ناموسِ مصطفیﷺ
ذکی الرحمٰن غازی مدنی جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ
ہمارے روشن خیال مفکروں نے مغربی لبرل ازم کو جس طرح اسلامی تصورات میں سمونے اور گھسانے کی کوشش کی ہے اس کا بدترین نمونہ یہ ہے کہ یہ لوگ شتمِ رسالتﷺ کے مسئلے پر فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شریعت میں اس کی کوئی سزا سرے سے نہیں ہے۔ فکر کو فکر سے کاٹا جائے گا،اور بس۔ دراصل یہ لوگ مخالفینِ دین کو مطلق حریت دینے کے قائل ہیں، اس لیے اسی اصول پر چلتے ہوئے اس بھیانک نتیجے تک جا پہنچے ہیں۔
فکری تسلسل کے منطقی وفطری قانون کے حوالے سے راقم الحروف عرصے سے جدیدفکری انحرافات کا جائزہ لے رہا تھا، مگر ذاتی طور سے مجھے یہ امید نہیں تھی کہ معاملہ اس حد تک کبھی پہنچ پائے گا کہ نبیِ اکرمﷺ کو گالی دینے والے کی آزادی اور معافی کی وکالت کی جانے لگے گی۔اس سلسلے میں جن دلائلِ فقہیہ وتاریخیہ کو یہ حضرات پیش کرتے ہیں ان کا جائزہ میں نے اپنی کتاب ’’غیر مسلموں سے متعلق شرعی احکام‘‘ میں بہ تفصیل لیا ہے۔ اس میں سبِّ نبیؐ کے مجرم کا شرعی حکم وغیرہ شرح وبسط سے بیان کیا گیا ہے۔ تفصیل کے طالب وہاں مراجعہ کر سکتے ہیں۔
یہاں پر میں صرف اِس حد تک گفتگو کرنا چاہوں گا کہ پہلے مسلمانوں کے یہاں سبِ نبیﷺ کے مجرم کے ساتھ کس قسم کا تعامل برتا جاتا تھا۔ اس سلسلے میں چند مثالیں پیش کرنا چاہوں گا۔
شام کی راجدھانی دمشق کا واقعہ ہے۔ سن ۷۰۴ھ میں وہاں ایک شخص رہتا تھا جس کا نام ’’کمال احدب‘‘ تھا۔ بحث ومباحثے کے دوران اس کی زبان سے کچھ الفاظ ایسے نکل گئے جس میں مقامِ رسالتﷺ کی توہین ضمناً نکل آتی تھی۔ اس نے نزاع کے دوران فریقِ مخالف سے کہا تھا:’’تو جھوٹا ہے،چاہے تو اللہ کا رسول کیوں نہ ہو۔‘‘فوراً اس کی شکایت عدالت میں پہنچی اور ’’کمال احدب‘‘ کی توقع کے خلاف رائے عامہ اس کے خلاف مشتعل ہوگئی۔ دمشق کے قاضی اس زمانے میں مشہور مالکی فقیہ علامہ جمال الدین تھے جو تیس سال تک منصبِ قضا پر فائز رہے تھے۔ امام عزؒ بن عبدالسلام،مؤلف ’’قواعد الاحکام‘‘ کے شاگردِ رشید ہیں۔یہاں اب ہم مورخ ابن العماد حنبلی کا بیان نقل کر دیتے ہیں کہ وہ مختصر بھی ہے اور جامع بھی۔
وہ لکھتے ہیں:’’سن ۷۰۴ھ میں کمال احدب کی گردن مار دی گئی۔ اس کا سبب یہ ہوا کہ وہ قاضی جمال الدین مالکی کے پاس فتویٰ لینے آیا تھا اور اسے معلوم نہ تھا کہ وہ قاضی ہیں۔ اس نے کہا تھا کہ ایسے انسان کے بارے میں کیا رائے ہے جو کسی دوسرے کے ساتھ نزاع کرے اور دورانِ بحث کہہ دے کہ تم جھوٹے ہو،چاہے تم اللہ کے رسول کیوں نہ ہوئو۔ قاضی نے پوچھا یہ بات کس نے کہی۔ اس نے کہا میں نے۔ قاضی نے حاضرینِ مجلس کو گواہ بنایا اور اسے قید میں ڈال دیا۔ اگلے دن اسے دار العدل میں لایا گیا اور وہاں اس کے قتل کا حکم جاری کر دیا گیا۔‘‘ (شذرات الذہب، ابن العماد الحنبلی، تحقیق:محمود وبعد القادر الارناؤوط:۸/۱۹)
یہی قاضی جمال الدینؒ برابر ہر اس شخص کو قتل کی سزا دیتے رہتے تھے جو حرمتِ محمدی سے کچھ بھی تعرض کرجاتا تھا۔ امام ابن حجرؒ عسقلانی نے ان کے بارے میں لکھا ہے: ’’یہ بڑے سخت مزاج اور ہیبت والے انسان تھے۔ ناموسِ محمدی سے تعرض کرنے والی ایک جماعتِ فساق کا خون انہوں نے بہایا ہے۔‘‘ (الدرر الکامنۃ، ابن حجرؒ:۳/۴۸۸)
مورخ صلاح الدین صفدیؒ نے بھی ان کے بارے میں لکھا ہے:’’وہ ایسے قاضی تھے کہ کمزور ان کے یہاں اپنی مراد پا لیتے تھے۔ احکامِ شریعت کو مکمل طور سے نافذ کرتے تھے۔حرمتِ نبوی سے تعرض کرنے والوں کی ایک جماعت کو انہوں نے قتل کرایا ہے۔‘‘ (اعیان العصر، صفدی، تحقیق: ابو زید وآخرون:۴/۴۵۶)
اس موضوع سے متعلق عدالتی فیصلوں کو قاضی عیاضؒ نے بھی اپنی مشہور کتاب ’’الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ‘‘ میں نقل کیا ہے۔ ان کا نقل کردہ ایک واقعہ یہاں ذکر کرتا ہوں۔ لکھتے ہیں: ’’ابو عبداللہ بن عتابؒ نے ایک عطار کے بارے میں قتل کا فتویٰ دیا کیونکہ اس نے کسی سے کہا تھاکہ پورے پیسے ادا کرو اور شکایت کرنی ہے تو نبیﷺ سے جاکرکرو۔ اور یہ کہا تھا کہ اگر تم نے پوچھا یا ناواقفیت ظاہر کی تو نبیﷺ نے بھی ایسا کیا تھا۔
اسی طرح فقہائے اندلس نے ’’ابن حاتم المتفقہ طلیطلی‘‘ کو قتل کرنے اور سولی چڑھانے کا فتویٰ دیا تھا کیونکہ اس کے بارے میں گواہوں نے گواہی دی تھی کہ اس نے ذاتِ رسالتﷺ کا استخفاف کیا تھا اور ایک مناظرے کے دوران توہین آمیز طریقے سے انہیں یتیم اور حیدر(یعنی حضرت علیؓ) کا سسر کہا تھا۔ اس نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ اللہ کے نبیﷺ کا زہد اختیاری نہیں اضطراری تھا، یعنی اگر طیباتِ دنیا آپ کو میسر ہوتیں تو آپ ضرور حظ اٹھاتے۔
قیروان کے فقہاء اور سحنونؒ مالکی کے تلامذہ نے ابراہیم الفزاری کے قتل کا فتویٰ دیا تھا۔ وہ ایک جدت پسند شاعر تھا اور کئی علوم میں طاق تھا۔ وہ قاضی ابو العباس بن طالب کی مجلسوں میں بہ غرضِ مناظرہ شریک ہوتا تھا۔ اس تعلق سے اس کی کئی شکایتیں پہنچیں کہ وہ اللہ اور انبیاء ورسل اور محمدﷺ کے بارے میں استہزائیہ کلمات کہہ دیتا ہے۔ قاضی یحییٰ بن عمرؒ اور دیگر فقہاء نے اسے بلوایا اور اس کے قتل وصلب کا حکم جاری کر دیا۔ چنانچہ اسے چھری سے زخم دیا گیا اور الٹا سولی پر لٹکا دیا گیا۔‘‘ (الشفا، قاضی عیاض، تحقیق: علی البجاوی:۲/۹۴۰-۹۴۱)
امام ابن تیمیہؒ کے زمانے کی بات کریں تو اسی طرح کا ایک مشہور قضیہ ملتا ہے جس میں خود امام ابن تیمیہؒ نے بھی ایک باحمیت مسلمان کی حیثیت سے شرکت کی تھی۔ وہ قضیہ ہے کاتب عساف عیسائی کا۔ اس نے کچھ ایسی بات کہہ دی تھی جس میں مقامِ نبوت کی بے حرمتی پائی جاتی تھی۔ واقعے کی خبر امام ابن تیمیہؒ تک پہنچی تو انہوں نے بعض علماء ومشائخ کو جمع کیا اور انہیں لے کر شرعی دار القضاء جا پہنچے۔ اس قضیے کی وجہ سے امام صاحب کو بڑی پریشانیاں اٹھانی پڑیں، نظربندی اور کوڑوں کی مار تک جھیلنا پڑی۔ پھر ناموسِ مصطفیﷺ کے دفاع میں انہوں نے اپنی وہ مشہورِ زمانہ کتاب لکھی جس کانام ’’الصارم المسلول علی شاتم الرسول‘‘ ہے۔
علامہ ابن کثیرؒ نے پورے واقعے کو جامع انداز میں اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے۔ لکھتے ہیں:’’عساف نصرانی کا واقعہ۔ یہ دیہات کا رہنے والا تھا۔ ایک جماعت نے گواہی دی کہ اس نے نبیِ کریمﷺ کو گالی دی تھی۔ عساف اثر ورسوخ کا مالک تھا، اس نے امیرِ آلِ علی احمد بن حجی کے بیٹے کے یہاں پناہ لے لی۔ شیخ تقی الدین ابن تیمیہؒ اور شیخ زین الدین فاروقیؒ جو دار الحدیث میں مدرس تھے،یہ دونوں اکٹھا ہوئے اور ایک ساتھ امیر عز الدین ایبک حموی نائبِ سلطنت کے یہاں گئے اور پورا معاملہ اس کے سامنے رکھا۔ امیر نے ان کی بات تسلیم کی اور عساف کو بلانے کے لیے کسی کو بھیجا۔
یہ دونوں بزرگانِ دین وہاں سے نکلے تو لوگوں کی اچھی خاصی بھیڑ ان کے ساتھ ہو گئی۔
دریں اثناء لوگوں نے عساف کو آتے ہوئے دیکھا جو ایک عربی بدو کی ہم رکابی میں آرہا تھا۔ لوگوں نے اسے برا بھلا کہنا شروع کیا۔ بدو نے جواب میں کہا کہ یہ عساف تم لوگوں سے بہتر انسان ہے۔ اس پر لوگوں نے دونوں کو پتھروں پر رکھ لیا۔ کچھ پتھر عساف کے بھی لگے اور اچھا خاصا ایک زخم اسے آیا۔
نائبِ سلطنت نے دونوں مشایخ ابن تیمیہؒ اور زین الدین فاروقیؒ کو طلب کیا۔ بھیڑ کو اکسانے کے جرم میں اپنے سامنے مار لگوائی اور ’’عذراویہ‘‘ میں انہیں نظر بند کر دیا۔ عساف نصرانی آیا اور اسلام قبول کرنے کا اعلان کردیا اور خاص اسی مقصد سے ایک محفل بھی منعقد کی گئی۔ اس نے ثابت کر دیا کہ اس کے خلاف گواہی دینے والوں کی اس سے دشمنی ہے۔ چنانچہ اس کا خون محفوظ ہوگیا۔ نائبِ سلطنت نے دونوں مشایخ کو بلوایا اور انہیں راضی کرکے چھوڑ دیا۔ بعد میں یہ عساف نصرانی بلادِ حجاز چلا گیا اور اتفاق سے مدینۃ الرسولﷺ کے پاس اسے اسی کے ایک چچازاد بھائی نے قتل کر دیا۔
شیخ تقی الدین ابن تیمیہؒ نے اسی واقعے سے متاثر ہوکر اپنی کتاب ’’الصارم المسلول علی ساب الرسول‘‘ تصنیف دی تھی۔‘‘ (البدایۃ والنہایۃ، ابن کثیرؒ،تحقیق:عبداللہ الترکی:۱۷/۶۶۶۔ واضح رہے علامہ ابن کثیر نے کتاب کا یہی نام درج کیا ہے، اگرچہ آج وہ الصارم المسلول علی شاتم الرسول کے نام سے متداول ہے۔ )
اس بحران کے بعد امام ابن تیمیہؒ نے جو کتاب لکھی ہے وہ ’’الصارم المسلول علی شاتم الرسول‘‘ کے نام سے مطبوع ہے اور اردو میں بھی اس کا ترجمہ موجود ہے۔اس کے مقدمے میں امام صاحبؒ ایک جگہ لکھتے ہیں:’’ایک واقعہ مجھے پیش آیا جس کے بعد نبیِ اکرمﷺ کے ہم پر عائد ہونے والے ادنیٰ ترین حق کا تقاضا ہوا جس کی تعمیل یہ کتاب ہے۔
چہ جائے کہ میں اسے اللہ کے واجب کردہ فریضے کا نام دوں جو اس نے ہر طرح سے اپنے رسولﷺ کی نصرت وحمایت کے تعلق سے ہم پر لازم کیا ہے۔ اپنی جان ومال پر انہیں ترجیح دینے اور ہر ایذا پہنچانے والے کے مقابلے میں آپ کا تحفظ کرنے کا اس نے ہمیں مکلف بنایا ہے۔
اگرچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ کو خلقت کی مدد اور حمایت سے بے نیاز کر دیا ہے، اس کے باوجود ہمیں ایسا حکم دیا گیا تاکہ بعض کو بعض کے ذریعے سے آزمائے اور وہ جان لے کہ غیب میں رہتے ہوئے اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد کو آگے کون بڑھتا ہے۔‘‘ (الصارم المسلول، تحقیق:الحلوانی وشودری:۱/۸)
