوں میں اسے منظوری دی جاتی ہے۔
ایوان میں اکثریت رکھنے کے باوجود ہندوستان میں یہ روایت موجود تھی کہ حکومتیں ایوان میں ایک آواز سے کوئی قانون منظور نہیں کرتی تھیں،بلکہ ایوان میں اس پر بحث و مباحثہ ہوتاتھا۔وسیع پیمانے پر اسکی خامیوں اور خوبیوں کاجائزہ لیاجاتاتھا۔ان پر بحث کروائے جاتے اور پھر ضرورت پڑنے پر انھیں پارلیمنٹ کی اسٹانڈنگ کمیٹی سے رجوع کیاجاتاتھا،تاکہ اس قانون کے پاس ہونے کے بعد کسی قسم کی پیچیدگی نہ ہو اور نہ اسکے نفاذ کے وقت کوئی چیز رکاوٹ بنے۔لیکن اب مرکز میں جب سے یعنی گذشتہ سات برسوں سے بی جے پی کی مودی حکومت،اقتدار پرقابض ہوئی ہے،تب سے ہی ملک کے دوسرے قوانین و اصولوں کی طرح اس روایت کی بھی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔قوانین بنانے کےلئے بل پارلیمنٹ میں پیش کئے جارہے ہیں اورانکی تفصیلات عوام کے سامنے لانے سے گریز کرتےہوئے طاقت کے زور پر قوانین بنائے جارہے ہیں،نہ ہی اسکےلئے اپوزیشن جماعتوں کی منظوری حاصل کی جارہی ہے اور نہ ہی ان بلوں کو اسٹانڈنگ کمیٹیوں سے رجوع کیاجارہا ہے۔
ایسے میں اس قانون کا نتیجہ کیاہوگا؟ حکومت صرف اکثریت اور طاقت کے بل پر فیصلے کرتے ہوئے ایوان کی اہمیت کم کرنے اورگھٹانے کی مرتکب ہورہی ہے جو جمہوریت اور جمہوری نظام کےلئے انتہائی خطرناک ہے۔حکومت کے اس رویے کے خلاف پارلیمنٹ مسلسل تعطل کاشکار ہے اور اپوزیشن پارٹیاں احتجاج کررہی ہیں۔سرمائی اجلاس شروع ہونے کے پہلے دن یعنی 29/نومبر کو جس طرح زرعی قوانین کی منسوخی کابل پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں منظور کیاگیا اور اس پر بحث کرانے سے مکمل طور پر گریز کیاگیا، یہ بہت سارے سوالات کھڑاکرتاہے۔زرعی قوانین کی منسوخی کا بل جس طرح اپوزیشن ارکان کے احتجاج اور ہنگامے کے درمیان صوتی ووٹ سے پاس کیاگیا،یہ واقعی افسوسناک ہے،اسکے نتیجے میں احتجاج کرنے والے 12ارکانِ راجیہ سبھا کوپورے سیشن کےلئے معطل کردیاگیا۔اجلاس کے پہلے دن ہی دونوں ایوان میں زوردار ہنگامہ ہوا،بغیر بحث کے زرعی قوانین بل کی منسوخی پر لیڈران چاغ پا ہوگئے اور پھر ہنگاموں کے سبب دونوں ایوانوں کی کارروائی دن بھر کےلئے ملتوی کردی گئی۔
سوال یہ ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں جب مطالبہ کررہی تھی کہ اس پر بحث ہو تو آخر حکومت بحث سے گریز کیوں کرتی ہے؟حکومت نے ایسا پہلی مرتبہ نہیں کیاہے بلکہ اس سے قبل بھی جموں کشمیر کوخصوصی موقف دینے والے دفعہ 370کی تنسیخ پارلیمنٹ میں عمل میں لائی گئی،انتہائی اہمیت کے حامل اس مسئلے پر بھی ایوان میں محض چندگھنٹوں میں کارروائی پوری کرلی گئی۔کشمیر کی جوموجودہ حالت ہے آج تک وہاں امن قائم نہیں ہوسکا،پھرآخر دفعہ 370 ختم کرنے کافائدہ کیاہوا؟
گذشتہ دنوں زرعی قوانین کی تنسیخ کا بل پارلیمنٹ میں پیش کیاگیا لیکن اس پر کسی طرح کے مباحث کی اجازت نہیں دی گئی،صرف بل پاس کیاگیا اور اپوزیشن کو اظہارِ خیال کاموقع دینے اورخود اس کا جواب دینے کے بجائے حکومت نے من مانی انداز میں کارروائی چلائی۔کیا یہ سب جمہوریت کےلئے خطرناک نہیں ہے؟اورکیاحکومت کے اس رویے سے جمہوریت کمزور نہیں ہورہی ہے؟اس طرح کے حالات کو دیکھ کر ہی گذشتہ دنوں چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا نے تشویش کا اظہارکیاتھا،انھوں نے کہاتھاکہ”مقننہ اپنے ذریعے منظور کئے جانے والے قوانین کے اثرات کا مطالعہ یا جائزہ نہیں لیتی ہے جسکی وجہ سے بعض اوقات بڑے بڑے بڑے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں اور نتیجہ کے طور پر عدلیہ پر معاملوں کا زیادہ بوجھ پڑتاہے۔
چیف جسٹس،سپریم کورٹ کی جانب سے منعقد کی گئی یوم آئین کے اختتامی پروگرام سے خطاب کررہے تھے،یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ چیف جسٹس نے اپنی تشویش کا اظہار کیاہے اس سے قبل یعنی تقریب یوم آزادی کے دوران بھی چیف جسٹس نے مناسب بحث کے بغیر مقننہ کے ذریعے قانون پاس کرنے کے ایشو پر بات کی تھی،انھوں نے تبصرہ کیاتھاکہ یہ معاملے کی ایک افسوسناک صورتحال ہے کہ کئی قوانین میں عدم وضاحت ہے اور بحث کی کمی کے سبب قوانین کے مطالب کو سمجھنا ممکن نہیں ہے،اس سے غیر ضروری مقدمہ بازی ہورہی ہے،پہلے سے مقدموں کا بوجھ جھیلنے والے مجسٹریٹ ان ہزاروں معاملوں کے بوجھ سے دب گئےہیں،انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں یادرکھناچاہئے کہ جوبھی تنقید ہو یاہمارے سامنے رکاوٹ آئے،انصاف فراہم کرنے کا ہمارا مشن نہیں رک سکتا،ہمیں عدلیہ کو مضبوط کرنے اور شہریوں کے حقوق کی حفاظت کےلئے اپنے فرائض پر عمل کرنے کو لیکر آگے بڑھنا ہوگا”
یہ بیان سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کاہے جسکا مطلب یہ ہے کہ بغیر سوچے سمجھے قانون بنانا اور عوام کے سر اسے تھوپ دینا اور اسکے عوامل کاجائزہ نہ لینا یہ بہر حال تشویشناک ہے اور بہت سے مسائل کا پیش خیمہ ہے،پھر آخر حکومت میں بیٹھے ہوئے لوگ اس طرح اندھادھند قانون سازی کیوں کررہے ہیں؟ کیا انھیں عوام کے مسائل ومشکلات سے کوئی سروکار نہیں ہے؟قانون سازی ملکی باشندوں کےلئے ہوتی ہے تو پھر اس معاملے میں عوام کے دکھ درد،سہولت وپریشانی کا خیال کیوں نہیں رکھاجاتا؟ حکومت کے ذمہ داران ہمیشہ یہ اعلان کرتے ہیں کہ حکومت تمام اہم مسائل پر پارلیمنٹ میں مباحث کروانے کےلئے تیارہے اوراپوزیشن پارٹیوں پر مباحث سے فرار کاالزام عائد کیاجاتاہے،تاہم حقیقت یہ ہے کہ حکومت خود اپنے بنائے ہوئے قوانین پر بحث کا سامنا کرنے تیار نہیں ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ جن مسائل پر قانون سازی ضروری ہے اس پر قانون کیوں نہیں بنایاجاتا؟ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد ماب لنچنگ کےذریعے کئی سو مسلم نوجوان اپنی جان گنوا بیٹھے۔ملک کے مختلف شہروں میں تشدد پسندوں کی ایک بھیڑ جمع ہوتی ہے اور کسی نوجوان پر کوئی بھی الزام لگاکر اسے موت کے گھاٹ اتاردیتی ہے۔آخراس بھیڑ کو قانون ہاتھ میں لینے کا اختیار کس نے دیا؟ ہجومی تشدد بھڑکانے والوں کے خلاف قانون کیوں نہیں بنتا؟آپ کو یاد ہوگا کہ جولائی 2018 میں عدالت عظمیٰ نے ملک میں پرہجوم ہنگاموں اورماب لنچنگ کے واقعات پر سپریم کورٹ نے کہاتھاکہ بھیڑ کو من مانی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔اسے روکنے کےلئے پارلیمنٹ قانون سازی کرے۔ریاستی انتظامیہ امن وامان کی فضا برقرار رکھنے اورعوام کو تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے۔بھیڑ کے ذریعے قتل یاتشدد کا شکار ہونے والے افراد اورخاندان کو مناسب معاوضے دیئے جائیں۔عدالت نے کہاکہ بھیڑ پر سختی سے پابندی لگانے کی ضرورت ہے۔کسی بھی شخص کوقانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں۔خوف وہراس، لاقانونیت اورتشدد کا ماحول برپاکرنے والوں کے خلاف ریاستی حکومتیں کارروائی کریں۔
عدالت کے اس حکم کے باوجود پارلیمنٹ میں قانون کیوں نہیں بنایاجاتا؟ کیا یہ سمجھا جائے کہ ماب لنچنگ کے واقعات حکومت کے اشارے پر ہورہے ہیں؟حکومت کے اس رویے سے ملک کی جمہوریت پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ہندوستانی جمہوریت اور پارلیمانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ انتہائی شدید اختلاف کے باوجود دونوں ہی ایوانوں میں بلوں کو پیش کیاگیا اوران پر سیر حاصل مباحث کی گنجائش فراہم کی گئی۔وقت کی اپوزیشن جماعتوں کی رائے اور تجاویز حاصل کی گئی،ان پر بھی تبادلہ خیال ہوا،اور پھر یہ تجاویز اگرقابل قبول رہیں توانھیں بھی قوانین میں شامل کرنے سے گریز نہیں کیاگیا۔آج ان ساری روایتوں اورسارے ماحول کو تبدیل کردیاگیاہے۔صرف اکثریت اورطاقت کے بل پر ایوان کی اہمیت گھٹائی جارہی ہے،پارلیمنٹ کو بھی پارٹی دفتر کی طرح اشاروں پر استعمال کیاجارہا ہے اورملک کے عوام میں ایک غلط نظیر قائم کی جارہی ہے۔اس بات سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں کہ قوانین بناناحکومت کااختیار ہے،حکومتیں ہی صورت حال کے مطابق قوانین تیار کرتی ہیں اورپارلیمینٹ میں پیش کرتی ہیں لیکن ان پر گہماگہمی پیداکرتے ہوئے ہرگز کوئی قدم نہیں اٹھاناچاہئے۔پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بلوں کی نقول قبل ازوقت فراہم کرکے اپوزیشن کو اسکے مطالعہ کا موقع دیاجاناچاہئے،ان سے رائے طلب کی جانی چاہیے۔سیاسی اختلافات کو پارلیمنٹ کے باہر چھوڑتے ہوئے ایوان میں ملک کی تعمیر اور ترقی کے جذبے کے ساتھ ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے،لیکن فی الحال ایسا نہیں ہورہاہے،اس پر توجہ کون دیگا؟
اپوزیشن کے 12ارکان کی معطلی کو واپس لینے کےلئے اپوزیشن پارٹیاں مصر ہیں لیکن حکومت اس معطلی کو درست ٹھہراتے ہوئے اپنے موقف پر اٹل ہے،اور معطل اراکین سے معافی کامطالبہ بھی کیاجارہا ہے،لیکن راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر ملکارجن کھڑگے نے ایک بار پھر واضح کردیاہے کہ معطل اراکین کسی صورت میں معافی نہیں مانگیں گے انکی بحالی کی جائے،گذشتہ دس دنوں سے جب سے سرمائی اجلاس جاری ہے تب سے ہی ایوان کی کارروائی مسلسل ملتوی کی جارہی ہے،کھڑگے نے میڈیاکو بتایاکہ سابق میں 17مسودہ قوانین پر منسوخ کئے جانے سے پہلے مباحث ہوئے تھے ایساپہلی بار ہوا ہے کہ مباحث کے بغیر قوانین کی منسوخی ہوئی ہے۔اسطرح حکومت اور اپوزیشن کے درمیان دوری بڑھتی جارہی ہے جسکے نتیجے میں پارلیمنٹ کا،ملک کا اور اس ملک کی عوام کا نقصان ہورہاہے۔کیا ان سب چیزوں کو جمہوری نظام کےلئے نیک شگون کہاجاسکتا ہے؟
(مضمون نگار کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)