نماز سے متعلق نئےمسائل
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی
جامعہ انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو یوپی
موبائل: 9451924242
1- غیرمعتدل علاقوں میں نماز کے اوقات
اللہ تعالیٰ نے معراج کے موقع پر فرمایا:
’’یا محمد! انھن خمس صلوات کل یوم ولیلۃ لکل صلاۃ عشرفذالک خمسون صلاۃ‘‘ (صحیح مسلم:162)
محمد! یہ دن اور رات میں کل پانچ نمازیں ہیں اور ہر نماز کا ثواب دس گنا ہے ،اس طرح سے یہ پچاس نمازیں ہوگئیں۔
اورحضرت طلحہ بن عبیداللہ سے منقول ہے کہ رسول اللہﷺ سے ایک صاحب نے اسلام کے بارے میں دریافت کیا توآپؐ نے فرمایا:
’’خمس صلوات فی الیوم واللیلۃ فقال ھل علی غیرھن قال: لا إلاان تطوع…‘‘(صحیح بخاری:46)
رات اور دن میں پانچ نمازیں ۔عرض کیا :کیا میرے ذمے اس کے علاوہ بھی کوئی نماز ہے ؟فرمایا : نہیں الا یہ کہ اپنی خوشی سے پڑھ لو ۔
اور حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے سوال کیا کہ:
’’…وزعم رسولک ان علینا خمس صلوات فی یومنا ولیلتنا قال صدق قال فبالذی ارسلک اللہ امرک بھذا قال نعم…‘‘(صحیح مسلم:12)
آپ کے قاصد کا کہنا ہے کہ ہمارے ذمے دن اور رات میں پانچ نمازیں ہیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے سچ کہا ۔عرض کیا :جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے اس کی قسم! کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔
ان روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہرمومن پر روزانہ پانچ وقت کی نمازیں فرض ہیں خواہ ان کاتعلق دنیاکے کسی بھی خطے سے ہو، اس لیے جن علاقوں میں کئی دن، کئی ہفتہ یا مہینوں سورج طلوع یا غروب نہیں ہوتا وہاں کے لوگوں پر بھی چوبیس گھنٹوں میں پانچ مرتبہ نماز پڑھناضروری ہے اور ان نمازوں کے درمیان وہاں بھی وہی فاصلہ اور تناسب رکھا جائے گا جو معتدل ممالک کی نمازوں میں ہوتا ہے، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دجال کے بارے میں بیان فرمایا، صحابہ کرام نے دریافت کیاکہ وہ کتنے دنوں تک رہے گا، آپؐ نے فرمایا:
’’اربعون یوماً، یوم کسنۃ ویوم کشھرویوم کجمعۃ و سائرایامہ کایامکم فقیل یارسول اللہ الیوم کسنۃ أیکفینا فیہ صلاۃ یوم قال لا اقدروا لہ‘‘ (صحیح مسلم:2937)
چالیس دن تک جس کا ایک دن ایک سال کی طرح اور ایک دن ایک مہینہ کی طرح اور ایک دن ایک ہفتے کی طرح ہوگا اور بقیہ ایام عام دنوں کی طرح ہونگے ۔عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! ایک دن جو ایک سال کی طرح ہوگا اس میں ایک دن کی نماز کافی ہوگی! فرمایا نہیں بلکہ تم اندازہ لگا کے پورے سال کی نماز پڑھو
محقق علامہ ابن ہمام اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’فاستفدنا ان الواجب فی نفس الامر خمس علی العموم غیران توزیعھا علی تلک الاوقات عند وجودھا فلایسقط بعدمھا الوجوب‘‘ (فتح القدیر 156/1)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر حال میں اور ہر ایک پر پانچ نمازیں فرض ہیں البتہ ان کو ان کے اوقات میں اس وقت تقسیم کیا جائیگا جب وہ موجود ہوں اور اگر موجود نہ ہوں تو اس کی وجہ سے فرضیت ساقط نہیں ہوگی ۔
یہی حکم ان علاقوں کابھی ہے جہاں سورج غروب ہونے کے بعد فوراً طلوع ہوجائے، رہے و ہ علاقے جہاں بائیس بائیس گھنٹے کی رات یا دن ہوتا ہے وہاں سورج ڈوبنے اور نکلنے کے درمیان مغرب، عشاء اور فجر کی نماز ادا کی جائے گی اور ان کے درمیان فاصلے کا وہی تناسب ہوگا جو معتدل ممالک کی نمازوں کے درمیان ہوتا ہے، جیسے کہ مغرب اورفجر کا وقت پوری رات کے ۱_ ۸ حصے کے بقدر ہوتا ہے تو ان علاقوں کی مختصر رات کے آٹھویں حصے تک مغرب کا وقت ہوگا اور پھر عشاء کا اور سورج نکلنے سے پہلے فجر کا اور دن میں ظہر اورعصر کی نماز ادا کی جائے گی، اس طرح سے کہ پورے دن کے آدھے کے بعد ظہرکی نماز اور پھرسورج ڈوبنے سے پہلے عصر کی نماز، چنانچہ دجال سے متعلق ایک حدیث میں ہے کہ:
’’وآخرایامہ کالشررۃ یصبح احدکم علی باب المدینۃ فلایبلغ بابھا الآخرحتی یمسی فقیل لہ یارسول اللہ کیف نصلی فی تلک الایام القصار قال تقدرون فیھا الصلاۃ کما تقدرونھا فی ھذہ الایام الطوال ثم صلوا‘‘ (ابن ماجہ 4077)
اور آخر کے دن شعلہ کی طرح ہونگے ۔تم صبح کے وقت شہر کے دروازے ہوگے اور دوسرے دروازے تک پہنچنے سے پہلے شام ہوجائے گی ۔عرض کیا گیا کہ ان چھوٹے دنوں میں ہم نماز کیسے پڑھیں گے ؟فرمایا کہ ان میں بھی نماز کے وقت کا اندازہ اسی طرح سے لگانا جیسے کہ تم بڑے دنوں میں لگاؤ گے پھر اس کے مطابق نماز پڑھو۔
یہی حکم اس صورت کا بھی ہے جب کہ دن مختصر اور رات بہت لمبی ہو، اور اگر رات اتنی مختصرہو کہ مغرب اورفجر کاوقت مل جائے لیکن عشاء کا وقت نہ ملے تو جس کا وقت مل جائے اسے پڑھ لے اور جس کا وقت نہ ملے اس کی قضاء کرے ۔
2-نماز پڑھنے کے بعد ایسی جگہ پہنچے جہاں اس نماز کا وقت اس کے بعد آئے
اگر کوئی شخص مثلاً ظہر کی نماز پڑھنے کے بعد ہوائی جہاز کے ذریعے ایسی جگہ پہنچا جہاں ابھی ظہر کا وقت نہیں ہوا ہے بلکہ اس کے پہنچنے کے کچھ دیر بعد ظہر کاوقت شروع ہوا تو اس کو دوبارہ ظہر پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے، البتہ نفل کی نیت سے شریک ہونا چاہے تو وہاں کی جماعت میں شامل ہوسکتا ہے، اس لیے کہ دن اور رات میں صرف پانچ نمازیں فرض ہیں، حضرت عبادہ بن صامت کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺسے سناکہ:
خَمْسُ صَلَوَاتٍ كَتَبَهُنَّ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى الْعِبَادِ، فَمَنْ جَاءَ بِهِنَّ لَمْ يُضَيِّعْ مِنْهُنَّ شَيْئًا اسْتِخْفَافًا بِحَقِّهِنَّ،كَانَ لَهُ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدٌ أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ،وَمَنْ لَمْ يَأْتِ بِهِنَّ فَلَيْسَ لَهُ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدٌ، إِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ، وَإِنْ شَاءَ أَدْخَلَهُ الْجَنَّةَ(المؤطا:320)
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔لہذاجو کوئی انھیں ادا کرے اور ان کے حق کو ہلکا سمجھتے ہوئے ان میں سے کسی کو ضائع نہ کرے تو اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت کا وعدہ ہے اور جو کوئی ادا نہ کرے تو اللہ کا اس سے کوئی وعدہ نہیں ہے ،اگر چاہے تو عذاب دے اور چاہے تو جنت میں داخل کردے ۔
اور کسی فرض نماز کوایک مرتبہ ادا کرلینے کے بعد اسے دوبارہ پڑھنا درست نہیں ہے، نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ:
’’لاتصلوا صلاۃ فی یوم مرتین‘‘ (ابوداؤد:1420)
في رواية لا تعاد الصلاة في يوم مرتين(نسائى:860)
کوئی نماز ایک دن میں دو مرتبہ نہ پڑھو اور ایک روایت میں ہے کہ کوئی نماز ایک دن میں دوبار نہیں پڑھی جائے گی ۔
اور ایک دوسری حدیث میں ہے:
’’لاتصلی صلاۃ مکتوبۃ فی یوم مرتین‘‘ (دار قطني، نصب الراية:138/2)
فرض نماز ایک دن میں دو مرتبہ نہیں پڑھی جائے گی ۔
3- اوقات نماز میں تقویم کی رعایت
نماز کے اوقات کو جاننے کامدار سورج کی گردش پر ہے، جس پر بعض لوگ آگاہ نہیں ہوسکتے ہیں اورتمام لوگوں کو اس کے جاننے کا مکلف بنا نا بھی دشوار ی کاسبب ہے، اس لیے اس سلسلے میں کسی جاننے والے پراعتماد کیا جاسکتا ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:
’’ان بلالا یوذن بلیل فکلوا واشربوا حتی یوذن إبن ام مکتوم‘‘(بخاری :2656.مسلم :1052)
بلال رات میں اذان دیتے ہیں اس لئے کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم اذان دیں۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ وقت کے سلسلے میں اذان پر اعتماد کیا کرتے تھے۔
اس وقت سورج کی گردش کے بارے میں حسابی نتائج کے ذریعے نماز کے اوقات کو جاننے کے لیے جوتقویم تیار کیے جاتے ہیں اس پر اعتماد کیاجاسکتا ہے، اس شرط کے ساتھ کہ اسے تیار کرنے والے لائق اطمینان ہوں اور مشاہدہ اور تجربے سے اس کا صحیح ہونا ثابت ہے۔
4-خون یا پیشاب کے سمپل کے ساتھ نماز
میڈیکل ٹیسٹ وغیرہ کے لئے پیشاب پائخانہ یا خون کسی شیشی میں بند ہو تو بھی اسے جیب میں رکھ کر نماز پڑھنا درست نہیں ہے کیونکہ ضابطہ یہ ہے کہ اگر کوئی نجاست اپنی طبعی جگہ پر ہو اور اس جگہ سے خروج نہ ہو تو اس کی وجہ سے اس جگہ کے ناپاک ہونے کا حکم نہیں لگایا جائیگا جیسے کہ ہر انسان کے پیٹ میں نجاست اور جسم اور رگوں میں نجس خون موجود ہے لہذا اگر انڈا خراب ہو کر خون بن جائے لیکن صحیح سالم چھلکے میں موجود ہو تو اسے جیب میں رکھ کر نماز پڑھنا درست ہے کیونکہ نجاست اپنی طبعی جگہ میں موجود ہے اور وہاں سے خارج نہیں ہوئی ہے اور اس کے برخلاف نجاست کسی شیشی میں پیک ہو تو اسے ساتھ لیکر نماز پڑھنا صحیح نہیں ہے کیونکہ وہ اپنی طبعی جگہ میں نہیں ہے بلکہ جسم سے خارج ہوکر دوسری جگہ جمع ہوگئی ہے اس لئے ناپاکی کے ساتھ نماز پڑھنے والا سمجھا جائے گا ۔(1)
(1)رجل صلى وفي كمه قارورة فيها بول لا تجوز الصلاة سواء أكانت ممتئلة او لم تكن لان هذا ليس في مظانه و معدنه (الهندية62/1)
5-ناپاک پانی سے سیراب گھاس پر نماز
ناپاک پانی سے سیراب گھاس پر ناپاکی کا رنگ ،بو وغیرہ موجود ہو تو اس پر نماز پڑھنا درست نہیں ہے اور اگر اس کا اثر زائل ہوچکا ہے تو اس پر نماز کی ادائیگی جائز ہے ۔( دیکھئے : رد المحتار 513/1.الفتاوى التتارخانية 461/1)
اس لئے کہ زمین کو پاک کرنے کے لئے اس پر پانی بہانا ضروری نہیں ہے بلکہ خشک ہونے کے بعد نجاست کا اثر باقی نہ رہے تو اسے پاک سمجھا جائے گا۔چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر کہتے ہیں :
كَانَتِ الْكِلَابُ تَبُولُ، وَتُقْبِلُ وَتُدْبِرُ فِي الْمَسْجِدِ فِي زَمَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يَكُونُوا يَرُشُّونَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں کتے مسجد میں پیشاب کردیتے اور آتے جاتے رہتے تھے مگر لوگ اس پر پانی نہیں بہایا کرتے تھے ۔(صحیح بخاری :174.ابوداؤد :382)
6-قبلہ نما پراعتماد
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’مابین الشرق والمغرب قبلۃ‘‘ (ترمذی:342 نسائی:2243، ابن ماجـہ:1011۔ )
مشرق و مغرب کے درمیان قبلہ ہے ۔
رسول اللہ ﷺ نے مدینہ اور اس کی سمت میں رہنے والوں کے لیے فرمایا کہ ان کے لیے ٹھیک کعبہ کا استقبال ضروری نہیں ہے کہ یہ ایک مشکل کام ہے بلکہ ان کے لیے کعبہ کی سمت میں رخ کرلینا کافی ہے۔
سمت کعبہ کو جاننے کے لیے دن میں سورج کے طلوع و غروب اوررات میں چاندکے طلوع وغروب اور قطب شمالی کا سہارا لیاجاتا رہا ہے، آج کے دور میں اس کے لیے قطب نمایاالیکٹرانک آلات ایجاد کرلیے گئے ہیں اور تجربہ سے ثابت ہے کہ اس کے ذریعہ عام طور پر قبلہ کا پتہ چل جاتا ہے، اس لیے قبلہ کی تعیین میں اس پراعتماد کیا جاسکتا ہے، جب کہ اس کے علاوہ دوسرے طبعی ذرائع سے قبلہ کی سمت کا پتہ نہ چلے۔
7-ہوائی جہاز، ٹرین اور بس میں استقبال قبلہ
نماز صحیح ہونے کے لیے قبلہ کی طرف رخ کرنا شرط ہے، اس لیے ٹرین، بس یا ہوائی جہاز وغیرہ میں نماز پڑھتے ہوئے قبلہ کی طرف رخ کرنا ضروری ہے اور اگر دوران نماز ان کا رخ بدل جائے تو نمازتوڑنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اپنا رخ بھی بدل کر قبلہ کی طرف کرلینا چاہیے،اور قدرت کے باوجود رخ تبدیل نہ کرنے پر نماز نہیں ہوگی (1) ۔
اوراگر ہجوم یا گاڑی کی ساخت کی وجہ سے قبلہ کی طرف رخ کرنا ممکن نہ ہواور باہر نکل کرنماز پڑھنے پر بھی قدرت حاصل نہ ہو تواستقبال قبلہ کی بغیر بھی نماز درست ہے۔ (۲)
واضح رہے کہ بس اورجہاز وغیرہ کی بناوٹ ایسی ہوتی ہے کہ اگر اس کا رخ قبلہ کی طرف نہ ہو تو پھر قبلہ کااستقبال دشوار ہے، ایسی حالت میں بہتر ہے کہ اگر وقت کے اندر منزل پر پہنچنے کا امکان ہوتو نمازکومؤخر کر دیا جائے یابس کہیں ٹھہر جائے تو اس سے اتر کے نماز ادا کرے اور اگر ایسا نہ ہواوربس رکوانے پر قدرت بھی حاصل نہ ہو توپھرقبلہ کی طرف رخ کیے بغیر بھی نماز درست ہے(۱)، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’وَلِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ‘‘(البقرۃ:۱۱۵)
(1)’’ویلزم التوجہ الی القبلۃ عند افتتاح الصلاۃ…وکلما دارت السفینۃ یحولہ وجہہ الیھا ولوترک تحویل وجھہ الی القبلۃ وھوقادر علیھا لايجزيه‘‘ (الہندیہ 44/1)
(2)دیکھیے فتاویٰ دارالعلوم دیوبند:146/2.
(3) وقبلۃ العاجزعنھا لمرض وان وجد موجھا عند الامام او خوف مال وکذا کل من سقط عنہ الارکان جھۃ قدرتہ،(الدر المختار) فکماتجوزلہ الصلاۃ علی الدابۃ ولوکانت فرضا وتسقط عنہ الارکان کذالک یسقط عنہ التوجہ الی القبلۃ اذا لم یمکنہ ولااعادۃ علیہ اذا قدر فیشترط فی جمیع ذالک عدم امکان القبلۃ ویشترط فی الصلاۃ علی الدابۃ ایقافھا ان قدر والا بان خاف الضرر کان تذہب القافلۃ وینقطع فلا یلزمہ ایقافھا ولا استقبال القبلۃ۔(رد المحتار 115/2 )
8-تصویردار کپڑا
کسی ایسے کپڑے کو پہن کر نماز پڑھنا مکروہ اور ناجائز ہے جس پر کسی جاندار کی تصویر بنی ہوئی ہو گرچہ وہ کارٹون ہی کیوں نہ ہو(1)،کیونکہ نماز میں ہرایسی چیزسے بچنا چاہیے جس سے اس کا یا دوسرے کا خشوع و خضو ع متاثر ہو: حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ:
’’قام رسول اللہﷺ یصلی فی خمیصۃ ذات اعلام فنظر الی علمھا فلما قضی صلاتہ قال اذھبوا بھذہ الخمیصۃ الی ابی جھم بن حذیفۃ وآتونی بالانبجانیۃ فانھا الھمتنی آنفا عن صلاتی‘‘(مسلم:556)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیل بوٹے والی چادر میں نماز پڑھنے کھڑے ہوئے ۔نماز کے دوران اس کے نقش و نگار پر آپ کی نگاہ پڑی ۔اور نماز مکمل کرنے کے بعد آپ نے فرمایا: اس چادر کو ابو جہم کے پاس لے جاؤ اور ان کی انبجانی چادر لے آؤ کیونکہ اس نے مجھے ابھی نماز میں غفلت میں مبتلا کردیا تھا ۔
نیز وہ بیان کرتی ہیں کہ:
’’ انہ کان لھا ثوب فیہ تصاویرممدود الی
سھوۃ فکان النبیﷺ یصلی الیہ فقال اخریہ عنی قالت فاخرتہ فجعلتہ وسائد‘‘(مسلم:2107.نسائی:761)
ان کے پاس ایک تصویر دار کپڑا ٹھاجسے انھوں نے بطور پردہ طاق پر لٹکا رکھا تھا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرف نماز پڑھتے تھے ۔آپ نے فرمایا اسے یہاں سے ہٹادو میں نے وہاں سے ہٹا کر اس کے تکئے بنا لئے۔
نیز مسجد ایسی جگہ ہے جہاں فرشتوں کی آمد رہتی ہے اور نماز کی حالت میں بندہ اپنے رب سے زیادہ قریب رہتا ہے، اس لیے ایسی ہیئت میں اس وقت بطورخاص نہیں رہنا چاہیے جو اللہ کو ناگوار ہو اور فرشتوں کے لیے خلل انداز، حضرت ابو طلحہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:
’’لاتدخل الملائکۃ بیتا فیہ کلت ولاصورۃ‘‘ (صحیح بخاری 3322)
فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا تصویر ہو۔
(1)قوله ولبس ثوب فيه تصاوير) لأنه يشبه حامل الصنم فيكره وفي الخلاصة وتكره التصاوير على الثوب صلى فيه أو لم يصل اه.وهذه الكراهة تحريمية (البحر الرائق: 29/2، ط: دار الکتاب الاسلامی)
(ولبس ثوب فيه تماثيل) ذي روح، وأن يكون فوق رأسه أو بين يديه أو (بحذائه) يمنة أو يسرة أو محل سجوده (تمثال) ولو في وسادة منصوبة لا مفروشة (واختلف فيما إذا كان) التمثال (خلفه والأظهر الكراهة و) لا يكره (لو كانت تحت قدميه) أو محل جلوسه لأنها مهانة (أو في يده) عبارة الشمني بدنه لأنها مستورة بثيابه (أو على خاتمه) بنقش غير مستبين.
الدر المختار: (647/1، )
9-جینس پینٹ میں نماز
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:
’’یَآبَنِیْٓاٰدَمَ خُذُوْازِیْنَتَکُمْ عِنْدَکُلِّ مَسْجِدٍ وَّکُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَاتُسْرِفُوْا ج اِنَّہٗ لَایُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ‘‘(الاعراف:31)
اے آدم کی اولاد! جب مسجد میں آؤ تو اپنی خوشنمائی کا سامان لے کر آؤ اور کھاؤ پیو مگر فضول خرچی مت کرو۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ فضول خرچوں کو پسند نہیں کرتے ہیں ۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کے لیے زینت اختیارکرنا ضروری ہے اور سترپوشی کے ذریعہ مطلوبہ زینت کا مقصد پورا ہوجائے گا، لیکن ستر پوشی کے ساتھ لباس کا ڈھیلا ڈھالاہونا بھی مطلوب ہے جس کے ذریعہ حقیقی معنوں میں ستر پوشی کامقصدپورا ہوگا، اس لیے تنگ اورچست لباس میں نماز پڑھنا کراہت سے خالی نہیں ہے ۔لہٰذا جینس پینٹ یااس طرح کا کوئی بھی لباس پہننا جوجسم سے چپکا ہوا ہو مکروہ ہے، البتہ نماز کراہت کے ساتھ درست ہوجائے گی بشرطیکہ اس درجہ باریک نہ ہو کہ اس سے جسم کی رنگت نظر آنے لگے۔( 1)
(1)اما لوکان غلیظا لایری منہ لون البشرۃ الاانہ التصق بالعضو تشکل وصارشکل العضو مریئا فینبغی ان لایمنع جواز الصلاۃ لحصول الستر۔(الدرالمختارمع الرد:298/2)
10-مفلر یا رومال کے دونوں کناروں کو لٹکتا ہوا چھوڑدینا
سر یا کندھے پرمفلر اور رومال وغیرہ اس طرح سے رکھنا کہ اس کے دونوں کنارے سامنے لٹک رہے ہوں، مکروہ ہے،(1) کیوں کہ حدیث میں ہے کہ:
’’ان رسول اللہﷺ نھی عن السدل فی الصلاۃ‘‘ (ابوداؤد:643.ترمذی:378)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں سدل سے منع فرمایا ہے ۔
اور ’’سدل‘‘ کی تفسیر میں امام ابو عبیدہ کہتے ہیں کہ:
’’السدل اسبال الرجل ثوبہ من غیران یضم جانبیہ بین یدیہ فان ضمہ فلیس بسدل‘‘ (عون المعبود)
سدل یہ ہے کہ کوئی اپنے کپڑے کے دونوں کناروں کو لپیٹے بغیر سامنے کی طرف لٹکا دے اور اگر اسے لپیٹ دے تو سدل نہیں ہے ۔
اوربعض روایتوں میں ہے کہ سدل کرنا یہودیوں کا طریقہ ہے، چنانچہ ابوعبیدہ نے نقل کیا ہے کہ:
’’عن علی انہ خرج فرای قوما یصلون قدسدلوا ثیابھم فقال کانھم الیھود خرجوا من قھرھم‘‘(عون المعبود)
حضرت علی باہر آئے دیکھا کہ کچھ لوگ اپنے کپڑوں کو لٹکائے ہوئے نماز پڑھ رہے ہیں انھوں نے کہا گویا کہ سب یہود ہیں جو اپنی درسگاہوں سے نکل کر آگئے ہوں۔
اس تفسیر کی بنیاد پر فقہا ء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص قبا یاقمیص وغیرہ کو کندھے پر رکھ لے اور اس کی آستین کو ہاتھ میں نہ ڈالے تو یہ بھی سدل میں شامل ہے اور مکروہ ہے۔ (الہندیہ 106/1)
کرتے کے اوپر سے کوئی کپڑا مثلاً مفلر یا رومال وغیرہ کو لٹکایا جائے یا کرتے کے بغیر کوئی چادر اوڑھے اور اس کے دونوں کناروں کو لٹکتا ہوا چھوڑ دے بہر صورت سدل ہے اور مکروہ ہے کیونکہ حدیث کا لفظ عام ہے اور دونوں صورتوں کو شامل ہے ۔
اس طرح سے کپڑا لٹکانے کی ممانعت کی وجہ یہود سے مشابہت ہے نیز کپڑے کو گرنے سے بچانے کے لئے اسے باربار پکڑنا اور ٹھیک کرنا ہوگا جس سے خشوع وخضوع متاثر ہوگا اور نماز میں اطمینان و سکون کی کیفیت برقرار نہیں رہیگی ۔
(1)-کرہ- سدل تحریماً للنھي أي: إرسالہ بلا لبس معتاد …کشد ومندیل یرسلہ من کتفیہ فلو من أحدھما لم یکرہ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب ما یفسد الصلاة وما یکرہ فیھا، 2: 405، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ: ”أي: إرسالہ بلا لبس معتاد“:…قال فی البحر:…فعلی ھذا تکرہ فی الطیلسان الذي یجعل علی الرأس، وقد صرح بہ في شرح الوقایة اھ إذا لم یدرہ علی عنقہ وإلا فلا سدل (رد المحتار)۔
11-ریکارڈ کردہ اذان
ٹیپ یا چپ وغیرہ میں کسی کی آواز میں اذان ریکارڈ کرلی جائے اور پھر اوقات مقررہ میں اس کی کیسٹ چلاکر اذان دی جائے تو کیا یہ درست ہے ؟ جواب یہ ہے کہ ایسا کرنا جائز نہیں ہے اور اس طرح سے اذان دینے سے اذان نہیں ہوگی کیوں کہ:
1-اذان اسلامی شعائر میں سے ایک شعار ہے اور کسی شعار و علامت کو اس کی اصل شکل میں باقی رکھنا ضروری ہے ، اس لئے کہ تبدیلی کے بعد شعار ہونے کی حیثیت ہی برقرار نہیں رہیگی ۔
2-اذان ایک مستقل عبادت ہے اور عبادت کے لئے دوچیزوں کی رعایت ضروری ہے :اخلاص اور کتاب وسنت سے ثابت خاص شکل کی پابندی اور اس میں کسی طرح کی تبدیلی بدعت کہلاۓ گی۔
اور ظاہر ہے کہ اخلاص ایک باشعور انسان کی صفت ہے نہ کہ کسی بے جان مشین کی جس کی حرکت شعور و احساس اور آگہی سے عاری ہوتی ہے ۔
3-اذان کے لئے بہت سی چیزیں سنت و مستحب ہیں جیسے باوضو ہونا ،کھڑے ہوکر اذان دینا ،قبلہ رو ہونا،کانوں میں انگلیاں ڈالنا ، حی علیٰ الصلاۃ اور حی علیٰ الفلاح کے وقت دائیں بائیں رخ کرنا ۔
اور مشینی اذان میں ان چیزوں کی رعایت ممکن نہیں ہے ۔
4- اذان کا مقصد نماز کے وقت کے ہوجانے کی خبر دینا ہے اور اس خبر کا تعلق دینی امور سے ہے جس کے معتبر ہونے کے لیے خبر دینے والے کامسلمان، عاقل، بالغ اور دیندار ہونا ضروری ہے اور ظاہر ہے کہ یہ تمام شرطیں کیسٹ یا چپ وغیرہ میں نہیں پائی جاسکتی ہیں (1)
لھذا ریکارڈ کردہ اذان کی نشر کرنا درست نہیں ہے اور اس طرح سے اذان دینے سے اذان نہیں ہوگی ۔
(1)’’ان المقصود الاصلی من الاذان فی الشرع الاعلام بدخول اوقات الصلاۃ… فمن حیث الاعلام بدخول الوقت وقبول قولہ لابدمن الاسلام والعقل والبلوغ والعدالۃ۔ (رد المحتار:290/1، مطلب فی الموذن اذا کان غیرمحتسب فی اذانہ.)
