وقت کی تہہ میں افراد اور قوموں کی ترقی کا راز مضمر ہے
’’ وقت ‘‘ افراد اور قوموں کا سرمایہ ہے ، ترقی کی راہیں اسی سرمایہ کے ٹھیک استعمال ہی سے طے ہوسکتی ہیں ، انہی اقوام کی رہ گذر بن سکتی ہے جو اس گراں قدر پونجی کو صحیح استعمال کرتی ہیں ، فرد معاشرے کا جزء ہے اور افراد ہی کے ہاتھوں میں اقوام کی تقدیر ہوتی ہے ۔کسی قوم کے زوال کی پہلی علامت یہ ہے کہ اس کے افراد ضیاعِ وقت کی آفت کا شکار ہوجائیں ۔
ترقی یافتہ مسلم قوم کا راز
مسلمان قوم جس کی ایک درخشاں تاریخ رہی ہے ،ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے ، وقت کی قدر اس کے مذہبی فرائض میں داخل ہے اور یہ اس کی تاریخی خصوصیت رہی ہے ،وہ صدیوں پوری دنیا پر چھائی رہی ، علم و حکمت کے میدانوں میں ترقی کی سیڑھیاں چڑھتی رہی۔
ان کی علم و دانش کی درسگاہیں وقت کی پابند تھیں ، اور بادشاہوں کے درباروں میں بھی یہ سبق سکھایا جاتا تھا کہ وہ کام جو فائدے سے خالی ہو چاہے کتنا ہی حیرت انگیز کیوں نہ ہو کمالِ زندگی نہیں بلکہ زوالِ زندگی ہے ۔
ترقی یافتہ قوموں کا راز
آج مغرب مادی ترقی کی جن شاہراہوں پر گامزن ہے ، اس نے سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی کے جو مراحل طے کئے ہیں اور فلسفہ و حکمت کی جن بلندیوں پر کمندیں ڈالی ہیں ، اس کی بنیادی وجہ یہی ہے ، مغربی معاشرہ ہزاروں خرابیوں کے باوجود وقت کی قدر کرتا ہے ، افراد کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کیلئے مواقع فراہم کرتا ہے ،
اور علم و حکمت میں تلاش وجستجو کا ایک جذبہ اپنے اندر رکھتا ہے ، مجموعی طور پر کام چوری کی عادت مغربی معاشرے میں نہیں ہے ۔ملازمت کے وقت کی پابندی اور اس وقت میں جم کر کام کرنا ان کے بدترین معاشرہ کا بہترین خاصہ ہے ۔
یہ چیز تو مسلمانوں کے اپنانے کی تھی لیکن اپنایا اسے اہل مغرب نے ، افسوس یہ ہے کہ مسلمان قوم مغرب کی تقلید پر جب بے خوف اتر آئی تو فحاشی و عریانی، رقص و موسیقی ،جنسی اشتعال انگیزی اور اختلاط مرد وزن جیسی ہلاکت آفرینیوں میں ان کی تقلید تو کرلی جس نے مغرب کو سلگتے ہوئے داغوں اورمحرومیوں کے سوا کچھ نہ دیا ،تاہم اس معاشرے میں جو اچھائیاں تھیں وہ نہ لے سکے ۔
مسلم معاشرہ کی زبوں حالی
آج کے مسلم معاشرہ میں پیدا ہونے والے بچے کی زندگی تباہ کرنے کیلئے ہزاروں جال بچھائے گئے ہیں ، ویڈیوگیم ، سینما اور فحش لٹریچر کا ایک سیلاب بلا خیز ہے ، جس میں اس کی معصوم زندگی کے حسین اور کار آمد لمحات ضائع اور بے فائدہ برباد ہوتے چلے جارہے ہیں ۔
زمانہ ٔ تعلیم
تعلیم کا زمانہ جو درحقیقت انسانی عمر کی ناپختہ ٹہنی کے برگ و بار اور پروان چڑھنے کا زمانہ ہوتا ہے ۔اگر وقت کی قدر کے صحت بخش چشموں سے اس کو سیراب کیا گیا تب تو یہ ٹہنی آگے چل کر ایسے سایہ دار درخت کی شکل اختیار کرسکتی ہے جس کی شاداب شاخیں ہزاروں بچوں کے مستقبل کیلئے پرسکون سایہ فراہم کرسکتی ہے ۔لیکن اگراسی ٹہنی کو ضیاعِ وقت کی دیمک لگ گئی تو دوسروں کیلئے سامان راحت کی فراہمی کا سوال تو کیا خود اپنی شادابی اور زندگی سے محروم ہوسکتی ہے ۔
طلبہ مدارس و جامعات
جامعات اور مدارس میں پڑھنے والے نوجوان جو قوم کا مستقبل اور سرمایہ ہیں ان کے اوقات کا ایک بڑا حصہ ہوٹلوں اور قہوہ خانوں میں فضول مجلسوں کی نذر ہوجاتا ہے ۔محفل سجا کر گھنٹوں گپ بازی کا لا یعنی مشغلہ ان کی ایک محبوب عادت بن چکی ہے ، تعطیلات کا طویل زمانہ بغیر کسی نظام الاوقات اور مفید مشغلے کے یوں ہی گزر جاتا ہے اور تعلیم کا زمانہ پورا کرکے جب نکلتے ہیں تو پھر زبان حال پکار کر کہتے ہیں :
اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غمناک
نہ زندگی نہ محبت نہ معرفت نہ نگاہ