(رمضان سیریز: 3)
رمضان کے روزے: حکمتیں اور فائدے
ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ
کسی شرعی حکم میں پنہاں تمام حکمتیں اور مصلحتیں صحیح معنی میں صرف اللہ رب العالمین ہی جانتا ہے یا وہ اپنے جس پیغمبر کو آگاہ فرمادے۔ پھر کسی حکمِ شرعی کی حکمت ومصلحت وہی معتبر اور مستند ہے جسے اللہ اور اس کا رسول ﷺ بتادے۔ باقی انسان اپنے عقل وفہم سے جن باتوں تک پہنچتا ہے ان کی حیثیت قطعی اور یقینی نہیں ہوتی۔ البتہ ان سے ایمان ویقین میں پختگی ضرور آتی ہے اور یہ بہت بڑا فائدہ ہے۔ روزے کے شرعی حکم پر غور کرنے سے چند حکمتیں ہماری ناپختہ ونارسا عقل میں بھی آجاتی ہیں جن کا تذکرہ حسبِ ذیل ہے:
(۱) روزہ کی اولین و اعلیٰ ترین حکمت یہ ہے کہ بندہ اس عبادت کے ذریعہ اپنے ایمان کی سچائی، بندگی کے اعتراف اور محبت ِ الٰہی کی پاسداری کا ثبوت بہم کرتا ہے۔ حقیقت ِ واقعہ بھی یہ ہے کہ حکمِ الٰہی کے تحت جائز طیبات ومرغوبات سے منھ موڑ لینا اور جن چیزوں کی محبت فطرتِ انسانی میں پیوست رکھی گئی ہے ان کو بھی درخورِ اعتناء نہیں سمجھنا؛ دیکھا جائے تو بندگی کی معراج اور عبودیت کا نقطۂ کمال ہے۔
(۲) تقوے کا حصول بھی روزے کی مشروعیت کا اہم سبب ہے۔ ارشادِ باری ہے:{یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ} (البقرۃ:۱۸۳) ۔ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کردیے گئے، جس طرح تم سے پہلے کے انبیاء کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقوی کی صفت پیدا ہوگی۔ ‘‘
روزہ کا مقصد تقویٰ کا حصول ہے۔ تقویٰ ایک جامع کلمہ ہے جس کے معنی لحاظ کرنے کے ہوتے ہیں۔ اس کے مفہوم میں طاعات کی انجام دہی، منہیات سے اجتناب، نفسانی خواہشات پر قابو اور مشتبہ چیزوں سے بچنا شامل ہے۔ مختصرالفاظ میں، اللہ کے اوامر و نواہی کا لحاظ کرتے ہوئے مطلق خیر کا حصول تقویٰ کی روح ہے۔ اسی لیے روزہ دار کو تلقین کی گئی ہے کہ کسی بھی ردِعمل کا اظہار کرنے سے پہلے سوچ لے کہ وہ روزہ دار ہے۔
(۳) روزہ کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے قلبِ انسانی کا رجحان ومیلان ذکر ِ الٰہی اور آیاتِ باری تعالیٰ میں تفکر وتدبر کی طرف ہوجاتا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’آدم زاد نے سب سے بُرا جو برتن بھرا ہے، وہ اس کا پیٹ ہے۔ ابنِ آدم کے لیے چندایسے چھوٹے لقمے کافی ہیں جو اس کی کمر کو سیدھا رکھ سکیں۔ اور اگر ناگزیر ہی ہے تو پھر (پیٹ کا) تہائی حصہ کھانے کے لیے ہو اور تہائی حصہ پینے کے لیے اور تہائی حصہ سانس لینے کے لیے۔ ‘‘ [ما ملأ ابن آدم وعائً ا شرّاً من بطنہ، بحسب ابن آدم لقیمات یقمن صلبہ، فان کان لامحالۃ فثلث لطعامہ وثلث لشرابہ وثلث لنفسہ] (مسند احمدؒ:۱۷۲۲۵۔ سنن ابن ماجہؒ: ۳۳۴۹)
مشہور تابعی حضرت ابو سلیمان دارانیؒ فرماتے ہیں: ’’نفس اگر بھوک پیاس میں مبتلا ہو تو دل میں رقت وطہارت پیدا ہوتی ہے، اور اگر شکم سیری وآسودگی ہوجائے تو دل کی بصیرت ماند پڑ جاتی ہے۔ ‘‘ (لطائف المعارف، ابن رجبؒ:۲/۲۱۶)
(۴) روزے کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اس حکمِ شرعی کی بجاآوری کے نتیجے میں اللہ کے دولت مند بندوں کو مال کی نعمت کا کماحقہ احساس ہوتا ہے، جس کی وجہ سے دلوں میں شکر وسپاس کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے۔ ساتھ ہی اہلِ ثروت وغنا کو اپنے مفلس وتنگ دست دینی بھائیوں کی زبوں حالی اور کسمپرسی سے بھی آگاہی ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے اس ماہِ مبارک میں بالخصوص مسلم معاشرے کا عمومی مزاج ہمدردی وغمگساری کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اللہ کے رسولﷺ کی جود وسخاوت اس ماہ میں ابربردار ہوائوں کو مات دیتی تھی۔
(۵) روزے کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اس فریضۂ خداوندی کی تعمیل کے نتیجے میں انسان کو نفس پر مکمل کنٹرول اور بے مہار خواہشات وجذبات پر پورا قابو حاصل ہوجاتا ہے۔ جہاں معاملہ یہ ہوکہ نفس امارہ مسلسل برائی پر اکسارہا ہے اور شیطان کا عمل دخل انسانی شریانوں میں خون کی مانند جاری وساری ہے، (صحیح بخاریؒ:۲۰۳۸۔ صحیح مسلمؒ:۸۵۰۷) ایسے میں اگر خوش نصیبی اور فضلِ خداوندی سے کچھ ایام کی بھوک پیاس کے بدلے میں ایسا وسیلہ ہاتھ آجائے جس کی بدولت نفسِ امارہ اور شیطانِ لعین کو زیر کیا جا سکے، تو یہ سودا کسی طور سے بھی گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔
(۶) روزے کی حکمتوں میں یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعہ سے نفسِ انسانی کا کبر وغرور پاش پاش ہو جاتا ہے اور اس کی جگہ اعترافِ حق اور تواضع وبے نفسی جیسی صفاتِ حمیدہ لے لیتی ہیں۔ دراصل روزہ جن چیزوں (اکل، شرب، مناکحت) سے رک جانےکا نام ہے اگر غور کیا جائے تو عام انسانی تگ ودو اور جہد وجستجوکا مطمح ومقصود انہی چیزوں کاحصول ہے، اورہوتا یہ ہے کہ کوشش وکاوش کے بعد ان چیزوں کی حصولیابی نفسِ انسانی میں ایک قسم کا عُجب اور پندار پیدا کر دیتی ہے، جو بڑھتے بڑھتے بسااوقات عصیان وسرکشی کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ روزہ کا اصل وظیفہ یہی ہے کہ وہ نفسِ انسانی سے مباح طیبات کی محبت کو بھی کم یا ختم کر دیتا ہے۔
(۷) روزے کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اس پر مداومت کی وجہ سے بھوک پیاس کے باعث انسانی جسم میں خون کی شریانیں سکڑ کر تنگ ہوجاتی ہیں جس کے نتیجے میں جسمِ انسانی میں شیطان کا عمل دخل کمزور پڑجاتا ہے۔ صحیحین میں اللہ کے رسول ﷺسے مروی ہے کہ شیطان انسان کے اندر خون کے بہائو کی مانند دوڑتا ہے۔ [انّ الشیطان یجری من الانسان مجری الدم] (صحیح بخاریؒ:۲۰۳۸۔ صحیح مسلمؒ:۸۵۰۷) چنانچہ روزہ کی وجہ سے شیطانی وساوس اور شہوت وغضب کا زور ٹوٹ جاتا ہے۔
اسی لیے اللہ کے رسولﷺ نے مناسب عمر میں مختلف مالی وخانگی اعذار کے باعث شادی نہ کر سکنے والے نوجوانوں کو روزے کا التزام کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ آپﷺ کا ارشاد ہے: ’’اے گروہِ نوجوانان! تم میں سے جو نکاح کی استطاعت رکھتا ہو اسے شادی کر لینی چاہیے، کیونکہ شادی کی وجہ سے نگاہیں نیچی اور شرمگاہیں محفوظ ہوجاتی ہیں۔ البتہ جو شادی کی استطاعت نہیں رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ روزوں کا التزام کرے کیونکہ روزہ شہوتِ نکاح کوکاٹ دیتا ہے۔ ‘‘ [یا معشر الشباب من استطاع منکم البائۃ فلیتزوج فانّہ أغضّ للبصر وأحصن للفرج، ومن لم یشتطع فعلیہ بالصوم فانّہ لہ وجائ] (صحیح بخاریؒ:۵۰۶۵۔ صحیح مسلمؒ:۳۴۶۴)
(۸) روزہ کی حکمتوں میں وہ طبی فوائد اور صحت وتندرستی سے متعلق منفعتیں بھی شامل ہیں جو ضمناً فریضۂ صوم کی ادائیگی کی وجہ سے حاصل ہوجاتی ہیں۔ غذا کی مقدار کو حد ِ اعتدال پر لانا، معدے کی قوتِ ہاضمہ کو ایک متعینہ مدت کے لیے آرام دینا، بعض مضرت رساں فضلات اور نقصان دہ رطوبتوں کو جسم میں سرایت کرنے سے روکنا وغیرہ؛ یہ سب اسی حکمت کے ضمن میں آجاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو رمضان کے مبارک مہینے میں فریضۂ صیام کی ادائیگی اور اس سے حکمتوں اور برکتوں کی تحصیل کی توفیق دے۔آمین یا رب العالمین
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین