سفرنامہ ابنِ بطوطہ

سفرنامہ ابن بطوطہ

(تحفۃ النظار فی غرائب الأمصار وعجائب الأسفار)
تحریر:۔مولانا ذکی الرحمٰن غازی مدنی
یہ سفرنامہ پڑھتے ہوئے پہلا احساس یہ ہوتا ہے کہ ابنِ بطوطہ جگہوں اور ملکوں سے زیادہ لوگوں کا مطالعہ کرتا ہے،یہی بات صحیح بھی ہے۔ کیونکہ یہ دنیا جیسی کچھ بھی ہے اس میں انسانوں ہی سے رنگینی اور جاذبیت ہے۔ کپڑوں سے لوگوں کی شناخت ہوتی ہے، ان کے مأکولات اور مشروبات سے ان کی پہچان ہوتی ہے۔ مہمانوں اور عورتوں کے ساتھ اپنے طرزِ تعامل سے لوگ جانے جاتے ہیں، نیز جانوروں کے ساتھ ان کا برتائو انہیں دوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔ ابن بطوطہ اس لحاظ سے ابن جبیر اندلسی (رسالۃ اعتبار الناسک فی ذکر الآثار والمناسک) سے مختلف اور بہتر سیاح ہے۔ ابن جبیر کو ہر جگہ شہروں اور مسجدوں اور عمارتوں کی پڑی رہتی ہے، مگر ابن بطوطہ کی نگاہیں لوگوں پر رہتی ہیں۔ 

ابن بطوطہ

ابن بطوطہ کا پورا نام ’’ابو عبداللہ بن ابراہیم لواتی‘‘ ہے۔ ایک بربری قبیلے ’’لواتہ‘‘ کی طرف نسبت کرتے ہوئے اسے لواتی بولا جاتا ہے۔ لواطت یا قومِ لوط سے نسلاً اور عملاً اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ تاریخ کی کتابوں میں اس کی شہرت ابن بطوطہ کے نام سے ہے اور لقب ’’شمس الدین‘‘ ہے۔ سنِ پیدائش ۱۳۰۴ء اور سنِ وفات ۱۳۷۷ء ہے۔ 
 بائیس سال کی عمر تھی جب اس نے قدیم زمانے میں کیے گئے کسی بھی انسانی سفر سے زیادہ طویل وعریض سیاحتی دورے کا آغاز کیا۔ انتیس سالوں پر محیط اس مدتِ سفر میں اس نے پچھتر [۷۵]ہزار میل کی مسافت طے کی، تیئیس عدد [۲۳]عورتوں سے مختلف ملکوں اور علاقوں میں شادیاں کیں اور ستّر [۷۰]سے زیادہ بیٹے بیٹیوں کا پدرِ بزرگوار بنا۔ 
 ابن بطوطہ کی ولادت مراکش کے ایک شہر ’’طنجہ‘‘ میں ہوئی۔ اس کی نشونما دینی انداز میں ہوئی۔ بچپن میں دینی علوم کی تحصیل کی۔ شروعات ہی سے ابن بطوطہ علم ومعرفت کا رسیا اور سفر کا شیدائی تھا۔ ایسی معلومات جو سفر کرکے حاصل ہوں اسے سب سے زیادہ پسند تھیں۔ اس نے اندلس کے سیاح ابن جبیر کے سفرنامے کو پڑھا تھا، اس سے متاثر ہوا تھا اور یہی وجہ ہے کہ اپنے سفرنامے میں کئی جگہ اس کے حوالے بھی دیے ہیں۔ اس نے بھی ابن جبیر کی طرح سفر کا آغاز حج کے لیے حجاز جانے سے کیا۔ عجیب وغریب بات یہ ہوئی کہ ایک آدمی نے اس کے لیے پیشین گوئی کی تھی کہ وہ بحرِ احمر کو مصری ساحل سے پار کرے گا اور حج کے لیے شام کے راستے سے جائے گا۔ یہ دونوں چیزیں بہ ظاہر محال تھیں، مگر ہوا یہی۔ 
 ابن بطوطہ کا سفر نامہ حقیقت میں بڑا مفید ٹائم پاس ہے۔ پورے سفرنامے میں حکایتیں، نکتے، خرافات اور دلچسپ باتیں جہاں تہاں بکھری ہوئی ہیں،وہ بھی جن کی اس نے تحقیق کی اور وہ بھی جو اس نے کانوں سے سنیں اور دل سے مان لیں، اور اسے ان کی تحقیق وتفتیش کا وقت اور موقع نہ مل سکا۔ لیکن ابن بطوطہ کی خاصیت ہے کہ ہر چیز کو جیسا سنتا ہے ویسا بیان کر دیتا ہے۔ 

جمال الدین ابن الساوی

مثال کے طور پر اس نے مصر میں سنا کہ یہاں ایک بزرگ ’’جمال الدین ابن الساوی‘‘ نام کے تھے۔ یہ اصلاً دمیاط کے رہنے والے تھے۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے ظاہری حسن وجمال سے خوب نوازا تھا۔ چنانچہ شہر کی عورتیں ان پر فریفتہ تھیں۔ دمیاط کی ایک مالدار عورت نے ان کے پاس اپنی نوکرانی کو اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ ’’میرا بیٹا باہر سفر پر گیا ہوا ہے، اس نے میرے نام خط بھیجا ہے، میں چاہتی ہوں کہ آپ آکر وہ خط پڑھیں اور مجھے سمجھا دیں۔‘‘ شیخ جمال الدین نے نامحرم کے گھر میں گھسنے سے انکار کر دیا۔ عورت نے کہلا بھیجا: ’’گھر میں نہ آئیں، مگر دروازے کے قریب آکر کھڑے ہوجائیں اور خط پڑھ کر سنادیں، میں دروازے کے اندر کھڑی کھڑی سن لوں گی۔‘‘ 
 شیخ یہ سن کر راضی ہوگئے، مگر جیسے ہی وہ دروازے پر پہنچے گھر کی خادمائوں،ملانیوں اور نوکروں نے انہیں زبردستی اندر کھینچ لیا اور کمرے میں باندھ کر ڈال دیا۔ شیخ نے اس عورت کو بہت سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ اپنی ضد پر اڑی تھی۔ آخر میں شیخ نے اس کی بات مان لی، مگر شرط رکھی کہ پہلے وہ گھر کے غسل خانے میں نہانا دھونا پسند کریں گے۔ چنانچہ انہیں غسل خانے بھیج دیا گیا۔ یہاں انہوں نے اپنی داڑھی، مونچھ، سر کے بال، آنکھوں کی بھویں وغیرہ سب کچھ مونڈھ لیا۔ جب وہ اس ہیئت کذائی میں غسل خانے سے باہر نکلے تو عجیب ڈراونی صورت ہوگئی تھی۔ ساری نوکرانیاں اور خود گھر کی مالکہ خوفزدہ ہوکر بھاگ نکلی۔ 
 ابن بطوطہ کہتا ہے: ’’یہی آدمی بعد میں مشہور صوفی ’’جمال الدین‘‘ بن گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی عفت مآبی کے صلے میں انہیں یہ کرامت عطا فرمائی کہ جب چاہتے اپنی داڑھی کالی کر لیتے اور جب چاہتے اسے سفید بنا لیتے تھے۔‘‘ 

جزیرہ سیلان(سری لنکا) 

 ابن بطوطہ کے مطابق جزیرۂ سیلان(سری لنکا) جاتے ہوئے اس کے ساتھ عجیب واقعہ پیش آیا۔ جہاز کے ملاحوں نے سمندر میں ایک چھوٹا سا جزیرہ دیکھا جو ان کے حساب کے مطابق اس جگہ پر نہیں ہونا چاہیے تھا۔ سب لوگ گھبرا گئے، پھر بدقسمتی سے ہوا بھی اسی رخ پر چل رہی تھی۔ اچانک انہیں معلوم ہوا کہ یہ جزیرہ نہیں ایک بہت بڑا پرندہ ہے جس کو ’’رُخ‘‘ کہتے ہیں اور وہ سمندر میں مستی کرتے ہوئے تیر رہا ہے۔ اتنا جانتے ہی سارے مسافر اور جہاز کا پورا عملہ نمازوں اور مناجاتوں میں مصروف ہوگیا۔ ہر شخص گڑگڑا کر دعائیں مانگ رہا تھا۔ ہر ایک نذرمان رہا تھا کہ اگر زندگی باقی رہ گئی تو وہ اتنے اتنے مال کا صدقہ راہِ خدا میں کرے گا۔ تمام لوگ شدید خوف وہراس میں مبتلا تھے۔ مگر ابن بطوطہ سب سے بے پرواہ ہوکر بس یہ نوٹ کر رہا تھا کہ کس نے کتنے روپیوں کو صدقہ کرنے کی نذر مانی ہے۔ 
 اسکندریہ میں ابن بطوطہ نے ایک مصری کو کہتے سنا کہ ’’وہ مادر زاد برہنہ ہوکر ایک پھسلن بھرے کھمبے پر چڑھ جائے گا‘‘۔ پھر اس نے ایسا کر دکھایا۔ لوگ حیرت کے مارے آس پاس جمع ہوگئے۔ سب سوچ رہے تھے کہ کیسے اس نے یہ کرتب انجام دیا ہے۔ ابن بطوطہ کہتا ہے: ’’ہو نہ ہو اس نے کسی رسّی سے اپنے جسم کو باندھا ہوگا اور اس کے سہارے اوپر چڑھ گیا ہوگا اور پھر رسی اوپر کھینچ لی ہوگی تاکہ لوگ حیرت میں پڑ جائیں۔ یا شاید وہ ایک مسکین اور فقیر آدمی تھا جو لوگوں سے بھیک مانگنا چاہتا تھا اور اس کرتب کے ذریعے اس نے لوگوں کی نگاہیں اپنی طرف مبذول کرا لے۔‘‘

ادہم(مشہور صوفی بزرگ) 

 ابن بطوطہ ہمیں بتاتا ہے کہ اس نے لوگوں کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ ’’شہر بخارا میں ایک زندہ دل اور روشن ضمیر انسان رہتا تھا۔ اس کا نام ادہم تھا۔ ایک مرتبہ اس نے کسی نہر کے پانی میں ایک سیب بہتا ہوا دیکھا، اسے سخت بھوک لگی تھی، چنانچہ اس نے سیب پانی سے نکالا اور کھالیا۔ بعد میں اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ اس نے سیب کے مالک کی اجازت کے بغیرسیب کھالیا ہے۔ اب وہ نہر کے کنارے کنارے اس طرف چل پڑا جدھر سے سیب بہتا ہوا آیا تھا۔ کافی آگے اسے سیب کا ایک باغ نظر آیا۔ وہاں نوکروں سے معلوم ہوا کہ باغ کی مالک ایک عورت ہے۔ اس نے خاتون سے ملاقات کی تواس نے ادہم سے کہا کہ ’’یہ باغ میری اور فلاں شہزادے کی مشترکہ ملکیت ہے۔ تم نے جو سیب کھایا ہے اس میں اپنی ملکیت کے برابر میں تمہیں معاف کر سکتی ہوں، مگر اس امیر کے حق کی معافی تمہیں اسی سے طلب کرنی ہوگی۔
 ادہم کو اب امیر کی تلاش ہوئی۔ لوگوں نے بتایا کہ وہ امیر اب بادشاہ بن گیا ہے اور فی الوقت شکار پر کسی دور دراز جگہ پر ہے۔ ادہم نے انتظار نہ کیا اور طویل سفر پیادہ پا طے کرکے بادشاہ کی شکارگاہ جا پہنچا۔ جاکر اس نے بادشاہ کو اپنا جرم بتایا اور معافی طلب کی۔ بادشاہ اس کی بات سن کر بڑا خوش ہوا۔ اس نے اپنی بیٹی کی شادی اس صالح انسان سے کر دی۔ شادی کے بعد نودن تک یہ اپنی بیوی کے پاس نہیں گئے، مسلسل نمازیں پڑھتے رہے۔ نو دن بعد اس نے بادشاہ سے واپسی کی اجازت مانگی تو سلطان نے کہا کہ ’’اس وقت تک تمہیں جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی جب تک کہ تم اپنی بیوی یعنی میری شہزادی کے ساتھ ایک رات میاں بیوی کی طرح نہ گزار لو‘‘۔ ادہم نے چاروناچار اس کی بات مان لی۔ مگر اگلے دن صبح ہی صبح ان کا انتقال ہوگیا‘‘۔ 
 ا س کے علاوہ بہت سارے قصے، عجیب وغریب واقعات ہیں جو اس سفرنامے میں یکے بعد دیگرے سینکڑوں صفحات پر بکھرے ہوئے ملتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ابن بطوطہ کے سفرنامے نے بعض مورخین کو بھی غلط رخ پر ڈال دیا۔ مثال کے طور امام ابن تیمیہؒ کے بارے میں ابن بطوطہ نے لکھا ہے کہ وہ تمثیل کے قائل تھے۔ تمثیل کا مطلب عقائد کے باب میں یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس کی مخلوق کے مثل قرار دیا جائے، یعنی جس طرح انسان کے ہاتھ پائوں اور آنکھ ناک ہوتے ہیں، ویسے ہی اعضاء وجوارح اللہ کے لیے بھی تصور کیے جائیں۔ علمائے اہلِ سنت کے یہاں یہ عقیدہ گمراہی ہے۔ علمائے اہلِ سنت مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ اور پیر ہوتے ہیں مگر انسانی ہاتھ پیر کی طرح نہیں،بلکہ ذاتِ باری تعالیٰ کے شایانِ شان۔ان کی حقیقت  ہم اس دنیا میں رہتے ہوئے نہیں سمجھ سکتے ہیں۔

ابنِ تیمیہ کے متعلق ایک بدگمانی

ابن بطوطہ نے لکھا ہے کہ ’’میں نے ابن تیمیہ کو مسجد کے منبر پرتقریر کرتے ہوئے دیکھا، وہ کہہ رہے تھے کہ ’’اللہ ہر رات اس دنیا کے آسمان پر نزول فرماتا ہے، جیسے میں منبر سے اتر کر نیچے آرہا ہوں‘‘۔ اس کے بعد امام صاحب نے منبر سے نیچے اتر کر دکھایا‘‘۔ یہ ایک غلط روایت تھی جو ابن بطوطہ نے امام ابن تیمیہ کے حوالے سے بیان کر دی اور جس کی وجہ سے تقریباً ایک ہزار سال تک علامہ ابن تیمیہ کی شخصیت کو اہلِ علم حلقوں میں بلاوجہ مطعون معتوب کیا جاتا رہا۔ 
 تاہم ابن بطوطہ کے سفرنامے کے بارے میں یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ یہ سفرنامہ مختلف انسانی سماجوں اور لوگوں کی عادات وتقالید اور رسم ورواج کے گہرے مطالعے پر مشتمل ہے۔ ابن بطوطہ اپنے قارئین کو ہر شہر کے مخصوص کھانوں کے بارے میں ضرور بتاتا ہے، انہیں تیار کرنے کا طریقہ بتاتا ہے، مشروبات اور ان کو بنانے اور کشید کرنے کے طریقے گناتا ہے۔ وہ ’’القات‘‘ نامی پودے کے بارے میں بتاتا ہے جسے ’’تنبول‘‘ بھی کہتے ہیں۔ ابن بطوطہ کے مطابق اس پودے کا استعمال انسانی ذہن کو قوت بخشتا ہے اور جنسی شہوت تیز کر دیتا ہے۔ 

ابن بطوطہ کی چرب زبانی

 جن جن ملکوں میں ابن بطوطہ نے سفر کیا ہے، وہاں اس نے عام طور پر ایک خاص طریقے سے شناسائی پیدا کی ہے۔ وہ ہر جگہ جاکر سب سے پہلے قاضیِ شہر کا اتاپتا دریافت کرتا ہے۔ قاضی کے پاس جاکر سلام عرض کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ ’’میں فلاں فلاں ہوں اور مغربِ اقصیٰ سے آرہا ہوں اور میری منزل مکہ اور مدینہ ہے‘‘، یا ’’مکہ اور مدینہ حج کرنے آیا تھا اور اب واپس مغربِ اقصٰی جارہا ہوں، راستے میں آپ کا شہر پڑا تو سوچا کچھ تعارف حاصل کر لوں‘‘۔ ہر جگہ قاضی صاحب کا جواب ہوتا تھا:’’خوش آمدید، اب آپ تین دن تک ہمارے خاص مہمان رہیں گے‘‘۔ یہ سن کر ابن بطوطہ مزید عرض کرتا:’’میں اکیلا نہیں ہوں، میرے ساتھ نوکروں، خلاصیوں اور چوپایوں کی بڑی تعداد ہے‘‘۔ یہ سن کر قاضی صاحب یا حاکمِ شہر سب کو اپنا مہمان بنا لیتے، اور ابن بطوطہ کا مقصدِ تعارف وملاقات پورا ہوجاتا۔ 
 تعجب اس پر ہے کہ اس کے بعد بھی ابن بطوطہ یہ کہتے ہوئے عار یا حرج محسوس نہیں کرتا تھا کہ ’’میں ایک چھوٹی سی پریشانی سے بھی دوچارہوں‘‘۔ قاضی یا سلطان پوچھتا:’’وہ کیا ہے؟‘‘ جواب ہوتا:’’میں فلاں فلاں صاحب کے دس ہزار دینار کا مقروض ہوں۔‘‘ اس پر قاضی یا حاکم جواب دیتے:’’کوئی بات نہیں،تمہاری طرف سے یہ قرض ہم ادا کردیں گے، انشاء اللہ۔‘‘ 
 اس ترکیب پر عمل کرکے ابن بطوطہ نے اپنے پورے سیاحتی دورے میں جو نو ہزار دن کی زمانی مدت پر محیط ہے، اس پورے عرصے میں اس نے ایک روپیہ بھی اپنی جیب سے خرچ نہیں کیا۔ وہ اپنی لفاظی، ظرافت، بذلہ سنجی اور حاضر جوابی، اور رؤساء وامراء اور قاضیانِ شہر کے ساتھ ڈھنگ سے پیش آنے کا ہنر کام میں لاکر ان کی جیبوں سے رقم نکالتا رہا اور تاجروں کی تجوریوں میں بھرتا رہا۔ 
اپنے سفر میں ایک بار جب کہ وہ ہندوستان میں تھا، اس پر پچاس ہزار دینار کا قرضہ چڑھ گیا۔ اس نے وہاں کے بادشاہ کی تعریف میں ایک معمولی سا اور عربی شاعری کے معیار سے بہت گرا ہوا ایک قصیدہ لکھا اور سب کے سامنے پڑھ کر سنایا۔ بادشاہ کو عربی زبان آتی نہ تھی، وہ صرف فارسی جانتا تھا۔ قصیدہ جس کاغذ پر لکھا ہوا تھا اس کے ایک سرے کو سلطان نے اپنے ہاتھ میں پکڑا اور دوسرے سرے کو ابن بطوطہ سے پکڑوایا اور پھر مترجم سے کہا کہ پوری دیانت داری کے ساتھ اس قصیدے کا فارسی ترجمے کرے اور سنائے۔ قصیدے کا ترجمہ سن کر سلطان کو اچھا نہ لگا اور ابن بطوطہ کو اس کے چہرے کے تاثرات سے بڑی مایوسی ہوئی۔ تاہم آخر آخر میں سلطان نے کسی قدر پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے ابن بطوطہ کے لیے پچاس ہزار کا انعام لکھ دیا۔ مگر ہمارے زمانے کی طرح اس زمانے میں بھی سربراہِ حکومت کے فیصلوں اور سرکاری خزانے کے بیچ کافی فاصلہ ہوتا تھا اور اس طویل فاصلے کی ہر منزل پر کچھ دینا دلانا ضروری ہوتا تھا۔ 
 ایک سے زیادہ بار ایسا ہوا کہ ابن بطوطہ نے بادشاہ کے سامنے بیمار ہونے کا ناٹک کیا۔ جب سلطان نے بیماری پوچھی تو جواب دیا ’’میرے دل میں تکلیف ہے سرکار!۔‘‘ اور ہاتھ سے اشارہ صدری کی جیب کی طرف کر دیا۔ 
 اپنے سفر کے دوران ابن بطوطہ جن ملکوں میں گیا ہے وہاں اس نے منصبِ قضا ضرور قبول کیا۔ وہ جہاں بھی کسی عجیب وغریب چیز کے بارے میں سن لیتا تھا تو اس کی کوشش ہوتی تھی کہ اسے اپنی آنکھوں سے دیکھے یا کم از کم ممکنہ حد تک اس کے قریب پہنچ جائے۔ اس کی ساری زندگی سفرِ مسلسل سے عبارت تھی اور سارے سفر اس لیے کیے تھے کہ زیادہ سے زیادہ دنیا دیکھ کر زیادہ سے زیادہ لوگوں کواس کے بارے میں بتا سکے۔ اگر کہیں ایسا راستہ مل جاتا جو پرخطر اور مشکل ہوتا، یا جہاں چوروں اور ڈاکووں کی بہتات ہوتی تو وہ دعائوں میں اللہ سے یہی دعا مانگتا تھا کہ ’’اے اللہ، سارے انسانوں کو ان سفاکوں اور بھیڑیوں سے محفوظ فرما تاکہ انسانوں میں قربتیں بڑھیں اور باہم دوریاں ختم ہوں۔‘‘ 

ابن بطوطہ کی شادیاں

 ابن بطوطہ جہاں گیا وہاں اس نے شادی ضرور کی اور جب وہاں سے روانہ ہوا تو چلتے چلتے اپنی بیوی کو طلاق دے دی یا اس سے کہہ دیا کہ ’’اگر ایک سال تک میں تمہارے پاس واپس نہ لوٹ سکوں تو تم میرے نکاح سے آزاد ہو۔‘‘ اس طرح اس کی بیویوں کی تعداد کافی بڑھ گئی ہے۔ خدا جانے یہ اس کی حیاداری تھی یا ایک شریف آدمی کی شرافت، وہ مختلف ملکوں کی عورتوں کے بارے میں تفصیل سے اپنی رائے بیان نہیں کرتا ہے۔
 وہ سفرنامے میں یہ تو بتاتا ہے کہ فلاں جگہ کی عورتیں اس شکل ہوتی ہیں یا ان کا رنگ ایسا ہوتا ہے یا ان کی جسمانی خوبیاں ایسی ہوتی ہیں، مگر خود اسے کہاں کی عورتیں زیادہ پسند آئیں اس بارے میں وہ کچھ نہیں لکھتا۔ مثال کے طور اس نے ایرانی خواتین کو خوبصورت بتایا ہے اور کہا ہے کہ یہاں کی عورتیں عشقیہ حرکات میں یعنی عشووں غمزوں میں دنیا کی ساری عورتوں سے زیادہ ماہر اور طاق ہوتی ہیں۔ مالدیپ کے جزیروں کی خواتین کے بارے میں وہ کہتا ہے کہ ’’میں نے اپنی بیوی سے بار بار اپنے ساتھ کھانا کھانے کی استدعاکی،بلکہ اصرار بھی کیا، مگر وہ نہیں مانی۔ یہاں کی عورتیں شوہر کے ساتھ بیٹھ کر کھانا ہرگز نہیں کھاتیں، ہر عورت بالکل تنہائی میں کھانا کھاتی ہے۔‘‘ 
 ابن بطوطہ نے جن ملکوں کی زیارت کی ہے یا جہاں بھی مختصر یا طویل قیام کیا ہے وہاں اس نے اسلامی شریعت کے غلط فہم کو درست کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک مرتبہ جب اس نے موذن کی آواز سے زیادہ تیز آواز میں کلیسا کی گھنٹیوں کو بجتے دیکھا تو اسے سخت ناگواری ہوئی اور اس نے مسجد میں موجود تمام نمازیوں کو غیرت دلائی، جس کے نتیجے میں سب نے زور زور سے دعائیں مانگنا شروع کر دیں اور اس طرح گرجا گھر سے آنے والی گھنٹیوں کی آواز دب کر رہ گئی۔ اسی طرح جب اسے معلوم ہوا کہ مالدیپ کی عورتیں بازاروں میں سینہ کھول کر نیم برہنہ حالت میں جاتی ہیں تو اس نے انہیں اس غیر اسلامی وغیر انسانی طرزِ عمل سے باز رکھنا چاہا۔ عورتوں نے  قاضیِ شہر کی بات نہ مانی، مگر اتنا ضرور ہوگیا کہ اب قاضی کے پاس جانے والی ہر عورت اس کے سامنے سینہ ڈھانپ کر کھڑی ہوتی تھی۔ 
 ہندوستان میں مسلمانوں کے یہاں رسم تھی کہ مطلقہ عورت طلاق پانے اور عدت گزر جانے کے بعد بھی سابق شوہر کے گھر میں ہی رہتی تھی اور اس وقت تک رہتی تھی جب تک کہ اسے کوئی دوسرا شوہر نہ مل جائے۔ ابن بطوطہ نے اس رسم کو ممنوع قرار دیا اور اس طرح مطلقہ عورتوں کو پچھلے شوہروں سے چھٹکارا دلایا اور اس کی خاطر بہت سارے بدقماش شوہروں کی سرِ عام پٹائی بھی کرنا پڑی۔ چوری کے جرم میں ماخوذ لوگوں پر ابن بطوطہ شرعی سزا قائم کرتا تھا اور ان کا ہاتھ کٹوادیتا تھا۔اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ابن بطوطہ نے ہرجگہ اپنی حد تک شرعی احکام کے نفاذ کی پوری کوشش کی۔ 
 ابن بطوطہ نے عجائب عالم کا سب سے زیادہ مشاہدہ ہندوستان میں کیا ہے۔ اس ملک کی خاصیت رہی ہے کہ اس میں پائے جانے والے عجائبات کی تعداد آج بھی ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ ہر چند ماہ پر اس ملک کے حوالے سے کوئی نہ کوئی عجیب وغریب خبر سننے میں آجاتی ہے۔ ہندوستان کے بارے میں بہت ساری کہانیاں آج بھی عالمی لٹریچر میں متداول ہیں اور انہیں ہر بحث وتمحیص سے بالاتر خیال کیا جاتا ہے۔ ابن بطوطہ نے ایسی ہی چند باتیں اپنے سفرنامے میں ذکر کی ہیں۔ اس نے بیان کیا کہ ’’میں نے ہندوستان میں ایک جادوگر دیکھا جو بغیر کسی سہارے کے ہوا میں اوپر اٹھتا چلا جاتا ہے،پھر اس کے پیچھے ایک جوتا ہوا میں اڑتا ہے اور اس آدمی کے سر پر جاکر برسنے لگتا ہے اور وہ آدمی چیخیں مارتا ہوا زمین پر آگرتا ہے۔‘‘ 