حقیقتاً ابن تیمیہؒ کی پوری کتاب کا خلاصہ چند جملوں میں آگیا ہے۔ ان الفاظ میں دین کی سربلندی کا جذبہ بھی موجزن ہے،اس پر فخر وناز کا احساس بھی ہے،اور دلوں میں جاگزیں نبیِ اکرمﷺ کی بے پایاں تعظیم وتوقیر کی ترجمانی بھی ہے۔وہ لکھتے ہیں:’’اللہ کے نبیﷺ کو دی جانے والی ایک گالی ہزار کافروں کے اسلام لانے سے زیادہ بھاری ہے۔
اللہ کا دین اس طرح غالب ہو کہ نبیﷺ کے بارے میں کوئی دشنام گوئی نہ کرے تو یہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کو زیادہ محبوب ہے بہ مقابلہ اس کے کہ پوری پوری قومیں اسلام میں داخل ہوجائیں اور صورتِ حال یہ ہو کہ اسلامی حدیں پامال ہیں اوردینی حرمتوں کی توہین ہورہی ہے۔‘‘
[فإن الکلمۃ الواحدۃ من سب النبیﷺ لا تحتمل بإسلام ألوف من الکفار ولأن یظہر دین اللہ ظہورا یمنع أحدا أن ینطق فیہ بطعن أحب إلی اللہ ورسولہ من أن یدخل فیہ أقوام وہو منتہک ومستہان](الصارم المسلول:۲/۹۳۹)
معلوم یہ ہوا کہ رسول اللہﷺ کی حرمت اور تقدس کے ساتھ کوئی مول بھائو نہیں کیا جاسکتا۔امتِ مسلمہ کے فقہائ،ائمہ اور قاضیوں کا ہرزمانے میں یہی کردار وعمل رہا ہے۔ وہ مقامِ نبوت کی توہین وتحقیر پر مشتمل کسی عبارت کو محض فکری اختلاف یا نقطۂ نظر کا اختلاف نہیں سمجھتے تھے جسے ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ کر کھاتے پیتے زیرِ بحث لایا جاسکتا ہو۔
اس کے برخلاف سبِ نبیؐ کا مسئلہ ان کی نگاہوں میں انسان کو شرعی قضاء کی تلوار کے آگے ڈال دیتا ہے۔ جائزاور مشروع طریقوں سے ایسے دشنام گو کے خلاف مرافعہ کیا جاتا تھااور وقت کا مسلم حکمراں اس فیصلے کو نافذ کرتاتھا۔
پوری اسلامی تاریخ میں مسلمانوں کے دلوں میں اللہ کے رسولﷺ کا یہی مقام ومرتبہ بنا ہواتھا۔ اب ذرا اس کاموازنہ ہمارے جدید مفکرین اور پروفیشنل لکھاریوں کے ارشاداتِ عالیہ سے کیجئے جو مغربی لبرل ازم کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھ چکے ہیں تو کل اور آج کا ایمانی فرق کھل کر سامنے آجائے گا۔
ناموسِ مصطفی ﷺ کی حفاظت وصیانت کے نام پر انارکی، لاقانونیت اور جنگل راج پھیلانے اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی شریعت ہمیں اجازت نہیں دیتی، مگر آزادیِ رائے کے نعروں سے فریب کھاکر اور اپنی بے غیرتی اور دلوں سے حبِ نبوی کی تاراجی کو جسٹیفائی کرنے کی ہوڑ میں حرمتِ مقامِ محمدی کی پامالی کو نہ صرف یہ کہ ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنا، بلکہ اس بے حسی اور بزدلی کو اسلام اور ایمان کا تقاضا باور کرانا بھی شریعت سے مکروہ انحراف اور ایک فکری بگاڑ ہے۔
آخر میں علامہ عامر عثمانی کی مشہور نعت کے آخری اشعار(بس ایک لفظ کی ترمیم کے ساتھ) پر اپنی بات ختم کرتا ہوں:
حضورﷺ پھر بھی یہ “الفاظ” پیشِ خدمت ہیں اگرچہ ہدیۂ ناچیز کم عیار سہی
برائے نام سی نسبت تو تم سے باقی ہے
ہزار دامنِ ایمان تار تار سہی
تمہارا نام ہے تسکینِ روح وجاں اب بھی
تمہاری یاد سے ہوتا ہے دل جواں اب بھی
اللہم صل على سيدنا ومولانا محمد وعلی آلہ واصحابہ وبارک وسلم۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین