نئے سال کی آمد اور سال گزشتہ کا محاسبہ

نئے سال کی آمد اور سال گزشتہ کا محاسبہ

محمد قمرالزماں ندوی
استاد/ مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ

سب کو معلوم ہے اور سبھی جانتے ہیں کہ یکم جنوری سے نئے سال (شمسی سال) کاآغاز ہوتا ہے ۔ اسلام میں مواقیت یعنی اوقات کو جاننے اور پہچاننے کا معیار چاند کو بنایا گیا ہے، نہ کہ سورج کو،(البتہ شمسی اور قمری دونوں تاریخیں خدا کی بنائی ہوئی ہے اور سورج ☀ اور چاند 🌙 دونوں کی گردش خدا کے حکم ہی سے ہے اور تکوینی نظام کے ماتحت ہے، اس لیے دونوں کو اپنی اپنی حیثیت ہے – (یہ کہنا کہ شمسی تقویم اور کلینڈر یہ عیسائیوں کا کیلنڈر ہے ،اس اسلام کا دور دور کا واسطہ نہیں ہے ،یہ غلط سوچ اور نظریہ ہے)
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ عالی قدر میں چاند سے متعلق سوال فرمایا تھا، جس کا تذکرہ قرآن مجید میں موجود ہے۔ *یسئلونک عن الاھلة قل ھی مواقیت للناس* لوگ آپ سے چاند کے بارے میں دریافت کرتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ یہ لوگوں کے اوقات( دن مہینہ اور سال) کے جاننے کا ذریعہ اور علامت ہے ۔ *صحابہ کرام رضی اللہ عنھم* کو یہ سوال اس لیے پیدا ہوا تھا کہ چاند دیکھنے میں عجیب وغریب مخلوق نظرآتا ہے، اس لیے کہ یہ کبھی بالکل باریک ہوتا ہے، اورکبھی پیالے کے جیسے رونما ہوتا ہے ، تو کبھی تھالی کے مانند مکمل اور روشن دکھائی دینے لگتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس کےجواب میں فرمایا کہ یہ چاند تمہارے اوقات ، مہینوں اور سالوں کو جاننے کا ذریعہ ہے۔
علماء نے چاند کو معیار بنانے میں یہ حکمت لکھی ہے کہ چاند میں تغیر کو ہر عام و خاص محسوس کرتا ہے۔ اور اس کامشاہدہ کرسکتا ہے، اس لیے کہ چاند دنیا کے اکثر علاقوں میں نظر آتا ہے (جہاں نظر نہیں آتا وہاں کی وجوہات کچھ اور ہیں) دیہات ہو یا شہر ، میدان ہو یا پہاڑی علاقہ، غرض کہ ہر طرف سے ہر جگہ نظر آتا ہے دیکھنے والا با آسانی دیکھ سکتا ہے، اس کے برخلاف نظام شمسی کے تغیرات سے ہر آدمی واقف نہیں ہوسکتا ہے اور نہ ادنیٰ غور فکر کے بعد اس کے بارے میں علم ہوسکتا ہے۔
بہر حال چاند کو معیار بنا کر دنوں اور مہینوں کی تعیین ہوتی ہے، اس کی ایک حکمت یہ بھی بیان کی جاتی ہے، چاند کو معیار طے کرنے کے نتیجے میں اسلامی مہینے کسی بھی موسم میں آسکتے ہیں، مثلاً رمضان المبارک کبھی گرمی میں تو کبھی سردی میں اور کبھی دیگر موسموں میں آتا ہے۔
معلوم یہ ہوا کہ چاند کی تاریخ اور چاند کے مہینے اور دن سے مسلمانوں کی عبادتیں اور معاشرتی مسائل زکوٰۃ کی ادائیگی وغیرہ جڑی ہوئے ہیں، اس لئے مسلمانوں کو شمسی سال کے مقابلے میں قمری سال اور مہینے کا اہتمام زیادہ کرنا چاہیے اور قمری تاریخوں اور قمری دنوں اور مہینوں کے نام کا اہتمام کرنا چاہیے، لیکن افسوس کہ آج غیروں کی تقلید میں ہمیں صرف شمسی مہینوں اور تاریخوں کا ہی اہتمام زیادہ رہتا ہے اور ایک بڑی تعداد کو اسلامی مہینوں کے نام اور تاریخ کا علم ہی نہیں ہے، بہت سے دینی مدارس اور اداروں میں بھی صرف شمسی تاریخ کا استعمال و رواج ہے، جو بہت ہی افسوس کی بات ہے ۔
دوسری بات جو قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ اسلام میں اگر دیکھا جائے تو اجتماعی طور پر خوشی منانے کے لئے صرف دو دن ہیں ، اور اس کے بھی حدود و شرائط ہیں کہ مسلمان ان دنوں میں شریعت کی روشنی میں جائز طریقے سے کس طرح خوشیاں منائیں گے کہ خالق کی ذرا بھی نافرمانی نہ اور مخلوق کی ایذا رسانی بھی نہ ہو ، یعنی ان کو کسی طرح تکلیف نہ ہو ۔ اس کے علاوہ کسی دن کو خوشی منانے کے لئے خاص کرنا خواہ وہ شمسی یا قمری سال کی ابتداء ہی کیوں نہ ہو اس کی قطعا اجازت نہیں ہے ۔ سال کا اختام اور نئے سال کی آمد یہ در اصل ہمیں محاسبہ کی دعوت دیتا ہے، کہ ہم سب اپنا محاسبہ کریں کہ سال گزستہ اللہ تعالی نے جو ہمیں بارے مہینے تین سو پینسٹھ دن اور تقریبا چون پچپن ہفتے دئے ، ہم نے اس میں کیا کھویا کیا پایا ؟ خالق کی کتنی اطاعت کی اور کتنی ہم سے پیدا کرنے والے کی شان میں نافرمانی ہوئی ،ہم نے کتنے اچھے اعمال کئے اور کتنے ناپسندیدہ اعمال اور حرکتیں ہم سے سرزد ہوئیں، ہم نےانسانیت کے لئے کتنے مثبت کام کئے اور کتنے منفی اعمال کا ہم سے صدور ہوگیا؟ ۔ نئے سال کی آمد اور سال گزشتہ کا اختتام اس لئے نہیں ہے کہ موج و مستی مئے نوشی اور عیش و عیاشی اسراف و فضول خرچی آتش بازی اور پکنک اور ہڑبونگ منایا جائے۔
آج کیا غیر اور کیا اپنے، سب کے یہاں دیکھا جارہا ہے کہ نئے سال کی آمد پر جشن کا ایک ماحول اور سماں پیدا ہوجاتا ہے ۳۱/ دسمبر کی نصف رات ہوتے ہی غفلت اور ناسمجھی میں لوگ سال نو کی تقریبات منانے لگتے ہیں ۔ عیاشیاں اور فضول خرچیاں کرتے ہیں ، روشنی اور آتش بازی میں اربوں اور کھربوں روپیہ برباد ہوجاتا ہے ۔ بسا اوقات خوشیاں منانے میں جانیں بھی چلی جاتی ہیں، حکومتی سرمائے کا نقصان بھی ہوتا ہے ۔جتنی بھی تقریبات منائی جاتی ہیں ، ان میں زیادہ تر شراب و کباب کا دور چلتا ہے ۔ پیسے کو پانی کی طرح بہایا جاتا ہے، نئے سال کی مبارک بادی پیش کرنے کے لئے مہنگے مہنگے داموں میں کارڈ خریدے جاتے ہیں، اور محض ایک رسم کو نبھانے کے لئے ضروری مد پر نہ خرچ کرکے فضول مصرف میں پیسے کو برباد کیا جاتا ہے ۔
ہمیں جاننا چاہئے کہ ان تقریبات کا اسلام سے دور دور کا بھی تعلق نہیں ہے ۔ بھلا اسلام ایسے لغو اور فضول کاموں کی ہمت افزائی کیسے کرسکتا ہے؟۔
دنیا بھر میں آج نئےسال پر جشن منایا جاتا ہے، اربوں روپے آتش بازی اور دیگر خرافات میں پھونک دیئے جاتے ہیں، جب کہ ہزاروں لوگ بھوکے رات گزار دیتے ہیں، سردی میں ٹھٹھرتے ہیں۔ اس جشن کی شروعات کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ سن چھبیس قبل مسیح میں رومی قیصر *جولیس* نے یکم جنوری کو سال کا پہلا دن ٹہرایا، اس لیے جنوری کے مہینے، کا نام *جائس* دیوتا کے نام پر رکھا گیا ، اس دیوتا کے دو چہرے تھے، ایک چہرہ آگے کی رخ کی طرف اور دوسرے پیچھے کی طرف تھا۔ اس طرح سے معلوم ہوا کہ نئے سال کا جشن اصل میں بت پرستی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسی روایت کو برقرار رکھتے ہیں۔ دیگر ممالک میں بھی اس کی نقالی کی جاتی ہے۔ ہم مسلمان بھی غیروں کی نقالی میں پیش پیش رہتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ
غافل تجھے گھڑیال دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور بتا دی