سفر نامہ ابنِ بطوطہ کی تاریخی اہمیت

 سفرنامہ ابن بطوطہ تاریخی،تہذیبی اور مذہبی اعتبار سے بہت اہم ہے۔ابن بطوطہ محمد بن تغلق کے عہد میں ہندوستان آیا تھا اور یہاں عہدۂ قضا پر فائز ہوا تھا۔ سفرنامہ ابن بطوطہ کے مطالعے سے ہندوستان کے شرفاء وامراء کے حال واحوال،ان کی تہذیب وثقافت،نشست وبرخاست، مہمان نوازی اور انصاف پروری کا اندازہ ہوتا ہے۔ مثلاً مسافروں کے متعلق بادشاہ کے خیالات ابن بطوطہ کی زبانی یہ ہیں: ’’بادشاہِ ہند محمد شاہ تغلق پردیسیوں کی تعظیم وتکریم بہ درجۂ غایت کرتا ہے اور ان سے محبت رکھتا ہے اور بڑے بڑے عہدے ان کو دیتا ہے۔ اس کے بڑے بڑے خواص اور حاجب اور وزیر اور قاضی اور داماد زیادہ تر غیر ملک کے باشندے ہیں۔ اس کا حکم ہے کہ پردیسی کو ہمیشہ عزیز کے نام سے پکارا جائے۔ “
 سفرنامہ ابن بطوطہ سے درباری نشست وبرخاست اور رسوم وروایات کا بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے۔ یہ سفرنامہ ہندوستان کی تاریخ کے اعتبار سے بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔محمد بن تغلق کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ چونکہ دولت آباد محمد بن تغلق کی سلطنت کا وسط تھا، اسی لیے اس نے دولت آباد کو دار الخلافہ بنانے کا ارادہ کیا اور دہلی کے تمام باشندوں کو حکم دیا کہ وہ دہلی سے کوچ کریں۔ مگر ابن بطوطہ کی رائے اس سے یکسر مختلف ہے۔ وہ کہتا ہے:’’سب سے بڑی بات جس کے لیے بادشاہ کو ملامت کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اس نے تمام دہلی کے باشندوں کو جلاوطن کر دیا اور اس کا سبب یہ تھا کہ وہ لوگ رقعہ لکھ کر ان پر مہر لگاتے تھے اور لفافے پر لکھتے تھے کہ بادشاہ کے سر کی قسم ہے کہ سوائے بادشاہ کے اور کوئی نہ کھولے، اور یہ رقعے رات کو دیوان خانے میں ڈال جایا کرتے تھے۔ جب بادشاہ ان کو کھولتا تو ان میں بادشاہ کو گالیاں درج ہوتی تھیں۔ پریشان آکر بادشاہ نے دہلی کے اجاڑنے کا ارادہ کیا اور اس کے متوطنوں کے مکان خرید لیے اور ان سب کو گھروں کی پوری قیمت دے دی۔ یہ بھی حکم دیا کہ سب دولت آباد چلے جائیں۔‘‘
 تاریخ کی کتابوں میں اس واقعے کو عموماً دار الخلافہ کی تبدیلی اور محمد بن تغلق کے دماغی خلل پر محمول کیا جاتا ہے۔ ابن بطوطہ کا بیان اس سے بالکل مختلف ہے۔ ابن بطوطہ نے یہ بھی لکھا ہے کہ دہلی اجاڑنے کے بعد محمد بن تغلق نے دیگر ریاستوں کے لوگوں کو دلی میں آباد کرایا تھا۔ 
سفرنامہ ابن بطوطہ سے بعض ایسے حقائق کا پتہ بھی چلتا ہے جو ابھی تک پردۂ خفا میں ہیں۔ مثلاً ستی کی رسم کے متعلق ابن بطوطہ کا بیان ایک نیا ڈسکورس قائم کرتا ہے۔ ابن بطوطہ نے لکھا ہے کہ بادشاہ کی اجازت کے بغیر کسی ہندو بیوہ کو زبردستی نہیں جلایا جاسکتا تھا۔ وہ کہتا ہے: ’’ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ ایک ہندو عورت بنائو سنگھار کیے ہوئے گھوڑے پر سوار جاتی تھی اور ہندو مسلمان اس کے پیچھے پیچھے تھے۔آگے آگے نوبت بجتی تھی اور برہمن جو اُن کے بزرگ ہوتے ہیں ساتھ ساتھ تھے۔ چونکہ بادشاہ کا علاقہ تھا،اس لیے بادشاہ کی اجازت کے بغیر وہ جلا نہ سکتے تھے۔ بادشاہ نے جلانے کی اجازت دے دی،اس کے بعد جلایا گیا۔‘‘
 ہندو عورتوں کے ستی ہونے کے واقعے کو ابن بطوطہ نے جس طرح اور جتنی تفصیل سے لکھا ہے اس سے ستی کی رسم کی تمام جزئیات،عوام الناس میں اس کی تعظیم وتکریم کا پہلو وغیرہ سے ہماری واقفیت ہوجاتی ہے۔ وہ لکھتا ہے:’’ستی ہونا ہندوؤں میں واجب نہیں ہے،لیکن جو رانڈیں اپنے خاوند کے ساتھ جل جاتی ہیں ان کا خاندان معزز شمار کیا جاتا ہے اور وہ خود اہلِ وفا گنی جاتی ہیں۔ اور جو رانڈیں ستی نہیں ہوتیں ان کو موٹے کپڑے پہننے پڑتے ہیں اور طرح طرح کی خواری میں زندگی بسر کرنی پڑتی ہے اور ان کو اہلِ وفا بھی نہیں سمجھتے۔ لیکن کسی کو ستی ہونے پر مجبور نہیں کیا جاتا۔ جن تین بیوائوں نے ستی ہونے کا ارادہ کیا تھا وہ تین دن پہلے گانے بجانے اور کھانے میں مشغول ہو گئیں۔ گویا دنیا سے رخصت ہونے کو تھیں۔ ان کے پاس ہر طرف سے عورتیں آتی تھیں اور چوتھے دن ان کے پاس ایک ایک گھوڑا لائے اور ہر ایک بیوہ بنائو سنگھار کرکے خوشبو لگا کر سوار ہوئی۔ ان کے دائیں ہاتھ میں ناریل تھا جس کو اچھالتی جاتی تھیں اور بائیں ہاتھ میں آئینہ تھا اس میں منہ دیکھتی جاتی تھیں۔ اور برہمن اس کے گرد جمع تھے اور اس کے رشتے دار ساتھ ساتھ تھے۔آگے آگے نقارے اور نوبت بجتی جاتی تھی۔ ہر ایک ہندو اس سے کہتا کہ میرا سلام میرے ماں باپ،یا بھائی یا دوست کو کہنا اور وہ کہتی،اچھا اور ہنستی جاتی تھی۔‘‘
