سید قطبؒ جہدِمسلسل زندگی (آخری قسط)

(دوسری/آخری قسط)

سید قطبؒ-جہدِ مسلسل زندگی

ذکی الرحمن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ

مضمون کی یہ قسط ایک زیرِ طبع کتاب’’سید قطبؒ:مالہ وماعلیہ‘‘ [صفحات:266] کا پہلا چیپٹر ہے۔کتاب میں اصلاً تکفیرِ امت کے حوالے سے سید قطبؒ کے افکار ونظریات کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔ امید کرتا ہوں کہ اہلِ ذوق اورعلمی وفکری تحریکات سے دلچسپی رکھنے والے اسے پڑھیں گے۔
٭٭٭

سن۱۹۵۱ء سید قطب کے اسلام پسندانہ فکری ارتقاء میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اسی سال ان کی کتابیں’’معرکۃ الإسلام والرأسمالیۃ‘‘(The Battle Between Islam and Capitalism)اور’’السلام العالمی والإسلام‘‘ (Islam and Universal Peace)طبع ہوئی تھیں۔

یہی وہ سال بھی ہے جس میں انھوں نے اپنی شہرۂ آفاق تفسیر’’فی ظلال القرآن‘‘(In the Shades of the Quran)لکھنے کا آغاز کیا۔ پہلے یہ تفسیر بالاقساط تحریکِ اخوان کے نمائندہ مجلے ’’الدعوۃ‘‘ میں شائع ہونا شروع ہوئی اور بعد میں مشہور داعی ڈاکٹر سعید رمضان کی ادارت میں نکلنے والے میگزین ’’المسلمون‘‘ میں چھپتی رہی۔

سید قطبؒ نے اس کتاب کو تفسیر کبھی نہیں کہا، بلکہ اس کا الہامی نام ’’فی ظلال القرآن‘‘ پسند فرمایا۔ویسے بھی اپنی پہلی اشاعت میں یہ کتاب تفسیری رنگ وآہنگ لیے ہوئے نہیں تھی۔یہ ایک سوچنے والی عقل، زندگی سے معمور دل اور حساس ذہن کے قرآن کے سائے میں گزارے ہوئے لمحات کا خلاصہ تھا جس میں قرآنی نصائح کی جستجو تھی، اس کے لسانی وبلاغی اعجاز کی عقدہ کشائی تھی، اس کے حقائق کا بیان تھا اور اس کے اعلیٰ مقاصد کی نشاندہی تھی۔ مگر آخری پاروں کی تفسیر تک آتے آتے مزاج بہت کچھ بدل گیا اور نظرِ ثانی کے بعد جب ابتدائی کئی جلدوں کا دوسرا اڈیشن آیا تو وہ قامت اور قیمت دونوں میں نقشِ اول سے کافی کچھ مختلف تھا۔ اب انھوں نے باقاعدہ تفسیر کے انداز واسلوب میں لکھنا شروع کیااور ہمارا اندازہ ہے کہ تفسیرِ ابن کثیرؒ کا نچوڑ انھوں نے ’’فی ظلال‘‘ کے صفحات میں انڈیل دیا ہے۔

سیدؒ نے اپنی فکر میں اس نوعیتی وبنیادی تبدیلی کو بارہا اس طرح تعبیر کیا ے کہ میری اصل پیدائش سن۱۹۵۱ء میں ہوئی ہے۔

اس دوران انھوں نے مختلف اخبارات (الدعوۃ، الاشتراکیۃ، اللواء وغیرہ) میں متعدد مضامین لکھے جو سب کے سب اسلام کے دفاع میں تھے۔ بعد میں یہ مضامین ’’دراسات إسلامیۃ‘‘(Islamic Studies)یعنی ’’اسلام اور مغرب کی کشمکش‘‘ (مترجم رضی الاسلام ندوی) کے نام سے کتابی شکل میں طبع ہوئے۔

اسی دور میں انھوں نے اسلام پسند ادباء اور اربابِ قلم کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرانے کے لیے ’’الفکر الجدید‘‘ کے نام سے میگزین نکالنا شروع کیا جس کے سرِ ورق پر کندہ تھا:’’ان طاقتور قلموں کی نگارشات جو ایمان رکھتے ہیں کہ قوموں کوجینے کا حق حاصل ہے۔اس کی ادارت میں سید قطبؒ شامل ہیں۔‘‘تحررہا أقلام قویۃ مؤمنۃ بحق الشعوب فی الحیاۃ، یشترک فی تحریرہا سید قطب۔
٭٭٭

سن۱۹۵۲ء میں سید قطبؒ نے ’’الرسالۃ‘‘ میگزین میں ایک مضمون بہ عنوان’’عدوّنا الأول: الرجل الأبیض‘‘(ہمارا اولین دشمن گورا آدمی)لکھا۔اس مضمون کا عنوان ان کی فکر کے ارتقاء کی کھلی تعبیر بھی تھا اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے شعور میں اسلام کے تہذیبی وثقافتی متبادل کی اہمیت وضرورت کا احساس شدید ہوگیا تھا اور جدید اسلامی بیداری کی تحریکوں کو لگ جانے والے مغربی مسموم اثرات ورجحانات سے بھی وہ کم وبیش واقفیت رکھتے تھے۔
٭٭٭

۲۳ جوائی۱۹۵۲ء کے فوجی انقلاب کے برپا ہونے تک سید قطبؒ اپنی تحریکی وابستگی میں صرف دوستی وہمدردی اور فکری ہم آہنگی کی حدود تک رکے رہے۔لیکن اس فوجی انقلاب کے بعد انھوں نے باقاعدہ تنظیمی اورقانونی طور سے ’’اخوان المسلمون‘‘ کی رکنیت اور اس جماعت میں شمولیت اختیار کرلی۔رکنیت کے فوراًبعد انھیں جماعت کے شعبۂ دعوت وتبلیغ کانگراں مقرر کر دیا گیا۔اس وقت کے مرشدِ عام شیخ حسنؒ الہضیبی اپنے تحریکی اور دعوتی دوروں میں سید قطبؒ کو ساتھ لے جاتے تھے تاکہ وہ زمینی حقائق سے واقف ہوں اور تنظیمی تربیت بھی لیں۔
٭٭٭

عسکری انقلاب کے رہنمائوں اور اخوان المسلمون کے وفاق کے زمانے میں جب اخوان المسلمون کے کیڈر نے اس تختہ پلٹ کے لیے ماحول کی ہمواری،اس کے قیام میں تعاون اور اس کی فکری وعملی حمایت ونصرت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیاتواس وقت سید قطبؒ بھی اس فوجی انقلاب کی بھرپور تائید کر رہے تھے اور اس کے دفاع میں انھوں نے متعدد مضامین لکھے۔ فوجی تختہ پلٹ کے بعد سید قطبؒ کو انقلابی قائدین کی مجلسِ سربراہان میں ثقافتی وصنعتی امور کا مشیر عام مقرر کیا گیا۔اس کے کچھ عرصے بعد انھیں فوجی قائدین کی لانچ کی ہوئی پہلی سیاسی پارٹی ’’ھیئۃ التحریر‘‘ کا جنرل سکریٹری بنانے کی تجویز بھی پیش ہوئی، مگر سیدقطبؒ نے سختی سے اسے مسترد کر دیا۔ تاہم معاون سکریٹری کا عہدہ قبول فرمایا۔

یہ سیاسی تنظیم سن۱۹۵۳ء میں معرضِ وجود میں آئی تھی۔قائدِ انقلاب جنرل “جمال عبد الناصر” سے ان کی خاص دوستی تھی۔مگر جلد ہی سید قطبؒ کو احساس ہوگیا کہ انقلابی رہنمائوں کے ارادے کچھ اور ہیں۔ ان کا رجحان سید قطبؒ کے اسلامی رجحان سے میل نہیں کھاتا ہے۔ چنانچہ انھوں نے انقلابی تنظیم سے دوری بنا لی۔
٭٭٭

۲۷ جولائی۱۹۵۴ء میں مصر اوربرطانیہ کے درمیان معاہدۂ جلاوطنی پر دستخط ہوئے اور اس کے بعد اخوان المسلمون اور قائدینِ انقلاب کے مابین اختلافات کھل کر سامنے آگئے۔اس زمانے میں سید قطبؒ نے جماعتِ اخوان کے انقلاب مخالف اورپوشیدہ طور سے شائع ہونے والے ایک پرچے ’’الإخوان فی المعرکۃ‘‘ کی ادارت کی ذمہ داری سنبھالی۔اس سلسلے میں انھیں اکتوبر۱۹۵۴ء میں گرفتار کر لیا گیا اور پورے پندرہ سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔

لیکن یہ سزا پوری نہیں ہوپائی کیونکہ اس وقت کے عراقی صدر ’’عبدالسلام عارف‘‘ کی سفارش پر سیدؒ کو رہائی مل گئی۔دراصل عراقی صدر عبدالسلام عارف بھی سید قطبؒ کی تفسیر ’’فی ظلال القرآن‘‘ کے مستقل قارئین میں سے ایک تھا اور اسے سید قطبؒ سے عقیدت ومحبت تھی۔اس کی سفارش کی بنیاد پر سید قطبؒ کی سزا سے پانچ سال کم کرکے صحت اورطبی وجوہات کی بنا پر انھیں مئی ۱۹۶۴ء میں دس سال قید بامشقت کے بعد آزاد کردیا گیا۔قید وبند کی اس اذیت ناکی اور حکمرانوں کے ظلم وستم پر امت کی خاموشی وبے حسی نے سید قطبؒ کی فکر میں نوعی اوربنیادی تبدیلیاں پیدا کردیں۔

اس مرحلے کو ہم سید قطبؒ کی فکر کے حوالے سے انقلابِ اسلامی کا مرحلہ کہہ سکتے ہیں۔ اب سید قطبؒ کے نظریے کے مطابق فی الوقت موجود تمام مسلم حکومتیں اور تمام مسلم معاشرے جاہلیت اورکفر کے معاشرے ہیں۔انھوں نے ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے پوری امتِ اسلامیہ پر ارتداد کا حکم لگایا اور کہا کہ اوریجنل اسلام کا وجود صدیوں قبل ہی دنیا سے معدوم ہوگیا ہے۔

انھوں نے اپنی کتاب ’’معالم فی الطریق‘‘(Milestones)یعنی ’’نقوشِ راہ‘‘میں لکھاہے:’’امتِ مسلہ کا وجود مانا جائے تو صدیوں پہلے منقطع ہوچکا ہے،اور اب مطلوبہ کام یہ ہے کہ افرادِامت کو ازسرِ نو مسلمان بنایا جائے۔‘‘[إن وجود الأمۃ المسلمۃ یعتبر قد انقطع منذ قرون کثیرۃ والمطلوب جعلہم مسلمین من جدید](الصحوۃ الاسلامیۃ والتحدی الحضاری،الدکتور محمد عمارہ:ص۱۵۳۔معالم فی الطریق،سید قطبؒ:ص۸-۱۷۳۔ مقالات الغلو الدینی واللادینی،محمد عمارہؒ: ص۲۶)

سید قطب کے فکری ارتقاء کے اس مرحلہ کی نمائندگی ان کی کتابیں’’ھذا الدین‘‘ (This Religion is Islam)’’المستقبل لھذا الدین‘‘(The Future of This Religion)’’معالم فی الطریق‘‘(Signposts on the Road)،نیز ان اضافوں اور ملحق مباحث سے ہوتی ہے جو انھوں نے اپنی تفسیر ’’فی ظلال القرآن‘‘ (In the Shades of Quran)اور اپنی کتاب ’’العدالۃ الاجتماعیۃ فی الاسلام‘‘(Social Justice in Islamn) کے جدید اڈیشنوں میں بڑھائے تھے۔

سید قطبؒ کی فکر میں یہی وہ بدلائو ہے جو ہمارے نزدیک خطرناک انتہاء تک جاپہنچا اور جو کسی بھی لحاظ سے صحیح اسلامی مذاق سے میل نہیں کھاتا ہے۔ اس پر ہم کتاب کے اگلے مباحث میں بالتفصیل بات کریں گے۔
٭٭٭

اپنی رہائی سے محض پندرہ ماہ بعداگست۱۹۶۵ء میں انہیں ایک بارپھر نذرِ زنداں کردیا گیا۔اس باران پر الزام تھا کہ وہ اپنی نئی فکر کی حامل ایک خفیہ تنظیم کے لیڈر بن گئے ہیں۔اس بار ان کے ساتھ کھلم کھلا جانبدارانہ اور ظالمانہ برتائو ہوا۔ ناانصافی کے ساتھ عدالتوں میں محاکمہ ہوا اور ۲۶اگست۱۹۶۶ء میں کلمۂ حق کہنے کے جرم میں تختۂ دار کی زینت بنادیاگیا۔

انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ اللّٰہم أحصِ من ظلموہ عددا واقتلہم بددا ولا تغادر منہم أحدا۔
٭٭٭

سید قطبؒ نے اپنے پیچھے فکری وفنی نگارشات کی حیثیت سے کل چوبیس کتابیں،ایک شعری مجموعہ’’أشواک‘‘(Thorns) اور ایک سو دس شعری قصائد چھوڑے ہیں۔اس کے علاوہ بچوں کے لیے لکھے گئے تین قصے،چارباتصویر کہانیاں،اپنے بھائی بہنوں کے ساتھ مل کرلکھی گئی ایک تاثراتی کتاب بنام’’الأطیاف الأربعۃ‘‘(The Four Apparitions) ایک خود نوشت سوانح ’’طفل من القریۃ‘‘(A Chield from the Village) اور تقریباً ۴۸۷ چھوٹے بڑے مقالات ومضامین بھی آپ کی علمی وفکری میراث کا حصہ ہیں۔

سید قطبؒ نے اپنی زندگی میں بہت سی کتابوں کے مقدمے بھی لکھے تھے جن کا صحیح شمار سامنے نہیں آپایا ہے۔ یہ کل فکری وعلمی سرمایہ ہے جو سید قطبؒ نے معاصر اسلامی بیداری کے ایک خاص طبقے کے لیے پس انداز چھوڑا جس کے نزدیک موجودہ صورتِ حال بہ ہر لحاظ قابلِ نفریں ہے اور جو قوت اور طاقت کے دم پر دنیا میں اسلام کا احیاء وتجدید کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
٭٭٭

شہادت کی راہ میں سید قطبؒ ایک مومنِ متوکل علی اللہ کی طرح آگے بڑھتے رہے۔ انھوں نے اپنی شہادت کی پیش گوئی اسی وقت کردی تھی جب انھوں نے ’’معالم فی الطریق‘‘ (Milestones)میں لکھا تھا:’’حالات تبدیل ہوتے ہیں،اور مومن کی حیثیت ایک مغلوب اور بے کس کی ہوجاتی ہے جو ہر قسم کی مادی قوت وطاقت سے محروم ہے۔لیکن اتنا سب ہوجانے کے باوجود اسے اپنی برتری کا احساس رہتا ہے۔وہ ایمان وایقان سے سرشار ہوکر اپنے ظالم حکمراں وفرعونِ وقت کو نیچا خیال کرتا ہے۔اسے یقینِ واثق ہوتا ہے کہ مغلوبیت ومحکومیت کا یہ دور عارضی ہے جو کچھ عرصے بعد ضرور ختم ہوجائے گا اور بیشک ایک بار پھر ایمان واسلام کا دوردورہ ہوگا اور اسے کسی طور سے روکا نہیں جاسکے گا۔اگر مان بھی لیں کہ مومن اپنی مغلوبیت سے جاںبر نہیں ہوپاتا ہے اور باطل طاقتوں کا وار اس کے لیے جان لیوا ثابت ہوتا ہے،پھر بھی مومن اپنی گردن کو غالب جاہلیت کے سامنے خمیدہ نہیں ہونے دیتا۔لوگ تو سبھی مرتے ہیں اور سب کو ایک نہ ایک دن مرنا ہے،لیکن مومن اپنے ایمان کی بہ دولت رتبۂ شہادت سے سرفراز ہوتا ہے۔وہ اس دنیا کو خیر باد کہہ کر ہمیشہ کی جنت میں جانے والا ہے، جبکہ اس دنیا میںاسے مغلوب ومحکوم بنانے والے مرنے کے بعد ہمیشہ کی آگ کا ایندھن بنیں گے۔

دونوں کے اخروی انجام میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔مومن اپنے ربِ کریم کی منادیِ عام سنتا ہے اور صابرانہ وشاکرانہ اس راہ میں شہادت کو گلے لگالیتا ہے:{لاَ یَغُرَّنَّکَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ فِیْ الْبِلاَد٭مَتَاعٌ قَلِیْلٌ ثُمَّ مَأْوَاہُمْ جَہَنَّمُ وَبِئْسَ الْمِہَاد٭لَکِنِ الَّذِیْنَ اتَّقَوْاْ رَبَّہُمْ لَہُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الأَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا نُزُلاً مِّنْ عِندِ اللّہِ وَمَا عِندَ اللّہِ خَیْْرٌ لِّلأَبْرَار}(ل عمران، ۱۹۶- ۱۹۸)’’دنیا کے ملکوں میں نافرمان لوگوں کی چلت پھرت تمہیں کسی دھوکے میں نہ ڈالے۔یہ محض چند روزہ زندگی کا تھوڑا سا لطف ہے،پھر یہ سب جہنم میں جائیں گے جوبدترین جائے قرار ہے۔ برعکس اس کے جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں ان کے لیے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں،ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہیں گے،اللہ کی طرف سے یہ سامانِ ضیافت ہے ان کے لیے،اور جو کچھ اللہ کے پاس نیک لوگوں کے لیے ہے وہی سب سے بہتر ہے۔‘‘[وتتبدل الأحوال ویقف المسلم موقف المغلوب المجرد من القوی المادیۃ فلا یفارقہ شعورہ بأنہ الأعلیٰ وینظر إلی غالبہ من علٍ ما دام مؤمنا ویستیقن أنہا فترۃ وتمضی وأن للإیمان کرۃ لا مفر منہا، وہبہا کانت القاضیۃ فإنہ لا یحنی لہا رأسا، إن الناس کلہم یموتون أما ہو فیستشہد وہو یغادر ہذہ الأرض إلی الجنۃ وغالبہ یغادرہا إلی النار وشتان شتان وہو یسمع نداء ربہ الکریم](معالم فی الطریق:ص۱۷۰۔سید قطب:الخطاب والأیدیولوجیا، محمددیاب:ص۲۷۶)

لیکن کیا ظالموں نے سیدؒ کے جسم کو لہولہان کرنے کے بعد ان کی روح وضمیر کو بھی کچل دیا تھا؟ہمیں اس کا جواب نفی میں ملتا ہے۔طاغوتی طاقتوں کے آلۂ کار مصری حکمراں طبقے کے بس میں نہ ہوسکا کہ وہ سید قطبؒ کے جسم کی طرح ان کی روح کا گلا گھونٹ پائے۔انھیں اپنی سیاہ کرتوتوں کی پردہ پوشی کے واسطے اس عظیم مفکر کو پھانسی دینا پڑی۔حالانکہ اس وقت سید قطبؒ کو پھانسی دینے کے خلاف متعدد علمائے اسلام اور اسلامی دنیا کے ممتاز سیاسی رہنمائوں کی جانب سے اپیلیں کی گئی تھیں ،لیکن اسے بارِ خاطر نہ لاتے ہوئے سید قطبؒ کو تختۂ دار کی زینت بنادیا گیا۔

سید قطبؒ کے زنداں کے ساتھی بیان کرتے ہیں کہ ان پر اذیت رسانی کی انتہا کردی گئی تھی اور اب انھیں زندہ چھوڑدینا ناممکن تھا کیونکہ ان کی حالتِ زار کی حقیقت اگر جیل خانے کی چہار دیواری سے باہر جان لی جاتی تو دنیا کے سامنے ظالموں کی بربریت وسفاکی کا راز کھل جاتا۔ وہ سید قطبؒ کا ضمیر تو نہیں خرید پائے،اس لیے جھنجھلاہٹ میں یہی کر سکتے تھے کہ ان کے جسدِ خاکی کو زار ونزار کرکے انھیں موت کے گھاٹ اتار دیں۔پھر یہی ہوا اور قرآن کے سائے میں جینے والا ایک مردِ مجاہد شہید ہوگیا۔

اللہ تعالیٰ شہیدِ اسلام سید قطبؒ کو ان کی اسلامی خدمات کا خوب سے خوب تر صلہ عطا فرمائے اور جنت میں اعلیٰ مقام دے۔اللہ کی بے پایاں رحمتیں ہوں سید قطبؒ پر اور مجاہدین وشہداء میں انھیں شامل کیا جائے۔اللہ تعالیٰ ان کے فکری وعلمی سرمائے سے امت کو نفع پہنچائے جو بلا کسی شک وشبہ کے ایک یکتائے روزگار فکری جہاد کی نمائندگی کرتا ہے۔
٭٭٭

سید قطب کو کسی ارتکاب شدہ جرم کی پاداش میں سزائے موت نہیں دی گئی، بلکہ خطرناک افکار کی وجہ سے انھیں اس کا مستحق سمجھا گیا۔جمال عبدالناصر اور شمس بدران وغیرہ مصری آمریت پسندوں کے ٹولے کی یہ بہت بڑی غلطی تھی۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ نظربندی، قید بامشقت، مار پیٹ اور تختۂ دار کا استعمال کرکے وہ فکر کا گلا گھونٹ سکتے ہیں۔سید قطبؒ کو ان کی کتاب ’’معالم فی الطریق‘‘ (Milestones)کی وجہ سے موردِ الزام ٹھیرایا گیا۔ یہ کتاب سیدؒ کے ان افکار ونظریات کا خلاصہ ہے جن کے ذریعے سے وہ سماج میں تبدیلی کے خواہاں تھے۔

ویسے اس کتاب کی متعدد فصلیں ان کی تفسیر ’’فی ظلال القرآن‘‘ کے دوسرے اڈیشن سے مأخوذ ہیں۔پہلی بار یہ کتاب محدود کمیت میں مکتبہ وہبہ سے چھپی تھی۔ مگر اس کتاب کی بنیاد پر جب سید قطبؒ کو سزائے موت دی گئی اور انھیں عملاً تختۂ دار پر لٹکا دیا گیا تو پھر یہ کتاب پوری دنیا میں لاکھوں کی تعداد میں چھپی اور پھیلی اور ہر بڑی زبان میں اس کا ترجمہ ہوا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔

سید قطبؒ نے کتنی سچی بات کہی تھی کہ ہمارے الفاظ موم سے بنی مورتوں کی مانند زندگی اور روح سے خالی ہوتے ہیں، مگر جب ہم ان کی راہ میں موت کو گلے لگالیتے ہیں تو ان مورتوں میں جان پڑ جاتی ہے اور زندگی ان کے نام ہوجاتی ہے۔[ستظل کلماتنا عرائس من الشمع لا روح فیہا ولا حیاۃ حتی إذا متنا فی سبیلہا دبت فیہا الروح وکتبت لہا الحیاۃ]

آمریت پسندوں نے سید قطبؒ کو مار کر ان کے افکار کا خاتمہ نہیں کیا، الٹا ان لوگوں کی وجہ سے یہ افکار بڑے پیمانے پر پھیلے اور ملت کے نوجوانوں کے ذہن ودماغ پر بے پناہ اثر انداز ہوئے۔عجیب تر بات یہ ہے کہ اس وقت کے مصری وزیرِ دفاع ’’شمس بدران‘‘ اور خفیہ ایجنسی کے چیف ’’حسین خلیل‘‘ نے مصری تاناشاہ جمال عبدالناصر کے سامنے تجاویز رکھی تھیں کہ سید قطب کو کیا سزا دی جاسکتی ہے۔ ان میں پھانسی کی سزا بھی تھی، عمر قید کی سزا تھی اور گھر میں نظربندی کی سزا تھی۔مگر فرعونِ مصر”جمال عبدالناصر” نے لپک کر پھانسی کی سزا متعین کر دی اور یوں سید قطبؒ کے حق میں شہادت کا فیصلہ ہوگیا۔(العشاء الأخیر للمشیر، محمد عبدالصمد:ص۱۵۰)
٭٭٭

یقینا ہم اس دنیا میں رہتے ہوئے کسی کے اخروی انجام کا فیصلہ سنانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، سوائے ان چند نفوسِ قدسیہ کے جنھیں اللہ کے رسولﷺ نے نام بہ نام جنت کی خوشخبری سنائی ہے۔ ورنہ حضرت عثمانؓ بن مظعون کو دیکھو کہ ’’السابقون الاولون‘‘ یعنی اولین ایمان لانے والوں میں شامل ہیں اور اللہ کی راہ میں ستائے گئے اور گھر بار چھوڑا۔جب ان کی وفات ہوئی تو حضرت ام العلائؓ انصاریہ نے کہا کہ اے ابو السائبؓ میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارا اکرام فرمایا۔ اس پر اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’یہ اللہ کے اوپر قسم کھانے والی کون ہے؟ تمھیں کس نے بتایا کہ اللہ نے ان کا اکرام کیا ہے؟ اللہ کی قسم، حالانکہ میں اللہ کا رسولﷺ ہوں،مگر نہیں جانتا ہوں کہ میرے ساتھ میرا رب کیا کرے گا۔‘‘[أشہد علیک أبا السائب لقد أکرمک اللّٰہ فقال من ہذہ المتألیۃ علی اللّٰہ وما یدریک أن اللّٰہ أکرمہ واللّٰہ ما أدری وأنا رسول اللّٰہ مایفعل اللّٰہ بی](صحیح بخاریؒ:۷۰۰۳۔مسند احمدؒ:۲۷۴۵۷)

تاہم عام اہلِ ایمان جب کسی بہ ظاہر نیک اطوار یا مستور الحال مسلمان کو ’’شہید‘‘ یا ’’مرحوم‘‘ یا ’’مغفور لہ‘‘ کہتے ہیں تو ایساوہ یقین اور وثوق کے ساتھ نہیں کہتے، بلکہ ’’من باب التفاؤل‘‘ اور حسن ظن رکھتے ہوئے کہتے ہیں اور اس کی گنجائش فقہائے کرام دیتے ہیں۔

کوئی بھی انصاف پسند مسلمان انکار نہیں کرے گا کہ سید قطبؒ ایک مسلمان تھے، ایک بڑے داعی، ماہر ادیب اور پختہ دانشور تھے۔ انھوں نے دین کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔بہ ظاہرِ احوال ان کی للٰہیت اوربے نفسی مسلّم ہے۔انھوں نے دین کی فکر اور لگن کی وجہ سے قید وبند کی مشقتیں جھیلیں اور آخر میں دین ہی کے نام پر پھانسی کے پھندے کو چوم لیا۔ان کے طرزِ نگارش میں آج بھی بڑی کشش ہے۔ پڑھنے والا اپنے اندر ایمانی تازگی اور روحانی بالیدگی محسوس کیے بغیر نہیں رہ پاتا۔بالخصوص ان کی تفسیر ’’فی ظلال القرآن‘‘ کا مطالعہ یا تو کوئی جاری نہیں رکھ پاتا ہے، یا اس کی زندگی میں انقلاب آجاتا ہے۔
٭٭٭

سید قطبؒ اپنی پوری علمی وعملی زندگی میں فکری جہاد اورمجاہدۂ فکر کی بہترین مثال نظر آتے ہیں۔ایسی مثال جس نے اپنے اندر وطن دوستی،اسلام پسندی اور انسانیت نوازی جیسی اعلیٰ خوبیوں کوسمولیا تھا۔درحقیقت یہ طاغوتی مظالم یا ظالم طاغوتی طاقتیں تھیں جنھوں نے ان جیسے حساس ونازک طبع ادیب وشاعر کو اذیت وبربریت کی دہکتی ہوئی بھٹی میں ڈال دیا۔ظلم کی چکی میں پستے ہوئے اور طاغوتی مظالم کے ردِ عمل میں سید قطبؒ کے فکری ارتقاء میں ایک ٹھیرائو یا جملۂ معترضہ پیدا ہوگیا جس کا اظہار اس آہ وفغاں میں ملتا ہے جسے ہم اوپر بیان کرچکے ہیں۔

سید قطبؒ نے دیکھا کہ ظالموں کا ہاتھ پکڑنے کے بجائے عوام الناس ان کی ظالمانہ کرتوتوں کوکارنامے سمجھ پر ان پر داد وتحسین کے نعرے لگارہے ہیں،دیوانہ وار تالیاں پیٹ رہے ہیں۔ ظلم کی بھٹی میں جلتے اورپگھلتے مظلوموں کی دادرسی کے لیے کوئی ہاتھ یا زبان سے تو دور، دل کی گہرائیوں سے بھی مخالفت کرنے کا روادار نظر نہیں آتا۔اس گھٹاٹوپ منظرنامے میں اور اس نفسیاتی کرب واذیت سے گزرنے کے بعد ہی ان کے قلم سے یہ تلخ الفاظ نکلے:’’امتِ اسلامیہ کا معتبر وجود تو صدیوں پہلے ہی معدوم ومنقطع ہوگیا ہے۔امت کا وجود اس وقت سے ناپید ہے جب سے پوری روئے زمین سے خدائی شریعت کی حاکمیت کا خاتمہ ہوا تھا۔اس لیے درحقیقت یہ مسئلہ کفر وایمان کا ہے،شرک وتوحید کا ہے،جاہلیت اور اسلام کا ہے اور ضروری ہے کہ یہ مسئلہ ہماری نگاہوں کے سامنے پورے طور سے واضح رہے۔موجودہ نسلیں مسلمان نہیں ہیں اگرچہ انھیں اس کا زبانی دعویٰ ہے۔یہ سب لوگ جاہلیت پر مبنی زندگی گزار رہے ہیں۔یہ نا اسلام ہے اور نہ یہ لوگ مسلمان ہیں۔آج اسلامی دعوت وتحریک کے کرنے کاکام یہ ہے کہ وہ ان اہلِ جاہلیت کو دوبارہ اسلام کی طرف واپس لائے اور ازسرِ نو انھیں اسلام میں داخل کرے۔

۔۔۔۔ہم آج جاہلیت میں گھرے ہوئے ہیں،بالکل ویسی ہی جاہلیت جو آمدِ اسلام کے وقت موجود تھی، بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ تاریک جاہلیت آج ہم پر مسلط ہے۔ہمارے اردگرد جو کچھ ہے جاہلیت کا شاخسانہ ہے۔لوگوں کے تصورات وعقائد،ان کے عادات وسوم،ان کی ثقافت کے سرچشمے،ان کے فنون وآداب،ان کے قوانین وتشریعات،حتی کہ بیشتر وہ چیزیں بھی جنھیں ہم سادہ لوحی میں اسلامی ثقافت، اسلامی مراجع،اسلامی فلسفہ اور اسلامی فکر خیال کرتے ہیں؛یہ سب چیزیں جاہلیت کی تیار کردہ اور پیداوارہیں۔آج اصل کارِ دعوت یہی ہے کہ ان اہلِ جاہلیت کو اسلام کی طرف واپس لایا جائے اور ازسرِ نو انھیں دائرہ اسلام میں داخل کیا جائے۔دعوتِ اسلامی کے کرنے کا کام یہ ہے کہ وہ عوام الناس کو اس دین کی تعمیر پرآمادہ کرے۔سب سے پہلے انھیں اسلامی عقائد کے تقاضوں کی تعمیل پر ابھارا جائے،پھر چاہے یہ لوگ پہلے سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی کیوں نہ کرتے ہوں اور ان کے وثیقہ ہائے ولادت(Birth Certificate) میں ان کا مسلمان ہونا ہی لکھا ہو۔‘‘

[إن وجود الأمۃ الإسلامیۃ یعتبر قد انقطع منذ قرون کثیرۃ۔۔۔لقد انقطع وجودہا منذ انقطاع الحکم بشریعۃ اللّٰہ من فوق ظہر الأرض جمیعا۔۔۔ ولذلک فالمسألۃ فی حقیقتہا ہی مسألۃ کفر وإیمان، مسألۃ شرک وتوحید، مسألۃ جاہلیۃ وإسلام، وہذا ما ینبغی أن یکون واضحا، إن الناس لیسوا مسلمین کما یدّعون، إنہم یحیون حیاۃ الجاہلیۃ، لیس ہذا إسلاما، ولیس ہؤلاء مسلمین، والدعوۃ الیوم إنما تقوم لردّ ہؤلاء الجاہلیین إلی الإسلام ولتجعل منہم مسلمین من جدید، فنحن الیوم فی جاہلیۃ کالجاہلیۃ التی عاصرہا الإسلام أو أظلم، کل ما حولنا جاہلیۃ، تصورات الناس وعقائدہم، عاداتہم وتقالیدہم، موارد ثقافتہم، فنونہم وآدابہم، شرائعہم وقوانینہم، حتی الکثیر مما نحسبہ ثقافۃ إسلامیۃ ومراجع إسلامیۃ وفلسفۃ إسلامیۃ وتفکیرا إسلامیا ہو کذالک من صنع ہذہ الجاہلیۃ، والدعوۃ الیوم إنما تقوم لردّ ہؤلاء الجاہلیین إلی الإسلام ولنجعل منہم مسلمین من جدید، فالدعوۃ ہی دعوۃ الناس إلی إنشاء ہذا الدین باعتناق العقیدۃ أولا، حتی لو کانوا یدّعون أنفسہم مسلمین وتشہد شہادات المیلاد بأنھم مسلمون بہ] (معالم فی الطریق، سید قطبؒ:ص۵۸،۱۷۳،۲۱،۴۰)

اب ہمیں اختیار ہے کہ اس جیسی عبارتوں کو ایک مظلوم اورحساس دل کی آہ وفغاں تصور کریں جسے ظالموں نے عوام الناس کی مجرمانہ خاموشی کے بیچ اپنے ظلم واستبداد کا تختۂ مشق بنائے رکھا۔ویسے زندگی کے آخری ایام تک قید خانے میں سید قطبؒ کے ساتھ رہنے والوں کی گواہی کا اعتبار کریں تو انھوں نے اپنی عبارتوں کے تکفیری مفہوم کا سرے سے انکار کر دیا تھا۔بہ ہرحال ہم کسی بھی طرح ان تکفیری عبارتوں کی تاویل وتوجیہ کریں گے جن کی رو سے کئی صدیوں پیشتر امتِ مسلمہ کا وجود عنقاء ہوگیا ہے۔ہم ان باتوں کو غلط کہتے ہیں اور ان غیر سنجیدہ فیصلوں کو سید قطبؒ کی فکری روانی میں ایک جملۂ معترضہ کے طور پر بھی دیکھتے ہیں۔

کتاب کے اگلے مباحث میں سید قطب کے ان نظریات کا تنقیدہ جائزہ لیا گیا ہے، تاہم اس غلطی کے باوجود ہماری دانست میں سید قطبؒ کا شمار ہمیشہ اسلام کے ایک مجاہد مفکر کی حیثیت سے ہوتا رہے گا جس کو مظلومیت کی حالت میں دار ورسن کی آزمائشوں کا نشانہ بنایا گیا۔ سید قطبؒ کی شہادت کے بعد بھی ان کی فکر نہ صرف یہ کہ پھیلتی گئی، بلکہ عالمِ اسلامی کے طول وعرض میں انسانی قلوب واذہان کو جس وسیع پیمانے پر سیدقطبؒ کی فکر نے متاثر کیا ہے، اس کی نظیر -الا ما شاء اللہ-بیسویں صدی میں کسی دوسرے اسلامی مفکرودانشور کے یہاں نہیں ملتی ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین۔

اپنی راۓ یہاں لکھیں