نگاہوں پہ پردہ
تحریر: مسلم عبد العزیز الزامل
ترجمہ: مفتی ولی اللہ مجید قاسمی
کویت پر عراقی قبضے کے دوران اللہ تعالیٰ سے واقعات دیکھنے کو ملے۔ کویت کو آزاد ہونے میں تقریباً تین سال کا عرصہ لگ گیا، اور اس درمیان بڑے حوصلہ شکن حالات پیش آئے، لیکن اسی کے ساتھ ساتھ اللہ کی عنایت اور عبادت ودعا کی برکت کا بھی مشاہدہ ہوا۔
اس موقع پر ہمیں حضرت نوح کی یہ دعا یاد آئی:
﴿إنِّىْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ۱۰ ﴾ [سورۃ القمر:۱۰]
”میں بے بس ہوں تو میری مدد کر۔“
تو اللہ تعالیٰ نے سرکش ظالموں کو بے مراد واپس کردیا اور وہ کویت سے کچھ بھی حاصل نہ کرسکے جسے دیکھ کر ہمیں یہ آیت یاد آئی:
﴿سَيُہْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ۴۵ ﴾ [سورۃ القمر:۴۵]
”عنقریب یہ جتھا شکست کھا جائے گا اور پیٹھ پھیر کر بھاگ جائے گا۔“
اور پھر ہمیں سکون واطمینان کا دن میسر ہوا، گھٹاٹوپ اندھیرے کے بعد روشنی کی کرن نمودار ہوئی۔ اس پورے عرصہ میں اللہ سے دعا اور اس کے سامنے رونا ہی ہمارے لیے واحد سہارا تھا، اور ہر گھر کی چھت مسجد کا مینارہ بن گئی جس سےاللہ اکبر کی صدا بلند ہوتی تھی جس کے نتیجے میں ظالموں پر لرزہ طاری ہوجاتا، ہم نے ہر لمحے اللہ کی مہربانی کا مشاہدہ کیا۔
میرے دوست عصام رفاعی کہتے ہیں کہ ایک رات میں اور میرے ساتھی احمد کافی تاخیر سے گھر واپس ہورہے تھے۔ احمد ان لوگوں میں شامل تھے جو عراقی فوجیوں کا مقابلہ کررہےتھے، ان کا کام یہ تھا کہ حسبِ ضرورت بعض لوگوں کو دوسرے نام سے فرضی آئی ڈی بناکر دے رہے تھے تاکہ وہ گرفتار نہ ہوسکیں۔
واپسی میں ایک چیک پوائنٹ سے ہمارا گزر ہوا، پولیس نے گاڑی روک کر ہمیں اترنے کا حکم دیا اور نہایت باریک بینی سے ہماری گاڑی کی تلاشی ہونے لگی لیکن کچھ ہاتھ نہیں لگا، اسی دوران وہ اس چھوٹے سے ڈبے کو بھی کھولنے لگے جس میں کوڑا وغیرہ ڈال دیا جاتا ہے، جب انہوں نے اسے ہاتھ لگایا تو میں نے دیکھا کہ میرے ساتھی کو پسینہ چھوٹنے لگا، اور مجھے یقین ہوگیا کہ اس کے نیچے کچھ ہے، لیکن اللہ کی عنایت اور مہربانی ہمارے ساتھ رہی اور اس نے ہمیں مضبوطی عطا کی، اس لیے ہم نے کسی طرح کی گھبراہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا اور پرسکون انداز میں اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے رہے:
«اللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُورِهِمْ، وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ»
پولیس والے نے اس ڈبے کو کئی مرتبہ ہلایا لیکن اس میں سے کچھ برآمد نہیں ہوا، حالانکہ نقلی آئی ڈی اور اسٹامپ وغیرہ اس میں رکھے ہوئے تھے، لیکن اللہ تعالیٰ اس کی نگاہوں پر پردہ ڈال دیا اور اسے کچھ نظر نہیں آیا اور ہمیں جانے کی اجازت مل گئی۔ اس وقت مجھے وہ جملہ یاد آگیا جو حضرت ابو بکر نے غارِ ثور میں چھپے ہونے کی حالت میں کہا تھا: اللہ کے رسول! اگر ان میں سے کسی کی نگاہ اپنے قدم پر پڑ گئی تو وہ ہمیں دیکھ لے گا، یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ابو بکر! ان دو کے بارے میں تمہارا کیا گمان ہے جن کے ساتھ تیسرا اللہ ہے۔“ اور جب بنی اسرائیل نے فرعونی لشکر کو آتا ہوا دیکھا تو کہنے لگے: ہم تو دھر لیے گئے، تو حضرت موسیٰ نے فرمایا:
﴿كَلَّا۰ۚاِنَّ مَعِيَ رَبِّيْ سَيَہْدِيْنِ۶۲ ﴾ [سورۃ الشعراء:۶۲]
”ہرگز نہیں، میرے ساتھ میرا رب ہے وہ ضرور مجھے راستہ بتائے گا۔“
ہم اپنی گاڑی لے کر آگے بڑھے اور ہم میں سے ہر ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھ رہا تھا کہ یہ کیسے ہوگیا! اگر وہ نقلی شناختی کارڈ کو دیکھ لیتا تو پھر زندگی بھر ہمیں سورج دیکھنا نصیب نہیں ہوتا،کیونکہ وہ لوگ تو محض شبہے کی بنیاد پر لوگوں کو پکڑ کر کال کوٹھری میں ڈال دیا کرتے یا صفحۂ ہستی سے اس کا نام ونشان مٹا دیتے۔
یہ ایک ایسا تجربہ تھا جس نے اللہ کی قدرت وحکمت پر ہمارے یقین میں اضافہ کر دیا۔ اگر ہمارے رب کا فضل نہ ہوتا تو ہم لوگ غائب یا ختم کر دیے جاتے۔