نبیﷺ کی تعلیمات میں کسب معاش کی اہمیت

نبیﷺ کی تعلیمات میں کسب معاش کی اہمیت

محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ

کئی سال (تقریبا نصف صدی پہلے) کی بات ہے۔ پرتاپگڑھ ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر ایک بارہ سال کا بچہ بھیک مانگ رہا تھا، لڑکے کے بال اور دوسری علامتوں سے معلوم ہو رہا تھا کہ وہ لڑکا کسی پنجابی ( سکھ) کا ہے چونکہ ابھی اس نے ایک ہی دو روز سے یہ کام شروع کیا تھا اس وجہ سے جھجھک، پریشانی اور گھبراہٹ کے آثار اس کے چہرے پر باقی تھے۔۔
بچہ بھیک مانگتے مانگتے ایک سردار (پنجابی) کے پاس پہنچا۔۔ شاید دل میں یہ خیال بھی رہا ہوگا کہ سردار جی پلیٹ فارم پر کھڑے دوسرے مسافروں سے کچھ زیادہ ہی اسے دیں گے، اس لیے کہ وہ ان کی ہی برادری کا بچہ تھا۔ کسی برادری کا اپنی برادری کے بارے میں ہمدردی و محبت اور تعاون و امداد کا جذبہ ایک مشہور و معروف بات ہے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔۔ جب لڑکا سردار جی کے پاس پہنچا تو سردار جی نے اولا اسے نیچے سے اوپر تک بغور دیکھا اور پھر اس کے چہرے پر ایک تمانچا رسید کردیا۔۔ اور کہا تو اس لیے پیدا ہوا ہے کہ اپنی قوم کا نام ڈبو دے۔۔ اس کے بعد سردار جی نے بچہ کا ہاتھ پکڑا اور اسٹیشن سے باہر لیجا کر ایک ٹھیلے والے سے کچھ مونگ پھلیاں خرید کر ایک جگہ بٹھا دیا اور کہا :
لے شام تک اس کو بیچتا رہ کل مجھ سے پھر ملنا، لڑکے نے ایسا ہی کیا اور چند ہی دنوں کے بعد ہی معلوم ہوا کہ وہ لڑکا کافی کمائی کرنے لگا۔۔۔۔ (ماہنامہ نوائے ہادی فروری ۲۰۱۳ء)
یہ واقعہ ایک ایسی قوم کا ہے جس کے پاس نہ تو اسلام جیسی کوئی مذہبی طاقت ہے، اور نہ قرآن جیسا نظام زندگی، اور نہ ہی اصول معاشیات اور اقتصادیات۔۔ لیکن ہماری قوم (جس کے پاس اسلام جیسی مذھبی قوت ہے اور قرآن جیسا نظام زندگی) کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ ہماری قوم میں گداگری اور بھیک مانگنے کا رواج بڑ رہا ہے، لیکن ہم اپنی قوم کو اس کے پیر پر کھڑا کرکے خودداری اور خود اعتمادی والی زندگی گزارنے کا جذبہ اور حوصلہ پیدا نہیں کر رہے ہیں جو بہت ہی افسوس اور دکھ کی بات ہے۔۔۔۔
اسلام فقیری اور گداگری کی تعلیم نہیں دیتا ہے، سوال کرنے اور بلا ضرورت دست سوال پھیلانا، اسلام اس کو کسی طرح پسند نہیں کرتا اور نہ اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، اسلام تو مانگنے اور سوال کرنے اور بلا ضرورت ہاتھ پھیلانے کو ذلت و رسوائی سے تعبیر کرتا ہے۔
اسلام نے جہاں زندگی کے تمام شعبوں میں مکمل رہنمائی کی، وہیں معاش اور کسب معاش کے سلسلے میں پوری وضاحت فرمائی، اور دین و دنیا دونوں کی بھلائی مانگنے کی تلقین کی، اور یہ بتایا کہ انسانی زندگی کے دو دور ہیں پہلے دور کا نام مذہب کی اصطلاح کے مطابق دنیا ہے اور دوسرے دور کا نام آخرت ہے۔۔۔ نبیﷺ نے زندگی کے دونوں حصوں کے درمیان تعلق پیدا کرتے ہوئے ارشاد فرمایا، دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔۔۔
مال و دولت زندگی کی اساس ہے، قرآن مجید نے مال کو زندگی کے قیام کی بنیاد اور اساس قرار دیا، کہیں مال و دولت کو خدا کا فضل قرار دیا گیا۔۔۔ سورہ آل عمران اور سورہ جمعہ میں اس کی تفصیل موجود ہے، کہیں مال کو خیر کے لفظ سے تعبیر کیا، پیارے آقاﷺ کی حیات مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ اگر آپ نے کسی پریشان حال مسلمان کو غم دنیا سے نجات پانے کے لیے کوئی دعا تعلیم فرمائی تو اس کے ساتھ ایک انصاری مسلمان کو یہ ہدایت فرمائی کہ تم بازار سے ایک کلہاڑی لاو، پھر حضور ﷺ نے اپنے دست مبارک سے اس کلہاڑی میں لکڑی کا دستہ ڈالا۔ اور ان صحابی کو جنگل سے لکڑیاں کاٹنے اور پھر بازار میں فروخت کرنے کا حکم دیا اور فرمایا میں تمہیں پندرہ دن تک یہاں نہ دیکھوں، پندرہ دن کے بعد صحابی رسول ﷺ خدمت اقدسﷺ میں حاضر ہوئے اور ان کے پاس پندرہ درہم موجود تھے۔ آپ نے ان درھموں اور تجارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا، یہ تیرے لیے بہتر ہے، سوال کرنے اور بھیک مانگنے سے۔۔ (ابو داود)
معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے بندوں کو صرف دعائیں تعلیم نہیں فرمایا کرتے تھے بلکہ ساتھ ساتھ محنت، کسب معاش کے طریقے اور ڈھنگ بھی بتایا کرتے تھے۔۔
امام غزالی رحمة الله عليه نے احیاء العلوم میں توکل پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کسب معاش اور تجارت و زراعت کی جدوجہد سے کنارہ کش ہو کر دوسروں کی خیرات و عطیات پر نظر رکھنا توکل نہیں ہے، توکل کا مطلب یہ ہے کہ شریعت کے حکم کے مطابق کسب معاش کے لیے بھرپور کوشش کی جائے، اور کوشش کے بعد نفع و نقصان کی جو صورت بھی پیش آئے، اسے خدا تعالیٰ کی طرف سے یقین کرکے صبر و شکر اختیار کرے۔۔ امام غزالی رحمة الله عليه نے اس سلسلے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک روز حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسجد نبوی ﷺ کی طرف سے گزرے اور دیکھا کہ وہاں کچھ لوگ بے وقت بیٹھے ہوئے ہیں، آپ نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ کسی نے جواب دیا ھم المتوکلون، یہ لوگ اللہ پر توکل کرنے والے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، لا، بل ھم المتاکلون ۔۔ نہیں، بلکہ یہ لوگ مفت کھانے والے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ دین کا کام کرنے کے ساتھ ساتھ، تبلیغ و دعوت کے ساتھ ساتھ نماز و روزہ کے ساتھ ساتھ کسب معاش کی کوشش کرنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو سوال کرنے سے اس درجہ منع فرمایا اور اس کی تعلیم دی کہ وہ معمولی چیزیں مانگنے سے بھی احتراز کرتے تھے۔۔ اسلام نے توکل کی تعلیم ضرور دی، لیکن لوگوں نے جو بے عملی اور فرائض سے پہلو تہی کو توکل کا نام دے رکھا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اصلاح بھی فرمائی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معاشی زندگی کیسی تھی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذریعہ معاش کیا تھا؟ نیز مال و دولت کے سلسلہ میں آپ کا نظریہ کیا تھا, آپ کا فقر اختیاری تھا یا اضطراری؟ اس عنوان پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا ڈاکٹر رضی الاسلام صاحب ندوی نے ڈاکٹر یسین مظہر صدیقی صاحب ندوی کی کتاب ،،معاش نبوی ،، پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
،، مال و دولت کے بارے میں مسلمانوں کے درمیان دو نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں : ایک یہ کہ کسی شخص کے پاس بہت زیادہ مال و دولت ہونا پسندیدہ نہیں ہے ، کسبِ معاش میں بہت زیادہ مصروف ہونا اسے اللہ سے دوٗر کرتا ہے اور اللہ کے رسول ﷺ نے فقر کو پسند کیا ہے اور فقراء کی فضیلت بیان کی ہے ۔ دوسرا یہ کہ کسی شخص کا مال و دولت کا مالک ہونا معیوب نہیں ہے ، مال کو اللہ تعالیٰ نے زندگی گزارنے کا ذریعہ قرار دیا ہے ، مال خرچ کرکے آدمی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکتا ہے ، مال و دولت سے محروم ہونا اور اس سے کنارہ کش رہنا پسندیدہ نہیں ہے ، بلکہ مطلوب یہ ہے کہ آدمی جائز ذرائع سے مال کمائے اور اللہ کی رضا کے کاموں میں خرچ کرے ۔ غور کیا جائے تو دوسرا نقطۂ نظر ہی درست معلوم ہوتا ہے ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : …أَمْوَالَکُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمْ قِیَاماً(النساء: ۵) ”۔۔۔تمھارے وہ مال جنھیں اللہ نے تمہارے لیے قیامِ زندگی کا ذریعہ بنایا ہے۔“ اور اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے : ”روزِ قیامت ابن آدم کے پیر بارگاہِ الٰہی سے نہیں ہٹیں گے ، جب تک اس سے پانچ سوالات نہیں کر لیے جائیں گے : ان میں سے دو سوالات یہ ہوں گے کہ اس نے مال کہاں سے کمایا تھا؟ اور کہاں خرچ کیا تھا؟ (ترمذی: 6142) اس سے معلوم ہوا کہ اسلامی تعلیمات کی روٗ سے مال کمانا اور مال دار ہونا ناپسندیدہ اور قابلِ نفرت نہیں ہے ۔ قابلِ نفرت یہ ہے کہ آدمی مال و دولت کا حریص ہو ، جو کچھ کمائے اسے سینت سینت کر رکھے ، نہ اپنی اور اپنے متعلقین اور زیرِ کفالت افراد کی ضروریات پوری کرے ، نہ دوسرے غریب اور ضرورت مند انسانوں پر خرچ کرے ۔ صحابۂ کرام کی زندگیوں کا جائزہ لیں تو ان میں جہاں بہت بڑی تعداد غریب اور نادار صحابۂ کرام کی تھی ، وہیں خاصی تعداد میں مال دار صحابہ بھی تھے ۔ ان میں حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت عثمان غنی اور حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم کو شہرت حاصل تھی ۔ آج کل کی زبان میں انہیں لکھ پتی اور کروڑ پتی کہہ سکتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ تھے جو اپنی دولت کا بڑا حصہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے تھے ۔ خود اللہ کے رسول ﷺ کا شمار نبوت سے قبل مکہ مکرمہ کے بڑے تاجروں میں ہوتا تھا ۔ نبوت کے بعد بھی آپ کے پاس مختلف ذرائع سے مال آتا رہتا تھا ، لیکن آپ سب اللہ کی راہ میں خرچ کر دیتے تھے ۔ آپ کا فقر مجبوری کا نہیں ، بلکہ اختیاری تھا ۔
اللہ کے رسول ﷺ کے بارے میں عام تأثر یہ ہے کہ آپؐ نے فقر اور تنگی کی زندگی گزاری ۔ سیرت نگاروں نے عموماً آپ کی حیاتِ طیبہ کے اسی پہلو کو ابھار کر پیش کیا ہے ۔ لیکن یہ تصویر کا ایک رخ ہے ۔ آپ کا فقر اختیاری تھا ۔ آپ کی زندگی میں ہمیشہ فقر اور معاشی تنگی نہیں رہتی تھی ، بلکہ اس میں خوش حالی ، فارغ البالی اور کشادگی کے ایام بھی آتے تھے ۔ (ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی کی تحریر سے ماخوذ و مستفاد)
