اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
(فصیح الملک بلبلِ ہند مرزا محمد ابراہیم داغؔ دہلوی:1831 تا 1905)
محمد سلمان قاسمی بلرامپوری✍🏻
بیسویں صدی کے شروع میں اردو زبان کا وہ ٹکسالی شاعر۔جسکی زبان اردو تھی۔جس نے قلعہ معلی اور ذوقؔ کی زبان کو سلیس کرکے پیش کیا۔۔جسکے یہاں آمد ہی آمد ہے جوشِ بیان، زبان کی صفائی اور اردو کو حرماں نصیبی سےنکالکر صیقل کا کام کیا۔ہجر کی تڑپ اور تخیل کے بے لگام گھوڑوں سے اسکو آزاد کیا، ریختہ کو بوجھل فارسی تراکیب سے باہر نکالا۔۔عربی تعقیدات و غیر مانوس الفاظ سے زبان کو صاف کیا۔
قلعہ معلیٰ کی خالص ٹکسالی زبان کو عام کیا۔۔۔۔
1905. فالج کی آٹیک سے آٹھ دن بسترِ علالت پر زندگی اور موت کے کشمکش میں مبتلاء ہوکر۔۔یہ۔۔اقبالؔ جگرؔ اور سیمابؔ اکبر آبادی جیسے ہزاروں یگانہ عصر لوگوں کا مرشد۔۔دنیا سے کوچ کرگیا انا لللہ وانا الیہ راجعون
ہوش و ہواس تاب و تواں ،داغؔ جاچکے
اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا
داغ ابھی چار سال کے ہی تھے کہ والد شمس الدین کو ولیم فریزر کے قتل کی سازش میں ملوث ہونے کی جرم میں پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔۔
اسکے بعد۔۔داغ جب 13 سال کے تھے تو انکی والدہ نے بہادر شاہ ظفرؔ کے بیٹے و ولی عہد مرزا فخرو سے شادی کرلی۔۔
اسکے بعد داغ اپنی والدہ کے ہمراہ قلعہ معلیٰ میں پہونچ گئے اور یہاں پر داغ کی زندگی بہترین پرورش ہونے لگی۔استاذ ذوق کی شاگردی اختیار کرلی۔ سلطنت کے جانشینوں کی صحبت داغ کو کب چھوڑتی نتیجہ یہ ہوا زندگی کے اخیر دنوں تک طبیعت رنگین رہی۔داغ کسی افلاطونی عشق میں گرفتار نہیں ہوئے۔۔بلکہ انکا محبوب گوشت و پوشت کا مجموعہ تھا وہ ہر اچھی صورت کے دلدادہ تھے۔حسین صورت انکی کمزوری تھی
بت ہی پتھر کے کیوں نہ ہوں اے داغؔ
اچھی صورت کو دیکھتا ہوں میں۔
1856 میں مرزا فخرو کی وفات کے بعد قلعہ کو خیر آباد کہنا پڑا۔۔ٹھیک ایک سال بعد ستاون کی کرانتی پیدا ہوئی۔۔جسکے نتیجہ میں مغلیہ سلطنت ہمیشہ کے لئے ختم کردی گئی۔۔۔
داغ دلی کے بعد رامپور چلے گئے۔۔۔اور یہیں پر داغ کو مُنِّی بائی حجابؔ سے رسم و راہ پیدا ہوئی وہی منی بائی جسکے ذکر سے داغ کا کوئی دیوان خالی نہیں ہے۔۔منی بائی کلکتہ کی ایک طوائف تھی حسن و جمال، شیریں سخن، خوش گلو،اور نا زوانداز میں اپنی مثال آپ تھی۔ اور ایک شاعرہ بھی تھی تخلص۔۔حجابؔ رکھتی تھی۔واضح رہے اس زمانے میں طوائفوں سے تعلق رکھنا معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ مالداری اور تمول کی نشانی سمجھا جاتا تھا۔۔چاوڑی بازار کی طوائفوں سے مغلیہ سلطنت کے شہزادوں کی رسم و راہ اسی زمرہ (تمول) میں ہے۔
رامپور میں چوبیس سال گزار کر نواب کلب علی خان کی وفات کے بعد مختلف شہروں اور ریاستوں کی خاک چھانی اور بالآخر حیدرآباد دکن چلے گئے،نواب محبوب علی خان نے داغ کو بلا لیا۔۔
*دلی سے چلو داغؔ کرو سیر دکن کی*
*گوہر کی ہوئے قدر سمندر سے نکل کر*
