چراغِ مصطفوی اور شرارِ بولہبی
ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ
آج مسلم دنیا میں میدانِ سیاست کے بڑے بڑے جغادری اور سورما یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے سیاسی مفادات،شخصی اغراض اور بین الاقوامی اثر ونفوذ کا تحفظ اور بقا واستمرار اُسی وقت ممکن ہے جب کہ وہ اپنے ملکوں کے بڑے بڑے دینی مناصب ومکاتب کو اپنی تحویل میں لے لیں اور دینی تحریکوں اور جماعتوں میں مغربی تہذیب کی تابعداری اور باج گزاری کے جراثیم پھیلا دیں۔ امتِ مسلمہ کے جسد میں مدافعت اور مقابلے کی جو بھی قوت اور صلاحیت پائی جاتی ہے اسے ختم کر دیں تاکہ انجامِ کار جب مغربی تہذیب وثقافت کو حکومت کے زور پر نافذ کیا جائے تو کوئی ایک آواز بھی مخالفت اور مزاحمت میں بلند نہ ہو پائے۔
یہی وجہ ہے کہ آج بڑی بڑی مغربی طاقتیں بحث وتحقیق کے مراکزپر،باریکی کے ساتھ حالات وکوائف کا جائزہ لینے والے اور عالمی صورتحال کے بارے میں رپورٹیں پیش کرنے والے اداروں اور تھنک ٹینکوں پر بے تحاشا پیسہ خرچ کر رہی ہیں۔ ان تمام اداروں اور مرکزوں کا واحد مقصد یہ ہوتا ہے کہ مغربی تہذیب وثقافت کے خلاف دنیا بھر میں کہیں پر بھی غم وغصہ پایا جاتا ہے تو اس پر کڑی نظر رکھی جائے۔خاص طور سے دینی تحریکات اور اسلامی جماعتوں کی ہر ایکٹیوٹی پر ہردم نگاہ رکھی جائے۔
اس کام کو کرنے والے سب سے زیادہ ادارے صوبہ ہائے متحدہ امریکہ میں قائم ہیں۔ ان کی بنیادی ذمے داری یہ ہوتی ہے کہ دنیا بھر میں اسلام کے نام پر کام کرنے والی جماعتوں اور تحریکوں پر گہری نگاہ رکھیں۔ ان میں جو تحریکیں اور فکری جماعتیں یا افراد و شخصیات مغربی بالادستی اور مغربی تہذیب وتمدن کے ساتھ بیش از بیش مطابقت(Maximum Compatibility) کی داعی ہوں ان کی فہرست الگ کر دی جائے تاکہ ان سے بالکل چھیڑ چھاڑ نہ ہو یا انھیں کسی بھی طرح سے پریشان نہ ہونے دیا جائے۔ اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے مغربی طاقتیں جو وسائل وذرائع اختیار کرتی ہیں انھیں بالعموم عالمی حالات پر نظر رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے،یعنی یہ کہ متعلقہ ملکوں کے حکمرانوں پر براہِ راست یا بالواسطہ دبائو ڈالا جاتا ہے کہ وہ اپنے ملکوں میں مغربی تہذیب وثقافت سے ہم آہنگ ہونے والی، یا کم از کم اس کے خلاف نہ جانے والی آئیڈیا لوجیوں کی سرپرستی اور ہمت افزائی کریں اور مغربی مفادات کے خلاف اٹھنے والی تحریکوں اور جماعتوں پر لگام کسیں۔
اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ترقی پذیر ممالک کے ذرائعِ ابلاغ اور میڈیا پلیٹ فارموں پر لبرل طبقے کی اجارے داری قائم ہے۔ بتانے کی ضرورت نہیں کہ لبرل ازم خالصتاً ایک مغربی آئیڈیالوجی ہے۔تیسری دنیا کے ملکوں میں میڈیا کوریج کا حق اور سہولت صرف انہی لوگوں کو دی جاتی ہے جو مغربی تہذیب وثقافت کے علم بردار ہوتے ہیں۔اونچے اونچے سرکاری عہدے اور مناصب اُن مفکروں اور دانشوروں کو عنایت کیے جاتے ہیں جو اصلاح ودعوت کا مغرب پسندانہ اسلوب اختیار کرتے ہیں اور قوم کے اندر پائی جانے والی ایمانی واعتقادی خود اعتمادی کو مزید کمزور کرنے اور مغربی درآمدات کے مقابلے میں اپنی تہذیب وثقافت پر فخر وناز کے رجحان کو مٹانے کے درپے رہتے ہیں۔
مسلم عوام کے آگے مغربی تہذیب وثقافت اور مغربی دنیا کی خوبیوں اور ترقیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اور مشرقی دنیااور اس میں بھی اسلامی دنیا کو تمام خامیوں اور پستیوں کا مرقع بنا کردکھایا جاتا ہے۔مغربی دنیا کا وصف اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ وہ تہذیب وتمدن کا گہوارہ ہے، زندگی کے تمام شعبوں میں وہ ہم سے آگے ہے،اب رہتی دنیا تک اسی تہذیب وتمدن کا غلبہ قائم رہے گا وغیرہ وغیرہ۔اس کے برعکس مغربی دنیا میں روبہ ظہور زوال وانحطاط کے پہلوئوں کو جان بوجھ کر چھپایا جاتا ہے،بالخصوص زندگی کی بے سمتی وبے مقصدی کے حوالے سے۔
اس نقطۂ نظر سے ہرگز گفتگو نہیں کی جاتی کہ مغرب کا متمدن سماج آج اپنے خالقِ حقیقی سے ناواقف ہے حالانکہ معرفتِ الٰہی کی تحصیل کی خاطر ہی یہ کائناتِ رنگ وبو بنائی گئی تھی۔یہ نہیں بتایا جاتا کہ بے حیائی اور فحش کاری میں یہ تمام ممالک کس قعرِ نجاست میں گر گئے ہیں۔گھناؤنے جرائم کی شرح کتنی بڑھ چکی ہے۔نفسیاتی مریضوں کی کتنی بڑی تعداد رکارڈ میں آچکی ہے۔مایوس کن مادی طرزِ زندگی نے وہاں کیا تباہیاں مچا رکھی ہیں اور وہاں کی زندگی کس طرح مکمل طور سے حیوانی زندگی بنی ہوئی ہے جس میں انسانوں کا سب سے بڑا مقصد ہر ممکنہ طریقے سے لذت کوشی، خود غرضی اور نفع اندوزی بنا ہوا ہے۔
آخر یہی تو وہ طرزِ حیات ہے جس کے بارے میں قرآنِ کریم میں ربِ ذو الجلال نے فرمایا ہے:{وَالَّذِیْنَ کَفَرُوا یَتَمَتَّعُونَ وَیَأْکُلُونَ کَمَا تَأْکُلُ الْأَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًی لَّہُمْ}(محمد،۱۲)’’اور کفر کرنے والے بس دنیا کی چند روزہ زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں، جانوروں کی طرح کھاپی رہے ہیں،اور ان کا آخری ٹھکانا جہنم ہے۔‘‘یعنی جس طرح جانور کھاتا ہے اور کچھ نہیں سوچتا کہ یہ رزق کہاں سے آیا ہے،کس کا پیدا کیا ہوا ہے ور اس رزق کے ساتھ میرے اوپر رزّاق کے کیا حقوق عائد ہوتے ہیں۔اسی یہ طرح یہ لوگ بھی بس کھائے جارے ہیں۔چرنے چگنے سے آگے کسی چیز کی انہیں کوئی فکر نہیں۔(تفہیم القرآن:۵/۲۱)
صوبہ ہائے متحدہ امریکہ آج پوری طرح مختلف مسلم ملکوں میں لبرل طبقے کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ اب یہ بات اہلِ نظر سے ڈھکی چھپی نہیں رہ گئی ہے۔مشہور امریکی سیاست داں ’’لیونارڈ بانڈر‘‘ نے اپنی کتاب ’’اسلامک لبرلزم‘‘(مطبوعہ ۱۹۸۸ئ) میں امریکہ کی بین الاقوامی پالیسیوں کے اس رُخ کو ثبوتوں اور دلیلوں سے بے نقاب کردیا ہے۔(دیکھیںIslamic Libralism: a Critique of Development Ideologies, University of Chicago Press:1988)
امریکہ کا یہ طریقۂ کار اپنے آپ میں کسی کے لیے باعثِ حیرت نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یورپ کی سامراجی قوتوں نے کافی پہلے سے یہی انداز واسلوب اختیار کیا ہوا ہے اور اسی طرح مسلم دنیا میں لبرل ازم کو پھیلانے کی کوششیں کی ہیں۔البرٹ حورانی نے یورپین سامراج کے حوالے سے لکھا ہے:’’یورپی باشندوں کے نمائندے اس بات پر بہ ضد رہتے تھے کہ شمال افریقی ممالک کے اصل باشندوں کو مغربی تہذیب وثقافت کا خوگر بنادیا جائے اور قرآنِ کریم کی وہ تفہیم وتشریح کی جائے جو لبرل ازم کی آئینہ دار ہو۔ اس سلسلے میں ان کا اصول یہ تھا کہ جہاں جہاں بھی یورپی سامراج قائم ہے وہاں کے مقامی باشندوں کو اپنی خاص تہذیب وتمدن کے تناظر میں ترقی دیں، بہ شرطیکہ اس سے سامراجی مصالح متاثر نہ ہوتے ہوں۔‘‘(عربی تھاٹ ان دا لبرل ایج،البرٹ حورانی:ص۴۳۳)
اخیر صدی میں مغربی طاقتوں کی پشت پناہی میں ایسے مسلم مفکرین ودانشوران کی اچھی خاصی تعداد پیدا ہو گئی جو مغربی تہذیب وثقافت کے مطابق اسلامی احکام کی تشریح وتفہیم کرنا اپنا فرضِ منصبی سمجھتے ہیں۔ اس کام میں مدد دینے کے لیے ملک کا مغرب نواز اور مغرب پرست سیکولر میڈیا ہمیشہ آگے آتا رہا۔ چنانچہ یہ مسلم مفکرین ودانشوران اپنے اجتہاد وتعقل کی ساری توانائیاں اُن شرعی احکامات کی توجیہ وتاویل پر خرچ کر دیتے ہیں جو اُن کی دانست میں کسی طرح سے بھی مغربی مفادات ومصالح،مغربی نقطۂ فکر ونظر یا مغربی روایات واقدار سے ٹکراتے ہوتے ہیں۔
ان میں سے بعض لوگ بہت سادہ لوح ہوتے ہیں، اس لیے قرآن وسنت کی من پسند تاویل وتفسیر میں مبالغے سے کام لیتے ہیں اور صریحاً ناقابلِ تحمل دینی تشریحات پیش کرتے ہیں، نتیجتاً مسلم عوام اور سماج پر ان کی پکڑ نہیں بن پاتی اور وہ مغربی آقائوں کے لیے زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہوتے۔ان کے برخلاف اِس جماعت کے ایک دھڑے میں میں فطرتاً مکاری اور عیاری پائی جاتی ہے۔ چنانچہ اس ٹائپ کے لوگ بہ تدریج اپنے افکار وآراء دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔بڑے صبر وضبط کے ساتھ اپنے سینوں میں مچلتے اجتہادی جذبات کوچھپائے رہتے ہیں اور دھیرے دھیرے اُس تناسب کے ساتھ رموزِ نہاں کھولتے ہیں جس پر وہ مأخوذ نہ ہوسکیں اور انھیں منحرف نہ کہا جاسکے۔ ان کا یہ طریقہ سست رفتار تو ہوتا ہے،مگر اس کی اثر آفرینی شک وشبہے سے بالاتر ہے۔
اس طرح کے گمراہ لوگ ہر زمانے میں مختلف اغراض ومحرکات کے تحت ملتے رہے ہیں۔ امام ابن تیمیہؒ اپنے زمانے کے اہلِ بدعات وخرافات کے بارے میں لکھتے ہیں:’’یہی طریقۂ کار ہے ہر اُس شخص کا جو کسی بھی امت میں پائے جانے والے حق اور صواب کے برخلاف کچھ پیش کرنا چاہتا ہے۔وہ لوگوں کے سامنے شروعات میں ایسی باتیں پیش کرتا ہے جنہیں قبول اور ہضم کرنا لوگوں کے لیے آسان ہو۔شیاطینِ جن وانس بالکل ابتدا ہی میں یہ نہیں کرتے کہ دین کے مسلّمات اور عظیم الشان اصولوں کی تردید شروع کر دیں، کیونکہ اگر وہ ایسا کریں گے تو ان کی بات کوئی نہیں مانے گا۔۔۔۔یہاں غرض یہ تنبیہ کرنا ہے کہ باطل کی طرف دعوت دینے والے اور انبیاء ورسل کے لائے ہوئے دینِ حق کی مخالفت کرنے والے ہمیشہ تدریج وتقریب کی حکمتِ عملی پر کار بند رہتے ہیں۔پہلے آسان اور قریب الامکان اور ایسی باتیں پیش کرتے ہیں جنہیں لوگ آسانی سے پچاجائیں اور پھر رفتہ رفتہ دین کی پوری عمارت کو منہدم کرنا اور حقائقِ دین کا انکار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔‘‘[وہذا شأن کل من أراد أن یظہر خلاف ما علیہ أمۃ من الأمم من الحق، إنما یأتیھم بالأسھل الأقرب إلی موافقتھہم فإن شیاطین الإنس والجن لا یأتون ابتداء ینقضون الأصول العظیمۃ الظاہرۃ فإنھم لا یتمکنون۔۔۔والغرض ہاہنا التنبیہ علی أن دعاۃ الباطل المخالفین لما جائت بہ الرسل یتدرجون من الأسہل الأقرب إلی موافقۃ الناس إلی أن ینتھوا إلی ہدم الدین] (بیان تلبیس الجہمیۃ،ابن تیمیہؒ،تحقیق:احمد معاذ حقی:۳/۵۱۱-۵۱۵)
آج مغربی فکر وتہذیب کے دامِ صد رنگ میں پھنسے ہوئے ہوئے بعض اہلِ قلم اس وہم میں مبتلا ہیں کہ بند ذہنیت کے حامل اور قدامت پرست مسلم سماج کے اندر بس وہی ہیں جو کھلی سوچ اور جدید فکری ونظری معلومات کے ساتھ جی رہے ہیں۔حالانکہ ان بے چاروں کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ وہ خود بھی ایک بڑی سیاسی سازش کا آلۂ کار بنے ہوئے ہیں۔ اس سازش کا مقصد یہ ہے کہ دنیا بھر میں ایسے ادارے اور مراکز قائم کیے جائیں جہاں دینِ اسلام کی کاٹ چھانٹ اور مرمت کا کام ہوسکے اور اسے عالمی سیاسی طاقتوں کے مفادات واغراض کے موافق بنایا جاسکے، اور ذہنی وفکری غلاموں کو یہ بھرم دیا جائے کہ مغربی تہذیب ہی ہمہ جہت انسانی ارتقاء کی آخری منزل ہے اور اس سے گریز رجعتِ قہقری اور قدامت پرستی ہے۔
سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اس قماش کے بعض لوگ علمائے اہلِ سنت اور حق پرست داعیانِ دین کو برا بھلا کہتے نہیں تھکتے۔بہ قول اُن کے اِن علمائے حق اور داعیانِ دین کے اندر سیاسی شعور بالکل نہیں پایا جاتا،اور انھیں بدلے ہوئے حالات کا کچھ اندازہ نہیں ہے۔ حالانکہ ان بے چاروں کو خود نہیں پتہ ہوتا کہ وہ خود ہی سیاسی طاقتوں کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بن کر ناچ رہے ہیں۔انھیں مغرب کی غلامی کی بھٹی میں تپایا اورجلایا جارہا ہے، مگر اس شاطری وپُرکاری کے ساتھ کہ انھیں اپنے جلنے اور راکھ ہونے کا بھی چنداں احساس نہیں۔
میرے ایک دیرینہ دوست ہیں جو مجھ سے کہتے رہتے تھے کہ آپ جوہمیشہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف بین الاقوامی طاقتوں نے سازش کر رکھی ہے،کیا یہ حماقت نہیں ہے؟ میں نے ان سے کہا:’’اگر آپ کا تصور یہ ہے کہ امریکہ جیسی عسکری قوت،جس کا مکانی رقبہ پورے ایک برِ اعظم کے برابر ہو،وہ اپنے سیاسی مصالح ومفادات کے بارے میں کچھ نہیں سوچتی؟ اپنی بالا دستی اور غلبے کے راستے میں حارج ہونے والی تہذیبوں اور ثقافتوں کے تعلق سے فکر مند نہیں رہتی؟ مخالف تہذیبوں کے تئیں اس کا طرزِ عمل خاموش تماشائی یا ہنسی ٹھٹھول کرنے والے مسخرے سے زیادہ کچھ نہیں ہے؟اگر آپ کا تصور یہ ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ آج کے زمانے میں کوئی نادان شخص ہی یہ تصور رکھ سکتا ہے۔
پھر کیا ہم قرآن کے بارے میں بھی بوالفضولی کا حکم لگائیں گے جو بار بار کہتا ہے کہ امتِ مسلمہ -جو قیامت تک کے لیے اب تنہا حق کی علم بردار ہے- اس کے بالمقابل باطل طاقتیں ہمیشہ سرگرمِ جہد وعمل رہیں گی اور برابر اس کے خلاف سازشیں کرتی رہیں گی۔پھر امتِ مسلمہ ہی کے ساتھ کیوں،تاریخ کے کسی بھی دور میں اہلِ حق کے خلاف ہمیشہ یہ ہوتا رہا ہے۔اس ارشادِ باری کو ہمیشہ سامنے رکھنے کی ضرورت ہے:{وَکَذَلِکَ جَعَلْنَا فِیْ کُلِّ قَرْیَۃٍ أَکَابِرَ مُجَرِمِیْہَا لِیَمْکُرُواْ فِیْہَا}(انعام،۱۲۳)’’اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں اس کے بڑے بڑے مجرموں کو لگا دیا ہے کہ وہاں اپنے مکرو فریب کا جال پھیلائیں۔‘‘
اس آیت کی روشنی میں صاف ہوجاتا ہے کہ حق اور اہلِ حق کے خلاف چالیں چلنے والے اور درپردہ سازشیں کرنے والے روئے زمین کے ہر گوشے میں پائے گئے ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ وہ کسی زمانے میں خاموش بیٹھ جائیں گے۔ان کی کارستانیاں اور ریشہ دوانیاں جاری ہیں اورقیامت تک جاری رہیں گی۔خود اللہ رب العزت نے اپنے آخری صحیفۂ ہدایت میں فرمادیا ہے کہ حق وباطل کے مابین یہ ستیزہ کاری کبھی ختم نہیں ہوگی۔ارشاد ہوا ہے:{وَقَالَ الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوا بَلْ مَکْرُ اللَّیْْلِ وَالنَّہَارِ إِذْ تَأْمُرُونَنَا أَن نَّکْفُرَ بِاللَّہِ وَنَجْعَلَ لَہُ أَندَاداً}(سبا،۳۳)’’دبے ہوئے لوگ اُن بڑے بننے والوں سے کہیں گے: ’’نہیں، بلکہ شب وروز کی مکاری تھی جب تم ہم سے کہتے تھے کہ ہم اللہ سے کفر کریں اور دوسروں کو اس کا ہمسر ٹھیرائیں۔‘‘
دوسرے الفاظ میں دنیا میں دھوکہ کھانے والے عوام کا اعتراض یہ ہوگا کہ تم اس ذمے داری میں ہم کو برابر کا شریک کہاں ٹھیرائے دے رہے ہو۔ کچھ یہ بھی یاد ہے کہ تم نے اپنی چال بازیوں،فریب کاریوں اور جھوٹے پروپیگنڈوں سے کیا طلسم باندھ رکھا تھا اور رات دن خلقِ خدا کو پھانسنے کے لیے کیسے کیسے جتن تم کیا کرتے تھے۔معاملہ صرف اتنا ہی تونہیں ہے کہ تم نے ہمارے سامنے دنیا پیش کی اور ہم اس پر ریجھ گئے۔ امرِ واقعہ یہ بھی تو ہے کہ تم شب وروز کی مکاریوں سے ہم کو بے وقوف بناتے تھے اور تمہارا ہر شکاری روز ایک نیا جال بُن کر طرح طرح کی تدبیروں سے اللہ کے بندوں کو اس میں پھانستا تھا۔(تفہیم القرآن:۴/۲۰۶)
پھر اہلِ حق کے خلاف کی جانے والی یہ سازشیں اور کیّادیاں معمولی درجے کی نہیں ہوا کرتیں۔قرآن نے ان کی اثر آفرینی اورہلاکت خیزی اس طرح بیان کی ہے:{وَقَدْ مَکَرُواْ مَکْرَہُمْ وَعِندَ اللّہِ مَکْرُہُمْ وَإِن کَانَ مَکْرُہُمْ لِتَزُولَ مِنْہُ الْجِبَال} (ابراہیم،۴۶) ’’انھوں نے اپنی ساری ہی چالیں چل کر دیکھیں،مگر ان کی ہر چال کا توڑ اللہ کے پاس تھا، اگرچہ ان کی چالیں ایسی غضب کی تھیں کہ پہاڑ اُن سے ٹل جائیں۔‘‘
اس پوری دراز نفسی اور طولِ کلامی کا ماحصل یہ ہے کہ امتِ مسلمہ کو درپیش ناگفتہ بہ حالات کے پیچھے دشمنانِ دین کی سازشوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے، اور یہ ایک قرآنی حقیقت ہے جس کی تائید واقعاتی دلائل وشواہد کی روشنی میں بہ آسانی ہو جاتی ہے۔اس سے انکار صرف دو طرح کے لوگ کر سکتے ہیں۔ایک تو وہ جو واقعتا کوندن اور بدھوہوں، اور دوسرے وہ جنہیں دشمنانِ دین کی طرف سے خفیہ طور پر اس کام کے لیے تنخواہ ملتی ہو۔
یہ احساس رکھنا غلط نہیں ہے کہ اہلِ حق کے خلاف دن رات سازشیں کی جارہی ہیں اور وہ سازشیں اس پائے کی ہیں کہ اٹل پہاڑ بھی ان کے زیرِ اثر متزلزل ہوجائیں۔غلط بات البتہ یہ ضرور ہے کہ غیر متعلقہ چیزوں کو بھی سازش کا حصہ باور کرایا جانے لگے، یا پھر سازشوں سے گھبرا کر ہاتھ پیر توڑ کر بیٹھ رہا جائے اور اقامتِ دین کی راہ میں مطلوبہ قربانیوں سے گریز کا اسے ایک عذر اوربہانہ بنا لیا جائے۔ اگر یہ رویہ کسی ایک فرد یا جماعت کا ہے تو ہم اسے غلط مانتے ہیں،مگر اس غلط طرزِ عمل کو بنیاد بناکر یہ کہنا کہ مسلمانوں کے خلاف سرے سے باطل طاقتیں مصروفِ کید ہی نہیں ہیں، اور یہ کہ امت کو دین سے دور کرنے کی کوئی کوشش یا سازش کہیں نہیں کی جارہی ہے تو یہ اُس سے بھی بڑی خطا ہوگی۔قرآنِ کریم ہمیں کچھ اور اشارے کرتا ہے، اور حالات وواقعات کی روشنی میں قرآنی بیانات کی توثیق ہوجاتی ہے۔
کیا یہ بات اپنے آپ میں قابلِ غور نہیں ہے کہ آج جتنے بھی شرعی احکام اور اسلامی تعلیمات کو وقت کا سلگتا ہوا موضوع(Burning Topic) باور کرایا جاتا ہے وہ سب وہی ہیں جو مغربی تہذیب وثقافت کے خلاف پڑتے ہیں۔ مثال کے طور پر ولایت وبرأت کے احکام، جہاد، نفاذِ شریعت،قتلِ مرتد، حدِ رجم، پردہ، اختلاطِ مرد وزن، عورت کا بے محرم سفر کرنا، مرد کی قوامیت،طلاقِ ثلاثہ،موسیقی اور ڈانس وغیرہ۔کیا ہم یہ مان لیں کہ یہ محض اتفاق ہے کہ دنیا میں انہی مسائل کو موضوعِ گفتگو بنایا جارہا ہے؟
ایسا کیوں نہیں ہے کہ پوری دنیا میں کوئی ایک پڑھا لکھا شخص بھی اسلامی شریعت اور افریقی تہذیب وثقافت کے درمیان مابہ النزاع بننے والے مسائل وامور پر گفتگو کرے اور اپنے افکار خیالات پیش کرے؟ہمیں کوئی ایک بھی مفکر کیوں نظر نہیں آتا جو اسلامی تہذیب وتمدن اور ایشیائی تہذیب وتمدن کے درمیان تصادم وتعارض کے مسئلے کو زوروشور سے اٹھائے؟ ایسا کیوں ہے کہ فکری عنوانوں سے منعقد ہونے والے سیمیناروں اور کانفرنسوں میں سے کسی ایک سیمینار یا کانفرنس میں بھی اسلامی روایات واقدار اور ہندو روایات واقدار کے درمیان پائے جانے والے ٹکرائو کو دور کرنے پر بحث نہیں کی جاتی؟کیا یہ صرف اتفاق ہے یا اس کے پیچھے سوچی سمجھی پلاننگ ہے کہ مغرب نواز مسلم مفکرین کی تمام کتابیں،مقالات،علمی کوششیں اور فکری کانفرنسیں صرف اور صرف قرآنی نصوص اور مغربی تہذیب کے درمیان مشترکہ خطوطِ کار کی تلاش میں جٹی ہوئی ہیں اور دونوں کے درمیان مکمل تعاون پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس کا واحد اور مجرب طریقہ یہ ہے کہ اسلامی شریعت سے وہ تمام احکام وتعلیمات نکال باہر کیے جائیں جو مغربی ذوق کو ناپسند ہیں، یا پھر انہیں توڑ مروڑ کر مغربی تہذیب کے موافق بنالیا جائے۔
بین الاقوامی اور ملکی ذرائع ابلاغ میں ادھر چند سالوں سے بڑی کثرت کے ساتھ چند سوالوں کو بار بار دہرایا گیا ہے۔ان تمام سوالوں کا بنیادی مضمون-صریح اور خفی- بس یہ ہے کہ احکامِ شریعت اور مغربی تہذیب وثقافت کے درمیان ٹکرائو کیوں ہے اور اسے کیسے دور کیا جائے۔ سن ۲۰۰۳ء میں عراق پر امریکی قبضے سے لے کر سن ۲۰۱۸ء میں ترکی میں رجب طیب اردوغان کے دوبارہ تختِ صدارت پر فائز ہونے تک، اس درمیانی عرصے میں اور ابھی بھی یہ مسائل بار بار اور پوری قوت اور شدت سے ابھارے جارہے ہیں۔بھیس بدل بدل کر صرف چند مسائل کو ہی زیرِ بحث لایا جاتا ہے۔ کبھی مادی تہذیب وتمدن اور دینی مخالفین کے تئیں رویے کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کو نشانہ بنایا گیا ہے،کبھی جمہوریت اور عوامی سیاسی احتجاج کے نام پر اور کبھی آزادیِ رائے اور نفاذِشریعت کے موضوعات پر نت نئے اجتہادات پیش کیے گئے ہیں جو -مشترک طور سے- شرعی دلائل سے زیادہ عصری تقاضوں کے حوالے سے بھرے پڑے ہیں کیونکہ انھیں پیش کرنے والوں کی متاعِ علم ونظر یہیں تک محدود ہے۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین