ملک میں جھوٹ اور لوٹ مار کا کاروبار کب تک چلے گا؟

ملک میں جھوٹ اور لوٹ مار کا کاروبار کب تک چلے گا؟
سرفرازاحمد قاسمی(حیدرآباد)
برائے رابطہ: 8099695186
           بھارت ان دنوں چوطرفہ بحران کاشکار ہے۔اور ہر آنے والا دن اسکی پریشانیوں میں مزید اضافے کا سبب بن رہاہے۔ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ حکومت،ملک کو بحران سے نکالنے کی جدوجہد کرتی،اسکی حساسیت کو سمجھتی اور پھر اسکے حل کےلئے لائحہ عمل طے کرتی۔لیکن ایسا محسوس ہوتاہے کہ مودی حکومت ملک کو مزید کمزور کرنے میں لگی ہے۔مہنگائی اور بے روزگاری نے اپنا ریکارڈ توڑدیاہے۔ایک رپورٹ کے مطابق مہنگائی مسلسل عوام کوتباہ کررہی ہے،اوراس بار نومبر میں ریٹیل مہنگائی نے 12سال کاریکارڈ توڑدیاہے۔مہنگائی پر قابو پانے میں حکومت بری طرح ناکام ہورہی ہے۔عوام کوراحت دینے کے بجائے مزید ٹیکس لگاکر عوام کو لوٹ رہی ہے۔کانگریس میڈیا سیل کے انچارج رندیپ سنگھ سرجے والا نے حکومت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے ٹویٹ کیاکہ ریکارڈ توڑ بے روزگاری اورگھٹتی آمدنی کے درمیان مہنگائی بدستور تباہی مچارہی ہے۔جنوری 2022میں خوردہ(تھوک)مہنگائی 6.01فیصد،اشیائے خوردنی کی مہنگائی 10.3 ہوگئی،جبکہ نومبر 2021 میں ہی تھوک مہنگائی کی شرح نے 14.23 کے ساتھ بارہ سال کا ریکارڈ توڑا تھا،پھربھی ٹیکس لوٹ جاری رہے گی۔اس کے ساتھ انھوں نے ایک خبر بھی پوسٹ کی ہے،جس میں مہنگائی میں اضافے کے بارے میں تفصیلی معلومات دی گئی ہیں۔
پچھلی تحریر میں ایک رپورٹ کے حوالے سے لکھ چکا ہوں کہ غریب ترین خاندانوں کی آمدنی میں 53فیصد کی بھاری کمی ہوئی ہے اور دولت مند ترین افراد کی آمدنی میں 39 فیصد کا اضافہ ہواہے۔بے روزگاری کے معاملے میں کسی بھی ریاست اور مجموعی طورسے پورے ملک کے حالات بے حدتک تشویشناک ہیں۔وزارتِ محنت نے گذشتہ سال اپنی رپورٹ میں کہاتھاکہ ملک میں بے روزگاری کی شرح گزشتہ پچاس برسوں میں سب سے زیادہ ہے۔اس حقیقت کے انکشاف کے بعد حکومت نے بے روزگاری کے اعدادوشمار جاری کرنے پر ہی پابندی لگادی تھی۔مگر لاکھ پردہ پوشی کے باوجود تلخ حقیقت سامنے آہی جاتی ہے۔رپورٹ یہ بھی ہے کہ بےروزگاری کی وجہ سے  نوجوانوں کے خودکشی کےمعاملوں میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے۔اوربے روزگاری کی وجہ سے ہرمہینے اوسطاً 12 لوگوں نے خود کشی کی ہے۔
ایک طرف تو ملک کی یہ حالت ہے اور دوسری جانب وزیر اعظم اور انکے دیگر وزراء جھوٹ،فریب اور دروغ گوئی میں مسلسل مصروف ہیں۔انھیں اپنے عہدے کے وقار کابھی خیال نہیں۔اس شدت کے ساتھ ملک میں جھوٹ پھیلایاجارہاہے جسکی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ کل تک تو مودی اینڈ کمپنی عوامی جلسوں میں دروغ گوئی سے کام لیتے تھے لیکن اب یہ کام پارلیمنٹ جیسی جگہوں میں بھی ہورہاہے۔پارلیمنٹ کو جمہوریت کامندر کہاجاتاہے،اورمندر ایک مذہبی جگہ ہے،اس مذہب سے وابستہ لوگوں کے یہاں مندر کا ایک مقدس مقام ہے۔جس طرح ہمارے یہاں مساجد مقدس جگہ سمجھی جاتی ہے،لیکن جب ملک میں جمہوریت نام کی چیز ہی باقی  نہ ہوتو پھر اسکے مندر کا احترام کیونکر ہوگا؟ یہی وجہ ہے کہ وہاں بھی بغیر کسی جھجھک اور شرم وحیا کے دھڑلے سے جھوٹ بولاجارہاہے۔صدرجمہوریہ کےخطبہ تحریک تشکر پر ہونے والی بحث کا جواب دیتے ہوئے مودی نے پارلیمنٹ میں کہاکہ ہندوستان کا ایک غریب بھی لکھ پتی ہونے کا مزہ لوٹ رہاہے۔رہنے کےلئے اسکے پاس شاندار گھرہے،جس میں مفت کی بجلی کے قمقموں سے پھیلنے والی روشنی اسکی زندگی کو منوروتاباں کررہی ہے۔مفت میں ملنے والی رسوئی گیس نے غریبوں کو دھویں سے پاک باورچی خانہ دیاہے،جہاں وہ نت نئے پکوان پکاکر اپنے دسترخوان کی زینت بڑھارہے ہیں اور لذت و کام ودہن کے بھی مزے لوٹ رہے ہیں۔
اس لفاظی اور جھوٹ کو کیانام دیاجائے؟ کیاواقعی ملک کی زمینی حقیقت یہی ہے؟پھر  اس طرح سفید جھوٹ کا سہارا لینے  کی کیا مجبوری مجبوری ہوسکتی  ہے؟ کیا یہ بیان ملک کے کروڑوں غریبوں کی توہین نہیں ہے؟کیا ایک جمہوری ملک کا وزیر اعظم ایوان میں بیٹھ کر جمہوریت کی توہین اور غریبوں کا اسطرح  مذاق اڑاسکتاہے؟ایوان میں اپوزیشن لیڈران بالخصوص راہل گاندھی نے اپنی غیر معمولی تقریر میں حقائق کی نقاب کشائی تھی اور حکومت کے سامنے کئی ایک اہم سوال رکھے تھے جن کا جواب دیا جانا حکومت کا آئینی فریضہ تھا،لیکن مودی نے لفاظی سے بھری اپنی تقریر میں ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں دیا۔اسکے علاوہ تاریخ کی غلط تشریح،زمینی حقائق میں جھوٹ،فریب اور خوابوں کی آمیزش کے ساتھ ایوان کو گمراہ کیاگیا۔شاید اسی وجہ سے مودی کی تقریر کے دوران اپوزیشن لیڈران کی آوازیں باربار  بلند ہورہی تھیں اورہنگامہ آرائی کی وجہ سے کئی بار مودی کو اپنی تقریر کا سلسلہ روکنا پڑا۔آپ کو یاد ہوگا کہ 2014 میں اپنی پہلی آمد کے موقع پر جمہوریت کے مندر میں سجدہ ریز ہوکر مودی نے ملک کے عوام سے کئی ایک سنہرے وعدے کئے تھے اور ہتھیلی میں جنت دکھائی تھی۔لیکن آٹھ سال گذرجانے کے باوجود انکا کوئی وعدہ وفا نہیں ہوسکا۔اسکے برخلاف ملک ایک ایسے مقام پر پہونچ گیا جہاں سب کچھ داؤ پر لگا ہواہے۔جمہوریت سے لیکر معیشت تک ترقی معکوس کی آخری منزل پر ہے۔بےروزگاری،مہنگائی اورغربت کی ہولناکیاں دھیرے دھیرے ملک کو نگل رہی ہیں۔لیکن یہ مغرور اور بے شرم حکومت اس پر اٹھنے والے کسی سوال کا جواب دینے کےلئے تیارنہیں ہے۔اور نہ ہی وزیراعظم اسے کوئی مسئلہ سمجھ رہےہیں۔
مودی نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہہ دیا کہ ملک میں بے روزگاری یا مہنگائی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔مہنگائی ماضی کی بات ہے۔مہنگائی یوپی اے اور کانگریس کے دور میں ہواکرتی تھی۔انھوں نے ملک بھر میں کورونا کے بڑھنے کا ذمہ دار بھی کانگریس سمیت حزب اختلاف کو ہی ٹہرا دیا۔مودی نے یہ بھی دعویٰ کیاکہ کوویڈ19 کے دوران انکی سرکار نے روزگار فراہم کئے، اور80 کروڑ لوگوں کو ہم نے کھانا کھلایا۔سوال یہ ہے کہ جب آپ نے روزگار فراہم کیا،تو پھر لوگوں کو کھانا کھلانے اور غلہ تقسیم کرنے کا کیامطلب؟اس کا سیدھا مطلب تو یہی ہے کہ ابھی اس ملک میں کروڑوں لوگ ایسے ہیں جواپنا پیٹ بھی اپنی کمائی کے ذریعے نہیں بھرسکتے اور انھیں مفت کے غلے کے سہارے زندگی گذارنا پڑتاہے۔ایوان کے تقدس اور وقار کا تقاضا تو یہ ہے کہ یہاں کئے جانے والے سوالات کے جواب سنجیدگی سے دئے جائیں اور سائل کو مطمئن کیاجائے،انکے اشکالات دور کئے جائیں۔لیکن گذشتہ کچھ سالوں سے ایسا نہیں ہورہاہے،اب یہاں جس طرح کی سطحیت اختیار کی جارہی ہے اسے ایوان کی بے توقیری کے علاوہ اور کیا نام دیاجاسکتا ہے؟کیاان رویوں سے ایوان کا وقار مجروح نہیں ہورہاہے؟
کانگریس کو اقتدار سے رخصت ہوئے 8برس کا عرصہ گذرجانے کے باوجود لگتاہے کہ ابھی تک مودی حکومت پر کانگریس کا خوف طاری ہے۔اپوزیشن کے سوالوں کا جواب دینے کے بجائے ایوان کو کانگریس سے نفرت کے اظہار کا پلیٹ فارم بنادیاگیاہے۔آخروزیر اعظم کو کانگریس کی اتنی فکر کیوں ہے؟ انھیں اس بات کی فکر کیوں نہیں ہے کہ بے روزگاری،مہنگائی اور غربت نئے ریکارڈ کیوں بنارہی ہے؟ہندوستان جنت نشان جیسے ملک میں اب دوبھارت کیوں بن رہاہے؟ملک کی ساری دولت اور وسائل دوہاتھوں تک ہی کیوں سمٹ رہے ہیں؟ ایوان کو ان جیسے درجنوں دوسرے سوالات کے جواب ملنے چاہئے نہ کہ جھوٹ اور لفاظی کی آمیزش سے بناہوا خواب ایوان کو سنایاجائے۔ملک کی عوام سفید جھوٹ کے ذریعے ایوان کے وقار کو مجروح کرنے والی حکومت کو ضرور سبق سکھائیں گے،ایوان پارلیمنٹ کے تقدس اوراسکے تحفظ کےلئے،ڈکٹیٹر شپ اور تاناشاہی کو ختم کرنے کےلئے عوام کو آگے آناہوگا۔وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے راجیہ سبھا میں عام بجٹ پر بحث کا جواب دیتے ہوئے یہی کام کیا جومودی نے کیا،یعنی بجٹ پر اٹھتے ہوئے سوالات کے جواب سے گریز کرتے ہوئے اپناروئے سخن حزبِ اختلاف کی جانب کردیا اوراپنی تقریر میں سارا زور راہل گاندھی اور سابقہ حکومت کی ناکامیاں شمار کرانے میں صرف کرڈالا۔حالانکہ ایوان کے تقدس واحترام کا تقاضا تھاکہ وزیر خزانہ بجٹ پر ہوئی بحث میں اٹھنے والے سوالات کا معقول جواب دیتیں لیکن بجائے اسکے وہ بی جے پی کی جاریہ دورحکومت کو’امرت کال’ اورسابقہ یوپی اے حکومت کو راہل کال قراردیتے ہوئے قوم کو راہل کال اور امرت کال کا فرق سمجھانے لگیں۔
یکم فروری کو اپنی 90منٹ کی بجٹ تقریر میں انھوں نے صرف ایک بار غریب کا لفظ استعمال کیاتھا۔بحث میں حصہ لیتے ہوئے اورجواب دیتے وقت بھی انھوں نے غریب کا لفظ فقط حوالے کےلئے ہی استعمال کیا۔سیتارمن نے جوبجٹ پیش کیا ہے  حقیقت یہ ہے کہ اس بجٹ میں غریب اور متوسط طبقے کےلئے کچھ نہیں ہے۔ایسے ہی بجٹ میں شعبہ صحت کوبری طرح نظرانداز کردیاگیاہے۔شعبہ صحت کےلئے بجٹ میں ہم 189 ممالک میں 179نمبر پر ہیں اورپھراسی بجٹ میں کوویڈ سے متعلق مختص فنڈ میں بڑی کٹوتی کردی گئی ہے۔اسی طرح اس بجٹ میں بے روزگاری ختم کرنے کا کوئی ذکر نہیں ہے اور نہ ہی یہ بتایاگیاہے کہ بے روزگاری کی وجہ سے خودکشی کے بڑھتے رجحان پر کیسے قابو پایاجائےگا؟جب  سے یہ بجٹ پیش ہوا ہے تب سے حکومت،حزبِ اختلاف اورعوام کی شدید تنقید کا سامناکررہی ہے۔ لیکن اب تک حکومت نے نہ اپوزیشن کو مطمئن کیا اور نہ عوام کو۔سیتارمن نے کہاکہ ملکی معیشت مضبوط ہورہی ہے،روزگار کی صورتحال بہتر ہورہی ہے اورمہنگائی کنٹرول میں ہے۔کیا یہ سفید جھوٹ نہیں ہے؟