دکن جانے سے قبل ہی داغ کا دیوان حیدر آباد پہونچ چکا تھا مزید انکی مقبولیت کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ رات میں کسی مشاعرے میں انکی پڑھی غزل صبح پورے شہر میں پھیل جاتی
*داغؔ معجز بیاں ہے کیا کہنا*
*طرز سب سے جدا نکالی ہے*
دکن ہی میں داغ کی وفات عید الاضحی کے دن ہوئی جب رحلت کی خبر آصف سادس میر محبوب علی خان نے سنی تو خزانہ شاہی سے تجہیز و تکفین کے لئے تین ہزار روپئے بھجوائے عید الاضحی کے دن مکہ مسجد میں نماز ادا کی گئی اور افضل گنج درگاہ یوسفین میں اپنی رفیقۂ حیات کے پہلو میں سپرد خاک ہوئے اور وہیں انکے ہم عصر و دوست امیر مینائی بھی سپردِخاک ہیں۔۔
داغ ایک زود نویس بسیار گو شاعر تھے انکے سولہ ہزار غزلیہ اشعار اور کم و بیش چار ہزاردیگر اشعار انکے مختلف دواوین کی زینت بنے ہوئے ہیں
انکے کلام میں عاشقانہ جذبات کا بھرم، نفسیاتی بصیرت کا اظہار، شبابیات،عیش پرستی و حسن پرستی، ہوسناکی، بیان کی شوخی، بے تکلفی، جذبہ کی فراوانی تجربہ و مشاہدے کی کثرت۔۔الغرض داغ کی تمام شاعری وصل کی شاعری ہے۔۔۔۔۔۔
عاشق مزاجی، بلا کی شوخی،نشاطیہ لب و لہجہ ،غیر منافقانہ رویہ،اور دلی کی ٹکسالی زبان پر قدرت داغ کی مقبولیت کا راز ہے۔۔۔
اس میں دو رائے نہیں کہ اگر ایک طرف داغ غالب کے استادی کے معترف تھے تو دوسری طرف غالب انکے رنگِ سخن کو پسند کرتے تھے۔
آئینہ داغ میں نثار علی شہرت رقم طراز ہیں
کہ ایک روز میں غالب کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے ادب کے ساتھ گزارش کی کہ داغ کی اردو کیسی ہے ؟
،،،فرمانے لگے کی ایسی عمدہ کسی کی کیا ہوگی؟ ذوق نے اردو کو اپنی گود میں پالا تھا داغ اسکو نہ صرف پال رہا ہے بلکہ تعلیم دے رہا ہے،،،
فراقؔ گورکھپوری فرماتے ہیں
،،،،اردو شاعری نے داغ کے برابر فقرہ باز آج تک پیدا نہیں کیا اور نہ آئندہ پیدا کرسکے گا،،،
بقول رام بابو سکسینہ۔۔۔۔
،،،انکی زبان کے ساتھ اس خدمت کی ضرور قدر کرنی چاہیئے کہ انہوں نے سخت اور مغلق الفاظ ترک کئے اور سیدھے الفاظ استعمال کئے جس سے کلام میں بے ساختگی اور فصاحت مزید بڑھ گئی،،،
خواجہ الطاف حسین حالیؔ ۔۔کا یہ شعر بے انتہا عقیدت پر دال ہے
*نعم البدل ہے داغ کا حالیؔ کلامِ داغ*
*ذکر حبیب کم نہیں وصلِ حبیب سے*
آئیئے کچھ داغؔ کے کلام سے استفادہ کیا جائے سب سے پہلے چند وہ مشہور اشعار جسکے مصرعے محاورات بن کر اشعار کے قالب میں ڈھل کر ضرب الامثال بن گئے اور زبان زد عام و خاص بن گئے
*لطفِ مئے تجھ سے کیا کہوں واعظ*
*ہائے کمبخت تو نے پی پی نہیں*
*حضرت داغ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے*
*اور ہونگے تیری محفل سے ابھرنے والے*
*نہ جانا دنیا سے جاتا ہے کوئی*
*بہت دیر کردی مہرباں آتے آتے*
*خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا*
*جھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا*
*فلک دیتا ہے جنکو عیش انکو غم بھی ہوتا ہے*
*جہاں بجتے ہیں نقارے وہاں ماتم بھی ہوتا ہے*
*خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں*
*صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں*