ابن بطوطہ کے بیان کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ ستی کی رسم ہندوؤں کے یہاں نہایت محترم ومتبرک رسم تھی۔ عورتیں از خود خوشی سے ستی ہوجایا کرتی تھیں اور فخر محسوس کرتی تھیں۔ ساتھ ہی ساتھ ستی ہونے والی عورتوں کے متعلق ہندوئوں کے عقیدے کا پتہ بھی چلتا ہے کہ ستی ہونے والی عورتوں کا سماج میں بہت بلند مقام تھا اور اُن کے اس فعل کی وجہ سے اُن کے اہل وعیال بھی معتبر ہوجاتے تھے۔ اگرچہ ستی کی رسم واجب نہ تھی،مگر سماجی نظام ایسا بنا ہوا تھا کہ عورتیں ستی ہونے سے انکار نہیں کر سکتی تھیں۔ اس لیے کہ جو عورت ستی نہیں ہوتی یا انکار کر دیتی، سماج اس کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا اور ہر لمحہ ذلیل کرتا تھا۔ تاہم ابنِ بطوطہ کے سفرنامے سے ہی ہمیں یہ چونکانے والی بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ عورتوں کی طرح غیر مسلم مردوں میں بھی اپنی جان کو تیاگ دینے کی رسم تھی۔بہت سے ہندو خود کو دریا میں غرق کر دیتے تھے اور کہتے تھے وہ اپنے کسالی(گسائیں) کی رضامندی کے لیے ایسا کرتے ہیں۔ اس طرح سے مرنے والوں کو بھی نکال کر جلایا جاتا تھا اور راکھ گنگا میں بہائی جاتی تھی۔
 بلا شبہ ابن بطوطہ کے سفرنامے میں ہندوستان کی تہذیبی اور معاشرتی تصویر بڑے دلکش پیرائے میں پیش ہوئی ہے۔ اس کے سفرنامے سے ہندوستانی تاریخ اور جغرافیہ کے بعض نئے پہلوئوں کی عکاسی ہوتی ہے۔ ابن بطوطہ کا یہ سفرنامہ تاریخِ انسانی کی بعض گمشدہ کڑیوں کی نشاندہی کرتا ہے،لیکن یہ بھی سچائی ہے کہ اس میں تحیر کن واقعات کی فراوانی بھی ہے۔
 اس نے اپنے سفرنامے میں ایک اسلامی ملک کی ایک کیفیت کا ذکر اس طرح کیا ہے کہ وہ رمضان کے مہینے میں ایک اسلامی ملک میں آگیا۔ اسے مسرت ہوئی کہ بادشاہ بھی روزے سے تھا، اور اس نے افطار اور کھانے کی دعوت دے رکھی تھی۔ جب افطار کا وقت آیا تو دسترخوان بچھ گیا،لیکن ابن بطوطہ کی حیرت کی انتہا نہیں رہی جب پانچ دوشیزائیں شفاف لباس اور برہنہ سر پر افطار کی سینی لے کر حاضر ہوئیں۔ تفصیل یہ پیش کی گئی کہ وہ بادشاہ کی کنواری لڑکیاں تھیں جن کی عمر اٹھارہ سے بائیس برس تک لگائی جاسکتی تھی اور تین خواتین بادشاہ کے وزیرِ خاص کی بیٹیاں تھیں،ان کی عمر بھی بیس سے بائیس برس تک تھی۔اب ایک اسلامی ملک میں رمضان کے مہینے میں لڑکیوں کا مہین لباس میں ننگے سر ہوکر سامنے آنا تحقیقی وتاریخی نقطۂ نگاہ سے قطعی اختراعی معلوم ہوتا ہے۔
 ابن بطوطہ اپنے سفر نامے میں ایک مادہ ہاتھی کا قصہ بھی بیان کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے۔ ’’ہاتھی دانت کے چند شکاریوں نے ایک ہاتھی کا شکار کیا اور اس کا گوشت پکاکر کھا لیا اور رات میں سو گئے۔ آدھی رات کے قریب اس ہاتھی کی ہتھنی وہاں آئی اور ہر شکاری کے منہ کو سونگھا، جس کے منہ سے ہاتھی کے گوشت کی بو مل جاتی اسے پیروں سے کچل دیتی، اس طرح اس نے تمام شکاریوں کو قتل کر دیا۔ مگر ایک شکاری کے منہ سے ایسی بو نہ آئی، ہتھنی نے خوش ہوکر اسے اپنا مہاوت اور مالک بنا لیا۔ وہ آدمی ان شکاریوں کا نوکر اور خانساماں تھا اور بڑا نیک دل تھا۔‘‘ 
 ابن بطوطہ کہتا ہے۔ ’’اس نے سری لنکا کے قریب واقع مالدیپ کے جزیروں میں ایسی عورتیں دیکھی ہیں جن کے سینے پر ایک ہی پستان تھا۔‘‘ 
اس نے ایسے پیڑ کی بابت بھی سنا جس سے ہر سال صرف ایک ہی پتہ ٹوٹ کر گرتا ہے اور وہ بھی خزاں کے موسم میں، اور ہر ٹوٹے ہوئے پتے پر صاف صاف ’’لاإلٰہ إلا اللّٰہ‘‘ مرقوم ہوتا ہے۔ عقیدت مند لوگ پورے پورے سال اس پتے کے ٹوٹنے کا انتظار کرتے ہیں اور یہ پتہ گرنے کے بعد آدھا سلطان کی خدمت میں چلا جاتا ہے اور باقی آدھا مقامی لوگ اپنی دواعلاج میں استعمال کرنے کے لیے بانٹ لیتے ہیں۔ 
ابن بطوطہ اپنے سفرنامے میں آسمانی کالے پتھر کی کہانی بھی سناتا ہے۔ ایک کالا پتھر آسمان سے گرتا ہے۔ لوگ اسے اٹھا کر ابن بطوطہ(قاضیِ شہر) کے پاس لاتے ہیں، ابن بطوطہ مختلف کاریگروں اور نوکروں کی مدد سے اس پتھر کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے، مگر وہ نہیں ٹوٹتا۔ آخر کار اس پتھر کو مقدس ومتبرک مان کر کسی بلند جگہ رکھ دیا جاتا ہے۔ 
 ہمیں ابن بطوطہ کے سفرنامے میں ایک جگہ بے ساختہ ہنسی آتی ہے، حالانکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ خود ابن بطوطہ کو اس موقعے پر ہنسی نہیں آئی تھی۔ ابن بطوطہ نے جب عراق کے شہر بصرہ کی زیارت کی تو مسجد میں ایک واعظ کو دیکھا جو لوگوں کے سامنے بیان کر رہا تھا۔ یہ واعظ اپنی گفتگو میں بے شمار نحوی اور صرفی غلطیاں کر رہا تھا۔ ابن بطوطہ یہ دیکھ کر سکتے میں آگیا۔ جس شہر میں علمِ نحو کے مدونِ اول اور امامِ اعظم حضرت سیبویہؒ پیدا ہوئے ہوں، وہاں کوئی شخص کیسے مجمعِ عام میں نحو یا صرف کی غلطی کر سکتا ہے؟ ہمیں آج ہنسی اس لیے آتی ہے کہ خدا نہ خواستہ اگر ابن بطوطہ آج کسی عرب ملک میں چلاجائے اور وہاں کے لوگوں کی عامیانہ اور سوقیانہ زبان سنے تو شاید حیرت واستعجاب کے مارے اس کو ہارٹ اٹیک ہوجائے گا۔ 
 ابن بطوطہ کی نگاہیں بڑی تیز ہیں، اس کی ذہانت کا بھی جواب نہیں، اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے مشاہدات کی علت نمائی میں بڑی غلطیاں کرجاتا ہے۔ اس نے جب موتی کے گھونگھے دیکھے تو اپنی عقل سے اس میں موتیوں کی صنعت پر اظہار خیال کیا۔ اس نے کہا کہ ’’یہ گھونگھے سمندر سے نکال کر پھوڑ دیے جاتے ہیں اور اس کے اندر جو گوشت کے ٹکڑے ہوتے ہیں انہیں جب ہوا لگتی ہے تو وہ منجمد ہوجاتے ہیں اور چند ایام میں یہی گوشت کے سوکھے ٹکڑے خوبصورت موتی بن جاتے ہیں۔‘‘ اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ موتیوں کی تخلیق سمندر کی گہرائیوں میں سالہا سال کے عرصے میں ہوتی ہے اور وہ بھی ان گھونگھوں کے چھوٹے چھوٹے پیٹ میں۔ 
 مالدیپ جزائر میں پائے جانے والے طرزِ زندگی سے ابن بطوطہ خاص طور پر متاثر ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے وہاں بہ جائے ایک کے، ایک ساتھ چار عورتوں سے نکاح کیا۔ ان کے علاوہ اس کی وہاں کئی غلام لونڈیاں بھی تھیں۔ یہاں کے باشندوں کے ہاں رسم تھی کہ دلہن اپنے گھر سے دولہا کے گھر تک پورے راستے کوئی کپڑا بچھائے گی، اور دولہے کے دروازے پر پہنچ کر اُس کا انتظار کرے گی اور جب وہ آکر دروازہ کھولے گا تو سارے کپڑوں کو اس کے قدموں پر ڈال دے گی۔ یہ تو دلہا دلہن کا معاملہ تھا، اس کے علاوہ معاشرے میں جس شخص کا مقام واحترام جتنا بلند ہوتا تھا اس کے ساتھ بھی لوگ اس انداز میں پیش آتے تھے۔ 
 ان جزیروں میں جن کی تعداد تقریباً ایک ہزار ہے، اسلام کس طرح پہنچا؟ اس بارے میں ابن بطوطہ کی فراہم کردہ معلومات حسبِ ذیل ہیں:’’ان جزیروں پر رہنے والے ہر ماہ ایک سمندری عفریت کے آنے سے ڈرتے تھے۔ ان کے بہ قول وہ عفریت ایک تیزرفتار اور چمکدار کشتی میں سوار ہوکر وہاں آتا تھا، اگر اس کو راضی نہ کیا جائے تو وہ بستیوں کو تباہ کر دیتا تھا۔ چنانچہ عفریت کو راضی کرنے کے لیے یہ لوگ ایک خوبصورت کنواری لڑکی بھینٹ چڑھاتے تھے۔ اس لڑکی کو ایک قلعے میں رات بھر چھوڑ دیا جاتا تھا اور صبح جب اس لڑکی کو واپس لاتے تھے تو وہ لڑکی کنواری نہ رہ جاتی تھی۔ چونکہ وہ لڑکی عفریت کے ساتھ صحبت کے نتیجے میں ناپاک اور شیطان بن جاتی تھی اس لیے اسے قتل کر دیا جاتا تھا اور اس کی لاش جلا دی جاتی تھی۔ 
کہا جاتا ہے کہ مغربِ اقصیٰ کے ایک مسلمان ’’ابو البرکات بربری‘‘ نے تجارتی اغراض کے تحت ان جزیروں کا رخ کیا۔ یہاں آکر انہوں نے عفریت کی کہانی سنی اور سخت طیش میں آئے۔ ایک روز صبح ہی صبح انہیں ایک بوڑھی عورت روتی ہوئی ملی اور جب رونے کا سبب پوچھا تو اس نے بتایا کہ آج کی رات عفریت کو خوش کرنے کے لیے ایک لڑکی کو بھیجا جائے گا اور وہ لڑکی کوئی اور نہیں میری اکلوتی بیٹی ہے۔ ابو البرکات صاحب نے یہ سن کر اسے تسلی دی اور کہا کہ تم سب لوگوں سے کہنا کہ میری بیٹی قلعے میں چلی گئی ہے، مگر اس کی جگہ آج رات میں اُس قلعے میں جائوں گا۔ 
 ابو البرکات تنِ تنہا اس آسیبی قلعے میں پہنچے اور ساری رات نفل نمازیں پڑھتے رہے یہاں تک کہ سورج طلوع ہوگیا۔ جزیرے کے لوگ لڑکی کو لینے آئے تاکہ قتل کرکے اس کی لاش جلا دیں، مگرقلعے میں لڑکی کے بجائے شیخ ابو البرکات کو پایا۔ اگلے مہینے جب عفریت والی رات پھر آئی تو دوبارہ شیخ ابو البرکات نے قلعے میں رات گزاری اور ان کا بال بھی بیکا نہ ہوا۔ یہ دیکھ کر سارے جزیرے والے ایمان لے آئے اور مالدیپ میں آج بھی شیخ ابو البرکات کے مزار کو عقیدت واحترام کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ 
 اپنے طویل سیاحتی دورے سے لوٹنے کے بعد ابن بطوطہ نے لوگوں کے سامنے اپنے سفر کی سرگزشت بیان کرنا شروع کی۔ سلطان ’’ابو عنان‘‘ جو بنو مدین کے امراء میں سے ایک تھا، اسے خیال گزرا کہ دنیا اور عجائباتِ دنیا کے بارے میں یہ نادر ونایاب باتیں ضائع نہ ہوجائیں۔ اس نے اپنے خرچ پر کاتبوں کا انتظام کیا اور ابن بطوطہ سے درخواست کی کہ وہ ان معلومات کو املاء کرادے۔ ابن بطوطہ کی یادداشتوں کو لکھنے کا کام ’’ابن جزی الکلبی‘‘ نامی ایک کاتب کے ذمے تھا۔ ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامہ املاء کرایا اور ’’تحفۃ النظار فی غرائب الأمصار وعجائب الأسفار‘‘ کے نام سے یہ سفرنامہ پہلی بار کتابی صورت میں آگیا۔ ابن بطوطہ کے سفرنامے میں بہت ساری جگہوں پر ابن جزی نے اپنی طرف سے باتیں بڑھائی ہیں اور ہر جگہ لکھ دیا ہے کہ یہ ابن جزی کا قول ہے۔ تاہم ہم بتادیں کہ ابن بطوطہ کو اس کی یہ عادت پسند نہیں تھی۔ 
 اس سفرنامے کا سب سے خوبصورت حصہ وہ ہے جس میں ابن بطوطہ نے اپنی ذات کو موضوع بنایا ہے یعنی اپنی تکلیفوں اور پریشانیوں پر لکھا ہے۔ سفرنامے میں جس وقت ابن بطوطہ قیدی بن جاتا ہے، صرف اس جگہ ابن بطوطہ ایک قادر الکلام ادیب اور انشاء پرداز کے روپ میں نظر آتا ہے۔ یہاں وہ اپنے دکھوں کو اور لوگوں کے یہاں اپنی بے توقیری واہانت کا ذکر کرتا ہے، بتاتا ہے کہ کیسے اسے قید کرکے لایا گیا تاکہ اگلے دو تین دن میں قتل کر دیا جائے، کیسے اسے رسیوں میں جکڑا گیا، کیسے اس نے اپنے پھٹے پرانے اور بوسیدہ کپڑوں کے ساتھ گزارا کیا، کیسے وہ کھیتوں اور جنگلوں کے راستے بھاگ نکلا اور کیسے اس نے پرانے کھنڈروں میں سانپوں، بچھووں اور زہریلے کیڑوں اور چوہوں کے ساتھ راتیں بسر کیں۔ 
اس نے قید سے بھاگ کر ایک گھر میں پناہ لی، اس نے دیکھا کہ گھر کی چھت پر ایک پرندہ پروں کو پھڑپھڑا رہا ہے۔ اس کی زبان سے بے ساختہ نکلا کہ شاید یہ پرندہ بھی خوفزدہ ہے، اس گھر میں آج دو خوف کے ماروں کو پناہ ملی ہوئی ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ چلتے چلتے وہ تھک کر چور ہوگیا تھا، اس وقت ایک بھلے انسان نے اس کی مدد کی اور اسے اپنی پیٹھ پر لاد کر اگلی بستی تک پہنچایا۔ ہوش میں آنے کے بعد ابن بطوطہ نے اس بھلے آدمی کو بہت ڈھونڈا مگر وہ اس کا سراغ نہ پا سکا۔ اسے نہیں معلوم ہو سکا کہ اس کا محسن کون تھا،کہاں سے آیا تھا اور اب کہاں گم ہوگیا ہے۔ ایامِ اسیری کے حوالے سے ابن بطوطہ نے جو کچھ لکھا ہے وہ عربی زبان وادب کے اعلیٰ تخلیقی وتنقیدی معیار پر پورا اترتا ہے۔ 
 مالدیپ کے جزیروں میں ایک بار جب اس کی انا کو ٹھیس لگی تو وہ زخمی شیر کی مانند بھڑک اٹھا۔ سفرنامے میں جگہ جگہ وہ ہمیں نرم دل اور کسی قدر موٹی کھال والا دکھائی دیتا ہے، مگر جہاں بات انا اور خودداری کی آجائے تو وہ تلوار کی طرح ٹھوس اور پختہ بن جاتا ہے۔ جب وہ ایک بار فیصلہ کر لیتا ہے تو پھر چاہے سلاطین اس کے قدموں پر آکر جھکیں وہ رجوع نہیں کرتا۔ مالدیپ کے جزیرے میں اس کے ساتھ ایسا ہی ہوا تھا۔ 
 مالدیپ کے جزیروں سے جب وہ سری لنکا کے لیے سمندری سفر کررہا تھا، اس وقت اس کے اوپر سخت بیزاری اور اکتاہٹ کی کیفیت طاری تھی۔ جس کی وجہ شاید یہ ہو کہ اس سفر میں اس کے ساتھ اس کی ایک عدد بیوی اور ساس بھی تھی۔ سفر کے دوران اس کی نگاہ ایک چھوٹے سے جزیرے پر پڑتی ہے، اس جزیرے پر صرف ایک پیڑ اُگا ہوا دکھائی دیتا ہے اور باقی ہر طرف پرندے ہی پرندے ہیں۔ وہاں ایک چھوٹی سی بادبانی کشتی بھی کھڑی ہے جس کے بغل میں ایک آدمی، اس کی بیوی اور دو بچے کھڑے ہوئے ایک ٹک ابن بطوطہ کا جہاز دیکھ رہے ہیں۔ اس فیملی کے علاوہ وہاں دور دور تک کسی آدم زاد کا نام ونشان دکھائی نہیں دیتا۔ سمندر کی موجیں پر سکون تھیں، سورج کی تمازت تکلیف دہ نہ تھی، صبح کی ہوا کے ٹھنڈے ٹھنڈے جھونکے جسم کے روئیں روئیں کو سہلا رہے تھے، ہر طرف لامتناہی سکون اور ٹھیرائو تھا۔ اس جگہ اور اس وقت ابن بطوطہ کے قلم سے بے ساختہ یہ جملہ نکلتا ہے: ’’مجھے تمنا ہوئی کہ کاش یہ جزیرہ میری ملکیت ہوجاتا اور میں مرتے دم تک اسے چھوڑ کر کہیں اور نہ جاتا۔‘‘
مگر ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے!!
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
(حیرت انگیز سفرنامے:ص117-136)
اپنی راۓ یہاں لکھیں