*گردشِ ایّام*
(مولانا صابر حسین ندوی)
اللہ تعالی کی نعمتوں، نوازشوں اور رحمتوں سے انسان گھرا ہوا ہے، اس کے آس پاس، زندگی کی پہلی سانس سے لیکر اخیر تک رحمت ہی رحمت ہے، اگر کہیں کوئی زحمت، مصیبت نظر آتی ہو تو وہ صرف انسان کی آزمائش، اسے بہتر بنانے کی کوشش اور بھٹکتے قدموں کو حق کی طرف لوٹانے کی راہ ہے، بہت سی نعمتیں ایسی جن کے متعلق جاننے اور احساس کرنے کیلئے انسان کو دل و دماغ پر زور ڈالنے کی ضرورت ہوسکتی ہے، مگر اس کی زندگی کا دورانیہ جس صبح و شام پر ہے، اگر وہ محض اسی گردش پر غور کرلے تو صدائے لاالہ کو پالے؛ دراصل صبح و شام ہماری نظروں کے سامنے ہے، ایک خاص وقت میں سورج طلوع ہوتا ہے اور پھر ڈوب جاتا ہے، اس کے بعد شام کی تاریکی، کالے کمبل کی طرح پھیلتی جاتی ہے، جو کچھ صبح نے روشن کیا تھا وہ اندھیرے کی تہہ میں ڈوبتا جاتا ہے، روشنی سے تر بتر ہر شئی شب دیجور کی گود میں سمٹتی جاتی ہے، دن کا تھکا ماندہ، محنت و مزدوری کیا ہوا، اپنے آپ کو روزی روٹی کی جستجو میں گھلایا ہوا شخص جوں ہی شام ہوتی ہے تو راحت کی نیند لینے، دن بھر کی مزدوری لیکر گھر جانے اور بیوی، بچوں کی ضرورتیں پوری کرنے؛ نیز اس ضرورت میں اپنا سکون تلاش کرنے کوشش کرتا ہے، دن بھر لگ بھگ بارہ سے سولہ گھنٹے کا یہ دورانیہ درحقیقت صبح، روشنی اور سورج کی ماتحتی میں اپنے آپ کو جلانے، تھکانے اور مٹانے کیلئے ہوتا ہے، مگر اللہ تعالی اسی سے متصل شب میں رات کی چاندنی، چاند کی رونق اور سکون کے پل عنایت کرتا ہے؛ تاکہ وہ شخص جب دوبارہ شب کی تاریکی چھٹے، یہ دبیز پردے سورج کی کرنوں سے پھٹیں تو انسان تازہ دم ہو کر ایک نئی منزل کی جانب کوچ کر جایے، ذرا سوچئے! اگر صبح و شام کا یہ نظام نہ ہوتا تو پھر کیا ہوتا؟ انسان کیلئے راحت رسانی کیلئے کیا رہ جاتا؟ دنیا میں بعض ممالک ایسے ہیں جہاں کئی ماہ تک شام نہیں ہوتی، اور پھر جب رات ہوجائے تو صبح نہیں ہوتی، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ نے اپنے سفر ناموں میں اس کی روداد لکھی ہے، ان کی دقتوں اور دشواریوں کو بتلایا ہے، وہ لوگ نیند اور سکون کیلئے حیران کن بندوبست کرتے ہیں، ان کی زندگی گھڑی کی دو سوئیوں پر چلتی ہے، مصنوعی تاریکی ان کیلئے انمول ہے، نماز، روزے اور دیگر عبادات کیلئے کشمکش میں مبتلا رہتے ہیں، سائنسی اعتبار سے جو کچھ کہا جائے کہ سورج اور چاند ہماری زندگی کی شہہ رگ ہیں، مزید تحقیقی اور تجزیاتی و تجرباتی باتیں پیش کریں؛ لیکن ہمارے یہی کافی ہے کہ ان کے بغیر دن کی محنت اور رات کی راحت محال ہے، قرآن مجید میں کئی جگہ چاند و سورج کا تذکرہ آیا ہے، جن میں انہیں مرکزی اہمیت دی گئی ہے، دنیا کی گردش اور شب و روز کا محور بتانے کے ساتھ اللہ تعالی کی عظیم قدرت و نشانی سے تعبیر کیا گیا ہے.*
*ایسے ہی ایک موقع پر ارشاد ربانی ہے:ہُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَآءً وَّ الْقَمَرَ نُوْرًا وَّ قَدَّرَہٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَ الْحِسَابَ ؕ مَا خَلَقَ اللّٰہُ ذٰلِکَ اِلَّا بِالْحَقِّ ۚ یُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ،اِنَّ فِی اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّہَارِ وَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَّقُوْنَ (یونس:٥-٦) “وہی خدا ہے جس نے سورج کو چمکتا ہوا اور چاند کو روشن بنایا ، اور اس کے لئے منزلیں مقرر کردیں ؛ تاکہ سالوں کی تعداد اور ( تاریخوں کا ) حساب جان سکو ، اﷲ نے ان کو بے فائدہ پیدا نہیں کیا ہے ، اﷲ ان لوگوں کے لئے نشانیوں کو واضح فرمارہے ہیں ، جو سمجھ دار ہیں، بے شک رات اور دن کے بدلنے میں اور ان چیزوں میں جو اﷲ نے آسمانوں میں اور زمین میں پیدا کی ہیں ، ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں ، جو اﷲ سے ڈرتے ہیں” – – -اللہ تعالی نے دن کیلئے ضیاء جو عام روشنی ہو اور رات کیلئے نور کا لفبمظ استعمال کیا ہے، جس سے انسان کو قلبی سکون میسر ہوتا ہے، پھر ان دونوں کے اختلافات میں انہیں لوگوں کیلئے عبرت و موعظت کا سامان رکھا ہے جو اللہ سے ڈرتے ہوں، تقوی اور پرہیزگاری ان کا شیوہ ہو، استاد محترم فقیہ عصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی حفظہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر یوں فرمائی ہے: “اللہ تعالیٰ نے ہماری دنیا کے لئے دو بڑی اہم چیزیں پیدا فرمائی ہیں ، ایک : سورج ، جو دن میں روشن ہوتا ہے اور جس کی روشنی بہت تیز ہوتی ہے ؛ تاکہ لوگ کسب ِمعاش اور زندگی کے دوسرے مسائل کو اچھی طرح انجام دے سکیں ، دوسرے : چاند ، جو رات میں روشن ہوتا ہے ، جس کی روشنی ٹھنڈی اور دھیمی ہوتی ہے ؛ تاکہ رات کی نیند اور آرام میں خلل نہ ہو ، دن اور رات دونوں کی ضروریات کے لحاظ سے یہ دونوں ہی روشنیاں اللہ کی بہت بڑی نعمتیں ہیں ؛ چنانچہ عربی زبان میں ضیاء کے معنی ’ تیز روشنی ‘ کے اور’ نور ‘ کے معنی معتدل روشنی کے ہیں ( مفاتیح الغیب : ۸؍۲۷۸) — منزل کے معنی رکنے ، ٹھہرنے اور اُترنے کی جگہ کے ہیں ، مطلب یہ ہے کہ سورج اور چاند کی گردش کے لئے اللہ تعالیٰ نے دائرے متعین کردیئے ہیں ، اسی دائرہ میں رہتے ہوئے سورج اورچاند اپنی گردش مکمل کرتے ہیں اور ہر سال اسی نظام کے مطابق مہینے آتے ہیں اور موسموں کی تبدیلی رونما ہوتی رہتی ہے ، یہ اللہ تعالیٰ کے وجود کی زبردست نشانی ہے کہ ہزاروں سال سے اپنے مقررہ دائرہ سے ہٹے بغیر سورج ، چاند اور ہمارے نظام شمسی سے جڑے ہوئے تمام سیارے گردش کر رہے ہیں ، نہ ان میں کوئی تصادم ہوتا ہے ، نہ ان کی رفتار میں فرق آتا ہے ، نہ ان کی رفتار اورروشنی کے خزانے میں کوئی کمی واقع ہوتی ہے ، نہ فضاء میں تیرتے ہوئے ان ستاروں کو کسی مرمت کی ضرورت پیش آتی ہے ، اتنا بڑا نظام کسی مدبر ، منتظم اور کنٹرولر کے بغیر کیسے قائم رہ سکتا ہے — غور کیا جائے تو یہی آخرت کے لئے بھی دلیل ہے کہ کائنات کے خالق و مالک نے اتنا بڑا نظام کسی مقصد کے بغیر کیوں کر قائم کیا ہوگا اور انسان کو اتنی ساری نعمتوں کا حساب و کتاب لئے بغیر کیسے چھوڑ دیا جائے گا ؟”* (آسان تفسير قرآن مجید)
✍🏻 *محمد صابر حسین ندوی*