گوشت خوری کا مسئلہ

گوشت خوری کا مسئلہ

محمد علقمہ صفدر ہزاری باغوی

آج کل بہت سے ایسے لوگ ہیں جو گوشت خوری پر طرح طرح کے بے جا سوالات و اعتراضات کے ساتھ ساتھ گوشت خوری کے مقابلے میں سبزی خوری (vegetarianism) کو نظریاتی طور پر فروغ دیتے ہیں اور اسے ایک عالمی تحریک بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کچھ لوگ تو سبزی خوری کو انسانی صحت کے لیے زیادہ مفید بتاتے ہیں جبکہ گوشت خوری کو سرے سے ہی مضر، اور بعض لوگ گوشت خوری کے لیے جانوروں کے ذبح کرنے کو جانوروں پر ظلم قرار دیتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اپنے کام و دہن کے ذائقے اور لذت کے لیے جانوروں کا قتل ایک غیر انسانی رویہ ہے اور جانوروں پر سراسر ظلم ہے۔ ذیل کی سطور میں ہم چند ایسے ہی دلائل کا تجزیہ پیش کریں گے جس سے واضح ہو جائے گا کہ گوشت خوری نا انسانی صحت کے لیے مضر ہے اور نہ ہی یہ جانوروں پر ظلم ہے۔

                   جس طرح یہ بات ممکن ہے کہ بعض مخصوص حالتوں میں کچھ سبزی یا غذا انسانی صحت کے لیے غیر مفید بلکہ ضرر رساں ہوتی ہے ایسے ہی اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ گوشت بھی بعض مخصوص حالتوں میں منفی اثر پیدا کر سکتا ہے اور جس طرح یہ بات بھی مشاہدے میں آتی رہتی ہے کہ بعض صحت افزا اور مفید غذائیں بھی زیادہ استعمال کی صورت میں انسانی جسم کے لیے مہلک ثابت ہوتی ہے اسی طرح یہ بات بھی ممکن ہے کہ گوشت بھی زیادہ استعمال کی صورت میں مہلک ثابت ہو جائے، یہ تو چند استثنائی صورتیں ہیں ( جن کو لیکر نہ کوئی اعتراض کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی بالکلیہ گوشت خوری کو منع کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس رو سے تو پھر تمام ہی غذائیں ممنوع قرار پائیگی جو کہ غیر منطقی بات ہے ) جبکہ اس کے علاوہ عمومی احوال و کوائف میں گوشت خوری مفید اور صحت افزا ہوتی ہے جیسے کہ محققین اور ماہرینِ طب کا کہنا ہے کہ ” غیر نباتاتی خوراک یعنی انڈا، مچھلی اور گوشت پروٹین کا بہت اچھا ذریعہ ہے اس میں حیاتیاتی طور پر مکمل پروٹین یعنی 8 ضروری امائنوں ایسڈز پائے جاتے ہیں جنہیں جسم تیار نہیں کرتا ہے اس لیے یہ خوراک کے ذریعے سے لینی چاہیے، گوشت میں فولاد وٹامن بی ون اور نیاسن ( Niacin ) بھی شامل ہوتے ہیں (ڈاکٹر ذاکر نائیک)

                        اگر آپ جانوروں کے دانتوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ کچھ جانور تو ایسے ہیں جن کے دانت نوکیلے ہوتے ہیں جیسے کہ شیر، چیتا اور بھیڑیا وغیرہ تو ان نوکیلے دانت والے جانوروں کے لیے گوشت خوری ہی موزوں اور مناسب ہے سبزیاں ان کے لائق نہیں، جبکہ کچھ جانوروں کے دانت چوڑے ہوتے ہیں جیسے گائے، بھینس، بیل اور بکری وغیرہ تو ان کے لیے گھاس اور اناج ہی موزوں ہے، حالانکہ انسانوں کے دانت دونوں طرح کے ہوتے ہیں، چوڑے اور نوکیلے دانت دونوں اپنے ضروریات کے لیے تخلیق کی گئی ہے اس لیے انسانوں کے دانت گوشت اور سبزی دونوں کے لیے مناسب اور موزوں ہے انسانوں کے خالق یعنی اللہ تبارک و تعالی نے انسانوں کے دونوں ضرورتوں کو سامنے رکھ کر دونوں قسم کے دانت بنائے ہیں، 

         پھر اگر آپ انسانی نظام ہضم کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ گوشت اور سبزی دونوں کو بآسانی ہضم کر سکتی ہے، اگر خالق کائنات یہ چاہتا کہ ہم صرف سبزیاں اور پھل کھا کر ہی زندگی بسر کریں تو وہ ہمیں گوشت کو ہضم کرنے والا قوت ہاضمہ ہی کیوں عطا کرتا ؟ نوکیلے دانت ہی کیوں دیتے؟ اس سے پتہ چلتا ہے کہ خالق کائنات نے انسان کے اندر فطری طور گوشت کھانے والی دانت اور ہضم کرنے والی قوت دونوں ودیعت کی ہیں تا کہ انسان اپنے لحاظ سے دونوں صلاحیتوں کو استعمال میں لا کر گوشت اور سبزی دونوں کھا سکے۔

         گوشت خوری کے ممانعت کے لیے معترضین دوسرا مقدمہ اس طرح قائم کرتے ہیں کہ جانوروں کا ذبح کرنا جانوروں پر ظلم ہے، انسانوں کا جانوروں کے ساتھ یہ غیر انسانی اور تشدد پسندانہ رویہ ہے جس سے جانوروں کو سخت اذیت اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس لیے گوشت کے بجائے سبزی کھانی چاہیے جس میں نہ جان ہوتی ہے اور نہ ہی اسے تکلیف ہوتی ہے، معترضین کا یہ کہنا کہ سبزی میں جان نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کو کاٹنے اور کھانے سے تکلیف ہوتی ہے یہ بات صدیوں پہلے معقول ہو سکتی تھی لیکن آج کے سائنس نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ پودوں بلکہ تمام نباتات میں بھی روح اور جان ہوتی ہے اور کاٹنے کے وقت وہ بھی تکلیف محسوس کرتی ہیں تاہم ان کی چیخ و پکار انسان اس وجہ سے نہیں سن سکتے کیونکہ انسان کی سماعت ایک خاص حد تک ہے ( 20 ہرٹز تا 20000 ہرٹز ) کوئی آواز اگر اس رینج سے کم ہو تو وہ انسانی کان کے سماعت میں نہیں آ سکتی، کتے چونکہ 40000 ہرٹز رینج تک آواز سن سکتے ہیں اس لیے وہ دور کی آوازوں کو بھی سن لیتے ہیں، ایک امریکی کسان نے تحقیق کر کے ایک ایسا آلہ ایجاد کیا جو پودوں کی چیخ و پکار کو اس طرح تبدیل کر دیتا ہے کہ انسان اسے سن سکتے کہ اس کے ذریعے سے وہ فوراً یہ محسوس کرنے کے قابل ہو جاتا کہ پودا کب پانی کے لیے چیخ رہا ہے ؟ جدید تحقیقات نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ پودے خوشی اور غم بھی محسوس کرتے ہیں اور چلا بھی سکتے ہیں (ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب) اس لیے یہ کہنا کہ پودوں میں جان نہیں ہوتی ہے اور جب جان نہیں ہوتی ہے تو پھر نباتات تکلیف کو کیوں کر محسوس کر سکتا ہے، یہ بالکل موجودہ سائنسی تحقیق کے خلاف اور غیر مصدقہ ہے۔

جو لوگ گوشت خوری کو جانوروں پر ظلم قرار دیتے ہیں وہ ذرا بتلائیں کہ گائے، بکری اور بھینس وغیرہ کا دودھ نکال کر جو تمام لوگ پیتے ہیں اس کو ظلم کیوں نہیں کہتے؟ اگر گوشت کھانا جانوروں پر ظلم ہے تو ان کا دودھ جو کہ ان کے بچوں کا حق ہے اس کا پینا انصاف کیوں قرار پائے گا ؟ اسی طرح جو کسان جانوروں کی مرضی کے بغیر جانوروں کو مار مار کر ان سے کھیت جوتتے ہیں اور ان کے اگائے ہوئے غلے کو پوری دنیا کے لوگ کھاتے ہیں اس کو کوئی ظلم کیوں نہیں کہتا ؟ اسی طرح گھوڑا، اونٹ، ہاتھی اور گدھے وغیرہ پر سواری کرنے اور ان سے بار برداری کا کام لینے کو کوئی ظلم کیوں نہیں کہتا ؟ چڑیاں گھروں میں ہزاروں لاکھوں جانوروں کو صرف حکومت کے مالی مفاد کے لیے عمر بھر قید رکھا جاتا ہے آخر ان سے ان کے آزادی چھیننے کا حق حکومت کو کس نے دیا ؟ کیا یہ سب ظلم نہیں ہے؟ کیا ان جانوروں کا قید کرنا ان کی حق تلفی نہیں ہے؟

           دنیا میں جتنے بھی جاندار ہیں اکثر کی غذا کوئی نہ کوئی جاندار یا کیڑا مکوڑا ہے، سمندر کی بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو کھا جاتی ہے، بلی چوہے کو کھا جاتی ہے، چھپکلی کیڑوں کو کھا جاتی ہے تقریباً تمام جانوروں کا غذا اور خوراک کوئی دوسرا جانور ہوتا ہے ان کو کوئی عقلمند نہ ظالم کہتا ہے اور نہ ہی اس بے زبان جانور کے کھانے کو ظلم کہتا ہے جب ان بڑے جانوروں کا چھوٹے جانوروں کے کھانے کو، صرف حکومت کے مالی مفاد کے لیے جانوروں کے قید کرنے کو، چھوٹے چھوٹے جانوروں کے معمولی نقصان پہنچانے پر جان سے مار دینے کو، بیل وغیرہ سے کھیت جوتنے کو، ہاتھی، اونٹ اور گدھے سے سواری کے کام لینے کو جب کوئی بھی عقلمند ظلم نہیں کہتا تو صرف انسان کے جانوروں کو ذبح کر کے کھانے کو کیوں ظلم قرار دیا جا سکتا ہے؟ آخر کون سی ایسی منطقی وجہ ہے جس کی رو سے جانوروں کا ذبح کرنا تو سراسر ظلم ٹھہرے اور چڑیاں گھروں میں عمر قید کرنا، کیڑے مکوڑوں کو تباہ کرنا، ہل چلاتے وقت جانوروں کو مارنا قرینِ انصاف قرار پائے؟

اس لیے یہ نظریہ ہی غلط ہے کہ جانوروں کا ذبح کرنا ظلم ہے بلکہ صحیح نظریہ یہ ہے کہ خالق کائنات نے پوری کائنات کو انسان ہی کی خدمت کے لیے پیدا کیا ہے اور دنیا کی ہر چیز انسان ہی کی خدمت میں اپنے اپنے طور پر لگی ہوئی ہے، ذرۂ زمین سے لے کر ضیاے آفتاب تک، قطرے سے لے کر دریاؤں تک، صحراء و بیاباں سے لے کر معمورۂ جہاں تک، ایک چھوٹی سے چھوٹی مخلوق سے لے کر بڑی سے بڑی مخلوق تک تمام کے تمام چیزیں انسان کی خدمت کے لیے پیدا کی گئی ہے اور وہ انسان ہی کی خدمت میں لگی ہوئی ہے اور ایک عقلمند انسان ہر چیز کو بصیرت و حکمت کے ساتھ اس کے موقع و محل میں استعمال کرتا ہے اور اتنا ہی نہیں بلکہ معاشرے کا ایک ادنیٰ انسان بھی اعلٰی اور اونچے ذمہ داریوں والے انسان کی خدمت میں شب و روز لگے رہتے ہیں ایک ادنیٰ سپاہی اپنے سے اعلی افسر کے لیے اور وہ اپنے سے اعلیٰ افسر کے لیے شب روز کی خدمت میں مصروف رہتے ہیں، ایک بڑا ذمہ دار انسان کے پیچھے اس کے سینکڑوں حفاظتی دستے رہتے ہیں اور ایک اعلی انسان کے لیے سینکڑوں کی قربانی لی جاتی ہیں ان سب کو تو کوئی بھی عقلمند ظلم نہیں کہتا تو جانوروں کا ذبح کرنا کیوں ظلم قرار پائے گا؟

کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ جانوروں کے کھانے سے ہمارے کردار اور رویوں پر اثر پڑتا ہے، ان کے گوشت کھانے سے ان کی عادتیں ہمارے اندر بھی منتقل ہو سکتی ہیں، یہ بات کسی حد تک صحیح ہے اسی لیے اسلام نے صرف پاکیزہ چیزوں اور پاک صفت جانوروں کو حلال کیا ہے، جن جانوروں کو کھایا جاتا ہے مثلاً گاے، بیل، بکری اور بھینس وغیرہ یہ سب امن پسند اور پاکیزہ صفت جانور ہیں برخلاف ان جانوروں کو جن کو اسلام نے حرام قرار دیا ہے مثلا خنزیر، کتا، بھیڑیا، چیتا اور شیر وغیرہ ان سب کا گوشت نہیں کھایا جاتا ہے کیونکہ ان کی طبیعت و فطرت میں امن پسندی اور پاکیزہ نفسی نہیں ہے اور نہ ہی ان عادات اطوار مناسب ہوتے ہیں لہذا اسلام میں اس طرح کے جانور حرام قرار دیے گئے ہیں۔

14/6/2024

اپنی راۓ یہاں لکھیں