داغ ایسا شاعر ہے جس نے اپنے جذبات کی ترجمانی،۔حسن پرستی شوخی اور طبیعت کی رنگینی کو ادا کرنے میں تصنع سے کام نہیں لیا بلکہ دل کی لگی کو صدق گوئی سے بیان کیا ہے۔۔ انکے حجابؔ پرستی سے سب واقف ہیں حجاب کے ہونٹ پر تِل تھا داغ نے اس پر ایک کمال کی رباعی لکھی ہے
*تم تو فلکِ حسن پہ ہو ماہِ منیر*
*سائے کی طرح ساتھ داغؔ۔۔ دل گیر*
*خالِ لبِ گلفام ہے شاہد۔۔۔۔۔۔۔ اسکا*
*بے داغ نہ کھینچ سکی تمہاری تصویر*
جسمانی تقاضوں کی تسکین و تکمیل کے لئے داغ کس حد تک جاسکتے تھے۔۔وہ خود فرماتے ہیں
*حوروں کا انتظار کرے کون حشر تک*
*مٹی کی بھی ملے تو روا ہے شباب میں*
عاشق جب فنا ہوتا ہے تبھی اسکا نام ہوتا ہے اور اسے دوام نصیب ہوتا ہے۔ اگرچہ شیریں خسرو کے پاس رہی مگر عشق کی دولت اس کوہ کن کے حصہ میں تھی
*خسرو کے پاس عشق کی دولت نہ آسکی*
*وہ مال کوہ کن کا رہا کوہ کن کے پاس*
1872 میں نواب کلب علی خان کے ساتھ حج پر روانہ ہوئے اور کعبہ کے سامنے ایک غزل پڑھی
*سبق ایسا پڑھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیا تونے*
*دل سے سب کچھ بھلا دیا تونے*
*لاکھ دینے کا ایک دینا ۔۔۔۔۔۔۔ہے*
*دلِ بے مدعا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دیا تونے*
*تھا میرا منہ نہ ۔۔۔۔قابلِ لبیک*
*کعبہ مجھکو دکھا دیا تو نے*
*داغؔ کو کون دینے۔۔۔۔ والا تھا*
*جو دیا اے خدا دیا ۔۔۔۔تو نے*
وہ تعریفِ حسن سے خوش ہوگئے مگر وصل کی بات پر سرخ آرزو ہوگئے۔۔حضرت داغ تو رئیس الکذابین ہیں سنو ۔۔۔معشوق کے بیداد گری کی شکایت عشق کے مرتبے کو گھٹاتا ہے
*تعریفِ حسن سن کے وہ بولے بہت بجا*
*مضمونِ شوق پڑھ کے کہا یک قلم غلط*
*بولے وہ داغؔ آپ ہیں جھوٹوں کے بادشاہ*
*معشوق سے شکایتِ جور وستم غلط*
محبت میں ہوس رانی دامنِ یوسف کی پارسائی کو بھی نہیں بخشتا ہے
*دستِ ہوس بڑھا کر کیوں مرتبہ گھٹایا*
*سمجھی نہ یہ زلیخا دامن ہے پارسا کا*
اسکے جور ستم کی لاج محشر میں میں نےرکھ لی ۔۔کیا کرے اس نے وہاں گھبرا کرامداد کے لئے بول دیا۔ اب فریاد رسی تو کرنی پڑیگی
*داورِ محشر کے آگے اس نے گھبرا کر کہا*
*داغ کوتاہی نہ کر یہ وقت ہے امداد کا*
داغ کا یہ طنز اور تعریض بھی دیکھتے چلیئے
*تم کو آشفتہ سروں کی خبر سے کیا کام*
*تم سنوارا کرو بیٹھے ہوئے گیسو اپنے*
کمال کا محورِ عشق بھی دیکھیئے
*قیامت ہے بانکی ادائیں تمہاری*
*ادھر آ لےلوں بلائیں۔۔۔ تمہاری*
حد سے زیادہ دلکشی اور خلوص و صداقت بھی دیکھو۔۔۔
*لے چلا جان مری روٹھ کے جانا تیرا*
*ایسے آنے سے تو بہتر تھا جانا تیرا*
*تم کو چاہا تو خطا کیا ہے بتادو مجھکو*
*دوسرا کوئی تو اپنا سا دکھا دو مجھکو*
جذبات و شوخی اور تلون مزاجی بھی دیکھیئے
*بہت جلائیگا حوروں کو داغؔ بہشت میں*
*بغل میں اسکے وہاں ہند کی پری ہوگی*
*جس میں لاکھوں برس کی حوریں ہوں*
*ایسی جنت کا کیا کرے کوئی*۔۔۔
حق گوئی و صاف گوئی بھی دیکھتے چلیں
*غضب کیا تیرے وعدے کا انتظار کیا*
*تمام رات قیامت کا انتظار ۔۔۔۔کیا*
*جن کو اپنی خبر نہیں اب تک وہ مرے دل کا راز کیا جانیں*
*جو گزرتے ہیں داغ پر صدمے آپ بندہ نواز کیا جانیں*۔۔۔
شاعرانہ تعلی۔۔۔بھی ملاحظہ کریں
*نہیں کھیل اے داغؔ یاروں سے کہہ دو*
*کہ آتی ہے اردو زبان آتے آتے*۔۔
قصہ مختصر داغ ایسا شاعر ہے اگر اسکے بارے میں کہا جائے۔۔۔کہ اس نے قلعہ معلی کی وہ اردو جو ابھی فارسی اور عربی تراکیب سے گراں بار تھی۔۔۔داغ نے اس کو اردو پن کا لبادہ اوڑھایا، جس سے اردو خود مختار اور آتم نِربھر ہوگئی اور اقبال و جگر سیماب اور مارہروی جیسے شاگردانِ باکمال کی وجہ سے داغ کا ستارۂ امتیاز مزید بلند ہوگیا۔۔ بیسویں صدی کے بعد کے تمام اہلِ سخن داغؔ کے ٹکسالی زبان کے محتاج ہیں ایک واقعہ سنا کر بات ختم کرنے لگا ہوں۔۔۔۔
اعلیٰ حضرت فاضل بریلویؒ کے منجھلے بھائی حضرت علامہ حسن رضا خا ن صاحب ’’حسن ‘‘بریلوی فنِّ شاعری میں حضرت ِداغ دہلوی کے شاگر د تھے، جب علامہ حسن کی جب چند نعتیں جمع ہو جاتی تھیں تو اپنے صاحبزاد ے حضرت مولانا حسنین رضا خان کے بدست اپنے استاد حضرت ِداغ دہلوی کے پاس اصلاح کے لیے روانہ فرماتے تھے۔
ایک بار کا واقعہ ہے کہ والد کا کچھ کلام لیکر مولانا حسنین رضا دہلی جارہے تھے، اعلیٰ حضرت نے دریافت فرمایا کہ کہاں جانا ہو رہا ہے عرض کیا والد صاحب کا کلام لیکر استاد داغؔ کے پاس جا رہا ہوں ۔ اعلیٰ حضرت اُس وقت وہ نعتِ پا ک قلمبند فرما رہے تھے جس کا مطلع ہے:
*اُن کی مہک نے دل کے غنچے کھلائے دیئے ہیں*
*جس راہ چل دئے ہیں کوچے بسادئیے ہیں*
ابھی مقطع نہیں لکھا تھا، فرمایا لیجئے! چند اشعار ہو گئے ہیں،اس کو بھی دکھا لیجئے گا۔
چنانچہ مولانا حسنین رضاخان صاحب دہلی پہنچے اور استاذ الشعر اء حضرتِ داغؔ دہلوی سے ملاقات کی، اپنے والد ِماجد علامہ حسن کا کلام پیش کیا۔حضرتِ داغ نے اِس کی اصلاح کی، جب اصلاح فرماچکے تو مولانا حسنین میاں صاحب نے اعلیٰ حضرت کا وہ کلام بھی پیش کیااورکہا یہ کلام چچا جان اعلیٰ حضرت نے چلتے وقت دیاتھا اور فرمایا تھا کہ یہ بھی دکھاتے لائیئگا
داغ نے اس کو ملاحظہ فرمایا،مولانا حسنین فرماتے ہیں:حضرت ِداغ اُس وقت نعت ِپاک کو گنگنار ہے تھے اور جھوم رہے تھے اور آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے، پڑھنے کے بعد داغ نے فرمایا اِس نعتِ پاک میں تو کوئی ایسا حرف مجھے نظر نہیں آتا جس میں کچھ قلم رکھ سکوں، اور یہ کلام تو خود لکھا ہوا معلوم ہی نہیں ہوتا بلکہ یہ کلام تو لکھوایا گیا ہے ،میں اس کلام کی فن کے اعتبار سے کیا کیا خوبیاں بیان کروں بس میری زبان پر تو یہ آرہا ہے کہ:
*ملکِ سخن کی شاہی تم کو رضاؔ مسلم*
*جس سمت آگئے ہو سکے بٹھا دئے ہیں*
اور فرمایا اس میں مقطع تھا بھی نہیں،لیجئے مقطع بھی ہو گیا ،نیز اعلیٰ حضرت کو ایک خط لکھا کہ اس نعت ِپاک کو اپنے دیوان میں اس مقطع کے ساتھ شامل کر یں اس مقطع کو علیحدہ نہ کریں نہ دوسرا مقطع کہیں۔۔
آج بھی حدائقِ بخشش کے نسخے میں استاد داغؔ کے کہے مقطع کایہ شعر۔۔۔ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔۔۔
قارئین باتمکین اب رخصت کی اجازت انشاء اللہ اگلے ہفتے نئے مضمون کے ساتھ ملاقات ہوگی۔۔
۔۔محمد سلمان قاسمی دتلوپور بلرامپور یوپی
8795492282۔۔۔