مولانا آزاد اور تحریک آزادیِ ہند
از:۔نعمت اللہ عقیل
ہندوستان کی اپنی ایک شاندار اور توانا تاریخ رہی ہے،خواہ وہ ہندوستانی تاریخ میں ویدی دورہو یا ہرپا دور،گپتا ہو یاگرجر ،موریاہو یا راجپوت ،عرب ہو یا سلاطین دہلی ،مغلیہ ہو یا مراٹھا یا پھر انگریز وں کا دور ہو،ان سارے ادوار میں مسلمانوں کا آٹھ سو سالہ دور کی ایک الگ تاریخ رہی ہے ۔ پھر انگریزوں کا جابرانہ و ظالمانہ قبضہ اور تسلط اور اس کے بعد جنگ آزادی میں مسلمانوں کا کردار ،کیا ہی دردناک اور دلچسپ تاریخ ہے ،جو انسا ن کو ہمت و توانائی عطا کرتی ہے،یہاں جنگ آزادی کی تحریک میں مولانا آزاد رحمتہ اللہ کے کردار کے تعلق سے کچھ باتیںحوالئہ قلم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
مولانا آزادکی شخصیت مختلف النوع انفراد و امتیاز کی حامل تھی۔قائد، سیاست داں،مدبر، عالم دین، مفسر قرآن،ادیب،صحافی،مصلح اور خطیب جیسی گوناگوں حیثیتوں سے اپنی شناخت رکھتے تھے۔ان کی شخصیت خود میں ایک انجمن تھی،انہیں نہ صلہ کی خواہش تھی،اور نہ ستائش کی تمنا۔انہوں نے ا یک طر ف محررانہ انداز میں لوگوں کو انگریزی سامراج کے خلاف بیدار کیا وہیں دوسری طرف مقررانہ انداز میں بھی لوگوں کو بیدار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی،مولانا کے دل میں مسلمانوں کے لئے ایک تڑپ،محبت اور یہ چاہت تھی کہ مسلمان اسلام پر قائم و دائم رہ کر ہندوستان کی آزادی میں بھرپور حصہ لیں اور غلامی کی زنجیروں کو پیرو تلے روندنے کی کوشش کریں۔انہوں نے سیاست میں بھی قدم رکھا اور آزاد پہلے وزیر تعلیم بنے،مولانا آزاد اپنی عمر کے آخری وقت تک مسلمانوں کو بیدار اور متحد کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ مولانا آزاد ۱۸۸۸ء(۱) میں مکہ مکرمہ کے محلہ قدوہ متصل باب السلام میں پیدا ہوئے،والد محترم نے مولانا کا نام احمد رکھا،جب کہ تاریخی نام فیروز بخت ،لقب ابوالکلام اور تخلص آزاد تھا،فروری ۱۹۸۵ء (۲)کو اس دنیا سے یہ چراغ ہمیشہ ہمیش کے لئے گل ہو گیا۔
عالمی تاریخ میں ہندوستان کی تحریک آزادی کی روداد ایک نئے اور شاندار باب کا اضافہ کرتی ہے،تحریک آزادی میں الگ الگ وقت میں الگ الگ رہنمائوں نے قیادت اور سپہ سالاری کاکا م انجام دیا اور ہندوستان کے لوگ خصوصا مسلمانوں کو ایک نئی راہ کی طرف رہنمائی کی جو انہیں آزادی کی طرف لے کر جائے،انہیں رہنمائوں میں سے ایک رہنما مولاناابوالکلام آزاد علیہ الرحمہ کی ہے جنہوں نے تحریک آزادی کی روح پھونکی اور خط و کتابت اور اخبار کے ذریعہ سے امت کے جو پڑھے لکھے طبقے تھے انہیں جگانے اور اکسانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، مولانا آزاد تحریک آزادیِ ہند کے عظیم رہنما تھے،تحریری طور پر جو آپ نے تحریک شروع کی وہ اک کامیاب تحریک رہی ۔
مولانا آزاد ہندوستان کی تاریخ میں تنہا ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے کم عمری ہی میں اپنا سکہ جمانا شروع کر دیا ،اس سلسلے میں ان کی بہن کا قول ہے کہ: ــــــ’’مولانا آزاد نے بچپن نہیں دیکھا،چھ سات برس کی عمر ہی سے معلوم ہوتاتھا کہ ننھے ننھے کاندھوں پر ایک سر ہے جس میں ایک بڑا اونچا دماغ ہے‘‘ان کی عظمت کے اعتراف میں بلبل ہندسروجنی نائیڈو کا یہ قول بھی بڑ اوزن دار ہے کہ’’ مولانا کی ذہنی عمر ان کی ولادت کے وقت پچاس برس تھی‘‘ دراصل مولانا آزاد نے جنگ آزادی کے سپاہی کی حیثیت سے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا مگر جلد ہی ان کا شمار اس کے سالاروں میں ہونے لگا۔(۳)
مولانا آزاد نو عمری ہی سے مختلف جرائد و اخبارات میں کام کر چکے تھے اور ناموری حاصل کر لی تھی،لیکن اس وقت کے دو واقعات نے مولانا آزاد کو صحافت سے باہر قیادت میں قدم رکھنے پر مجبور کر دیا۔ان میں پہلا واقعہ تقسیم بنگال ہے جس کے خلاف مولانا آزاد تھے،اور اس سلسلے میں تقسیم کے خلاف چلائی جانے والی تحریک خلافت کے رہنمائوں سے مل کر اس میں شامل ہونا چاہاتو تو اربندو گھوش اور شیام سندر چکروتی نے بڑا تعجب کا اظہار کیا۔ دوسرا واقعہ ۱۹۰۸ ء میں مصر،شام،ترکی اور فرانس کا سفر تھا ۔اس سفر میں مولانا آزاد نوجوان رہنمائوں سے ملے اور وہاں سے آنے کے بعد مولانا آزاد نے یہ محسوس کیا کہ ہندوستانی مسلمانوں کو بیدار کیا جائے اور اس کے لئے مولانا آزاد نے ۱۹۱۲ء میں الہلال جاری کیا جو اردو صحافت کی دنیا میں شاندار باب کا اضافہ تھا۔
الہلال کیا تھا؟یہ ایک مصور ہفتہ واری پرچہ تھا جسے مولانا آزاد نے جاری کیا ،اس میں اکژو بیشتر ایسی تحریں ہوتیں جس سے ایک مسلمان بیدار ہو اور آزادی کے لئے جدو جہد شروع کریں، پھر کیا تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے اسے شہرت ملی اور ببانگ دہل مولانا آزاد نے لوگوں کو تحریک آزادی میں شامل ہونے کی دعوت دی۔مولانا آزاد نے لوگوں کو اس کے ذریعہ بیدار کیا اور مسلمانوں کے ضمیر کو جھنجھوڑا اور بے حسی کے خواب سے نکلنے کی دعوت دی،مولانا آزاد لکھتے ہیں :
’’وہ صور کہاں سے لائوں جس کی آواز چالیس کروڑ دلوں کو خواب غفلت سے بیدار کردے۔میں اپنے ہاتھوں میں وہ قوت کیسے پیدا کروں کہ ان کی سینہ کوبی کے شور سے سر گشتگان خواب موت سے ہوشیار ہو جائیں۔دشمن شہر کے دروازوں کو توڑ رہے ہیں اور اہل شہر رونے میں مصروف ہیں۔ڈاکوئوں نے ْقفل توڑ دیے ہیں اور گھر والے سوئے ہوئے ہیں ۔لیکن اے رونے کو ہمت ،اور مایوسی کو زندگی سمجھنے والوں ، یہ کیا ہے کہ تمہارے گھر میں آگ لگ چکی ہے،ہوا تیز ہے اور شعلوں کی بھڑک سخت ہے،مگر تم میں سے کوئی نہیں جس کے ہاتھ میں پانی ہو ۔پھر اگر اسی وقت کے منتظر تھے تو کیا نہیں سنتے کہ وقت آگیا ہے ۔ اگر تم کشتی کے ڈوبنے کا انتظار کر رہے تھے تو کیا نہیں دیکھتے کہ اس میں دیر نہیں۔۔۔۔۔۔‘‘(۴)
مولانا آزاد مسلمانوں کو ابھارتے رہیں اور لکھتے رہیںکہ مسلم امہ ڈرپوک قوم نہیں بلکہ مسلمانوں کی تاریخ اس بات پر شاہد کہ مسلم قوم غلامی کی طوق کو برداشت کرنے والی نہیں ہے ،مولانا آزادمزید لکھتے ہیں :
’’جو ہونے والاہے اس کو کوئی قوم اپنی نحوست سے نہیں روک سکتی ۔یقینا ایک دن آئے گا جب کہ ہندوستان کا آخری انقلاب ہو چکا ہوگا ۔ غلامی کی وہ بیڑیاں جو خود اس نے اپنے پائوں میں ڈالی ہے بیسویں صدی کی ہوائے حریت کی تیغ سے کٹ کر گر چکی ہوں گی او ر وہ سب ہو چکے گا جس کا ہونا ضروری ہے ۔فرض کیجئے کہ اس وقت ہندوستان کی ملکی ترقی کی ایک تاریخ لکی گئی تو آپ کو معلوم ہے کہ اس میں سات کڑور انسانوں کی نسبت کیا لکھا جائے گا ؟اس میں لکھا جائے گا کہ ایک بدبخت و زبوں طالع قوم جو ہمیشہ ملکی ترقی کے لئے ایک روک ،ملک کی فلاح کے لئے ایک بد قسمتی ،راہ آزادی میں سنگ گراں ،حاکمانہ طمع کا کھلونا،دست اجانب میں بزیچہ کعب،ہندوستان کی پیشانی پر ایک گہرا زخم اور گورنمنٹ کے ہاتھ میں ملک کی امنگوں کو پامال کرنے کے لئے ایک بہترین پتھر بنی رہی۔پھر اس میں لکھا جائے گا کہ یہ حالت اس قوم کی تھی جو آہ ثم آہ!کہ مسلم تھی جو اپنے ساتھ انسانی شرف و جلال کی ایک عظیم ترین تاریخ رکھتی تھی،جس کو دنیا کی وراثت اور خلافت دی گئی تھی جو دنیا میں اس لئے بھیجی گئی تھی تاکہ انسانی استبداد و استعباد کی زنجیروں سے بندگان الہی کو آزاد کرائے‘‘(۵)