نئے سال کی آمد پر تو ہمیں یہ احساس کرنا اور کرانا چاہئے کہ سانسوں کی تعداد بڑھنے کے ساتھ ہی عمر کی مقدار گھٹ رہی ہے اور رفتہ رفتہ انسان اپنی منزل سے قریب پہنچ رہا ہے، اس لئے انسان کو اپنے اعمال و افعال کا جائزہ لینا چاہیے، اور سال کے اختام پر اپنا بھر پور محاسبہ کرنا چاہیے اور جو کمیاں اور کوتاہیاں سال گزشتہ ہوئیں ہیں، اس کی تلافی کی فکر آنے والے سال میں کرنا چاہئے ۔ صرف ہماری ہی ذمہ داری اور فرض نہیں ہے کہ ہم ان فضولیات سے بچیں بلکہ خیر امت کی حیثیت سے اور امت داعی کے مقام و منصب پر فائز ہونے کی وجہ سے ہماری یہ ذمہ داری اور فرض منصبی ہے کہ پوری انسانیت کو لغو ، لایعنی،فضول اور بے ہودہ کام اور عمل سے روکیں ۔ اور حکومتی سطح پر بھی اس کی تدبیر کریں اور کرائیں ۔ کہ حکومت وقت اس بے بیہودہ اور لغو کام پر پابندی لگائے اور اس کے لئے حدود و ضوابط طے کرے ۔
نئے سال کی آمد کو ہم ایک جشن کے طور پر مناتے ہیں، جب کہ یہ ایک سال کو الوداع کہہ کر دوسرے سال کا استقبال کرنے کا موقع ہوتا ہے۔ یہ وہ موقع ہے کہ انسان زندگی کے گزرنے اور فنا ہونے کا اپنے اندر احساس پیدا کرے ،لمحاتی اور وقتی سرشاری میں محو ہونے کے بجائے اپنی زندگی اور اپنے اعمال کاجائزہ لے اور کمی اور کوتاہی کی تلافی کرے۔
آج جبکہ *امت مسلمہ* بہت نازک مور پر کھڑی ہے، ان کا ناطقہ بند کرنے اور دوسرے نمبر کا شہری ثابت کرنے کی پوری پلان اور کوشش ہورہی ہے، اور مسلمان مختلف راستوں کے دو راہے پر ہے۔ ان پر ہر چہار جانب سے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، ان پر عرصئہ حیات تنگ کیا جارہا ہے، ان کو ملک بدر کرکے ان کی شہریت چھیننے کی کوشش کی جا رہی ہے ، ان کے مذھبی قانون پر بھی پابندی لگائی جارہی ہے، اور یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی پوری پلانگ ہے۔ ایسے پر آشوب دور میں ہمارے لئے ضروری ہے، کہ ہم سال گزستہ کا محاسبہ کریں اور اس حوالے سے’غور و فکر کریں کہ ہم سے کیا کوتاہیاں ہوئی ہیں،کہاں ہم چوک ہوئی ہے اور آنے والے سال کے لئے ہم لائحہ عمل طے کریں اور ہم ہر اعتبار سے قوم ملت کے لئے، پوری انسانیت کے لیے کیسے مفید بنیں اورکس طرح حالات کا مقابلہ کریں؟ کہ انسانیت کی ڈوبی ہوئی کشتی کو ساحل تک پہنچادیں اور خاص کر مسلمانوں کی کھوئی ہوئی طاقت واپس لائیں ۔
اللہ تعالٰی ہم سب کو اس کی توفیق اور ہمت بخشے آمین ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناشر/ مولانا علاءالدین ایجوکیشنل، سوسائٹی، جھارکھنڈ6393915491

اپنی راۓ یہاں لکھیں