ملک میں لاکھوں بچے غذائی قلت کا شکار،ذمہ دار کون؟
سرفرازاحمدقاسمی،حیدرآباد
(جنرل سکریٹری کل معاشرہ بچاؤ تحریک)
گذشتہ چند سالوں سے اپنا ملک ہندوستان انتہائی عجیب بحران سے گذر رہا رہاہے۔یہ بحران اور چلینجس یک طرفہ نہیں بلکہ چوطرفہ ہے۔چاروں سمت مسائل کا انبارہے، ہرآنے والا دن اسکی مشکلات اور مسائل میں اضافہ کررہا ہے۔اور حکومت کی جانب سے ان مسائل ومشکلات اوربحران سے نکلنے کےلئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جارہی ہے۔ایسا لگتاہے کہ جان بوجھ کر ہندوستان کو مسائل کے دلدل میں دھکیلا جارہاہے،لیکن ہرصورت میں نقصان ملک کا اوریہاں کی غریب عوام کا ہورہاہے۔ جب سے عوام دشمن حکومت، اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے تب سے اس ملک میں غریبوں،مزدوروں،بوڑھوں،عورتوں اور بچوں تک کا جینا اور زندگی گذارنا مشکل ہوتاجارہاہے۔حکومت کی کرسی پر بیٹھے ہوئے لوگ عیش وعشرت میں مست ہیں،نہ انھیں جمہوریت اور جمہوری نظام سے مطلب ہے اور نہ ہی دستور وآئین کے تحفظ سے،نہ انھیں ملک کی خواتین کی فکر ہے اور نہ نئی نسل کی،نہ انھیں ملک کے ضعیف وکمزور لوگوں سے کوئی سروکار ہے اورنہ ہی عام لوگوں کی پریشانی سے،انھیں تو ہرحال میں اپنا اقتدار اوراپنی کرسی محبوب ہے۔پھر یہ لوگ عوام کی پریشانیوں کو کیونکر محسوس کریں؟
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ جب سے نااہلوں نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ہے اسوقت سے آج تک ملک بے شمار مسائل کا شکار ہے،ایسا ہرگز نہیں ہے کہ پہلے ملک میں مسائل نہیں تھے بلکہ پہلے بھی تھے لیکن آج اس میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ آنے والے دنوں میں ان مسائل میں مزید اضافہ ہوگا، پھر ایسے میں اس کا حل کیا ہے؟ یہ آپ کو سوچنا ہوگا۔جب تک عوام دشمن طاقتیں اقتدار پر قابض رہیں گی تب تک ملک کا کچھ بھی بھلا نہیں ہوسکتا،ملک مزید کمزورہوگا، لوگوں کی بے چینی بڑھے گی، یہ ہمیں سمجھنا ہوگا۔ملک میں ایک عجیب و غریب بحرانی کیفیت پائی جارہی ہے،ہر طرف افراتفری کا ماحول ہے،ملک کے باشندے گھٹن محسوس کررہےہیں،دن جیسے جیسے گذر رہاہے اس گھٹن میں مزید اضافہ ہورہاہے،نہ ملک کی سرحد محفوظ ہے،نہ عوامی زندگی محفوظ۔مہنگائی،بے روزگاری،غریبی، بھوک مری،کمزور طبی انفراسٹرکچر کے علاوہ بے شمار مسائل میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے۔سطح غربت سے نیچے زندگی گذارنے والوں کی شرح میں گذشتہ چاربرسوں کے دوران مسلسل اور تشویشناک حدتک اضافہ ہواہے،آخر ان سب چیزوں کا ذمہ دار کون ہے؟
حکومت کے پاس ان جیسے سوالات کے کوئی جواب نہیں ہیں،اسی لئے سڑک سے لیکر پارلیمنٹ تک جوکچھ ہورہا ہے یہ سب حکومت اپنی ناکامی اور نااہلی چھپانے کےلئے کررہی ہے۔ایوان میں جسطرح کی دھینگا مستی ہورہی ہے اور جس طریقے سے جمہوری اصولوں کو پیروں تلے رونداجارہاہے یہ سب کوئی اچھی بات نہیں ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک ایک غلط رخ پر جارہا ہے،پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس جاری ہے ۔29نومبر کو اجلاس شروع ہوتے ہی ایوان کی کارروائی ملتوی کردی گئی،12 اراکین پارلیمنٹ جواپوزیشن سے تعلق رکھتے ہیں انھیں من مانی طریقے سے پورے سیشن کےلئے معطل کردیاگیا۔اپوزیشن پارٹیاں حکومت سے سوال کرنا چاہتی ہیں اور اس کا جواب چاہتی ہیں،لیکن انھیں سوال کرنے اور حکومت کی ناکامیوں کی نشاندہی سے روکاجارہاہے۔ایسے میں کون سوال سنے گا اوراسکا جواب کون دےگا؟ سوال یہ بھی ہے کہ آخر حکومت کے لوگ سوالات سے کیوں بچناچاہتے ہیں؟ پارلیمنٹ جسے جمہوریت کامندر کہاجاتا ہے، جہاں قانون سازی ہوتی ہے وہاں سوال وجواب اور بحث ومباحثے نہیں ہوں گے تو کہاں ہونگے؟ پھر حکومت آخر بحث ومباحثے کے بغیر کیوں قانون پاس کررہی ہے؟ کیاصرف زبردستی قانون بناکر عوام کے سر تھوپ دینا ہی حکومت کا کام رہ گیاہے؟
لاک ڈاؤن کے دوران جس طریقے سے ملک کے غریبوں اور مزدوروں کو بے یارومددگار چھوڑدیاگیا اس واقعے نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا۔اپنے بھارت میں ان دنوں غذائی قلت عروج پر ہے،عالمی فاقہ کشی کے اعدادوشمار برائے 2021 کے مطابق،ہندوستان جو 2020میں 94مقام پر تھا،بڑی تیزی سے تجاوز کرتے ہوئے 101نمبر پر پہونچ گیاہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ پڑوسی ملک پاکستان،بنگلہ دیش،اور نیپال بھی ہم سے اچھی حالت میں ہے۔اس معاملے میں ان چھوٹے ممالک کا موقف بھارت سے بہت بہتر ہے۔دنیا کے سو ممالک جہاں فاقہ کشی کی انتہائی تشویشناک صورتحال ہے،ان ممالک کی صف میں اب ہمارا ملک بھارت بھی 101 نمبر پر کھڑاہے،جبکہ ایک سال قبل یعنی 2020 میں ہندوستان 94 نمبر پر تھا،اب اسکاذمہ دار کون ہے؟کیاہے اپنے ملک کی تازہ صورتحال؟اورکس طرح ملک کی مختلف ریاستوں میں غذائی بحران ہے۔لاکھوں بچے غذا نہ ملنےسے انکی زندگی خطرے میں ہے۔
آئیے یہ جاننے کےلئے ایک سرکاری رپورٹ دیکھتےہیں کیاہے اس رپورٹ میں ؟ ملاحظہ کیجئے” سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ہندوستان میں اسوقت 33لاکھ سے زیادہ بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ان میں آدھے سے زیادہ یعنی 17.7لاکھ بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔شدید طور پر غذائی قلت کے شکار بچے سب سے زیادہ مہاراشٹر،بہار اورگجرات میں ہیں۔اس بات کی جانکاری وزارت بہبود خواتین واطفال نے ایک آرٹی آئی کے جواب میں دی ہے۔وزارت نے نیوز ایجنسی،پی ٹی آئی کے ذریعے ایک آرٹی آئی کے جواب میں کہاکہ ملک میں کل 33لاکھ 23ہزار 322بچے غذائی قلت کے شکارہیں۔وزارت کا اندازہ ہے کہ کورونا وباء سے غریب سے غریب لوگوں کو صحت اور غذائی قلت کے مزید بحران کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے،اس پر تشویش کا اظہار کرتےہوئے وزارت نے کہاکہ 14اکٹوبر 2021تک ہندوستان میں 17,76لاکھ بچے شدید غذائی قلت اور15.46لاکھ بچے کم غذائی قلت کے شکارتھے،اگرچہ یہ اعدادوشمار اپنے آپ میں تشویشناک ہیں،لیکن گذشتہ نومبر کے اعدادوشمار سے موازنہ کریں تو یہ اوربھی زیادہ خطرناک ہوجاتے ہیں۔نومبر 2020اور اکٹوبر 2021 کے درمیان ایس اے ایم یعنی کم غذائی قلت کے شکار بچوں کی تعداد میں 91فیصد اضافہ درج کیاگیاہے۔غذائی قلت کے حوالے سے آرٹی آئی کے جواب کے مطابق مہاراشٹر میں سب سے زیادہ یعنی 6.16لاکھ بچے غذائی قلت کے شکار ہیں۔دوسرے نمبر پر بہار ہے،جہاں 4لاکھ 75ہزار 824بچے غذائی قلت کے شکار ہیں۔تیسرے نمبر پر گجرات ہے،جہاں غذائی قلت کے شکار کل بچوں کی تعداد 3لاکھ 20ہزار ہے۔اور اگر دیگر ریاستوں کی بات کریں تو آندھرا پردیش میں 2لاکھ 67ہزار 228بچے غذائی قلت کے شکار ہیں۔اترپردیش میں 1,86لاکھ،تمل ناڈو میں 1,78لاکھ،آسام میں 1,76لاکھ اورتلنگانہ میں 1,52لاکھ 524بچوں کو غذائی قلت کاسامناہے۔بچوں کے تغزیہ کی کمی کے معاملے میں نئی دہلی بھی پیچھے نہیں ہے،قومی راجدھانی میں 1,17لاکھ بچے غذائی قلت کے شکار ہیں،واضح رہے کہ 2011 کی مردم شماری کے بعد ملک میں 46کروڑ سے زیادہ بچے ہیں”
یہ ہے ایک سرکاری ادارے کی حیرت انگیز رپورٹ،اب آپ اس رپورٹ کو بار بار پڑھئے اور فیصلہ کیجئے کہ آخر اسکا ذمہ دار کون ہے؟ کیا حکومت نے گذشتہ سات سالوں میں اس سنگین بحران سے نمٹنے اور اسکے حل کےلئے کوئی قدم اٹھایا؟ آخر یہ کس کی ذمہ داری ہے؟ بے حس اور بےشرم حکومت اس طرح کے مسائل کے حل کےلئے کب بیدار ہوگی؟بڑے بڑے اسٹیج سے نفرت اور جھوٹ پھیلانے والے لوگ،اس طرح کے مسائل پر کب تک مجرمانہ خاموشی اختیار کرتے رہیں گے؟ ملک کا گودی اور بکاؤ میڈیا کب حکومت کو اس جانب توجہ دلائےگا؟ اوپر کی یہ رپورٹ جس میں 34ریاستوں اور مرکزی زیرانتظام علاقوں کے جملہ 33,23,322لاکھ بچوں کے اعدادوشمار جمع کئے گئے ہیں۔یہ تعداد انتہائی صدمہ انگیز اور حیرت ناک ہے،ان اعدادوشمار پر ردعمل ظاہر کرتےہوئے تنظیم سی آروائی کی چیف اگزیکٹیو آفیسر پوجا مروہا نے بتایاکہ کووڈ وباء کا اثر تمام سماجی ومعاشی زمروں کے افراد پر مرتب ہواہے۔پی ٹی آئی کو انھوں نے بتایاکہ اسکولوں کی طویل مسدودی کے دوران آئی سی ڈی ایس اور مڈڈے میل جیسی خدمات میں بے قاعدگی پیدا ہوگئی تھی،اس سے بچوں پر شدید اثر مرتب ہوا،کیونکہ بچے زیادہ تر انھیں خدمات پرانحصار کرتے تھے۔
اپولو ہاسپٹل گروپ کے سینئر ماہر امراض اطفال انوپم سبل نے بتایا کہ یہ انتہائی اہم بات ہے کہ بچوں میں تغذیہ کی کمی کا جلد پتہ چلایاجائے اور حالت مزید بگڑنے سے بچانے کےلئے مناسب علاج ومعالجہ کی جانب توجہ دی جائے۔تغذیہ کی کمی کے شکار بچوں کو انفیکشن(زہریلے اثرات)کا زیادہ جوکھم رہتاہے اور ایسے بچوں میں کام کرنے کی صلاحیت کی کمی بھی پائی جاتی ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ تغذیہ کی کمی کا انسداد کرنے حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کومناسب قوت بخش غذائیں فراہم کی جائیں،آپ کے اردگرد اگر اسطرح کی صورتحال ہے تو ان میں سے غریب ویتیم بچوں کی نگرانی اوردیکھ ریکھ کیجئے،انکی زندگی کو یقینی بنائیے۔اگر اللہ نے آپ کو استطاعت دی ہے تو ایسے بچوں کے سروں پر ضرور ہاتھ رکھئے،انکی تعلیم وتربیت کا بہتر انتظام کیجئے،یہ بھی صدقہ جاریہ ہےاور سب سے بڑھ کر یہ انسانیت کے سب سے بڑے اورسچے مسیحا،پیغمبر انقلاب رحمت عالم ﷺ کی مبارک سنت اور آپ کا محبوب عمل بھی ہے۔ اسی لئے ایک حدیث میں آپﷺ نے امت کو تعلیم اورخوشخبری سنائی کہ”میں اور یتیم بچوں کی کفالت کرنے والا جنت میں دوانگلیوں کی طرح ایک ساتھ ہونگے”کیاآپ اس سنت پر عمل کرنے اور اس خوشخبری پر لبیک کہنے کےلئے تیارہیں؟حکومت تو اندھی،بہری ہے ان سے یہ امیدکرناکہ یہ لوگوں کے جان ومال کی حفاظت کریں گے فضول ہے،بےحس حکومت کارویہ انتہائی شرمناک ہے،کسانوں کومعاوضہ دینے کے مطالبے حکومت کا یہ کہناکہ ہمارے پاس شہید کسانوں کاکوئی ڈیٹا نہیں،اسلئے انھیں معاوضے کاسوال ہی نہیں۔لاک ڈاؤن سےمرنے والوں کے بارے میں بھی حکومت نے کچھ یہی باتیں کہی تھی،ان باتوں سے آپ اندازہ لگائیے کہ حکومت آپ کے بارے میں کتنی فکرمند ہے۔اسلئے نظردوڑائیے اپنے اطراف کاجائزہ لیجئے اور اپنے حصے کاچراغ روشن کیجئے،یہی انسانیت کاتقاضہ ہے۔