ہماری نوجوان نسل اور اسٹریمنگ چینلز
==========
امت مسلمہ کو اس وقت جن مسائل کا سامنا ہے، ان میں سے ایک اساسی مسئلہ اپنی نوجوان نسل کی اسلامی بنیادوں پر ذہن سازی ہے۔ تمام نہ سہی لیکن مسلم نوجوانوں کی اکثریت اس وقت مغربی افکار کی لپیٹ میں بری طرح جکڑی ہوئی ہے۔ ان کے لیے صحیح و غلط کی تمیز اسلامی تعلیمات سے نہیں بلکہ مغرب کے بنائے گئے انسانی حقوق سے متعین ہوتی ہے۔
جہاں میرا جسم میری مرضی، زندگی نہ ملے گی دوبارہ اورمساوات مرد و زن جیسے دلفریب نعرے ان کے مطمح نظربنا دئیے گئے ہیں اور اس میں بہت کچھ بلکہ سارا کچھ ہاتھ میڈیا پر مغربی بالادستی کا ہے۔ یہ نسل جو میلینئل جنریشن (Millennial Generation) کہلاتی ہے یعنی اکیسویں صدی کی نسل، اس کی اٹھان و تربیت ایک ایسی چیز کے ذریعے کی جارہی ہے جس پر اس نسل کوجنم دینے والے والدین کا کوئی کنٹرول نہیں ہوتا اور نہ ہوسکتا ہے۔ آج گھر گھر نیٹ فلیکس (Netflix) ، او ایس این (OSN)، زوم (ZOOM)، امیزون پرائم (Amazon Prime) جیسے اسٹریمنگ چینل (Streaming Channels) پہنچ چکے ہیں جن کی سبسکرپشن چند سو یا محض ہزار روپے ماہانہ پر مل جاتے ہیں۔
ان چینلز کو دیکھنے کو اب بچوں کو ٹی وی کی ضرورت نہیں رہی جس پر والدین ابھی بھی کسی طرح اجارہ داری دکھا کر اس کو کنٹرول کرسکتے ہیں بلکہ یہ سہولت اسمارٹ موبائل اور لیپ ٹاپ پر زیادہ آسانی سے مہیا ہوجاتی ہے جو آج کل نہ صرف ہر بچے کے پاس موجود ہوتا ہے بلکہ اس کو اس کی انتہائی ذاتی ملکیت تصور کیا جاتا ہے۔
ہمارے طائرِخیال و فکر کے پَر جل جائیں گے لیکن ہم اس نہج پر پہنچ بھی نہیں سکتے کہ ان اسٹریمنگ چینلز پر ہمارے بچوں کی ذہن سازی کے لیے کیا کچھ پروگرام موجود ہوتے ہیں۔ ایسے پروگرامز جو انتہائی دلفریب پیرائے میں ہماری نوجوان نسل کو یہ باور کرواتے ہیں مذہب کی بندشوں کی حیثیت محض دقیانوسیت سے زیادہ کچھ نہیں اور انسانی زندگی کی اصل ، حریتِ فکر و عمل ہے۔ انسان اپنی زندگی کے ہر فیصلے میں خود مختار ہے اور آسمانوں پر بیٹھی کوئی خیالی مخلوق اس کے فیصلوں پر اثرانداز ہونے کا اختیار نہیں رکھتی۔
زندگی کی ترجیحات اور طرز عمل کوئی خدائی قانون نہیں بلکہ عقلِ انسانی خود طے کرے گی اور ایسے میں ہم کو مذہبی رسومات ادا کرنے کو یا تو صرف وہ مذہبی احبار و رہبان درکار ہوں گے جو خدائی قانون سے بغاوت کو سپورٹ (Support) کرنے کو راضی ہوں یا پھر ہم مذہبی رسومات کو معاشرتی رسومات قرار دے کر ان کواپنے مقرر کردہ پیمانوں کے تحت انجام دیں گے جس میں ان کی اصل روح کا کوئی جز یا مقصد محفوظ نہ رہے گا بلکہ وہ صرف کھیل تماشے کے لیے محدود ہو کر رہ جائیں گی۔
نیٹ فلکس
حال ہی میں نیٹ فلیکس پر تین اقساط پر مشتمل ایک ریالٹی شو (Reality Show) بنام “دی بِگ ڈے (The Big Day) ” آن ائیر (On Air) کیا گیا ہے۔ اس شو کا موضوع نئے دور کے ہندوستان میں ہونے والی شادیوں کو پیش کرنا ہے۔ تینوں اقساط میں مشترکہ چیز شادی ہے تاہم ہر شادی کی کہانی الگ ہے۔
پہلی قسط
پہلی قسط میں دو جوڑوں کی اصل زندگی کو دکھایا گیا ہے جو ہندوستان کے نہایت امیر گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور چونکہ شادی کا دن انسان کی زندگی میں خاص اہمیت رکھتا ہے، پس اس پر جتنا پیسہ خرچ کیا جائے وہ کم ہے۔ چنانچہ دونوں شادی شدہ جوڑے اپنی شادی کی تقریبات پر کروڑوں روپئے خرچ کرتے دکھائے گیے ہیں جہاں وہ شادی سے متعلق ایک ایک چیز کی تفصیلات پر غور کرکے ان پر لاکھوں روپئےخرچ کرتے ہیں۔
تاہم ان چھوٹی چھوٹی بیکار کی چیزوں پر لاکھوں روپئے خرچ کرنا کسی ناظر کو اسراف محسوس نہ ہو، اس لیے کمالِ ہشیاری سے بیچ قسط میں ایک جوڑے کے ذریعے یہ پیغام بھی دیا جاتا ہے کہ ہم اس شادی جو کہ ایک ڈیسٹینیش ویڈنگ (Destination Wedding) ہوتی ہے، کے ذریعے سینکڑوں لوگوں کو روزگار فراہم کررہے ہیں اور ساتھ کوشش ہے کہ ہر چیز ری سائیکل (Recycle) ہو تاکہ دوبارہ استعمال میں لائی جاسکے۔ یہ پیغام اس خوبصورتی سے دیا جاتا ہے کہ کروڑوں روپے خرچ کرنے کی قباحت تک انسان کو محسوس نہیں ہوتی اور وہ ان جوڑوں کے جذبۂ خدمتِ خلق سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پاتا۔
دوسری قسط
دوسری قسط میں بھی دو جوڑے دکھائے گیے ہیں، تاہم ان جوڑوں میں جو دلہنیں دکھائی گئی ہیں وہ اس زمانے کی مکمل انڈیپنڈنٹ (Independent) خواتین ہیں۔ وہ اس قدر خود مختار خواتین ہیں کہ اپنی شادی کے انتظامات کی ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز وہ خود ہینڈل کرتی ہیں۔ شادی کے کپڑوں سے لیکر اس کا منڈپ لگوانے تک، ہر چیز کیسی ہوگی، کس نوعیت کی ہوگی، دلہنیں خود فیصلہ کرتی ہیں۔
خواتین کی اس مرضی و خود مختاری کو نہایت خوبصورتی سے اور جاذب پیرائے میں دکھاتے ہوئے آخر میں وہ چیز پیش کی جاتی ہے جس کے لیے یہ ساری محنت کی جارہی تھی یعنی مذہبی اقدار سے بغاوت۔ پہلے جوڑے کی دلہن صاحبہ اپنے ویڈنگ پلانر (Wedding Planner) کو مساواتِ مرد و زن کے تصور کے تحت ایسے پنڈت کا انتظام کرنے کا عندیہ دیتی ہیں جو مردوعورت میں فرق نہ کرتا ہو، انگریزی بول سکتا ہو اور مروجہ مذہبی اقدار کی دقیانوسیت کا کسی قدر قائل ہو۔
تاہم کافی ڈھونڈنے ڈھانڈنے کے بعد دلہن کی سوچ اس فکر پر منتج ہوتی ہے مرد پنڈت ہی کیوں؟ وہ اپنی شادی کے لیے خاتون پنڈت کی خدمات حاصل کریں گی جو انہیں کی طرح کی پروگریسیو (Progressive) یعنی ترقی یافتہ سوچ رکھتی ہو۔ پس معاشرے کی مذہبی رسومات سے بغاوت کی اس سے بہترین صورت کیا ہوسکتی تھی اور یوں ان کی شادی ایک خاتون پنڈت کے ذریعے سرانجام پاتی ہے ۔
مذہب بیزاری
اب جہاں تک بات رہی دوسری دلہن صاحبہ کی تو ان کو خود کو ترقی یافتہ، مذہب بیزار اور آزاد فکر ثابت کرنے کے لیے یہ بات سوجھی کہ کیوں نہ پنڈت اور شادی کے پھیروں جیسی چیز کا ہی رد کردیا جائے۔ شادی تو دو انسانوں، دو روحوں کا ملاپ ہے۔ کسی پنڈت کے جنتر منتر اور پھیروں سے اس کا کیا لینا دینا۔
اگنی (آگ) کو ساکشی (گواہ) مان کر اس کے سامنے پھیرے لیتے ہوئے ایک دوسرے کو قبول کرکے وفاداری کا اقرار تو محض ایک مذہبی ڈھکوسلہ ہے، اگر انسان اندر سے ہی اس چیز کے لیے راضی نہ ہو یا اس کی نیت نہ رکھے۔ پس پنڈت، پروہت، اگنی اور پھیرے یہ سب محض دکھاوا ہیں، ہماری شادی ہوگی، سب کے سامنے ہوگی، رشتہ داروں کے آشیر باد کے ساتھ ہوگی، کڑوڑوں روپے خرچ کرکے ہوگی
لیکن بغیر کسی مذہبی رسم کی ادائیگی کے ہوگی کیونکہ معاشرتی و عائلی معاملات میں خدا نہیں انسان خود حاکم و شریک ہوتا ہے۔ پس اس کے لیے گواہ اگنی یا کوئی خدا نہیں بلکہ زوجین کے دل ہیں۔ لیجئے جناب، انتہائی دلکش پیرائے میں آپ کی نئی نسل کو کتنا “خوبصورت” پیغام دے دیا گیا ہے کہ مذہب وذہب بس سب ڈھکوسلہ ہے، اصل تو انسان کا دل ہے۔ بعینہٖ جیسے پردہ آنکھ کا نہیں دل کا ہونا چاہیئے۔
آخری قسط
چلیں جی ریالٹی شو کی دو اقساط گزر گئیں اور اب تیسری اور آخری قسط دیکھی جارہی ہے جس کا عنوان ہے “آل یو نیڈ از لو (All you need is Love) ” یعنی آپ کو بس پیار چاہیئے۔
یہاں بھی اصل زندگی کےدو جوڑوں کی کہانی دکھائی گئی ہے۔ ایک جوڑا نہایت امیر ہے، لڑکا سندھی ہے اور لڑکی ہائی پروفیشنل خاتون ہیں جو ایک ہندو باپ اور مسلم ماں کے ہاں پیدا ہوئی ہیں، تاہم جب وہ چھوٹی تھیں تو ان کی ترقی پسند ماں نے ان کو یہ باور کروادیا تھا کہ ان کو مکمل آزادی ہے کہ وہ ہندو مذہب اختیار کریں یا مسلمان بن جائیں یا پھر چاہیں تو سرے سے کوئی مذہب ہی اختیار نہ کریں کیونکہ مذہب انسان کی زندگی کا نہایت نجی معاملہ ہے۔
خیر اس ضمن میں خاتون کس مذہب کی پیروکار ہیں، ایسا کچھ نہیں دکھایا جاتا۔ تاہم ان کی بھی کڑوڑوں روپے خرچ کرکے ایک انتہائی عالیشان شادی ہوتی ہے جو ہندو رسومات کے تحت ادا کی جاتی ہے۔ یہ تو تھا پہلا جوڑا۔
گویا ڈھائی اقساط میں اب تو جو دکھایا گیا وہ سب کچھ نہ صرف بہت “بے ضرر” ہے بلکہ بہت خوبصورت اور زندگی گزارنے کا “اصل” طریقہ ہے۔ اب ناظر پوری طرح پروگرام کے سحر میں گرفتار ہوچکا ہے، اس کی ذہن سازی بھی کسی حد تک مکمل ہوچکی ہے۔
جوان ہوتی ہوئی عمر میں جب کہ ابھی نوجوان نسل کا ذہن کچھ خاص پختہ نہیں اس کو یہ چکا چوند شادیاں اور یہ خدا بیزار تہذیب جو انسانی حقوق اور حریتِ فکر کے دلفریب اور نہایت خوش نما نعروں میں لپیٹ کردکھائی گئی ہے، اپنی زندگی گزارنے کا ڈھنگ و منھج معلوم ہونے لگتی ہے۔
ہم جنس پرستی
پس اب صحیح وقت ہے کہ حریتِ فکر و عمل کے نام پر تابوت میں آخری کیل ٹھوک دی جائے اور یوں تین اقساط میں دکھائے جانے والے چھ جوڑوں میں سے آخری جوڑا سب سے آخری قسط میں رونما ہوتاہے اور وہ ہے ہندوستان گووا (Goa) میں بسنے والا ایک ہم جنس پرست جوڑا۔ یعنی دو مرد جنہوں نے شادی کررکھی ہے۔ یہ شادی صرف مذہب سے ہی نہیں بلکہ معاشرے سے بھی بغاوت تھی۔
لیکن کیا دو انسانوں کو اپنے طور پر جینے کا حق نہیں ہے؟ کیا اکیسویں صدی میں بھی انسان یہ خیال کرکے اپنے زندگی گزارے گا کہ دوسرے کیا سوچیں گے یا پھر وہ اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کا حق دار ہوگا؟ نہیں! اب وقت آگے نکل چکا ہے، اب انسان بیدار ہوگیا ہے۔
وہ مذہب اور معاشرے کی فرسودہ رسومات سے آزاد ہے۔ ساتھ رہنے کے لیے اصل وجہ صرف اور صرف پیار ہے جو اس بات سے ماوراء و بالاتر ہوتا ہے کہ دو انسان جو ساتھ رہنا چاہتے ہیں وہ مرد و عورت ہیں یا مرد و مرد یا عورت و عورت۔ اصل چیز بس پیار ہے۔ مرد و عورت اور حرمت کے رشتے وغیرہ یہ سب خدا کے نام پر بنائے ہوئے قدیم انسانوں کے دقیانوسی خیالات ہیں جن کو اب ترک کرکے آگے بڑھنا ہی انسانیت کی معراج اور تکمیلِ آدمیت کا تقاضہ ہے۔
یہ ہم جنس پرست جوڑا اپنی پوری کہانی بیان کرتا ہے کہ کیسے ایک بار (Bar) میں وہ دونوں مرد ملتے ہیں اور ایک دوسرے کو دیکھتے ہی ان کو ایک دوسرے سے لو ایٹ فرسٹ سائٹ (Love at First Sight) یعنی پہلی نظر کی محبت ہوجاتی ہے۔ پہلا مرد ہندوستانی ہے جبکہ دوسرا جرمنی نژاد جو ہندوستان گووا میں نوکری کرتا ہے اور پچھلے دس سالوں سے ہندوستان میں ہی مقیم ہے۔
ابتداً دونوں کے گھر والے ان کے ہم جنس پرست ہونے پر پریشانی کا شکار ہوتے ہیں اور اس کو کوئی بیماری سمجھتے ہیں تاہم مابعد وہ یہ تسلیم کرلیتے ہیں کہ “قدرت” نے ان کے بچوں کو ایسا ہی پیدا کیا ہے، وہ دوسروں سے الگ ضرور ہیں لیکن غلط نہیں اور ان کو بھی ان کی زندگی پوری آزادی سے گزارنے کا حق ہے۔ پس یہ جوڑا شادی کا ارادہ کرتا ہے جس کے لیے وہ جرمنی کے کیتھولک چرچ سے رابطہ کرتا ہے اور تھوڑی بہت مخالفت کے بعد ان کو چرچ شادی کی اجازت دے دیتا ہے اور بڑی دھوم دھام سے چرچ میں ان کی شادی ہوجاتی ہے۔
اب چونکہ شادی جرمنی میں ہوئی ہوتی ہے جس میں ایک فریق کے رشتہ دار شرکت نہیں کرپاتے چنانچہ شادی کی یہ تقریب ہندوستانی انداز میں دوبارہ گووا میں منعقد کی جاتی ہے جہاں مہندی مایوں سے لیکر بارات تک تمام تقریبات ہوتی ہیں، بس فرق یہ ہوتا ہے کہ مہندی دونوں کو لگتی ہے، بارات بھی مشترک ہوتی ہے۔ اور یہ سب اس قدر مسحور کن پیرائے میں دکھایا جاتا ہے کہ ناپختہ ذہن یہ سب دیکھ کر فرطِ جذبات سے نمناک ہوئے بغیر نہ رہ سکے کہ پیار جیسے خوبصورت جذبے کو بھگوان کے نام پر انسان نے مرد و عورت کے مابین مخصوص کرکے کس قدر “ظلم” کیا ہے۔
یہ جذبات مزید شدت اختیار کرجاتے ہوں گے جب یہ دکھایا جاتا ہے کہ ایک مرد کے ہندوستانی رشتہ دار بغیر کسی اعتراض کے نہایت خوشدلی سے ہندوستان میں منعقد ہونے والی شادی کی اس تقریب میں شرکت کرتے ہیں اور یوں دقیانوسی مذہب و معاشرہ ہار جاتا ہے اور پیار جیت جاتا ہے۔
ایسا ایک نہیں ہر دوسرا پروگرام ان اسٹریمنگ چینلز پر پڑا ہوا ہے جو آپ کے بچے آپ کے علم میں لائے بغیر دیکھتے ہیں اور غیر محسوس طریقے سے اپنی ذہن سازی کررہے ہوتے ہیں۔ بعینہٖ یہی صورتحال بیسیویں صدی میں مغرب نے پرنٹ میڈیا کے ذریعے برپا کی تھی تو اللہ تعالیٰ نے اس وقت سید مودوی جیسا مردِ مجاھد پیدا کردیا تھا جس نے روایتی اسلام کی تبلیغ کے ساتھ ساتھ مغرب کے پیش کردہ ہر فرسودہ فلسفۂ زندگی کا نہ صرف منہ توڑ جواب دے کر اس کی قباحت کو آشکارہ کیا تھابلکہ مغرب کی طرف سے اسلام پر کیے گیے رکیک حملوں کی رکاکت کو بھی طشت از بام کرکے رکھ چھوڑا تھا۔ اب بات پرنٹ میڈیا سے نکل کر الیکٹرانک میڈیا تک آگئی ہے۔
بہت ضرورت ہے کہ آج بھی کوئی مردِ مجاھد اٹھ کر سید مودودی کی طرح ان بکواسات کا منہ توڑ جوب دے اور میڈیا کی طاقت کو صرف اسلام کے دفاع میں نہیں بلکہ مغرب کے افکارِ باطلہ کی حقیقت واضح کرنے کو بھی استعمال کرے۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب مسلمان گھر وں میں بھی ہم جنس پرست شادیاں ہونگی اور ہر دوسرا مسلمان گھرانہ مسلم ممالک میں رہتے ہوئے کرسمس اور ہیلوئن منارہا ہوگا۔ میڈیا کی طاقت سے انکار یا پھر دشمن کے ہتھیار سے دشمن کا گلا نہ کاٹنے کی پالیسی مسلمانوں کے لیے سخت ضر رساں ثابت ہورہی ہے۔
تحریر: محمد فھد حارث