انتخابِ کلامِ میر، غزل: 1

انتخابِ کلامِ میر

(غزل نمبر: 1)

✍ احمد

یہ غزل مولوی عبدالحق کی  مرتب کردہ کتاب “انتخابِ کلامِ میر”  سے ماخوذ ہے، اس  غزل کے  خالق میر تقی میر ہیں، جس کی مختصر تشریح مع شعر مذکور ہے۔اس غزل کی تشریح ملاحظہ کرنے سے پہلے یہ جاننا بے حد ضروری ہے کہ غزل کا ہر شعر ایک الگ مفہوم  اور علیٰحدہ معانی رکھتا ہے یہ  ضروری نہیں کہ پوری غزل میں ایک ہی مفہوم کو بیان کیا جائے۔

تھا مستعار حسن سے اس کے جو نور تھا

خورشید میں بھی اس  ہی کا ذرہ ظہور تھا

اس شعر میں میر تقی میر نے خدا تعالیٰ کی بےنظیر کاریگری اور صناعی کا نقشہ کھینچا ہے،   کہ اس کائنات کا جو حسن ہے ، اس میں جو نور ہے ، اس کی خوبصورتی جو  ہماری آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے، یہ تمام چیزیں خدائے وحدہٗ لاشریک کے حسن سے مستعار اور ادھار ہیں، ان کا اصل مالک خدا تعالیٰ ہے جس کے دم سے یہ ساری چیزیں منور ہیں اور خورشید(آفتاب) میں بھی جو روشنی اور چمک ہے یہ اسی رب ذوالجلال کے نور کا ایک معمولی ذرہ ہے۔

ہنگامہ گرم کن جو دلِ نا صبور تھا

پید اہر اک نالے سے شورِ نشور  تھا

کلمۂ “کن” یعنی جس وقت اللہ تعالیٰ اس کا ئنات کی تخلیق کر رہا تھا تو اللہ تعالیٰ نے کلمۂ “کن”  (ہو جا) کہا جس کے نتیجے میں ایک شور ایک ہنگامہ بپا ہوا اور تمام چیزیں وجود میں آگئی آج اسی “کن” کو سائنسداں بگ بینگ تھیئری کا نام دیتے ہیں۔میر صاحب اس شعر کے اندر اپنی قلبی کیفیت کو بیان کر رہے ہیں کہ محبوب کے عشق میں میرے دلِ ناصبور(بےچین دل، بے صبر دل)میں بھی ویسا ہی ہنگامہ برپا ہے جیسا کلمۂ  کن  کے نتیجہ میں برپا تھا۔ دوسرے شعر میں بھی اسی مضمون کو بیان کرتے ہیں کہ میرے نالے(رونے) سے  شورِ نشور( قیامت کا شور)جیسا سماں پیدا ہو گیا تھا۔

پہنچا جوآپ کو تو میں پہنچاخداکے تئیں

معلوم اب ہواکہ بہت میں بھی دور تھا

اس شعر کے اندر میر صاحب خدا کی معرفت کا نسخہ بیان کر رہے ہیں کہ میں نے جب خود اپنے اندر غور کیا ،اپنی ذات کے اندر اللہ تعالیٰ کی بے شمار خوبیاں اور بے مثال کاریگری کو دیکھا ،تو مجھے خدا تعالیٰ کی معرفت حاصل ہو ئی۔ یعنی خدا تعالیٰ کو کہیں اور تلاش کرنے کے بجائے خود اپنے ڈھونڈنا چاہیے۔جب میں نے خدا کی معرفت حاصل کر لی تب مجھے یہ احساس ہوا کہ میں خدا سے کتنا دور تھا  اور اس کی وجہ یہ تھی کہ میں خود اپنی ذات سے نا آشنا اور ناواقف تھا ،جب میں نے خود کو پہچان لیا تو مجھے خداکی بھی معرفت حاصل ہو گئی ۔

آتش بلند دل کی نہ تھی ورنہ اے کلیم

یک شعلہ برقِ خرمنِ صدِ طور تھا

اس شعر میں میر صاحب نے صنف تلمیح کا استعمال کیا ہے۔ تلمیح  ایسے صنف سخن کو کہتے ہے کہ جس میں شاعر کسی   خاص واقعے کی طرف اشارہ کرے۔ میر صاحب موسیٰ علیہ السلام  کے کوہِ طور پر جانے اور خدا تعالیٰ کی تجلی دیکھنے کے واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے  کہتے ہیں کہ میرے دل کی آتش(آگ) اتنی بلند نہیں تھی ،میراقلب ایسا منور نہیں تھا کہ میں اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کر پاتا اگر واقعی میرا قلب خدا کے نور سےمنور ہوتا، میرے دل کی آتش بلندہوتی  ،تو اے موسیٰ علیہ السلام جو آپنے کوہِ طور پر حاصل کیا میری رسائی وہاں تک تو نہیں ہو سکتی لیکن میرے قلب کو منور کرنے کے واسطےخرمن (غلے کے ڈھیر )پر گرنے والی ایک بجلی  جو میرے واسطے سو طور کے برابر ہے، کافی ہو جاتی۔

