(تیسرا حصہ)
یونیفارم سول کوڈ
کے موضوع پر مولانا محمد قمر الزماں ندوی سے ایک اہم انٹرویو
دانش ایاز رانچی
نائب ایڈیٹر روزنامہ الحیات رانچی جھارکھنڈ
سوال ۔یکساں سول کوڈ کے حامی یہ کہتے ہیں کہ کامن سول کوڈ بننے کا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ بین مذاہب شادیاں ہوگی اور اس کے نتیجہ میں مذہبی منافرت اور کشیدگی دور ہوگی ،آپسی بھائی چارہ کا ماحول بنے گا لوگ باہم شیر و شکر ہوجائیں گے ۔آپ کی نظر میں یہ مفروضہ کتنی حقیقت رکھتا ہے ؟
جواب ۔ میری نظر میں یہ حقیقت اور سچائی کے سب کے خلاف ہے ،عموما نناوے فیصد اس طرح کی شادیاں ناکام ہوتی ہیں اور اس کا انجام بھاینک ہوتا ہے ۔آئے دن اس طرح کے واقعات بلکہ روزانہ پیش آتے رہتے ہیں ۔ ابھی گزشتہ ہفتہ علی گڑھ میں یہ واقعہ پیش آیا کہ ایک مسلم لڑکی مسکان کے گھر پوسٹ مارٹم آفس سے فون آیا کہ آپ کی بچی کی لاش یہاں ہے، اس کو اٹھا کر لے جائیے ۔ اس لڑکی نے ایک غیر مسلم لڑکے سے شادی کی ،چار سال پہلے کا واقعہ ہے ،گھر والوں نے منع کیا، لیکن وہ نہیں مانی ۔ پھر جو انجام ہوا وہ سامنے ہے ۔ تقریباً ہر ہفتہ اس طرح کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں ۔
ہر مذہب ، ذاتی اور دھرم میں شادی بیاہ کے اصول اور ضابطہ ہیں ،کون محرم ہے اور کون غیر محرم ہے ،کن سے شادی ہوسکتی ہے اور کن سے نہیں ؟ اس کے پیچھے حکمتیں اور مصلحتیں ہوتی ہیں ،ان حکمتوں اور مصلحتوں کو نظر انداز کرنا گویا خدا سے بغاوت کرنا ہے ۔ اسلام نے بھی اس کے لئے اصول و ضوابط طے کئے ہیں،تقریبا ہر دھرم اور ذاتی میں اس کے رہنما اور ہدایتی اصول ہیں ،ان سے چھیڑ چھاڑ کرنا یہ فطرت کے خلاف ہے ،جس فطرت اور تخلیق میں تبدیلی کا حق کسی انسان کو نہیں ہے ۔۔ غرض یہ بات کسی طرح اور کسی زاویہ سے درست نہیں ہے کہ بین مذاہب شادی سے محبت ،انسانیت اور مانوتا کا ماحول پیدا ہوگا ۔ بلکہ میری نظر میں اس سے انتشار میں اضافہ ہوگا کیونکہ حسب نسب اور ثبوت نسب کے مسائل پیدا ہوں گے ۔۔
سوال ۔ بہت سے لوگ یکساں کوڈ کا نقصان صرف مسلمانوں کے لئے سمجھتے ہیں ،جب کہ حقیقت میں گہرائی میں جانے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اس کی مار سب سے زیادہ دلتوں پر پڑے گی اور سب سے زیادہ نقصان آدای واسی ،قبائلی اور ایس ٹی ۔ایس سی یعنی بیکویٹ لوگوں کا ہے ۔ آپ کی رائے میں اس کی کتنی حقیقت ہے ؟
جواب ۔
یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کا اس بل سے مذہبی اور عقائدی طور پر بہت نقصان ہوگا اور بہت سے معاملات میں مذہب کے قانون سے دستبردار ہونا پڑے گا ۔لیکن مسلمانوں سے کہیں زیادہ مالی ثقافتی اور مذہبی نقصان بیکوٹ اور قبائلی لوگوں کا ہے ۔
ابھی سوشل میڈیا پر پروفیسر گہلوت صاحب کا مضمون گردش کررہا ہے ، جس میں اس سچائی کو بالکل اچھی طرح واضح کیا گیا ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ اس مضمون کا خلاصہ اور لب لباب آپ کے توسط سے تمام قارئین تک پہنچے اور حقیقت واشگاف ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کامن سول کوڈ اس قانون سے مسلمانوں کو جو زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے وہ ایک علامتی نقصان ہے۔ مسلمان پہلے سے ہی ایک الگ مذہبی ہستی ہیں، جن کا اپنا ایک ضابطہ اصول اور باقاعدہ نظام ہے۔ وہ اس صورت حال پر اسی طرح قابو پا لیں گے جس طرح ماضی میں انہوں نے اس طرح کی سازشوں پر قابو پالیا تھا۔ مسلمان کمیونسٹ روس کے مشترکہ سول کوڈ سے 73 سال تک زندہ رہے۔ آخر کار روس اپنے گھٹنوں کے بل گر گیا۔
عام خیال کے برعکس، یو سی سی حقیقت میں ایس سی، ایس ٹی، او بی سی نیز قبائلی لوگوں اور برادریوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے کا پابند ہے۔ اگر یو سی سی منظور ہو جاتا ہے، تو ہمارے آئین کے ذریعے بہوجن سماج کو دی گئی، تمام خصوصی مفادات و مراعات ختم کر دی جائیں گی۔
دوسری بات یہ کہ مظالم ایکٹ شدید خطرے میں ہوں گے۔ اس ایکٹ کے فوائد کو کچھ عرصے کے لیے معاشرے کے مخصوص طبقوں کو بے وقوف بنانے کے لیے برقرار رکھا جائے گا، اور پھر اس کی فراہمی کو بتدریج اس وقت تک کم کیا جائے گا جب تک کہ پورے قانون کو کالعدم نہ کر دیا جائے۔ ڈاکٹر باباصاحب امبیڈکر کے ذریعہ آدیواسیوں کو ان کی “جل، جنگل، زمین،” ان کی شناخت اور ان کی خودمختاری کے حوالے سے جو خصوصی مراعات دی گئی تھیں، ان سب کو یو سی سی کے ذریعے مکمل طور پر منسوخ کر دیا جائے گا۔
ہمارے آئین کے پانچویں اور چھٹے شیڈول کے مطابق، ایک غیر آدیواسی یا حکومت کو بھی قبائلی علاقوں میں زمین خریدنے یا بیچنے کی اجازت نہیں ہے۔
ایک غیر آدیواسی (غیر قبائلی) کو کلکٹر کی واضح اجازت کے بغیر کوئی قبائلی زمین خریدنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہاں تک کہ زمین خریدنے کے بعد بھی کسی غیر قبائلی کو صرف 3-5 فٹ گہرائی تک زمین استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ مذکورہ گہرائی سے آگے زمین آدیواسیوں کی ہوگی۔
مصنوعی سیاروں اور جغرافیائی سروے کی مدد سے حکومت نے ہماری قبائلی زمینوں میں نایاب اور نایاب معدنی دولت کے خزانوں کا پتہ لگایا ہے۔ یہ یو سی سی ان تمام وسائل کو ہڑپ کرنے کی ایک فریب کارانہ سازش کے سوا کچھ نہیں ہے۔
یو سی سی کے نفاذ کے ساتھ سیکشن 371 کی وجہ سے شمال مشرقی ناگالینڈ کو دی گئی تمام دفعات کو ختم کر دیا جائے گا۔ قبائلی زمینوں پر لاگو ہونے والی زیادہ تر مراعات ملک کے دوسرے حصوں کو نہیں دی جاتیں۔ یہ تمام مراعات خود بخود کم ہو کر صفر ہو جائیں گی۔ درحقیقت ایک آدواسی کو اس کی اپنی سرزمین میں اجنبی کا درجہ دیا جائے گا۔
ایک بار جب یہ مکمل ہو جائے گا، آدیواسیوں کو ڈیم، پناہ گاہیں، خصوصی اقتصادی زون اور سولر پلانٹس کی تعمیر کے بہانے ان کی اپنی زمینوں سے بے دخل کر دیا جائے گا۔ ان کی اپنی زمینوں سے نکالے جانے والے ایڈواسی بڑے اور میٹروپولیٹن شہروں میں کنٹریکٹ لیبر کے طور پر کام کرنے پر مجبور ہوں گے۔
ہندوستانی جمہوریت کے تمام ستونوں کو برہمنوں نے ای وی ایم اور پیسے کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ہائی جیک کر لیا ہے۔ مستقبل میں جو بھی قانون بنایا جائے گا وہ مکمل طور پر برہمنسٹوں کے حلف شدہ دستاویز کے مطابق ہوگا۔ مانوسمرتی
یو سی سی ہمارے آئین کی روح کو آخری دھچکا ہوگا۔ یو سی سی سے آگے آئین کی کوئی چیز باقی نہیں رہے گی سوائے اس مرئی ڈھانچے کے جس میں کوئی روح نہ ہو۔
اگر ہم یو سی سی کی مخالفت نہیں کرتے اور مسلمانوں کو اس کے خلاف اٹھنے نہیں دیتے تو سنگھی یو سی سی کو مسلم مخالف قانون کے طور پر پیش کریں گے، اکثریت کی حمایت حاصل کریں گے اور بالآخر اس قانون کو منظور کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
یہ فرض ہے کہ ہم خود سامنے سے قیادت کرنے والی یو سی سی کی مخالفت کریں اور اسے اسی طرح روکیں جس طرح فارم بل کو کسانوں نے روکا تھا۔ ورنہ یہ قانون ہمارے آئین کو کینسر کی طرح کھا جائے گا۔
ماضی قریب میں یہ دیکھا گیا ہے کہ کس طرح اصل میں ایس سی، ایس ٹی، او بی سی کے خلاف بنائے گئے قوانین کو میڈیا اور آئی ٹی سیل نے دھوکے سے مسلم مخالف قوانین کے طور پر پیش کیا اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ انہی قوانین کو ہم پر نافذ کیا گیا۔
سی اے اے، این آر سی بہترین مثال ہے: صرف آسام میں 14 لاکھ سے زیادہ ایس سی اور او بی سی سی اے اے، این آر سی سے متاثر ہوئے۔ دوسری طرف صرف 5 لاکھ مسلمان متاثر ہوئے۔ اکثر لوگوں کو اپنی دستاویزات میں غلطیوں کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑا۔ منوادی اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ مسلمان نہیں بلکہ آدیواسی ہیں جن کے پاس اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے دستاویزات نہیں ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ اس کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر اور ملک بدر ہونے والے ملنی واسی آدیواسی ہوں گے نہ کہ مسلمان۔
اس طرح یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اور ہماری آدیواسی تنظیمیں آگے بڑھیں اور UCC کو آگے سے روکیں کیونکہ یہ ہمارے آدیواسیوں کے لیے “کرو یا مرو” کی صورتحال ہے۔
یو سی سی کے لاگو ہونے کے بعد، ہندو راشٹر عملی طور پر ایک حقیقت بن جائے گا۔ صرف ایک رسمی اعلان باقی رہ جائے گا کہ ہندو راشٹر اب تک قائم ہے۔
سوال ۔۔۔۔۔۔۔یکساں سول کوڈ کے حامی یہ کہتے ہیں کہ ہندوستان ایک جمہوری یعنی سیکولر ملک ہے اور جمہوری نظام میں مذہب کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ،اور جب یہ جمہوری ملک ہے تو یہاں جیسا بھی نظام ملکی مفاد میں بنایا جائے ،جمہوری عوام کو اس کو ماننا لازم ہے ۔ آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں ۔
جواب ۔۔۔ یقینا ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے ۔ لیکن جمہوری ملک کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ لوگوں کی مذہبی شناخت اور ملی شعار ختم کردیا جائے۔ جمہوریت کا یہ مطلب تو ہوتا ہے کہ ملک کا سرکاری طور پر کوئی مذہب نہیں ہوگا ۔لیکن ملک کا ہر شخص اپنے مذہبی فرائض شعار اور عائلی زندگی پر عمل کرنے میں خود مختار ہوگا ۔ کسی کے مذہبی حقوق اور ملی شعار میں دخل اندازی نہیں کی جائے گی۔ اس ملک کے دستور میں اس کی وضاحت موجود ہے۔
دوسری بات آج تک سیکولرزم اور جمہوریت کا کوئی ایک مفہوم متعین نہیں ہے ۔بلکہ مختلف ملکوں میں وہاں کے حالات اور مصالح کے لحاظ سے اس کا مفہوم متعین کیا گیا ہے۔ ایک مفہوم یہ ہے حکومت کا کوئی مذہب نہ ہو سرکاری طور پر کسی خاص مذہب کی پشت پناہی نہ ہو ۔لیکن ملک کے ہر شہری کو اپنی نجی زندگی میں مذہب پر عمل کرنے کی گنجائش ہو ، بیشتر ملکوں میں جمہوریت کا یہی مفہوم متعین کیا گیا ہے۔