یوپی الیکشن، نفرت کے سوداگروں کو سبق سکھانے کا اچھا موقع ہے!

یوپی الیکشن، نفرت کے سوداگروں کو سبق سکھانے کا اچھا موقع ہے!

سرفراز احمدقاسمی،حیدرآباد
موبائل نمبر: 8099695186
          یوپی سمیت پانچ ریاستوں میں  الیکشن ہونے والے ہیں اور دس فروری    سے یہاں انتخابات ہونگے جس کا سلسلہ 7مارچ تک چلے گا۔اورپھر 10مارچ کو نتیجہ آجائےگا۔کون بنے گا سکندر؟اور اگلے پانچ سال کےلئے ان ریاستوں میں کس کے سر سجے گا تاج؟ یہ سب دس مارچ کے بعد ہی معلوم ہوگا۔یوپی کا معاملہ اس لئے بھی اہم ہے کہ یہ ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے اور کہا یہ جاتا ہے کہ دہلی کا راستہ یوپی ہوکر ہی گذرتاہے۔یعنی دہلی کو فتح  کرنے کےلئے یوپی کو فتح کرنا ضروری ہے۔یوپی وہ واحد ریاست ہے جہاں سب سے زیادہ اسمبلی کی سیٹیں ہیں یعنی چار سو سے زائد۔اسی وجہ سے اترپردیش میں حکمراں  اور اپوزیشن دونوں پارٹیوں  کےلئے وقار کا مسئلہ بناہوا ہے۔حکمراں پارٹی اپنا اقتدار برقرار رکھنے کےلئے بہت حدتک فکرمند دکھائی دے رہی ہے تو دوسری جانب اپوزیشن پارٹیاں ہرقیمت پر بی جے پی سے اقتدار چھیننے کی کوشش میں ہیں۔پورے ملک میں اس وقت جو نفرت کی لہر چل رہی ہے اس پر اب تک کوئی کنٹرول نہیں ہوسکا ہے جس کے نتیجے میں فرقہ وارانہ مذہبی منافرت عروج پر ہے،بے روزگاری سر چڑھ کر بول رہی ہے،مہنگائی آسمان چھورہی ہے۔ایسے وقت میں ان پانچ ریاستوں میں الیکشن ہورہاہے۔پورے ملک کے حالات یکساں ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جن ریاستوں میں انتخابات ہورہے ہیں وہاں کے لوگوں کی ذمہ داری کیاہے؟دیگر ریاستوں کے مقابلے یوپی کے عوام کی ذمہ داری اسلئے بھی بڑھ جاتی ہے کہ یوپی الیکشن  ملک کی جہت طے کرےگا۔اترپردیش کے باشندوں کو اپنی ذمہ داریوں کے احساس کرانے کا یہ ایک اہم اور مناسب موقع ہے۔وہاں جیسے جیسے الیکشن قریب آرہاہے ویسے ویسے نفرت پر مبنی بیانات کا سلسلہ شدت پکڑرہاہے۔ بھارت کے لوگوں نے اس ملک سے انگریزوں کو تو باہر کردیا لیکن انگریز بہادر بہت چالاک تھے وہ جاتے جاتے اپنی نشانی اور یادگار، اپنی ذریت کی شکل میں چھوڑ گئے۔انگریز حکومت کا معروف ایجنڈا تو یہی  تھا”لڑاؤ اور حکومت کرو”اسی پالیسی کے تحت وہ دوسو سال تک بھارت کو لوٹتے رہے۔ہمارے ملک جسے سونے کی چڑیا کہاجاتا تھا،اسے انگریزوں نے کنگال بنادیا۔یہاں نفرت نفرت کھیلتے رہے،یہاں حکومت کی اوریہاں کے وسائل کا بے دریغ استعمال کرکے عیش،موج  کرتے رہے۔بالآخر انھیں مجبور ہوکر بھارت چھوڑنا پڑا۔آج یہاں جولوگ اقتدار کی کرسی پر ہیں،وہ انھی کی باقیات ہیں۔ان کا ایجنڈا بھی انگریز بہادروں سے مختلف نہیں ہے۔اسلئے گذشتہ سات سالوں سے پورے ملک میں نفرت کی کھیتی کی جارہی ہے۔یہ انگریز ہی کی پیداوار ہے جسکو اسکی “روحانی اولاد” آگے بڑھا رہی ہے۔یوپی الیکشن میں کس پارٹی کو کتنی سیٹیں حاصل ہوگی  یہ تو وقت  ہی بتائے  گا لیکن جس طرح مسلم ووٹرس کے درمیان ماحول بنانے کی کوششیں کی جاری ہیں،ایسے میں شاید یہ کہنا بالکل غلط نہ ہو کہ اس میں بڑا نقصان مسلم امیدواروں کا ہی ہوگا، خواہ وہ کسی بھی پارٹی کے امیدوار ہوں۔
اس تعلق سے سوشل میڈیا پر ایک صحافی لکھتےہیں کہ   “مغربی بنگال میں ہونے والے گذشتہ الیکشن کے دوران،کوریج کے لئے کچھ دنوں  بنگال میں تھا۔کوریج کے دوران جب مسلم بیلٹ میں جانا ہوتا تو ووٹرس اور اس علاقے کے دانشوروں سے گفتگو بھی ہوتی تھی۔جب باتیں ہوتی تو ان کا ایک ہی جواب ہوتا کہ فی الحال ہم لوگ خود کو کسی پارٹی کا ووٹر بن کر نہیں سوچ رہے ہیں بلکہ ہماری مرکزی سوچ بس یہی ہے کہ فاشسٹ جماعتوں کو جو پارٹی روکنے کے قابل ہے ہم اسے ہی ووٹ کریں گے اور انہوں نے یہی کیا بھی۔ گویا ممتا بنرجی سے نا راض  لوگ بھی بغیر کسی بحث کے ترنمول کانگریس کو کامیاب بنانے ہر ممکن مدد کئے اور کامیاب بھی ہوئے۔
لیکن یوپی کا معاملہ بالکل الگ ہے۔وہاں  مسلم ووٹرس کے درمیان ایسی سوچ اورایسی فکر اب تک نہیں بن پائی ہے تو اسکی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ،ہمارے سیاسی ماہرین،دانشوران، اور ووٹ کے ٹھیکیداروں نے مسلم ووٹرس کو بالکل کنفیوز کر کے رکھ دیا ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی کہ ہر مسلم بیلٹ میں اپوزیشن جماعت کے  سپریمو نے اپنے اپنے امیدوار کھڑے کر دئے ہیں۔ گویا ایک سیٹ پر چار چار مسلم امیدوار اور این ڈی اے سے صرف ایک غیر مسلم امیدوار۔اب ایسے میں ووٹرس کریں بھی تو کیا کریں ؟ اور پھر انھیں بتانے، سمجھانے اورمشورہ دینے والا بھی ایسا کوئی  نہیں ہے جو وہاں کے مسلمانوں سے یہ کہہ سکے کہ اگر آپکے ووٹ منتشر ہوئے تو کسی مسلم امیدوار کا اسمبلی  پہنچنا بہت مشکل اورانتہائی دشوار ہو سکتا ہے”
یہ صورتحال کسی ایک سیٹ کی نہیں ہے بلکہ تقریباً ہر وہ سیٹ جہاں مسلم ووٹ کی اچھی خاصی تعداد ہے اور وہاں مسلمانوں کا ووٹ فیصلہ کن ہے ان تمام جگہوں پر کم و بیش یہی صورتحال ہے۔اپوزیشن کی ہر پارٹیوں کا ایک مسلم نمائند اس سیٹ پر مقابلہ کےلئے تیار ہے اور ادھر بی جے پی کی جانب سے صرف ایک غیر مسلم نمائندہ ان سب سے تنہا مقابلے کےلئے موجود ہے۔ایسے میں کیا کوئی مسلم امیدوار کامیاب ہوسکتاہے؟کیا اس طرح مسلمانوں کو شکست نہیں ہوگی؟ مغربی بنگال میں بی جے پی نے اپنی پوری طاقت جھونک دی،اسکے باوجود ممتا بنرجی کو وہاں شکست نہیں دی جاسکی۔ترنمول کانگریس نے اپنا اقتدار برقرار رکھا،اسکی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ممتا پوری طاقت کے ساتھ میدان میں ڈٹی رہی۔حالانکہ انھیں ‘دیدی او دیدی’ جیسے الفاظ کے ذریعے توہین آمیز خطاب کیاگیا۔لیکن ممتا نے ان سب چیزوں کا مقابلہ کیا اور اقتدار بچانے میں کامیاب رہیں۔
ملک بھر میں بہتر حکمرانی کے نام پر جس طریقے سے جھوٹ پھیلایا جارہاہے یہ بہت افسوسناک ہے۔صحیح بات یہ ہے کہ بہتر حکمرانی کے نام پر ہندوتوا ایجنڈے کو فروغ دیاجارہاہے۔ونچت بہوجن اگھاڑی کے صدر پرکاش امبیڈکر نے اواخر جنوری میں ایک بیان الزام عائد کیا کہ آج ہندوستان کو سب سے بڑے چیلنج کا سامنا ہے،وہ ملک میں حکمراں دائیں بازو سیاسی جماعتوں کی جانب سے ہندوستان کو ایک سیکولر ملک سے ایک مذہبی بنیاد پرست ملک میں تبدیل کرنے کی کوشش ہے۔یہ طاقتیں ملک کو متعصب اور نامعقول عقیدوں کی بنیاد پر مذہبی بنیاد پرست ملک میں تبدیل کرنے کی خواہاں ہیں اور گڈ گورننس(بہترحکمرانی) کے نام پر اپنے ہندوتوا ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔دستور ہند کے بانی ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے پوتے پرکاش امبیڈکر نے یوم جمہوریہ کے موقع پر کہا کہ وہ اس بات پر بے حد برہم ہیں کہ کس طرح ہندوتوا کو قوم پرستی کا نام دیتے ہوئے اس کا پروپیگنڈہ کیاجارہاہے۔انھوں نے کہاکہ ملک کے قیام کے ساتھ ہی دوقسم کے خیالات رکھنے والے طبقات سامنے آئے۔ایک طبقہ ویدک مذہب کو فروغ دینے کی کوشش کرتاہے جبکہ دوسرا صوفی سنتوں میں یقین رکھتاہے۔ویدک رسومات ہمیشہ سے ہی ہندوؤں کی اعلی ذاتوں سے منسلک رہی ہیں،جبکہ صوفی سنتوں نے سماج کے مختلف طبقات،دلتوں،قبائلیوں اور دیگر پسماندہ طبقات میں اصلاحات لانے اور انھیں تہذیب و تمدن سے آشنا کرنے کی بڑی خدمات انجام دیں اور اب ان دونوں طبقات کے درمیان حصول بالادستی کی جنگ چل رہی ہے۔انھوں نے کہاکہ مودی قیادت میں مرکزی حکومت بہتر حکمرانی کے نام پر اپنا ہندوتوا کا ایجنڈا آگے بڑھارہی ہے۔ہندوتوا کا ایجنڈا نہ تو مشمولاتی ہے اور نہ ہی مساوات پر مبنی،ہندوتوا کے یہی وہ اوصاف ہیں جو ملک کے سماجی و سیاسی ڈھانچے کےلئے بتدریج خطرہ بن رہے ہیں۔بی جے پی حکومت ملک کے سیکولر اور روحانی اقدار کو نئی مصرحہ قوم پرستی کے نام پر خطرے میں ڈال رہی ہے۔پرکاش امبیڈکر کا یہ بھی کہنا ہے کہ سماج پہلے ہی ذات پات کی بنیاد پر منقسم ہے اور بی جے پی اسے مزید تقسیم کرنے کے درپے ہے۔یہ سب کچھ ملک کے سیکولر تانے بانے کےلئے تباہ کن ثابت ہوگا،ملک کا دستور بھی خطرے میں پڑجائےگا،انھوں نے کہاکہ ماضی میں کمزور حکومتیں رہی ہیں تاہم کسی نے بھی سیکولرازم سے چھیڑ چھاڑ کی کوشش کی اور نہ ہی کسی نے مذہبی رسومات پر عمل آوری کےلیے زور دیاتھا۔ونچت بہوجن اگھاڑی لیڈر نے کہا کہ تکثیریت اور تنوع ملک کی اصل طاقت ہیں،بی جے پی اور مرکزی حکومت عوام پر اپنا خطرناک ایجنڈا مسلط کرنے میں مصروف ہیں اور یہ ملک و سماج کےلئے انتہائی تباہ کن ثابت ہوگا”
پرکاش امبیڈکر نے جن خدشات کا اظہار کیا ہے یہی کوئی نئی بات نہیں ہے اسطرح کی باتیں ملک کے دیگر دانشوران بھی برابر کرتے رہے ہیں۔پرکاش امبیڈکر کی باتوں سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی۔ حقیقت یہی ہے کہ ملک اب انتہائی محفوظ ہاتھوں میں ہے یہاں لوگوں کی نہ ہی اجتماعی حقوق محفوظ ہیں اور نہ ہی انفرادی۔پیگاسس جاسوسی کا معاملہ اسکی واضح دلیل ہے۔آج ملک کا ہر فرد خود کو غیر محفوظ محسوس کررہاہے۔ایسے میں ہماری ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ یہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ پورے ملک میں جمہوریت پر خطرات کے بادل منڈلارہے ہیں اور جمہوریت کا گلا گھونٹا جارہاہے۔ملک میں غریبوں کی حالت کتنی افسوسناک ہے اسکو سمجھنے کےلئے اس رپورٹ پر ایک نظر ڈالئے ایک مقامی اخبار کے مطابق “ہندوستان کے 20فیصد غریب ترین خاندانوں کی سالانہ آمدنی میں 2015/16 کے مقابل 2020/21 کے دوران 53 فیصد کی کمی آئی ہے،جبکہ 1995 میں معیشت کو فراخدلانہ بنانے کے بعد سے انکی آمدنی میں مسلسل اضافہ ہورہاتھا ۔دوسری طرف 2015/16 تا 2020/21 کے پانچ سالہ عرصے میں 20 فیصد امیر ترین خاندانوں کی سالانہ آمدنی میں 39 فیصد کا اضافہ ہواہے۔جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کووڈ کی وباء نے معاشرے کے سب سے نچلی سطح اور سب سے اونچی سطح کے افراد پر کس طرح کا اثر ڈالا ہے۔آئی سی ای 360 سروے 2021 میں یہ بات سامنے آئی ہے،ممبئی کے ایک تھنک ٹینک پیپلز ریسرچ آن انڈیا کنزیومر اکانومی کی جانب سے یہ سروے کرایاگیاتھا۔اپریل اور اکٹوبر2021 کے دوران کرائے گئے اس سروے کے پہلے مرحلے میں دولاکھ خاندان اور دوسرے مرحلے میں 42ہزار خاندانوں کا احاطہ کیاگیا۔ملک کے سواضلاع کے زائد از 120 ٹاؤنس اور 800 مواضعات میں یہ سروے کرایاگیا۔وباء نے 2020/21 میں اندرون ملک پیداوار میں 7.3 فیصد کی کمی واقع ہوئی تھی۔اس سروے سے ظاہر ہوتاہے کہ غریب شہری سب سے زیادہ متاثر ہوئے  اورانکی آمدنی میں کمی آئی ہے۔اس سروے میں آبادی کو آمدنی کی بنیاد پر 5زمروں میں تقسیم کیاگیا،اس سے ظاہر ہوتاہے کہ 20 فیصد غریب ترین افراد کی آمدنی میں سب سے بڑی کمی یعنی 53 کی کمی واقع ہوئی۔جبکہ دوسرے زمرہ(نچلا متوسط طبقہ)کی آمدنی میں بھی اسی عرصہ کے دوران 32 فیصد کی کمی آئی،متوسط طبقہ کے زمرہ کے خاندانوں کی آمدنی 9فیصد کم ہوئی،اونچے متوسط طبقہ اور امیر ترین افراد 20-20فیصد کی آمدنی میں بالترتیب 7فیصد اور39 فیصد کا اضافہ ہوا”
یہ ہے اپنے بھارت کی تازہ صورتحال، آخر کون ہے اسکا ذمہ دار؟ کیاآپ کو نہیں لگتاکہ یہ عوام دشمن لوگ جب تک اقتدار میں رہیں گے تب تک ملک کی حالت مزید بگڑتی رہےگی،نفرت کو ہوا دیکر یہ حکومت کرتے رہیں اور عوام کو دھوکہ دیتے رہیں گے،آئیے ہم سب ملکر یہ حکمت عملی طے کریں کہ ملک کی گنگاجمنی تہذیب کو بچانے،فرقہ وارانہ منافرت کا زور ختم کرنے اور ملک کے تحفظ کےلئے متحد ہوکر نفرت کے سوداگروں کو سبق سکھائیں اور انھیں اقتدار سے باہر کریں،یوپی،پنجاب،اتراکھنڈ اور گوا سمیت جن پانچ ریاستوں میں الیکشن ہونے والے ہیں وہاں ہم سب ذات و مذہب سے دور ہوکر ملک کو ترقی یافتہ بنانے کےلئے اپنے ووٹ کو تقسیم ہونے سے بچائیں،اور فاشسٹ طاقتوں کو شکست دیں یہی وقت کی اہم ضرورت ہے،خدا نخواستہ اگر ہم سے اس میں چوک ہوئی تو ملک کی مزید ابتری اور بحران کےلئے ہم خود ذمہ دار ہونگے،اور مزید پانچ سال اس گونگی بہری اور متکبر حکومت کو جھیلنا پڑے گا،یوپی کے عوام کو بنگال سے سبق حاصل کرناہوگا اور بنگال کی طرز پر یوپی کی سیاست تبدیل کرنی ہوگی،اگر آپ اسکے لئے تیار ہیں تو سات مراحل میں ہونے والے یوپی الیکشن اسکا عملی ثبوت پیش کریں اور ایسی پارٹی و لیڈران کا انتخاب کریں جو ترقی،روزگاری اور بھائی چارے کی بات کرے،اشتعال انگیزی کرنے والے نفرت کے پجاریوں کو پوری طاقت سے شکست فاش دیں،ملک آپ کا احسان مند رہے گا۔
(مضمون نگارکل ہندمعاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)
اپنی راۓ یہاں لکھیں