مجلس میں رات ایک ترے پر توے بغیر

کیا شمع کیا پتنگ ہر ایک بےحضور تھا

اپنے محبوب کو مخاطب کر کے میر صاحب کہتے ہیں کہ رات مجلس  میں تیرے نہ ہونے کے باعث ہر چیز بے رنگ اور بے مزہ معلوم ہو رہی تھی ، مجلس میں شمع، پروانے سب ہی موجود تھے لیکن تیری غیر حاضری نے سب کے ہوتے ہوئے بھی کسی کے نہ ہونے کا احساس دلایا۔

ہم خاک میں ملے تو ملے لیکن اے سِپہر

اس شوخ کو بھی راہ پہ لانا ضرور تھا

اس شعر کے اندر میر صاحب اپنے معشوق اور محبوب سے انتقام لینے کو بیان کر رہے ہیں کہ اے سپہر(آسمان) ہم خاک میں ملیں یعنی اس دنیا سے فنا بھی ہو گئے تو کیا ہوا،اس شوخ یعنی معشوق کو بھی تو راہ پہ لانا ضروری تھا، ہو سکتا ہے کہ میرے اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اسے اپنی غلطی پر ندامت اور شرمندگی ہو اور وہ راہ پر آجائے۔

مُنعم کے پاس قاقُم و سنجاب تھا تو کیا

اس  رند کی بھی رات کٹی جو کہ عورتھا

اس شعر کے اندر میر صاحب نے اہل دولت اور اہل ثروت حضرات پہ طنز کیا ہے کہ منعم(انعام کرنے والا)کے پاس قاقُم(نیولے کی شکل کا ایک جانور جس کی کھال سے تیار کیا ہوا لباس قاقُم کہلاتا ہے جو بہت ہی قیمتی ہوتا ہے، مراد یہاں پہ مالداری ہے) و سنجاب( چوہے سے قدرے بڑا ایک جانور جس کی کھال بہت قیمتی ہوتی ہے جس سے تیار کردہ لباس سنجاب کہلاتا ہے)ہے تو کیا ہوا، منعم گرچہ بہت مالدار ہے لیکن اگر وہ اپنی دولت غرباء و مساکین پر خرچ نہیں کرتا وہ کسی کام کے نہیں کیونکہ رات تو اس رند (بدحال) کی  بھی کٹ جاتی ہے جو عور (ننگا ) ہو  اور اس کی بھی جس کے پاس گددے دار بستر ہو  لیکن اگر مالدار اپنی دولت کا  تھوڑا حصہ بھی غرباء پر خرچ کر دے تو ان غرباء کی راتیں بھی آرام و سکون سے کٹ جائے گی اور اس کے مالداری میں بھی کسی قسم کی کمی نہیں آئے گی۔

قطعہ

کل پاؤں ایک کاسہ سر پر جو آگیا

یکسر وہ استخوان شکستوں سے چورتھا

کہنے لگا کہ دیکھ کے چل اے راہ بے خبر

میں بھی کبھی کسو کا سرِ پُر غرور تھا

ان دو اشعار کے اندر میر صاحب نے  دنیا کی بےثباتی کو  ذکر کیا ہے، کہ کل چلتے چلتے اچانک میرا پاؤں ایک سر کی کھوپڑی سے ٹکڑا گیا، وہ کھوپڑی بالکل بوسیدہ اور کمزور ہو گئی تھی، تبھی کھوپڑی سے آواز آئی کہ اے بے خبر تو ابھی زندگی کی راہ کے نشیب و فراز سے واقف نہیں ذرا سنبھل کے چل تو مجھے جو آج بوسیدہ اور کمزور دیکھ رہا میں کبھی کسی مغرور کا سر ہوا کرتا تھا ، لیکن آج میری حالت تمہارے سامنے ہے۔ میر صاحب کو تصوف سے خاص لگاؤ تھا جس کی معمولی جھلک اس شعر میں نظر آتی ہے، کہ اس دنیا میں جو بھی آیا ہے اسے ایک دن یہاں سے جانا ہے، جو آج تکبر اور غرور میں اکڑ کر چلتے ہیں کل ان کو کوئی جاننے والا بھی نہ ہوگا،اس لیے اپنے اندر عاجزی اور انکساری پیدا کرنا چاہیے۔

تھا وہ تو، رشکِ حورِ بہشتی ہمیں میں میر

سمجھے نہ ہم تو فہم کا اپنی قصور تھا

میرا محبوب جس سے میں دل لگاتا ،محبت کرتا وہ ایسا تھا کہ جسے دیکھ جنت کی حوریں بھی رشک کرنے لگے ، وہ تو میرے ہی اندر تھا ، میں بلاوجہ اس کو اِدھر اُدھر تلاش کرتا رہا، کیونکہ یہ دنیا تو فانی اور اس میں موجود افراد بھی ،توبھلا ان سے کیا دل لگانا، آدمی خود کو پہچانے، خود سے دل لگائے ، خود سے محبت کرے ، لیکن میں یہ سمجھا نہیں  اور میں نے اسے باہر ڈھونڈنے کی کوشش کی یہ میرے فہم کا قصور تھا ۔

یہ بھی پڑھیں👇👇👇

https://ilmkidunya.in/میر-تقی-میر-کی-یاد-میں/

https://ilmkidunya.in/میر-تقی-میر/

اپنی راۓ یہاں لکھیں