یہ توجھوٹ کی کہانی تھی اب لوٹ مار کی کہانی سنئے۔آپ کو یادہوگا کہ مودی نے کہاتھاکہ نہ کھاؤں گا اور نہ کھانے دوں گا’یہ بھی کہاتھاکہ اب ملک میں غریبوں کے اچھے دن آئیں گے۔ملک کے غریبوں کے اچھے دن تو نہیں آئے لیکن برے دن ضرور آگئے۔بدعنوانی اور بینکوں سے کی جانے والی دھوکہ دہی کے معاملات اب انتہائی مکروہ شکل اختار کرتے جارہے ہیں،انسدادِ بدعنوانی کے بلند بانگ دعوؤں کی اب قلعی کھلتی جارہی ہے۔23 ہزار کروڑ روپے کی تازہ واردات نے بی جے پی کے سیاسی عزائم پر پھر خاک ڈال دی ہے۔یہ واردات انجام دینے والی کمپنی ہندوستان کی سب سے بڑی کمپنی ہے جو جہازسازی کا کام کرتی ہے۔اے بی جی شپ یارڈ کے نام سے کام کرنے والی گجرات کی اس کمپنی نے ہندوستان میں اب تک کا سب سے بڑا فراڈکیا ہے۔یہ فراڈ حکومت کی عین ناک کے نیچے ہوا لیکن حکومت کو اسکی خبر تک نہ ہوسکی۔سی بی آئی نے اے بی جی شپ یارڈ کمپنی پر 22,842 کروڑ کے مبینہ بینک فراڈ کا معاملہ درج کیاہے۔ایف آئی آر کے مطابق یہ گھوٹالہ 2012 سے 2017 کے درمیان کاہے۔یعنی دھوکہ دہی کا سلسلہ اگر یوپی اے حکومت کے دوران شروع ہواتھا تو مودی حکومت آنے کے تین سال بعد بھی جاری رہا۔ اوراسکے بعد تقریباً پانچ سال بعد اس پر قانونی کارروائی شروع ہوئی ہے۔بینک کو لوٹنے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے،آپ کو یادہوگاکہ پنجاب نیشنل بینک سے نیرو مودی اور میہول چوکسی نے 13ہزار کروڑ روپے ہتھیاکر ملک سے فرار ہوگئے تھے۔ایسے ہی ایمی مودی،نیشال مودی،للت مودی،وجئے مالیا،جتن مہتا،چیتن سندیسارا،نتن سندیسارا اورکئی دوسرے شامل ہیں۔
یہ سارے واقعات مودی حکومت کے دورمیں پیش آئے یا یہ کہئے کہ مودی کے دور میں ان لوگوں کے اچھے دن آگئے۔مودی کےآٹھ سالہ دورحکومت میں ملک بھر کے بینکوں میں 535000لاکھ کروڑ کی دھوکہ دہی ہوئی ہے۔سی بی آئی کے مطابق اس بینک فراڈ کا دائرہ اورپیمانہ دونوں ہی حیران کن ہیں۔اے بی جی شپ یارڈکمپنی نے آئی سی آئی سی آئی،ایس بی آئی،اور پنجاب نیشنل بینک سمیت 28بڑے قومی بینکوں پر مشتمل ایک کنسٹوریم سے لین دین کےلئے باقاعدہ دھوکے کا جال بنا۔ان بینکوں سے قرض لیا اور پھر انکا رخ موڑ دیا،اس کمپنی نے جن بینکوں سے قرض کے نام پر ہزاروں کروڑ کا دھوکہ کیا یہ وہی بینک ہیں جو عام لوگوں سے تمام کاموں کےلئے فیس وصول کرتےہیں۔کیا آپ کو نہیں لگتاکہ بینکوں سے ہورہی یہ سنگین دھوکہ دہی اورجعل سازی ملکی معیشت کو غارمیں ڈھکیل رہی ہے۔کیاان واردات سے ملک ترقی کرےگا؟سوال یہ بھی ہے کہ یہ دھوکے باز صنعت کار اورسرمایہ دار،بینکوں سے اتنے بڑے بڑے قرضے لیکر آسانی سے ملک سے فرار بھی ہوجاتے ہیں اور حکومت بے بسی کا مظاہرہ کیوں کرتی ہے؟اور سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آخر یہ جھوٹ اور لوٹ مار کا کاروبار ملک میں کب تک چلتارہےگا؟ اور کب اس پرلگام لگے گا؟
(مضمون نگارکل ہندمعاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)
اپنی راۓ یہاں لکھیں