مذکورہ تمہیدی گفتگو اور تحریر کی روشنی میں تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کسب معاش کی اہمیت پر کچھ خامہ فرسائی کی کوشش کر رہا ہوں، تاکہ ،، اسلام کا تصور مال ،، یہ موضوع ہمارے سامنے واضح ہو جائے اور اس بارے میں جو افراط وتفریط پائی جاتی ہے ،اس کا خاتمہ ہو ۔۔
*دنیا* گزارنے کے لئے دولت اور روزی کا حصول ہر آدمی کی لازمی ضرورت ہے ۔ انسان کو مکلف بنایا گیا ہے کہ وہ اپنے لئے اپنی اولاد اور ماتحتوں کے معاش اور روزی روٹی کے لئے دوڑ بھاگ اور تگ و دو کرے، کیونکہ انسان کے رزق اور روزی روٹی کو اللہ تعالی نے دنیا میں اس کے لئے پھیلا دیا ہے، اس کو حاصل کرنا اور اس کے لئے محنت کرنا یہ انسان کے ذمہ ہے ۔ اسلام نے تعلیم دی ہے کہ آدمی کو اپنی روزی حلال طریقوں سے کمانی چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ یہ روزی آزادانہ طریقہ پر کمائی جائے، دوسروں کی غلامی اور چاکری سے بہتر ہے، کہ آدمی اپنے ہاتھ کی کمائی کھائے، نیز یہ کمائی حلال ہو ناجائز طریقہ سے حاصل نہ کی جائے ۔ قوت بازو سے روزی پیدا کرنا خواہ وہ صنعت و حرفت کے ذریعہ ہو یا تجارت و زراعت سے یا محنت و مزدوری کرکے یا دیگر حلال اور جائز طریقوں سے، اسلام کی نظر میں کس قدر مطلوب ہے ،اس کا اندازہ اس سے کیجئے کہ پھاوڑا چلاتے ہوئے ایک صحابی کے ہاتھ سیاہ ہوگئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تمہارے ہاتھ پر کچھ لکھا ہے، صحابی نے جواب دیا ۰۰ نہیں ۰۰ پتھر پر پھاوڑا چلاتا ہوں اور اس سے اپنے بال بچوں کے لئے روزی روٹی پیدا کرتا ہوں، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشی سے ان صحابی کا ہاتھ چوم لیا اور رزق کی برکت کی دعائیں دیں ۔
رزق حاصل کرنے کے لیے ہر انسان کو محنت کرنی پڑتی ہے اور کرنی چاہیے، اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ نبیوں اور رسولوں کو بھی حلال روزی کمانے کا حکم دیا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے،، یا ایھا الرسول کلوا من الطیبات و اعملوا صالحا، انی بما تعملون علیم۔۔ المومنون / ۵۱
اے پیغمبرو! کھاو پاک چیزیں اور نیک عمل کرو، تم جو بھی کرتے ہو، میں اس کو خوب جانتا ہوں،۔
چنانچہ تمام انبیاء کرام دین کی دعوت کا کام اور تبلیغ کا فریضہ انجام دیتے اور لوگوں سے اس پر کوئی اجرت اور معاوضہ نہیں لیتے، بلکہ خود اپنی محنت و مشقت سے رزق حاصل کرتے۔ حدیث کی کتابوں میں انبیاء کرام کے مختلف پیشوں اور محنتوں کا ذکر ملتا ہے۔ حضرت مقدام بن معدیکرب روایت کرتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا،، کوئی شخص اپنے ہاتھوں کی کمائی سے بہتر کوئی روزی نہیں کھاتا اور اللہ کے نبی حضرت داود علیہ السلام اپنے ہاتھوں سے روزی کماتے تھے۔ (بخاری کتاب البیوع)
حضرت عبد اللہ بن زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،، تم میں سےکوئی شخص کلہاڑی سے لکڑی کاٹ کر گھٹر اپنی پیٹھ پر اٹھا لائے اور اسے فروخت کرے، اس کے ذریعہ اللہ اس کے چہرہ کی حفاظت کرے ، یہ اس کے لیے بہتر ہے، اس سے کہ وہ لوگوں سے مانگے اور لوگ اسے دیں یا منع کریں۔۔ (بخاری کتاب الزکوٰۃ)
اسلام نے ہاتھ سے کمانے کی ہمت افزائی کی ہے اور ہاتھ پھیلانے کی ممانعت کی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا،،
تم میں جو کوئی مانگنے کی عادت ڈالتا ہے، وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے چہرہ پر گوشت کا ٹکڑا نہیں ہوگا۔۔( بخاری کتاب الزکوٰۃ۔۔ )
نبی کریم ﷺ نے قبیصہ بن المخارق رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ہاتھ پھیلانا تین آدمیوں کے علاوہ کسی کے لیے جائز نہیں ہے۔ ایک وہ آدمی جو کسی ضمانت یا قرض میں مبتلا ہو اس کے لیے مانگنا اس وقت جائز ہے جب تک اس کا قرض ادا نہ ہوجائے۔ دوسرا وہ آدمی جو کسی آفت میں مبتلا ہو اور اس کا مال برباد ہوگیا ہو، اس کے لیے اس وقت تک مانگنا جائز ہے جب تک کہ اس کی حالت بحال نہ ہو جائے۔ تیسرا وہ آدمی جس کے گھر میں فاقہ ہو اور تین لوگ یہ کہہ دیں کہ اس کے یہاں فاقہ ہورہا ہے، اس کے علاوہ کسی اور کے لیے مانگنا حرام ہے۔ ( مسلم کتاب الزکوٰۃ،۔۔)
جس طرح اسلام نے ہاتھ پھیلانے کی ممانعت ہے اسی طرح غلط طریقہ سے مال کمانے کو حرام قرار دیا ہے، ارشاد خداوندی ہے۔ ولا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل۔۔(البقرہ / ۱۸۸)اور تم ایک دوسرے کے مال کو باطل طریقہ سے نہ کھاو۔ باطل طریقے سے مال کھانے کا مطلب ناجائز اور حرام آمدنی ہے، جیسے رشوت، چوری، لوٹ کھسوٹ،خیانت بدعہدی، ناپ تول میں کمی غبن، شراب فروشی، جسم فروشی،اور حرام مال کی تجارت، وغیرہ اس کے ذریعے سے مال حاصل کرنا حرام ہے اور ایسی کمائی میں نہ تو برکت ہے اور نہ ہی ایسے شخص کی عبادت قبول ہوتی ہے، اس حرام کمائی کی نحوست کے اثرات اولاد پر بھی پڑتی ہے، جس کے نتیجہ میں اولاد ناکارہ اور نااہل ہوجاتی ہے۔
قرآن مجید اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں رزق کے سلسلہ میں دو معیار بتائے گئے ہیں ایک ہے کفاف یعنی بقدر ضرورت روزی ۔ اور دوسرا ہے تکاثر یعنی زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنا اور اس کو زندگی کا مقصد اور نصب العین بنالینا۔
قرآن مجید کی سورہ تکاثر میں یہ بتایا گیا ہے کہ لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ تکاثر کی نفسیات اور بیماری میں مبتلا ہیں، یعنی حد سے زیادہ مال کمانے کی حرص اور صرف اسی کے لئے دوڑ بھاگ ۔ ایسے لوگ بالکل غفلت میں رہتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ مال ذریعہ عیش نہیں، بلکہ وہ ایک سنگین ذمہ داری ہے، ایک ایسی ذمہ داری کہ حشر کے میدان میں خدا کی عدالت میں ان سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا، کہاں سے کمایا کس طریقہ سے کمایا اور کہاں کہاں خرچ کیا ؟جس آدمی کہ اندر اس کا احساس پیدا ہوجائے گا، وہ اپنی زندگی میں کبھی رزق کو اول درجہ نہیں دے گا بلکہ اس کو ثانوی درجہ دے گا ۔
تکاثر کثرت سے ماخوذ ہے، معنی ہیں کثرت کیساتھ مال و دولت جمع کرنا۔ یہ لفظ بمعنی تفاخر بھی استعمال ہوا ہے، ایک روایت یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے الہاکم التکاثر پڑھ کر فرمایا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ مال کو ناجائز طریقوں سے حاصل کیا جائے، اور مال پرجو فرائض اللہ کے عائد ہوتے ہیں ان میں خرچ نہ کیا جائے، (ملخص معارف القرآن جلد ۸)
آگے قرآن مجید نے یہ بیان کیا حتیٰ زرتم المقابر۔۔۔ یہاں زیارت قبور سے مراد مر کر قبر میں پہنچنا ہے۔۔ قرآن مجید نے یہاں لوگوں کو آگاہ کیا کہ تم لوگوں کو مال و دولت کی بہتات، یا مال و اولاد اور قبیلہ و نسب پر تفاخر غفلت میں ڈالے رہتی ہے، اپنے انجام اور آخرت کے حساب کی کوئی فکر نہیں کرتے یہاں تک کہ اسی حال میں تمہیں موت آجائے گی، اور وہاں عذاب میں پکڑے جاو گے، یہ خطاب بظاہر عام انسانوں کو ہے جو مال و دولت کی محبت یا دوسروں پر اپنی برتری اور تفاخر میں ایسے مست رہتے ہیں کہ اپنے انجام کو سوچنے کی طرف توجہ نہیں ہوتی۔
ایک موقع پر نبی کریم ﷺ الہاکم التکاثر پڑھ رہے تھے اور یہ فرما رہے تھے۔ یقول ابن آدم مالی مالی۔ و ھل لک من مالک الا ما اکلت الخ (ترمذی /مسندِ احمد)
آدمی کہتا ہے میرا مال، میرا مال حالانکہ اس میں تیرا حصہ تو اتنا ہی ہے، جس کو تو نے کھا کر فنا کر دیا، پہن کر بوسیدہ کر دیا، یا صدقہ کرکے اپنے آگے بھیج دیا، یا اور اس کے سوا جو کچھ ہے وہ تیرے ہاتھ سے جانے والا ہے تو اس کو لوگوں کے لیے چھوڑنے والا ہے، ۔
ایک اور موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کی مال و دولت کی حرص کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : اگر آدم زادے کے لیے ایک وادی سونے سے بھری ہوئی موجود ہو تو وہ اس پر قناعت نہیں کرے گا ، چاہے گا ایسی دو وادیاں ہو جائیں۔۔ اور اس کے منھ کو تو قبر کی مٹی کے سوا کوئی چیز بھر نہیں سکتی، اور اللہ تعالی توبہ قبول کرتا ہے، اس شخص کی جو اس کی طرف رجوع ہو۔
دوسرا طریقہ کفاف کا ہے کہ وہ بقدر ضرورت روزی پر راضی اور خوش ہوجائے ۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : *قد افلح من اسلم ،و رزق کفافا و قنعہ اللہ بما آتاہ* صحیح مسلم کتاب الزکوة ) یعنی وہ آدمی کامیاب رہا جس نے خدا کی اطاعت کی ،اور اس کو بقدر ضرورت رزق ملا اور اللہ نے جو کچھ دیا اس پر اس نے قناعت کرلی ۔
تکاثر ( ہائے دنیا ہائے دنیا) کی نفسانیت میں مبتلا ہونا در اصل مال و دولت روزی روٹی اور اسباب و وسائل کو ہی اپنا سب کچھ سمجھنا ہے ۔ ایسا آدمی رسمی طور پر سارے احکام و شعائر پر بظاہر عمل کرتا نظر آئے گا لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ مال و دولت کو ہی سب کچھ سمجھتا ہوگا مال ہی کو اس کی نظر میں اصل درجہ ہوگا ۔ ایسا آدمی دنیا میں مالدار دکھائی دے گا لیکن آخرت میں وہ کنگال نظر آئے گا ۔
لیکن جو شخص بقدر کفاف روزی پر مطمئن ہوگا وہ انسان ہی حقیقت میں کامیاب ہوگا کیونکہ ایسے آدمی کو دنیا میں یہ موقع نصیب ہوگا کہ وہ اپنی توانائی کو ضائع ہونے سے بچائے اور آخرت کی ابدی کامیابی کے لئے زیادہ سے زیادہ عمل کرے ۔
خلاصہ یہ کہ مومن کی ذمہ داری ہے کہ وہ بیکار نہ بیٹھے، رزق حاصل کرنے کے لیے حلال ذرائع تلاش کرے، کام چھوٹا ہو یا بڑا پیشہ چاہے کم تر ہو یا برتر، بشرطیکہ وہ حلال ہو، اس میں شرم کی کوئی بات نہیں ہے، یہ خود ایک عبادت ہے، شرم کی بات یہ ہے کہ انسان حرام طریقہ سے مال کمائے اور اس سے اپنی اولاد کی پرورش کرے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حلال روزی اور بقدر کفاف روزی کمانے کی توفیق عطا فرمائے آمین
ناشر / مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی، دگھی، گڈا، جھارکھنڈ

اپنی راۓ یہاں لکھیں