افسانہ نگاری کا فن

افسانہ نگاری کا فن

از:احمد

افسانہ کہتے ہیں خیالی بات کو جس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہ ہو۔ ادبی اصطلاح میں افسانہ ایسے نثری نصف کو کہتے ہیں جس میں کسے ایسے واقعے یا قصے کو بیان کیا گیا ہو جسے مختصر وقت میں پڑھا جا سکے۔ افسانے کی تعریف اڈگر الین پو نے(Edger Allen Poe) کچھ اس طرح کی ہے کہ یہ ایک نثری داستان ہے جس کو پڑھنے میں ہمیں آدھ گھنٹہ سے دو گھنٹہ تک کا وقت لگے۔ اردو ادب میں افسانے کی ابتداء سترہویں صدی میں داستان کی شکل میں ہوتی ہے، اور اردو زبان کا سب سے پہلا نثری داستان لکھنے کا سہرا ملا وجہی کے سر بندھتا ہے۔ ملا وجہی نے 1045ھ مطابق 1635ء میں سب رس کے نام سے اسے تحریر کیا۔

بدلتے وقت کے ساتھ لوگوں کےذوق اور ان کی دلچسپی  میں بھی تبدیلی آئی ، کسی زمانے میں قصیدہ اور مثنوی کو قبولیتِ عامہ حاصل تھی۔ ہر شخص اس فن کو شوق سے پڑھتا ، سنتا اور اس میں ید آزمائی کرتا، لیکن آج ڈھونڈنے سے بھی قصیدہ گو اور مثنوی نگار شعراء  نہیں ملتے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ جن مقاصد کیلئے یہ اصناف وجود میں لائی گئیں تھیں(بادشاہوں اور امراء کی تعریف کر کے ان سے ہدیہ، تحائف وغیرہ کی بازیابی) اب وہ مواقع ناپید  ہو چکے ہیں۔ آج ہر چیز برق رفتاری سے چل رہی ہے، ہر شخص ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں ہے، کم وقت میں زیادہ کام کرنا لوگوں کی مجبوری بنتی جا رہی ہے، ایسے حالات میں داستان اور ناول کی طوالت قاری کو اس فن سے دور کر رہی ہے، اس بات  کو ادباء  نے محسوس کیا اور مختصر افسانے کی شکل میں قارئین کے لیے دلچسپی  کا سامان فراہم کیا۔

اس فن نے بہت جلد لوگوں کے دلوں میں اپنی جگہ بنا لی۔ مختصر افسانے کی ابتداء بیسوی صدی کی پہلی دہائی سے ہوتی ہے۔ راشد الخیری نے 1903ء میں نصیر اور خدیجہ نامی افسانہ تحریر کیاجو مخزن  میں لاہور سے شائع کیا گیا۔ یہ اردو زبان کا پہلا افسانہ تھا ۔ صنف افسانہ کو بلندی و عروج پر پہنچانے میں منشی پریم چند کی جد و جہد اور ان کی کاوشوں کا بہت بڑا عمل، دخل ہے۔ 1908ء میں ان کا پہلا افسانوی مجموعہ “سوزِ وطن ” شائع ہوا  جس نے ایک طرف انگریزوں کے اندر بھوچال برپا کیا تو دوسری طرف اس نے ہندوستانیوں کی توجہ اپنی طرف مرکوز کی۔ اس مجموعے کو بعد میں انگریزی حکومت نے ضبط کر  لیا۔

1903ء میں افسانوی مجموعہ انگارے کی اشاعت کے بعد مصنفین نے اس کی طرف خصوصی توجہ کرنی شروع کی۔  ترقی  پسندمصنفین نے اس صنف کو مزید ترقی دی اور اسے اپنی بات لوگوں تک پہنچانے کا ایک آلہ اور ذریعہ کے طور پر استعمال کیا ۔ نیاز فتح پوری، سجاد حیدر یلدرم، مجنوں گورکھپوری، علی عباس حسینی، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، راجندر سنگھ بیدی، سہیل عظیم آبادی جیسے بڑے  افسانہ نگاروں نے اس صنف کی آب پاشی و آبیاری کی جس کے نتیجہ میں اس صنف  نے ایک قلیل  عرصے میں  کثیر مقبولیت حاصل کیا۔ بقول وقار عظیم افسانہ نے انیسویں صدی سے اب تک جو درجہ حاصل کیا ہے اس کے بنا پر  یہ کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ  دور میں  تمام اصناف کے مقابلے میں اس صنف نے زیادہ ترقی کی اور یہ زیادہ مقبول ہوئی۔ اس کی کئی وجہیں ہیں اول تو اس میں ناول، ڈرامہ، شاعری اور لطیف فنون کی خصوصیت ایک جگہ موجود ہیں، دوسرے اس کے پڑھنے کے لیے مختصر وقت کی درکار ہوتی ہے،جس کے بنا پر اسے ہر شخص اپنی دماغی تھکن  کو دور کرنے کا بہترین ذریعہ سمجھتا ہے۔ (افسانہ نگاری، ص:19)

دوسرے یہ کہ افسانے کا موضوع اتنا وسیع  ہوتا ہے کہ اس میں ہر طرح کے مضامین کو تحریر کیا جا سکتا ہے اور اس سے ہر مذاق کا آدمی لطف اندوز ہو سکتا ہے۔

افسانے کے لازمی اجزاء

موضوع

افسانہ تحریر کرتے وقت سب سے پہلا مرحلہ موضوع اور مواد کی فراہمی کا ہوتا ہے، کیونکہ موضوع جتنا اچھا ہوگا افسانہ اتنا ہی کامیاب ہوگا۔ موضوع اور مواد کی فراہمی کے سلسلہ میں وقار عظیم  کی یہ باتیں قابل توجہ  ہیں”  کائنات کے چپے چپے میں افسانہ نگار کے لیے ان گنت اور بے شمار موضوع بکھرے پڑے ہیں، مظاہر قدرت، سمندر، پہاڑ،جنگل اور خدا کی پید ا کی ہوئی جاندار اور بے جان مخلوق پھر ان مخلوقات میں سب سے افضل، سب سے اشرف، سب سے اکمل حضرت انسان او ر اس کے بے شمار مسائل اور ان کے علاوہ بے شمار موضوعات ہیں جو ہمہ وقت افسانہ نگار کی نظر اور فکر کو دعوت دیتے رہتے ہیں”۔(فن افسانہ نگاری،ص:49) الغرض ایک افسانہ نگار اپنے ارد گرد کی چیزوں سے بھی افسانے کے لیے موضوع کا انتخاب کر سکتا ہے۔

ایک افسانہ نگار کا پہلا منصب یہ ہے کہ وہ اپنے موضوع سے اچھی طرح واقف ہو، اسے اپنے موضوع سے سچی دلچسپی اور قلبی لگاو ہو، وہ اس کی گہرائی اور گیرائی سے واقف ہو، اس کے متعلق ہر چھوٹی سے چھوٹی بات جاننے کی کوشش کرتا ہو۔ جب تک ایک افسانہ نگارکے اندر یہ تمام خوبیاں پیدا نہیں ہوں گی اسے موضوع پر کامل قدرت حاصل نہیں ہو سکتا اور جسے موضوع پر قدرت نہ ہو وہ  اچھا افسانہ نگار ہرگز نہیں بن سکتا۔ افسانہ نگار کو باریک بیں اور دوراندیش ہونا چاہیے، اسے ہر چیز کے ظاہر و باطن دونوں پہلؤوں پر گہری نظر رکھنی چاہیے، کسی ایک پہلو کو دیکھ کر موضوع کے حسن و قبح کا فیصلہ بالکل نہیں کرنا چاہیے۔

پلاٹ

افسانے اور پلاٹ کو نقادوں نے لازم ملزوم قرار دیا ہے۔ افسانہ حیاتِ انسانی کے مختلف پہلؤوں، ان کے تاثرات کی بلندی و پستی ان کی تبدیلی، حرکت و جمود اور اس طرح کی بہت سی چیزوں کا ایک ادبی اور فنی عکس ہے ۔جو واقعہ، تجربہ، خیال یا حِس افسانے کی بنیاد بنتا ہے پلاٹ اس واقعے، خیال، تجربے کو ایک نئی ترتیب دیتا ہے۔ کہانی کا ڈھانچہ اس کا پلاٹ کہلاتاہے۔ یہ افسانہ کا سب سے اہم جزو ہوتا ہے، جس کی خوبی و خامی پر افسانے کی کامیابی یا ناکامی کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ افسانے کا وہ بنیادی خیال یا تصور جس سے افسانہ لکھنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اس کا موضوع یا  تھیم (Theme)ہے، اسی موضوع یا تھیم کی پھیلی ہوئی شکل پلاٹ کہلاتا ہے۔(فن افسانہ نگاری، ص:63)

ایک کامیاب پلاٹ کے لیے ضروری ہے کہ اس میں تھوڑی بہت تصنع اور ملمع سازی ضرور ہو۔ یہی تھوڑی سا تصنع، تھوڑی سی تلبیس کہانی کے حسن کو دوبالا کر دیتے ہیں اور ایک واقعہ حقیقت نہ ہوتے ہوئے بھی قریب از حقیقت معلوم ہونے لگتا ہے۔ یہی تصنع ایک پلاٹ کی روح ہوتا ہے۔

کشمکش(Crisis)

پلاٹ کے لیے ضروری ہے کہ اس میں کوئی نہ کوئی کشمکش(Crisis) ہو۔ افسانے کے پلاٹ میں جہاں  کوئی رکاوٹ پیدا ہوتی ہے، وہیں سے پڑھنے والے کی اصل دلچسپی شروع ہوتی ہے۔ وہ سوچنا شروع کر دیتاہےکہ دیکھیں یہ رکاوٹ کس طرح دور ہوتی ہے۔ اس واقعہ کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ شک و شبہ، تذبذ اور ایک خاص طرح کے اضطراب کی یہی کیفیت ایک  پلاٹ کو پلاٹ بناتی ہے۔ (فن افسانہ نگاری)

منتہا(Climax)

یہ افسانے کا آخری مرحلہ ہوتاہے جہاں افسانہ نگار اپنی تمام خوبیوں کا کھل کر مظاہرہ کرتا ہے۔ ہر اچھے اور کامیاب پلاٹ میں اس نقطۂ عروج یا منتہا (Climax) کا ہونا ضروری ہے۔ اچھا اور کامیاب منتہا وہ کہلاتا ہےجس میں بناوٹ اور تصنع کا شائبہ تک نہ ہو، اور اس کے ساتھ ساتھ وہ غیر متوقع بھی ہو۔ یعنی ایسا محسوس نہ  ہو کہ لکھنے والا زبردستی قاری کی توجہ اپنی طرف مبذول کرنا چاہتا ہے۔ کامیاب منتہا کی تعریف یہ ہے کہ اس پر پہنچ کر پڑھنے والا افسانے میں اس درجہ ڈوب جائے کہ افسانہ اسے حقیقت معلوم ہونے لگے ،واقعات اس کے نظروں کے سامنے تصویر بن کر گھومنے لگے،قاری تھوڑی دیر کے لیے اپنی گرد و پیش کی دنیا کو فراموش کر دے۔

والسلام

اپنی راۓ یہاں لکھیں