مولانا نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ مسلمانوں کو شرف و عظمت کو یاد دلایا اورتاریخ ہند میں اپنا مقام لکھوانے کے لئے ہر طرح کی کوششیں کرتے رہیںآگے لکھتے ہیں :
’’اگر تم کہو کہ تاریخ ہند میں ہمارے لئے بھی ایک شرف و عظمت کا باب ہوگا تو تم خاموش رہو اور مجھ سے کہومیں اسے پڑھا دوں۔بے شک ایک باب ہوگا مگر جانتے ہواس میں کیا لکھا ہوگا؟اس میں لکھاہو گا کہ ہندوستان ملکی ترقی اور ملکی آزدی کی راہ میں بڑھا،ہندوئوں نے اس کے لئے اپنے سروں کو ہتھیلی پر رکھا مگر مسلمان غاروں کے اندر چھپ گئے ،انہونے پکارا،مگر انہوں نے اپنے منھ اور زبان پر قفل چڑھا دیے۔‘‘ (۶)
مولانا آزاد ہندو مسلم کے اتحاد کے علم بردار تھے،اور اس بات کو انہوں نے پرکھ لیا تھا کہ یہاں سے انگروں کو بھگانے کا ایک ہی طریقہ ہے وہ یہ کہ ہند و مسلم مل کر جنگ آزادی میں حصہ لیں ۔چنانچہ ۱۹۳۳ء کی انڈین نیشنل کانگریس کے دہلی اجلاس میں آپ نے کہا تھا کہ: ’’ہند ومسلم اتحاد کے بغیر آزادی نہیں مل سکتی بلکہ اس کے بغیر انسانیت کی ابتدائی اصول بھی اپنے اندر نہیں پیدا کر سکتے۔آج اگر ایک فرشتہ آسمان کی بدلیوں سے اتر آئے اور قطب مینار پر کھڑے ہو کر یہ اعلان کر دے کہ سوراج ۲۴ گھنٹے کے اندر مل سکتا ہے بشرطیکہ ہندوستان ہندو مسلم اتحاد سے دست بردار ہو جائے تو میں سوراج سے دست بردار ہو جائوں گا مگر اس سے دست بردار نہیں ہوں گا،کیوں کہ اگر سوراج ملنے میں تاخیر ہوگی تو یہ ہندوستان کا نقصان ہوگا لیکن اگر ہمارا تحاد جاتا رہا تو عالم انسانیت کا نقصان ہوگا‘‘(۷)
مختصر یہ کہ مولانا آزاد ایک ایسی شخصیت حامل تھے جنہوں نے قدم قدم پر مسلمانوں اور غیر مسلموں کو ایک ہو کر جنگ آزادی پر ابھارتے رہیں اور بالآخر ملک عزیز ہندوستان انگریزوں کی ظالمانہ اور سفاکانہ حکومت سے آزاد ہوا،اور مولانا آزاد کی دلی خواہش تھی کہ ہند عزیز جہاں مسلمانوں کی تاریخ رہی ہے اسے تقسیم نہ کیا جائے،اور جب مسلمانان ہند اپنے وطن کو چھوڑ کر پاکستان جا رہے تھے تو آپ نے لال قلعہ سے آواز دیتے ہیں اور کہتے ہیں ’’آخر کہاں جا رہے ہواور کیوں جا رہے ہو؟یہ دیکھو!مسجد کے مینار تم سے جھک کر سوال کرتے ہیں کہ تم نے اپنی تاریخ کے صفحات کو کہاں گم کر دیا؟ابھی کل کی بات ہے کہ یہیں جمنا کے کنارے سے تمہارے قافلوں نے وضو کیا تھااور آج تم کو یہاں رہتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے؟حالانکہ دلی تمہارے خون سے سینچی ہوئی ہے‘‘(۸)
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہندوستان کی ترقی کے لئے کوششیں کرتے رہیں ،اور اسلام پرثابت قدم رہ کر جو بھی قربانیاں ہوں اسے دینے کے لئے تیار رہیں ۔وہ دن دور نہیں کہ ہندوستان پھر سے ہرا بھرا نہ ہو اور ضرور ہوگا۔مولانا آزاد کی قربانیوں کو یاد کریں ان کی تحریروں کو عام کرنے کی کوشش کریں،شاید ان کی تحریروں سے ہم سبق حاصل کریں ۔
کوئی نالاں کوئی گریاں کوئی بسمل ہو گیا
اس کے اٹھتے ہی دگرگوں رنگ محفل ہو گیا۔
آزاد