12-ایک اذان کو متعدد مسجدوں سے نشر کرنا
موذن کسی ایک مسجد سے اذان دے اور اس کی آواز اسی وقت نیٹ یاالیکٹرانک مشین کے ذریعے متعدد مساجد سے نشرہو، جیسے کہ ریڈیو کی خبریں بیک وقت متعدد جگہوں سے سنی جاتی ہیں تو یہ شکل بھی ناجائز ہے کیونکہ یہ اس مسلسل عمل کے خلاف ہے جس پر رسول اللہ ﷺ کے زمانے سے آج تک امت عمل پیرا ہے،
اور گزرچکا ہے کہ اذان ایک ایک اسلامی شعار اور ایک مستقل عبادت ہے جس میں کسی بھی طرح کی تبدیلی کی اجازت نہیں ہے اور ایسا کرنا بدعت و ضلالت ہے
دوسرے یہ کہ اس طرح سے اذان دینے میں لوگوں کو اذان کے اجرو ثواب سے محروم کرنا ہے جس کی فضیلت متعدد حدیثوں سے ثابت ہے، چنانچہ حضرت معاویہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے انہوں نے سنا کہ:
’’الموذنون اطول الناس اعناقا یوم القیامۃ‘‘ (صحیح مسلم:674)
قیامت کے دن اذان دینے والوں کی گردنیں سب سے زیادہ بلند ہونگی ۔
اور حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’لویعلم الناس مافی النداء والصف الاول ثم لم یجدوا الا ان یستھوا علیہ لاستھموا‘‘ (صحیح بخاری:615)
اگر لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ اذان اور پہلی صف میں کیا ثواب ہے اور پھر اسے حاصل کرنے کے لئے قرعہ اندازی کی ضرورت پڑ جائے تو لوگ اس کے لئے ضرور قرعہ اندازی کرتے ۔اور ان سے منقول ایک دوسری حدیث میں ہے :
’’یغفرللموذن مدی صوتہ ویشھد لہ کل رطب ویابس‘‘(مسند احمد:,9935)
مؤذن کی آواز جہاں تک پہنچتی ہے اس کے بقدر اس کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں ،اور ہر خشک و تر اس کے لئے گواہی دیتا ہے ۔
اور حضرت ابو سعید خدری سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لایسمع مدی صوت الموذن جن ولاانس الاشھد لہ یوم القیامۃ‘‘ (صحیح بخاری:609)
مؤذن کی آواز جہاں تک پہنچتی ہے وہاں تک کے جو بھی جنات و انسان اسے سنتے ہیں وہ قیامت کے دن اس کی گواہی دیں گے ۔
13-ریڈیائی یا الیکٹرانک اذان کاجواب
ریڈیائی یا ٹیلیفونک اذان کی دو شکلیں ہیں ایک یہ کہ براہ راست انہیں نشر کیا جائے، دوسرے یہ کہ اسے پہلے رکارڈ کر لیا جائے اور پھروقت ہونے پر نشر کیاجائے، پہلی صورت میں سننے والے نے اگر ابھی اس وقت کی نماز نہیں پڑھی ہے اور اس اذان کاوقت ہوچکا ہے تو اس کے لیے جواب دینا مستحب ہے خواہ قریب کی مسجد سے براہ راست مؤذن کی آواز آئے یا لاؤڈ اسپیکر اور ریڈیو وغیرہ کے ذریعے اس کی آواز دور کی مسجد سے سنی جائے۔
اور اگر سننے والے نے اس وقت کی نماز پڑھ لی ہے یا اس کے اعتبار سے ابھی اس کا وقت نہیں ہوا ہے، جیسے کہ ریڈیو کے ذریعہ مکہ کی آواز ہندوستان میں سنی جائے یا یہاں کی اذان مکہ میں سنائی دے تو اس صورت میں جواب دینا مسنون نہیں ہے، کیونکہ موذن اس کے ذریعے نماز کے لیے بلارہا ہے اور سننے والا اس کو ادا کر چکا ہے یا اس کے اعتبار سے ابھی اس کاوقت ہی نہیں ہوا ہے توجب اسے نماز کے لیے جانا ہی نہیں ہے تو اس کا جواب کیسے دے گا ؟ اور حی علی الصلاۃ و حی علی الفلاح کا جواب لاحول کے ذریعے دے کر اللہ تعالیٰ سے اس کی ادائیگی کی توفیق کی دعا کیسے کر ے گا، جب کہ وہ اسے پڑھ چکا ہے؟ البتہ اگر کوئی ذکر کے ارادے سے جواب دینا چاہے توا س میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اور دوسری صورت میں بہر حال اذان کا جواب دینا سنت نہیں ہے کیوں کہ اس اذان کا کوئی اعتبار نہیں ہے (1)اور اسی بنیاد پرکہا گیا ہے کہ آواز بازگشت یا پرندے وغیرہ کے ذریعے آیت سجدہ کے سننے پر سجدۂ تلاوت واجب نہیں ہے۔ (2)
(1)۔ ’’اما اذان الصبی الذی لایعقل فلایجزی ویعاد لان ما یصدرلاعن عقل لایعتد بہ کصوت الطیور‘‘۔(البدائع:150/1، فصل فی سنن الاذان) (2)’’لاتجب ای سجدۃ التلاوۃ بسماعہ من الصدی والطیور‘‘۔ (رد المحتار583/2)
14-لاؤڈاسپیکر کے ذریعے اذان دینے میں دائیں بائیں رخ کرنا
اذان دینے میں حی علی الصلوٰۃ اورحی علی الفلاح کے وقت دائیں بائیں رخ کیا جاتا ہے تاکہ اذان کی آواز دور تک پہنچ سکے، اسی طرح سے آواز کی بلندی کے لیے کان میں انگلی ڈالی جاتی ہے تو کیا لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے اذان دینے کی صورت میں اس علت کے نہ پائے جانے کی وجہ سے ایسا کرنا مسنو ن ہوگا یا نہیں؟۔
صحیح یہ ہے کہ لاؤڈاسپیکر کے ذریعے اذان کرنے کی حالت میں بھی دائیں بائیں رخ کرنا اور کان میں انگلی داخل کرنا مستحب ہے، کیوں کہ اذان کا یہ طریقہ ایک تسلسل کے ساتھ نبی کریم ﷺ کے عہد مبارک سے لے کر آج تک جاری ہے، اس لیے اس میں کسی طرح کی تبدیلی نہیں کی جاسکتی، چنانچہ طواف کے دوران دائیں کندھے کوکھلا رکھا جاتا ہے اور اکڑ کر چلا جاتا ہے، صحیح حدیث میں اس کی علت یہ بتلائی گئی ہے کہ ایسا کرنے سے مشرکوں پر رعب طاری ہوگا اور مسلمانوں کے تعلق سے ان کی یہ غلط فہمی دور ہوجائے گی کہ وہ بہت کمزور ہوچکے ہیں، رسول اللہ ﷺ کے انتقال کے بعد طواف کے دوران حضرت عمرؓ مذکورہ علت کو سوچ کر تھوڑی دیر کے لیے رکے لیکن پھریہ کہہ کر آگے بڑھ گئے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا کیا ہے، اس لیے اس علت کے نہ پائے جانے کے باوجود ہم اسی کیفیت کے ساتھ طواف کریں گے، اس سلسلے میں صحیح بخاری کے الفاظ یہ ہیں:
’’ثم قال مالنا وللرمل؟ انماکنا رائینابہ المشرکین وقد اھلکھم اللہ ثم قال: شییٔ صنعہ النبیﷺ فلانحب ان نترکہ‘‘ (صحیح بخاری: 1965)
اب ہم رمل کیوں کریں؟ یہ تو مشرکوں کو دکھانا کے لئے تھا، اور اللہ تعالی نے انھیں تباہ وبرباد کردیا۔ پھر کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کیا کرتے تھے اس لئے اسے چھوڑنا ہمیں گوارہ نہیں ۔
علامہ ابن حجر عسقلانی نے اس کی شرح میں لکھا ہے:
حضرت عمر فاروق نے طواف میں رمل نہ کرنے کا ارادہ کرلیا تھا کیونکہ انھیں اس کی وجہ معلوم تھی اور وہ وجہ باقی نہیں رہی تو سبب کے نہ پائے جانے کی وجہ سے انھوں نے اسے ترک کرنے کا ارادہ کیا پھر وہ اس ارادے سے یہ سوچ کر باز آگئے کہ ہوسکتا ہے کہ رمل کی کوئی اور بھی حکمت ہو جس سے وہ باخبر نہیں ہیں اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہی بہتر ہے ۔(1)
اورامام ابو داؤد وغیرہ نے اس واقعہ کو ان الفاظ میں نقل کیا ہے:
’’فیم الرملان الیوم والکشف عن المناکب وقد اطّأ اللہ الاسلام ونفی الکفرواھلہ؟ مع ذالک لاندع شیئا کنا نفعلہ علی عہد رسول اللہﷺ‘‘ (ابوداؤد:1887.ابن ماجہ:2952.مسند احمد:317)
آج رمل کرنے اور کندھا کھولنے کی کیا ضرورت ؟اب تو اسلام غالب آچکا ہے کفر اور کفار ختم ہوچکے ہیں ۔ اس کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ہم جو کچھ کرتے رہے ہیں اسے ترک نہیں کریں گے ۔
رمل کی مشروعیت کے سبب کی خود حدیث میں صراحت ہے اور وہ سبب موجود نہیں رہا، اس کے باوجود اسے چھوڑا نہیں گیا اور اذان میں دائیں بائیں پھرنے کے سبب کے بارے میں حدیث میں کوئی وضاحت نہیں ہے کہ اس کامقصد آواز کو دور تک پہنچا نا ہے یا اور کوئی مقصد ہے تو محض احتمال کی بنیاد پر اسے کیسے تر ک کیا جاسکتا ہے، البتہ کان میں انگلی ڈالنے سے متعلق بعض روایتوں میں ہے کہ اس سے آواز کی بلندی میں مدد ملے گی، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ:
’’ان رسول اللہﷺ امربلالا ان یجعل اصبعیہ فی اذنیہ وقال انہ ارفع لصوتک‘‘ (ابن ماجہ: 710)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال کو حکم دیا کہ وہ اپنے کان میں انگلی داخل کریں کیونکہ اس سے آواز زیادہ بلند ہوگی ۔
لیکن یہ روایت ضعیف ہے، اس لیے اس سے استدلال نہیں کیاجاسکتا ہے، علاوہ ازیں اس کی حکمت اس کے علاوہ بھی ہوسکتی ہے، جہاں تک ہماری عقل کی رسائی نہیں ہوسکی ہے ، اس لیے محض ایک حکمت کے نہ ہونے کی وجہ سے کسی سنت کو ترک نہیں کیا جاسکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ:
اور اذان میں حی علیٰ الصلاۃ اور حی علیٰ الفلاح کے وقت دائیں بائیں رخ کرے گرچہ وہ کسی جگہ تن تنہا ہو یا بچے کے کان میں اذان دے رہا ہو اس لئے کہ یہ بہر صورت اذان کی سنت ہے (2)
(1)’’ان عمرکان ھم بترک الرمل فی الطواف لانہ عرف سببہ وقد انقضی فھم ان یترکہ لفقد سببہ ثم رجع عن ذالک لاحتمال ان تکون لہ حکمۃ ما اطلع علیھا فرای ان الاتباع اولی‘‘ (فتح الباری)
(2)’’ویلتفت فیہ…بصلاۃ وفلاح ولووحدہ اولمولود لانہ سنۃ الاذان مطلقا‘‘ ای انہ من سنن الاذان فلایخل المنفردبشییٔ منھا حتی قالوا فی الذی یوذن للمولود ینبغی ان یحول‘‘ (الدر المختار مع الرد53/2)
15-اذان کاالارم
حضرت بلالؓ رمضان کے مہینے میں سحر ی کے لیے باخبر کرنے کے مقصد سے اذان دیا کرتے تھے، اس سلسلے میں صحیح بخاری کے الفاظ یہ ہیں:
’’لایمنع احدکم اذان بلال من سحورہ فانہ یوذن بلیل لیرجع قائمکم ولینبہ نائمکم‘‘ (صحیح بخاری: 620)
بلال کی اذان تم میں سے کسی کو سحری سے نہ روکے کیونکہ وہ رات میں اذان دیتے ہیں تاکہ تہجد پڑھنے والا سحری کرلے اور سونے والا بیدار ہوجائے ( اور سحری کھالے )
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نیند سے بیدار ہونے یا کسی دوسرے مقصد کے لیے اذان کے الارم میں کوئی قباحت نہیں ہے، البتہ اس بات کالحاظ رکھنا چاہیے کہ کھیل کود کی جگہوں پر اس طرح کا الارم نہ لگایاجائے، دوسرے یہ کہ اس کی وجہ سے نماز کی اذان میں التباس نہ ہو۔
16-کلمات اذان کی بیل اور موبائل میں اذان کا رِنگ ٹون
قرآنی آیات یا ذکر الٰہی پرمشتمل کلمات کو ذکر الٰہی کے علاوہ کسی اورمقصد کے لیے استعمال کے جائز ہونے یا نہ ہونے کامدار اس کے مقصد اور غرض پر ہے، اگر وہ جائز ہو تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں ہے، جیسے کہ کسی کا مقصد ہو کہ فون یا اطلاعی گھنٹی سننے کی جگہ پر اذان وغیرہ کے الفاظ سنے جائیں اور وہ ذکر الٰہی سے مستفید ہوتا رہے تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، البتہ اس کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ فون اٹھانے کی صورت میں قرآنی آیت یا اذان کے کلمات درمیان سے نہ کٹیں، ورنہ آیت ادھوری رہ جاتی ہے اورغیرمکمل آیت کے معنی بدل جاتے ہیں، اس لئے ایسا کرنا درست نہیں ہے ۔ دوسرے یہ کہ اس طرح رِنگ ٹون پر مشتمل فون کو لے کر ناپاک جگہوں پر نہ جایاجائے، مثلاً بیت الخلاء وغیرہ میں فون آنے پر ان کلمات کی بے حرمتی ہوگی۔
اوراگر محض مقصد یہ ہو کہ اس کے ذریعے اطلاع حاصل ہوگی تو ا س کے لیے بہرصورت ذکرالٰہی پر مشتمل کلمات کا استعمال مکروہ ہوگا۔ (1)
(۱) ’’من جاء الی تاجر یشتری منہ ثوبا فلما فتح التاجر الثوب سبح اللہ تعالیٰ وصلی علی النبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اراد بہ اعلام المشتری جودة ثوبہ فذالک مکروہ‘‘۔ (الہندیہ 315/5)
17-پیدائش کے موقع پر فون کے ذریعے اذان
بچے کے دائیں کان کے پاس اذان کہنا اور بائیں کان کے پاس اقامت کہنا سنت ہے، چنانچہ بعض روایتوں میں ہے کہ:
’’من ولد لہ ولد فاذن فی اذنہ الیمنی واقام فی اذنہ الیسری لم تضرہ ام الصبیان‘‘ (مسند ابو يعلى: 6780. عمل اليوم والليلة لابن السني :623)(1)
پیدائش کے موقع پر بچے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی جائے تو بچہ شیطانی اثرات سے محفوظ رہیگا ۔
اور حضرت ابو رافعؓ کہتے ہیں کہ:
’’رأیت رسول اللہﷺ اذن فی اذن الحسن بن علی حین ولدت فاطمۃ بالصلاۃ‘‘ (رواہ أحمد وكذلك ابوداؤد والترمذي وصححه . نيل الاوطار 1060/2)
میں نے دیکھا کہ جب حضرت فاطمہ کے یہاں حسن بن علی کی ولادت ہوئی تو اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان دی ۔
ملا علی قاری اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
’’حین ولدت فاطمۃ یحتمل السابع وقبلہ‘‘ (مرقات المفاتیح 75/7)
حضرت فاطمہ کے یہاں ولادت کے موقع پر اذان دی میں احتمال ہے کہ پیدائش کے ساتویں دن اذان دی گئی یا اس سے پہلے ۔
بچے کے کان میں اذان دینے کی حکمت یہ ہے کہ اذان کے کلمات اسلامی تعلیمات کا خلاصہ اور مغز ہیں اور وہ دنیاوی ترقی اور اخروی کامیابی و نجات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں چنانچہ سب سے پہلے اللہ کی عظمت و برتری اور توحید کا بیان ہے اور اس کے بعد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اعلان اور پھر اسلامی زندگی اور عمل صالح کا تذکرہ اور پھر مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے اور وہاں کی کامیابی کا ذکر اور آخر میں دوبارہ اللہ کی عظمت و برتری کا اعلان ہے ۔
اس لئے دنیا میں آنے کے بعد سب سے پہلے اذان کے ذریعے اس کے دل کی گہرائیوں میں ایمان وعمل کے جذبات کو پیوست کرنا ہے ۔
نیز اذان سے شیطان دور بھاگتا ہے لہذا اذان دینے کی وجہ سے وہ شیطانی اثرات سے محفوظ رہیگا ۔
اور بچے کے کان میں اذان کے آداب کے سلسلے میں علامہ سندھیؒ کہتے ہیں کہ:
پیدائش کے موقع پر بچے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لیکر قبلہ رو ہوجائے اور اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہے اور حی علیٰ الصلاۃ کہتے ہوئے دائیں طرف اور حی علیٰ الفلاح کہتے ہوئے بائیں طرف رخ کرے ۔(2)
اور جیسا کہ ذکر کیا جاچکا ہے کہ اذان ایک عبادت ہے اور عبادت کے معاملے میں صحیح طریقہ یہی ہے کہ اس کو اصل شکل میں باقی رکھا جائے اس لئے پیدائش کے موقع پر فون کے ذریعے اذان دینا صحیح نہیں ہے اور اگر کسی وجہ سے فوری طور پر اذان دینا ممکن نہ ہو تو عذر کے زائل ہونے تک اسے موخر کردیا جائے اور پھر براہ راست اذان دی جائے کیونکہ اذان کے لئے کسی وقت اور دن کی پابندی ضروری نہیں ہے گرچہ بہتر یہی ہے کہ جلد سے جلد اس سنت کو ادا کرلیا جائے ۔
(1) ام الصبیان ھی التابعۃ من الجن، ھکذااوردہ الحدیث فی التلخیص ولم یتکلم علیہ، (نیل الاوطار:1060/2)
(2)’’فیرفع المولودعندالولادۃ علی یدیہ مستقبل القبلۃ ویوذن فی اذنہ الیمنی ویقیم فی الیسری ویلتفت فیھا بالصلاۃ لجھۃ الیمین وبالفلاح لجھۃ الیسار‘‘(تقریرات رافعی علی الرد 145/2)
18-ٹرین میں نماز
ٹرین کی ساخت ایسی ہوتی ہے کہ اس میں کھڑے ہوکرنماز ادا کی جاسکتی ہے، نیز اس کاتعلق براہِ راست زمین سے ہے، اس لیے وہ تخت کی طرح ہے، اس لیے اس سے اترکر زمین پر نماز پڑھنے کی قدرت کے باوجود اس پر نماز ادا کر نا جائز ہے۔ (1)
لیکن یہ حکم اس وقت ہے جب کہ ٹرین رکی ہوئی ہو اوراگر چل رہی ہوتو عذر کی وجہ سے نماز درست ہے کیونکہ نماز کے لیے اسے روکناممکن نہیں ہے اور نمازمیں مکان کا اتحاد بھی شرط ہے اور یہ شرط اسی وقت ساقط ہوگی جب کہ کوئی عذر ہو۔ (2)
اورجیساکہ معلوم ہے کہ نماز میں قیام کرنا شرط ہے، اس لیے قیام پرقدرت کے باوجود ٹرین میں بیٹھ کر نماز پڑھنا درست نہیں ہے اوراگر شدید حرکت یا بھیڑ کی وجہ سے کھڑے ہوکر نماز پڑھنا ممکن نہیں تو پھر بیٹھ کر رکوع اور سجدے کےساتھ نماز ادا کرنا درست ہے۔ (3)
واضح رہے کہ اگر امید ہو کہ کسی اسٹیشن پر ٹرین رکنے کی صورت میں یا منزل مقصود تک پہنچنے کی حالت میں وہ وقت کے اندر ٹرین سے باہر نمازپڑھ سکتا ہو تو نماز کوموخر کردینا مستحب ہے۔
(1)، واذا کانت العجلۃ علی الارض ولم یکن شییٔ منھا علی الدابۃ وانما لھا حبل مثلا تجرھا الدابۃ بہ تصح الصلاۃ علیھا لانھا حینئذ کالسریرالموضوع علی الارض۔
(رد المحتار:491/2)
(2) والحاصل ان کلا من اتحاد المکان واستقبال القبلۃ شرط فی الصلاۃ غیر نافلۃ عند الامکان ولایسقط الا بعذر۔(ردالمحتار 491/2 )
(3) وقبلۃ العاجزعنھا لمرض وان وجد موجھا عند الامام او خوف مال وکذا کل من سقط عنہ الارکان جھۃ قدرتہ،(الدر المختار) فکماتجوزلہ الصلاۃ علی الدابۃ ولوکانت فرضا وتسقط عنہ الارکان کذالک یسقط عنہ التوجہ الی القبلۃ اذا لم یمکنہ ولااعادۃ علیہ اذا قدر فیشترط فی جمیع ذالک عدم امکان القبلۃ ویشترط فی الصلاۃ علی الدابۃ ایقافھا ان قدر والا بان خاف الضرر کان تذہب القافلۃ وینقطع فلا یلزمہ ایقافھا ولا استقبال القبلۃ۔(رد المحتار 115/2 )
“اگر واقعتا اس قدر بھیڑ ہو کہ رکوع وسجدہ کرنا ممکن نہ ہو اور ٹرین سے باہر نماز ادا کرنے پر قادر نہ ہو تو استقبال اور قیام کے بغیر ہی نماز ادا کریں گے”.(فتاوی دارالعلوم دیوبند 142/2)
19-بس اورجیپ وغیرہ میں نماز:
بس اورجیپ وغیر ہ کی بناوٹ ایسی ہوتی ہے کہ اس میں کھڑے ہوکر نماز پڑھنا دشوار ہوتا ہے، نیز اگر وہ قبلہ کی طرف نہ جارہی ہو تو قبلہ کی طرف رخ کرنا بھی مشکل ہوتا ہے، اس لیے اگر وہ ٹھہری ہوئی ہو تو اتر کرنماز اداکرنا ضروری ہوگا اوراگر چل رہی ہو اور نماز کے لیے اسے رکوانا ممکن ہے تو بھی اسے روک کرزمین پرنمازادا کرنا واجب ہے اوراگر یہ ممکن نہ ہواور کھڑے ہوکر نماز ادا کرنے کی کوئی شکل نظر نہ آئے توبیٹھ کر نماز رکوع اور سجدے کے ساتھ نماز ادا کرنا درست ہے، البتہ وقت کے اندر منزل مقصودتک پہنچنے کی امید ہو تو موخر کردینا بہتر ہے۔
20-ہوائی جہازمیں نماز
سجدہ آخری درجے کی عاجزی اور انکساری کا نام ہے جس کی صورت یہ ہوگی کہ جسم کا سب سے اوپری حصہ یعنی سر کو جسم کے سب سے نچلے حصے یعنی یعنی پیر کے برابر کردے ، سجدے کا حقیقی مفہوم یہی ہے اور فقہی کتابوں میں جو لکھا گیا ہے کہ پیشانی کو زمین پر رکھنے کا نام سجدہ ہے تو وہ عمومی حالات کے اعتبار سے ہے یعنی عام طور سجدہ زمین ہی پر کیا جاتا ہے اس لئے سجدہ کی تعریف میں زمین کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ورنہ تو سجدے کے لئے زمین کا ہونا ضروری نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے کشتی میں نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے حالانکہ کشتی اور زمین کے درمیان پانی حائل ہے لہذا کشتی اورپانی کے جہاز کی طرح سے ہوائی جہاز میں بھی نمازاداکرنا درست ہے، جب کہ نماز کے فوت ہونے کاخطرہ ہو اوراس میں نمازادا کرنے کی صورت میں اگر قیام اوررکوع ممکن ہو تو کھڑے ہوکر پڑھے اوراگر اس کا امکان نہ ہوتو بیٹھ کر رکوع اور سجدے کے ساتھ پڑھے ، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
لايكلف الله نفسا الا وسعها
اللہ کسی بھی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ ذمہ داری نہیں سونپتا (سورہ البقرہ:286)
’’فاتقوا اللہ ما استطعتم‘‘ (۲)
اور جہاں تک تم سے ہوسکے اللہ سے ڈرتے رہو ۔
اور حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت عمران بن حصین نے عرض کیا مجھے بواسیر کی بیماری ہے میں نماز کیسے پڑھوں ؟فرمایا:
صل قائما فان لم تستطع فقاعدا فان لم تستطع فعلى جنب (صحيح بخاري:1117)
اور حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ :
سئل النبي صلى الله عليه وسلم عن الصلاة في السفينة فقال كيف أصلي قال صل قائما الا ان تخاف الغرق (السنن الکبری للبیہقی 155/3)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کشتی میں نماز پڑھنے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کھڑے ہوکر پڑھو الا یہ کہ ڈوبنے کا اندیشہ ہو ۔