ہجرتِ مبارکہ: نتائج اور اسباق
ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ
ہجرتِ مدینہ
اللہ کے رسولﷺ کا مدینہ منورہ ہجرت کرنا اہلِ ایمان کے لیے فتح مندی وکامرانی کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ یہ اسلامی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز تھا۔ تاریخ میں پہلا اہم ترین حادثہ تو اس وقت پیش آیا جب محمد ؐبن عبد اللہﷺ پر پہلی بار قرآنِ کریم کا نزول ہوا، اور دوسرا اہم ترین واقعہ بلا کسی اختلاف ونزاع کے ہجرتِ مبارکہ کو قرار دیا جاتاہے۔
مدینہ منورہ ہجرت کے بعد ہی ممکن ہو سکا کہ اسلام اپنے غلبہ ونفاذ کے دور میں داخل ہو جائے اور اہلِ ایمان امن واستقرار کے ماحول میں ایک اسلامی حکومت کی تشکیل کے خواب کو عملی جامہ پہنا سکیں۔ یہ ہجرتِ مبارکہ کا فیضان تھا کہ اب دینِ فطرت نظریاتی وفکری دائروں سے نکل کر واقعیت وتطبیق کے دائرے میں داخل ہوگیا۔ اب ایک اسلامی معاشرہ وجود پذیر ہوگیا جہاں اسلامی نظامِ حیات اپنی تمام تر باریکیوں، سعادتوں اور برکتوں کے ساتھ جلوہ گر ہوسکا۔ ہجرت کی وجہ سے اسلام ایک روحانی سرچشمۂ قوت، ایک نظامِ حکومت، ایک نافذ شدہ قانون وعملی منشور اور ایک مجسم دستورِ اخلاق بن گیا۔
ہجرتِ مبارکہ ایک طور سے اسلام اور نبیِ اسلامﷺ کے لیے اللہ کی طرف سے عطا ہونے والی فتحِ عظیم اور بڑی کامیابی تھی۔ یہ آنے والی متعدد عظیم فتوحات کا حرفِ آغاز تھی جن کو مجاہدینِ اسلام نے بدر، مکہ اور حنین وغیرہ کے کارزاروں میں رقم کیا۔ اگر ہجرت کا وجود اسلامی تاریخ سے ہٹا دیا جائے تو تاریخ نگاری کے لیے مسلمانوں کے پاس کچھ زیادہ نہیں بچتا۔ بعثت ِ رسولﷺ سے پہلے کی عرب دنیا کا رواج تھا کہ بڑے بڑے حوادث وواقعات سے تاریخ کو مربوط کیاجاتاتھا۔ مثال کے طور پر قبیلۂ قریش کی تاریخ نگاری میں جنگ ِ فجار، حلف الفضول، یومِ تحکیم، حادثۂ فیل، وفاتِ ہشام بن مغیرہ اور ملوکِ حمیرکے ساتھ قبیلہ بنویربوع کی غداری جیسے چند تاریخی واقعات شاہراہِ تاریخ کے سنگ ہائے میل کی حیثیت رکھتے تھے۔
بعثت ِ رسولﷺ کے بعد متعدد عظیم الشان واقعات رونما ہوئے لیکن قریش نے انہیں لائقِ التفات نہ سمجھا کہ یہ واقعات اسلامی تھے۔ مثال کے طور پر قرآنِ کریم کا نزول، اسراء ومعراجِ رسولﷺ، سفرِ طائف اور ابوطالب وحضرت خدیجہؓ کا سانحۂ وفات وغیرہ ایسے نمایاں واقعات ہیں جن کو تاریخ میں خاص جگہ دی جاسکتی تھی، مگر نہیں دی گئی کیونکہ یہ واقعات اپنے آپ میں اسلامی تھے۔ ہجرت کے بعد بھی عام مسلمانوں نے تاریخی ترتیب کے لیے ایسے واقعات کا سہارا لیا جو ہجرت کے بعدپیش آئے تھے۔ اس طرح مابعدِ ہجرت سالوں میں سے ہرسال کا کوئی مخصوص نام تجویز کرلیاگیا۔
مثلاً ہجرت کے پہلے سال کو سنۃ الاذن یعنی ہجرت کی اجازت کا سال مانا گیا۔ دوسرے سال کو سنۃ الامر یعنی حکمِ قتال کا سال موسوم کیاگیا، کیونکہ اسی سال غزوۂ بدر پیش آیا، تحویلِ قبلہ ہوئی اور اہلِ ایمان پر روزے فرض کیے گئے۔ تیسرے سال کو سنۃ التمحیص یعنی چھان پھٹک کا سال قرار دیا گیا کیونکہ اس سال میں غزوۂ احد پیش آیا تھا جس میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مخلص وصادق اہلِ ایمان کا تزکیہ وتطہیر فرمائی تھی۔ ہجرت کے بعد چوتھے سال کو سنۃ الترفئۃ یعنی اصلاحِ حال کا سال مانا گیا کہ اس میں شراب نوشی کی حرمت نازل ہوئی اور یہودی قبیلہ بنو نضیر کوبالکلیہ جلا وطن کیا گیا۔ پانچویں سال کا نام سنۃ الزلزال یعنی زلزلہ والا سال رکھا گیا کہ اس میں غزوۂ دومۃ الجندل، غزوۂ احزاب اورغزوۂ بنی قریظہ پیش آئے تھے، نیز اسی سال میں واقعۂ افک کی تہمت بھی باندھی گئی تھی جس کو قرآنی وحی نے مسترد کر دیا۔
چھٹے سال کو سنۃ الاستئناس یعنی قریب کرنے اور انس پیدا کرنے کا سال مانا گیا کیونکہ اسی سال میں صلحِ حدیبیہ اور بیعتِ رضوان وقوع پذیر ہوئے اور اسی سال میں آتش پرست ایرانیوں پر عیسائی رومیوں کے غلبہ پانے کااللہ کا وعدہ (سورۂ روم، ۱-۶) پورا ہوا۔ ساتویں سال کا نام سنۃ الاستغلاب یعنی غلبہ حاصل کرنے کا سال مانا جاتا ہے کیونکہ اسی سال میں غزوۂ خیبر پیش آیا تھا اور اسی سال میں اللہ کے رسولﷺ نے اسلام کی دعوت کودنیا کے تمام ملوک وسلاطین تک پہنچانے کے لیے مختلف نمائندوں کو اپنے خطوط کے ساتھ بھیجا تھا۔ اسی سال کی بات ہے کہ سلام بن مشکم یہودی کی بیوی زینب بنت الحارث نے آپﷺ کو کھانے پر مدعو کرکے زہریلا گوشت پیش کیا، لیکن گوشت کے ٹکڑے نے بروقت آپﷺ کو خبردار کر دیا۔
آٹھویں سال کانام سنۃ الفتح یعنی غلبہ وفتح کا سال منقول آتا ہے کہ اسی میں فتحِ مکہ وغزوۂ حنین پیش آئے تھے اور اسی سال سے اسلام کے حقیقی سیاسی غلبے کا آغاز ہوتا ہے۔ مابعدِ ہجرت نویں سال کو سنۃ البراءت یعنی برأت وعلیحدگی کا سال کہا گیاہے کہ اسی سال سورہ توبہ وبراءت نازل ہوئی تھی جس میں کفار ومشرکین سے صاف صاف اظہارِ براءت کیا گیا تھا اور سابقہ تمام معاہدوں کی تکمیل کے بعد انہیں جزیرۃ العرب سے انخلاء یا قبولِ اسلام کا الٹی میٹم سنایا گیا تھا۔ اس سال کو عام الوفود یعنی نمائندہ وفدوں کا سال بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس سال میں جزیرۃ العرب کی ہر جہت سے عربی قبائل کے وفود نے کثرت کے ساتھ آکر اپنے اسلام کا اعلان کیا تھا۔ غزوۂ تبوک کے بارے میں مؤرخین متفق ہیں کہ وہ بھی اسی سال میں پیش آیاتھا۔ اس کے بعد ہجرت کے دسویں سال کو سنۃ الوداع کہا جاتا ہے کیونکہ اس سال آپﷺ نے حجۃ الوداع کیا تھا اور عرفہ کے دن اپنا مشہور الوداعی خطبہ دیا تھا۔
سرکارِ رسالتﷺ کے اس دنیا سے پردہ کر لینے کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے امتِ اسلامیہ کی زمامِ خلافت سنبھالی۔ آپؓ نے اپنے عہد ِ خلافت کا آغاز حضرت اسامہ بن زیدؓ بن حارثہ کے لشکر کو بھیج کرکیا۔ پھر آپ کے دور میں مرتدین سے جنگیں ہوئی اوراُن کی سرزنش کی گئی، نیز قرآنِ کریم کو بھی آپؓ ہی کے عہد میں جمع کرلیا گیا۔ حضرت ابوبکرؓ کے تقریباً ڈھائی سالہ دورِ خلافت کے بعد حضرت عمر ؓبن الخطاب خلیفۃ المسلمین منتخب ہوئے۔ آپؓ نے اپنے عہد ِ خلافت میں مختلف دیوانوں اورمحکموں کو قائم کیا اور اسلامی افواج کو مستقل طور پر تیار کیا۔ آپ کے زریں عہد میں شام، عراق، مصر اور فارس کے ممالک میں حیران کن اسلامی فتوحات کا سلسلہ وقوع پذیر ہوا۔
ہجری تاریخ کا اجراء
روایات میں آتا ہے کہ حضرت عمرؓ کے پاس ایک خط لایا گیا جس میں شعبان کی تاریخ درج تھی۔ آپ نے لانے والے قاصد سے پوچھا کہ یہ کس سال کا شعبان ہے، جس پر وہ تحدید وتعیین نہ کرسکا۔ حضرت عمرؓ نے اس واقعہ کے بعد کافی غور وخوض کیا اور صحابۂ کرامؓ کو جمع کرکے مشورہ لیا۔ حاضرین میں سے بعض کی رائے تھی کہ اس سلسلے میں اہلِ فارس کا طریقۂ کار جان لینا بہتر ہوگا۔ چنانچہ فارسی سپہ سالار ہرمزان جو اس وقت مسلمانوں کی قید میں تھا بلایا گیا اور اُس سے اس بابت پوچھا گیا۔ اس کا جواب تھا کہ ہم اہلِ فارس اپنی تاریخ کو ماہ روز یعنی مہینوں کے حساب سے منضبط کرتے ہیں۔ اس کے بعد ماہ روز کی تعریب کی گئی اور تاریخ کا لفظ بنایا گیا۔ اب حضر ت عمرؓ کا مطمحِ نظرتھا کہ امتِ مسلمہ کے لیے بھی ایک تقویم بنائی جائے جس کی بنیاد پر اسلامی حکومت تعامل کرسکے۔
دورانِ مشورہ بعض لوگوں کی رائے تھی کہ رومی تقویم کو اختیار کر لیا جائے جب کہ دوسری رائے فارسی تقویم کو اختیار کرنے کے حق میں تھی۔ حضرت عمرؓ کو دونوں رایوں سے اتفاق نہیں تھا۔ آپؓ نے مشورہ ملتوی کرکے اس بارے میں غور وخوض کرنا شروع کیا۔ اسی اثناء میں آپ کو حضرت ابوموسیؓ اشعری کا ایک مکتوب موصول ہواجس میں لکھا تھا کہ: ’’ہمارے پاس آپ کے خطوط آتے ہیں جن میں کوئی تاریخ درج نہیں ہوتی، اس وجہ سے ہم نہیں جان پاتے کہ یہ کس وقت اور کن حالات میں تحریر دیے گئے ہیں۔ براہِ کرم آپ ہمارے لیے کوئی تاریخ متعین کردیں جس سے ہم اپنے ایام و اوقات میں تمیز کرسکیں۔ ‘‘ حضرت عمر ؓنے اس خط کو پڑھا اور فرمایا: ’’کیوں نہ ہم اللہ کے رسولﷺ کی ہجرت کو اسلامی تاریخ کا افتتاح قرار دیں؟ ہجرت کا واقعہ سب کو معلوم ہے اور واضح بھی ہے اور اس میں کسی قسم کے شکوک وشبہات کادخل بھی نہیں، نیز یہ واقعہ اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ سے بے حد مربوط ہے۔ ‘‘ آپ کی اس رائے کو باتفاقِ مجلس قبول کر لیا گیا۔
اسلام قبل از ہجرت
آج جب ہم ہجرتِ نبوی کی یادیں تازہ کر رہے ہیں توذرا تھم کر یہ جائزہ بھی لینا چاہیے کہ اس ہجرت سے پہلے اسلام اور اہلِ اسلام کی صورتِ حال کیا تھی اور اس ہجرت کے بعد کیاکچھ تغیرات وتبدیلیاں واقع ہوئیں۔ ہجرتِ رسولﷺ کے آگے پیچھے کی تاریخ کا تقابل کرکے شاید ہم زیادہ بہتر طور سے اس عظیم الشان واقعہ کی معنویت وافادیت سے آشنا ہوسکیں گے۔ اس تقابلی جائزہ کا آغاز اس بات سے کیا جائے کہ ہجرت سے پہلے اسلام کی دعوت وانتشار میں کس درجہ صعوبتیں ومشکلیں درپیش تھیں اور گروہِ مومنین کو کس درجہ کوشش وکاوش کرنا پڑتی تھی کہ اسلام کی دعوت لوگوں کے قلوب واذہان میں داخلہ پاجائے۔ ایک خوف ودہشت کا ماحول تھا جو قریش نے برپا کیا ہوا تھا، جہاں ہر طرف مظالم، تعذیب اور قتل وخونریزی کا بازار گرم تھا۔ لیکن ہجرت کے بعد اسلام اس تیزی سے پھیلا جیسے سورج کی شعائیں تاریکی کا سینہ چیرتی ہوئی پھیل جاتی ہیں۔ اب اسلام کا غلغلہ تھا اور اہلِ اسلام آزاد تھے کہ بلا کسی خوف وہراس کے اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں اور دنیائے انسانیت تک انھیں پہونچائیں۔
ہجرت سے پہلے کا اسلام عبارت ہے ایسے اصول ومبادی اور احکام وتعلیمات سے جو اپنے نفاذ کے منتظر تھے۔ اس وقت کوئی ایسا سماج تشکیل نہیں پاسکا تھا جو ان تعلیمات واحکام کو عملی وتطبیقی شکل دے۔ مکہ کے قریشی سماج پر جابرانہ وبت پرستانہ نظام غالب تھا جس میں کسی فردِ واحد کو اذن نہ تھا کہ وہ وثنیت زدہ رسوم ورواج سے سرِ موانحراف کرسکے یا مروجہ احکام وفرامین کے علاوہ کسی اور تعلیم یاقانون پر عمل پیرا ہوسکے۔ اس وقت یہ حالت تھی کہ اسلام کو اپنے اہلِ خانہ، والدین، اور بھائی بہنوں تک سے چھپانا پڑتاتھا۔ اسلامی اجتماعیت مفقود تھی اور مسلمانوں کو کمزور تیسرے درجے کے افرادِ معاشرہ کی حیثیت سے زندگی گزارنا پڑتی تھی۔ یارا نہ تھا کہ وہ اپنے دینی شعائر وعبادات کو علی الاعلان قائم کر سکیں یا اپنے دین کو سیکھنے کے لیے کہیں اکٹھا ہوسکیں۔ بیشتر مسلمانوں کو اپنی نمازوں کی ادائیگی کے لیے مکہ کی تاریک گھاٹیوں کا رخ کرنا پڑتا تھا۔ اس سماجی جبر واستبداد کے علی الرغم ان کے دل ایمان کے نور سے معمور تھے اور انہیں وجدان کی گہرائیوں سے یقین تھا کہ جلد ہی اللہ رب العزت ان کی نصرت وتائید کا سامان فرمائے گا۔
اسلام بعدِ ہجرت
اب ہجرت کے بعد کی صورتِ حال کو دیکھئے تو زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ اب ایک مسلمان نہ صرف اپنے اسلام کا اعلان کرتا ہے بلکہ اسلام ایک مایۂ فخر ونازچیزبن جاتا ہے۔ اب مسلمانوں کی جماعت ایک بڑاکنبہ ہے جو اسلامی زندگی پرعمل پیرا ہے۔ اب معاشرے میں اللہ کے گھر مساجد ہیں جہاں پنچ وقتہ باجماعت کھلے طور سے اللہ کی کبریائی کا اعتراف کیاجاتا ہے۔ اب کسی کو دینی شعائر وعبادات کی ادائیگی سے روکا نہیں جاتااور ہر انسان کامل آزادی اورامن واطمینان کے ساتھ اپنے رب کے احکام کی تعمیل کرتاہے۔ اب اہلِ اسلام کے لیے نصرت وتائید ِ خداوندی نازل ہوچکی ہے۔
ہجرت سے پہلے اسلام کو مکہ کی چہار دیواری میں محصور کردیا گیا تھا اور کوشش کی جاتی تھی کہ اسلام کا نور کسی طور سے بھی دیگر علاقوں میں نہ پھیلنے پائے، بلکہ عملی صورتِ حال تو یہی تھی کہ اسلام مکہ میں بھی چند گھروں کے اندر محصور تھا۔ لیکن ہجرت کے بعد آفتابِ اسلام پوری تابانی کے ساتھ جلوہ افروز ہوااور روئے زمین کا ہر حصہ بقدرِ ظرف واستطاعت اس کی روشنی سے مستنیر ہوگیا۔ اب اسلام کا آفاقی پیغام شہروں ملکوں کی علاقائی حدود اور مشرق ومغرب کی جغرافیائی تقسیم سے بلند ہوکر ساری دنیا کے لیے مشعلِ راہ بن گیاتھا۔
ہجرتِ رسولﷺ کوایک حتمی ضرورت بنانے اور جلد واقع کرنے میں اُس زمیں دوز سازش کا ہاتھ بھی ہے جو قریشی طاغوتوں نے اللہ کے رسولﷺ کوقتل کرنے کے لیے رچی تھی۔ اس سازش کا خلاصہ یہ تھا کہ قریشی خاندانوں میں سے ہر خاندان سے ایک تنومند وعالی نسب نوجوان کا انتخاب کیا جائے اور ایسے منتخب نوجوانوں کا مجموعہ بنا کر انھیں محمدؐ کا خون بہانے کے لیے ایک ساتھ حملہ کرنے کی تلقین کی جائے۔ اگر محمدؐ-نعوذ باللہ-اس طرح قتل کر دیے جاتے ہیں تو ان کا خون قریش کے تمام خاندانوں میں بٹ جائے گا، جس سے بنو ہاشم کے بس میں نہ ہوگا کہ وہ محمدؐ کے قاتلوں سے انتقام لے سکیں۔ ناچار انھیں دیت لینے پر مجبور ہونا پڑے گا جو برضا ورغبت ادا کردی جائے گی۔ ایک طرف تو اساطینِ کفر، اسلام کو مٹانے کی یہ سازش کر رہے تھے، دوسری طرف مشیتِ ایزدی اسی سازش کے بطن سے اسلام کی سربلندی واشاعت کا سامان کررہی تھی۔
تعمیرِ مسجدِ نبوی
ہجرت کے بعد جیسے ہی اللہ کے رسولﷺ مدینہ منورہ پہونچے، آپﷺنے سب سے پہلے مسجدِ نبوی کی تعمیر کا آغاز فرمایا اور اس موقع پر انصار ومہاجرین کے مجمعِ عام کو خطاب کیا۔ آپﷺ نے اس خطاب میں آپسی بھائی چارے اورباہمی تعاون پر زور دیا۔ آپﷺ نے بتایا کہ کسی بھی مثالی معاشرے کے لیے اس کے افراد کے مابین رحمت وغمگساری اور احسان وایثار کا جذبہ ہونا، نیز اپنے امام کی اطاعت ومحبت کا پایا جانا بے حد ضروری ہے۔ آپﷺ نے اپنے خطاب میں شرک اور کفر کی تمام اشکال واعمال سے منع فرمایا اور آپسی بغض اور نقضِ عہد کی شناعت بیان فرمائی۔
اس کے بعد آپﷺ نے مہاجرین وانصار کے مابین اسلامی مواخات قائم فرمائی اور کہا کہ: ’’تم سب آپس میں دودو بھائی ہوجائو۔ ‘‘ انصاری صحابہؓ نے اس فرمانِ نبوی کی تعمیل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اپنے غریب الدیار بھائیوں کا کھلے دل سے خیر مقدم کیا۔ انھوں نے اس اخوت کو حقیقی معنی میں رو بہ عمل لانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ رکھا۔ انصاری صحابہؓ کا اس موقع پر تعامل بے مثال تھا کہ انھوں نے اپنے مہاجر بھائیوں کی دلجوئی کے لیے اور اخوتِ اسلامی کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے، اپنی ہرچیز زر، زمین، دوکان سب کچھ آدھا آدھا دینے کی کوشش کی۔ بلکہ روایات میں آتاہے کہ بعض لوگوں نے اپنے ایمانی بھائی کے حق میں اپنا آدھا گھر اوردو بیویوں میں ایک سے دست کشی اختیار کرنے کی تجویز بھی رکھی تھی۔
انصار کی اس جود سخا کے جواب میں مہاجرین صحابہؓ کاطرزِ عمل کامل خودداری ومتانت کاتھا اورانھوں نے اپنے دینی بھائیوں پر بوجھ بننے کے بجائے خود کو ان کا ممد ومعاون ثابت کیا۔ اس اخوتِ ایمانی کے نتیجے میں آئندہ فی سبیل اللہ جہاد کے لیے ایسی صفیں تیار ہوئیں جو سیسہ پلائی دیوار سے مشابہ تھیں۔ قافلۂ اسلام کی یہ پہلی کھیپ تھی جس نے اپنے اتحاد واخوت کے ذریعہ وہ محیر العقول قربانیاں دیں اورایسے معجزہ نما کارنامے انجام دیے جواللہ پر توکل واعتماد کے آخری درجہ کی ترجمانی کرتے ہیں۔
ہجرتِ مبارکہ سے سبق
سچی بات یہ ہے کہ ہجرتِ مبارکہ سے ہمیں بہت سے نہایت درجہ اہم امور کی رہنمائی ملتی ہے جس کا سمجھنا اور یاد رکھنا ہمارے لیے ضروری ہے کیونکہ اس کی روشنی میں جدید زمانے کے خطرناک چیلنجز کا مقابلہ کرنا آسان ہوگا۔ ہجرت سے ایک سبق یہ ملتا ہے کہ حق اپنے آپ میں ایسی ناقابلِ تسخیر قوت وطاقت ہے جو کسی حال میں مغلوب وشکست خوردہ نہیں ہوسکتا۔ غلبۂ حق کا راستہ کتنا ہی دشوار گزار کیوں نہ ہو، لیکن اس میں منزل کا حصول یقینی ہے۔ اس کے برخلاف باطل کی سطوت وجبروت کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو، انجامِ کاراسے ایک دن نیست ونابود ہونا ہے۔
ہجرت ہمیں بتاتی ہے کہ ظلم وبربریت اور جبر واستبداد کسی درجہ کا بھی ہو، اگر ایمان کی حلاوت دلوں میں گھر کرگئی ہے، توقوتِ ایمانی کے مقابلہ میں ہیچ ہے۔
ہجرت ہمیں سکھاتی ہے کہ ایسے وطنِ مادری کی کوئی قیمت نہیں جس میں انسان کی عزتِ نفس مجروح ہو، جہاں عقیدے کی آزادی سلب ہو، اور جہاں اپنے دین وایمان کے لیے امان نہ مل سکے۔ ہجرت بتاتی ہے کہ ایک مسلمان کا عقیدہ ہی اس کا وطن ہوتا ہے۔ ہر مسلمان -وطن، قوم اور رنگ کے اعتبارات سے قطعِ نظر-دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ وہ کبھی اپنے بھائی کو بے یار ومددگار نہیں چھوڑتا اورنہ کبھی اپنے بھائی پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے ظالموں کے رحم وکرم پرچھوڑتا ہے۔ ہجرت ہمیں اسلامی اخوت سکھاتی ہے اور واضح کرتی ہے کہ ایمانی بھائی چارا مومن صفت انسانوں کا باہمی میثاق ہے اور ایک معاہدہ ہے جو بلند مرتبہ انسانی معاشرے کا ضامن ہے۔
ہجرت سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کی راہ میں آزمائشیں آتی ہیں، لیکن ان آزمائشوں کے نتیجے میں سچے اہلِ ایمان کے ارادوں کو مضبوطی وپختگی ملتی ہے اور حوصلوں کو قوت وپامردی۔ یہ آزمائشیں ان کے دلوں کو مایوسی وقنوطیت یاکمزوری وضعف میں مبتلا نہیں کرنے پاتیں۔
ہجرت سے ہمیں سبق ملتاہے کہ صبر واستقامت اور اتحاد ویکجہتی کے پہلو بہ پہلو، کتابِ الٰہی سے تمسک واعتصام پایا جائے تو معجزات رونما ہوتے ہیں اوردنیا میں کوئی ہدف ناممکن الحصول نہیں رہ جاتا ہے۔
یہ امور ہیں جن کی تاکید ہمیں ہجرتِ مبارکہ کے واقعہ سے ملتی ہے، لیکن کیا موجودہ دور کے طاغوتوں سے معرکہ آرائی میں ان امور سے فائدہ اٹھایاجاسکتا ہے؟ کیا ہمارے مابین اسلامی اخوت ویسی ہی پائی جاتی ہے جیسا کہ اللہ کے رسولﷺ چاہتے تھے؟ کیا ہمیں یاد ہے کہ ان تمام امور کا متحقق ہونا اللہ کی بنائی آفاقی سنتوں اور قوانین کی مطابقت پرموقوف ہے؟ یہ تکوینی سنتیں کسی مخلوق کی رورعایت نہیں کرتیں اور ان میں تبدیلی کا بھی کوئی امکان نہیں ہے: {سُنَّۃَ اللَّہِ فِیْ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِن قَبْلُ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللَّہِ تَبْدِیْلاً} (احزاب، ۶۲) ’’یہ اللہ کی سنت ہے جو لوگوں کے معاملہ میں پہلے سے چلی آرہی ہے، اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پائو گے۔ ‘‘
کیا ہمیں معلوم ہے کہ ان کائناتی قوانین میں سے ایک بنیادی قانون یہ ہے: {إِنَّ اللّہَ لاَ یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی یُغَیِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ وَإِذَا أَرَادَ اللّہُ بِقَوْمٍ سُوء اً فَلاَ مَرَدَّ لَہُ وَمَا لَہُم مِّن دُونِہِ مِن وَالٍ} (رعد، ۱۱) ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔ اور جب اللہ کسی قوم کی شامت لانے کا فیصلہ کر لے تو پھر وہ کسی کے ٹالے نہیں ٹل سکتی، نہ اللہ کے مقابلے میں ایسی قوم کا کوئی حامی ومددگار ہوسکتا ہے۔ ‘‘ {یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّہَ یَنصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ أَقْدَامَکُمْ} (محمد، ۷) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہار مدد کرے گا اور تمہارے قدم مضبوط جما دے گا۔ ‘‘
{إِن یَنصُرْکُمُ اللّہُ فَلاَ غَالِبَ لَکُمْ وَإِن یَخْذُلْکُمْ فَمَن ذَا الَّذِیْ یَنصُرُکُم مِّن بَعْدِہِ وَعَلَی اللّہِ فَلْیَتَوَکِّلِ الْمُؤْمِنُون} (آل عمران، ۱۶۰) ’’اللہ تمہاری مدد پر ہو تو کوئی طاقت تم پر غالب آنے والی نہیں اور وہ تمہیں چھوڑ دے تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کر سکتا ہو؟ پس جو سچے مومن ہیں ان کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔ ‘‘ {ذَلِکَ بِأَنَّ اللَّہَ مَوْلَی الَّذِیْنَ آمَنُوا وَأَنَّ الْکَافِرِیْنَ لَا مَوْلَی لَہُمْ} (محمد، ۱۱) ’’یہ اس لیے کہ ایمان لانے والوں کا حامی وناصر اللہ ہے اور کافروں کا حامی وناصر کوئی نہیں۔ ‘‘ {وَإِن تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَیْْرَکُمْ ثُمَّ لَا یَکُونُوا أَمْثَالَکُمْ } (محمد، ۳۸) ’’اگر تم منھ موڑو گے تو اللہ تمہاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا اور وہ تم جیسے نہ ہونگے۔ ‘‘ {وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ حَتَّی نَعْلَمَ الْمُجَاہِدِیْنَ مِنکُمْ وَالصَّابِرِیْنَ وَنَبْلُوَ أَخْبَارَکُم} (محمد، ۳۱) ’’ہم ضرور تم لوگوں کو آزمائش میں ڈالیں گے تاکہ تمہارے حالات کی جانچ کریں اور دیکھ لیں کہ تم میں مجاہد اور ثابت قدم کون ہیں۔ ‘‘
وقت آگیا ہے کہ ہم بحیثیت ِ مجموعی اللہ تعالیٰ کی تکوینی سنتوں کو سمجھیں اور ان آفاقی قوانین کے مطابق اپنا طرزِ عمل سنواریں۔ ہمیں ہجرت کے تذکرے سے سبق لیتے ہوئے اپنی دنیا سدھارنی ہے اور اپنی آخرت بنانی ہے۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی سچی محبت کا تقاضا یہی ہے اور ہماری زندگی بھی ان کی پکار پر لبیک کہنے میں مضمر ہے۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین