میر تقی میر
تحریر : احمد
سرتاجِ شعرائے اردو “میر تقی میر” یہ ایک ایسا نام ہے جس سے زبان و ادب سے دلچسپی رکھنے والا شاید ہی کوئی ایسا شخص ہوگا جو ناواقف و نا آشنا ہو۔ میر صاحب کا پورا نام میر محمد تقی تھا اور اۤپ میر تخلص اختیار کرتے تھے، جس کی وضاحت میر صاحب نے اپنے تذکرے نکات الشعراء میں خود کی ہے۔ آپ کے والد محترم کا نام نامی میر علی متقی تھا، جو اپنے وقت کے بڑے صوفی تھے۔ میر کی پیدائش اکبرآباد(آگرہ کا پرانا نام) میں ہوئ۔ سن پیدائش کے متعلق یقین کے ساتھ کچھ کہنا مشکل ہے کیونکہ میر صاحب کے بھی اپنے تذکرے میں پیدائش کے متعلق کچھ تحریرنہیں کیا، البتہ بعض لوگوں نے 1722ء کو آپ کی سن پیدائش قرار دیا ہے۔ میر صاحب کے انتقال کے متعقل تمام مورخین و تذکرہ نویشوں کا اتفاق ہے کہ آپ نے 1225ھ مطابق 1810ء کو لکھنؤ میں آخری سانسیں لی۔
میر صاحب کا بچپنا اکبرآباد میں ہی گزرا۔ والد کی وفات کے بعد میر صاحب کی تکلیفوں اور آزمائشوں کا دور شروع ہوا، تقرباً گیارہ سال کی عمر میں میر صاحب دلی آ گئے اور نواب صمصام الدولہ سے وابستہ ہو گئے۔ نواب صاحب نے میر صاحب کی اچھی خاطر کی لیکن نواب صاحب کی عنایتیں میر صاحب پر زیادہ دنوں تک باقی نہ رہی 1151ھ میں نادرشاہ کے حملے میں نواب صاحب مارے گئے اور میر صاحب کا روزینہ بند ہو گیا۔ دوست و احباب حتیٰ کہ قریبی رشتہ داروں نے بھی نظریں پھیر لی۔ مجبوراً پندرہ سال کی عمر میں میر صاحب نے دوسری دفعہ دلی کا رخ کیا اور اپنے سوتیلے بڑے بھائی کے ماموں سراج الدین علی خان آرزو کے مقیم ہوئے۔ شہر کے بعض استاذوں سے کچھ کتابیں پڑھیں۔ میر صاحب کی بدقسمتی نے یہاں بھی ان کا تعاقب کیا، ان کے بڑے بھائی نے جو ان شدید بغض و نفرت رکھتے تھے اپنے ماموں خان آرزو کو خط لکھا کہ میر تقی کی کفالت نہ کی جائے وہ فتنہ روزگار ہے۔
بھائی کی اس رویے نے میر صاحب کو شدید رنج پہناچایا، آپ سارا دن دروازہ بند کر کے گھر میں پڑے رہتے، اسی رنج و غم کی وجہ سے میر صاحب پر جنون کی سی کیفیت طاری ہو گئی تھی۔ تھوڑی طبیعت سنبھلی تو میر صاحب نے مختلف امراء سے تعلقات قائم کئے لیکن زیادہ دنوں تک کسی سے تعلق باقی نہ رہ سکا۔ الغرض میر صاحب نے آپنی آنکھوں کے سامنے کئی مرتبہ دلی کو اجڑتے اور بستے ہوئے دیکھا، پہلے نادرشاہ پھر احمد شاہ درانی، مرہٹوں، جاٹوں اور روہیلوں کے حملوں سے دلی کے امن و سکون کو تار تار ہوتا ہوے دیکھا۔ میر صاحب جب تک دلی میں رہے مصائب و آلام نے آپ کا پیچھا نہیں چھوڑا۔
سفر لکھنؤ
دلی کی اس افراتفری کے ماحول سے تنگ آ کر وہاں کے شعراء رفتہ رفتہ لکھنؤ کی طرف ہجرت کرنے لگے، سوائے خواجہ میر درد کے تمام بڑے بڑے شعراء لکھنؤ منتقل ہو گئے۔ لکھنؤ میں نواب آصف الدولہ جو اہل علم حضرات کی بڑی قدر کرتا تھا، دلی سے جو بھی اٹھا اس نے آصف الدولہ کا رخ کیا، پہلے خان آرزو پھر مرزا رفیع سودا، سودا کے انتقال کے بعد نواب کی دعوت پر میر صاحب نے بھی 1197ھ مطابق 1782ء میں لکھنؤ کے لیے رختِ سفر باندھا۔
آمدِ لکھنؤ سے پہلے ہی میر صاحب کی شہرت یہاں پہنچ چکی تھی۔ اہل لکھنؤ نے میر صاحب کا خوب کا اعزاز و اکرام کیا، آپ کی خوب آؤ بھگت کی، شعر و شاعری کی مجلسوں میں جان پڑ گئی، دور دراز سے سفر کر کے لوگ میر صاحب کی زبان سے کلام سننے کیلئے تشریف لانے لگے۔ دلی والوں نے جس کوہی نور کی قدر نہ کی اہل لکھنؤ نے اسے تاجوں میں سجایا، ہر خاص و عام نے میر صاحب کی قابلیت کا کھلے دل سے اعتراف کیا، مرزا غالب لکھتے ہیں:
ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
لکھنؤ والوں نے میر صاحب کو اور ان کی شاعری کو وہ عزت و مرتبہ دیا جس کے وہ یقیناً حقدار تھے۔ شیخ ابراہیم ذوق میر صاحب کے متعلق لکھتے ہیں:
نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب
ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
میر صاحب کی شاعری کی چند خصوصیات
میر صاحب کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے مولوی عبد الحق مرحوم رقم طراز ہیں ” میر صاحب کی شاعری اپنی بعض خصوصیات کی وجہ سے اردو زبان میں نہ صرف ممتاز حیثیت رکھتی ہے بلکہ اپنی نظیر نہیں رکھتی۔ الفاظ کا صحیح استعمال اور ان کی خاص ترتیب و ترکیب زبان میں موسیقی پیدا کر دیتی ہے، اس کے ساتھ اگر سادگی اور پیرائیہ بیان بھی عمدہ ہو تو شعر کا رتبہ بہت بلند ہو جاتا ہے، میر صاحب کے کلام میں یہ تمام خوبیاں موجود ہیں۔ میر صاحب کا کلام درد سے ایسا مملو ہوتا ہے کہ اس کے پڑھنے سے دل پہ چوٹ سی لگتی ہے۔ ان کی زبان کی فصاحت، سادگی، سوز و گداز، مضامین کی جدت اور تاثیر، ایسی خوبیاں ہیں جو اردو کے دوسرے شعراء کے یہاں نہیں پائی جاتی۔
مشاہدے اور تجربے سے یہ بات ثابت ہے کہ آدمی اپنی زندگی میں جس طرح کے حالات سے دو چار ہوتا ہے اس کی زبان و بیان میں اس کے اثرات نمایاں طور پہ نظر آتے ہیں۔ میر صاحب کے کلام پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں جابجا ان کے کلام میں حسرت و ناکامی، حرمان و مایوسی نظر آتی ہے۔ اسکی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ میر صاحب نے اپنی زندگی میں بہت سے مصائب، بے شمار تکلیفیں برداشت کی، خوشحالی اور عیش و آرام کی زندگی میر صاحب کو بہت کم نصیب ہوئی۔ دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ میر صاحب کی پرورش ایک صوفیانہ اور درویشانہ ماحول میں ہوئی، پہلے آپ کے والدِ محترم پھر سید امان اللہ جو ایک بڑے صوفی تھے، میر صاحب جنہیں چچا کہا کرتے تھے انہوں نے میر صاحب کی تربیت کی۔ میر صاحب بھی اپنے اس ماحول سے متاثر ہوئے اور اس کا صاف اثر ان کی شاعری میں نظر آتا ہے۔ یوں تو میر صاحب کی تمام شاعری قابل قدر اور ذکر کے لائق ہیں لیکن چند پہ یہاں اکتفاء کیا جاتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
ہوگا کسی دیوار کے سائے کے تلے میر
کیا کام محبت سے اس آرام طلب کو
مذکورہ شعر کے تشریح میں مولوی عبد الحق لکھتے ہیں ” اس شعر کا حسن شرح و بیان سے باہر ہے، ایک شخص جو محبت کی وجہ سے عیش و آرام کو ترک کر کے، گھر بار چھوڑ کر، بے یارو مددگار، آوارہ و سرگرداں محبوب کی دیوار کے نیچے آ پڑا ہے، اسے طعنہ دیا جا رہا ہے کہ یہ آرام طلب ہے اور ایسے آرام طلب کو محبت سے کیا کام۔ جب یہ آرام طلبی ہے تو قیاس کیجئے کہ محبت کی مصیبت کیا ہوگی اور شاعر عاشق سے کیا توقع رکھتا ہے۔
ایک اور شعر دیکھئے:
جو اس شور سے روتا رہے گا
تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا
میر صاحب نے اس شعر میں اعلیٰ درجہ کی جاں نثاری، ہمدردی اور غمخواری کا مظاہرہ کیا ہے، خود کی تکلیف اس قدر ہے کہ لاکھ ضبط کے باوجود آنکھوں سے آنسوں رواں ہیں لیکن اس رنج و غم کی کیفیت میں بھی یہ فکر ہے دامن گیر ہے کہ ایسا نہ ہو کہ میرے رونے کی وجہ سے میرے ہمسایے میرے پڑٓوسی کی نیند مین خلل واقع ہو۔
ایک شعر دیکھیں:
ہمارے آگے جب ترا کسی نے نام لیا
دلِ ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا
میرے سلیقے میری نبھی محبت میں
تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا
اس طرح کے پر اثر اور حکیمانہ اشعار میر صاحب کی شاعری میں جا بجا ملتے ہیں۔ میر صاحب کی مقبولیت ان کی غزلوں سے ہوئی لیکن انہوں نے چند مثنویاں بھی تحریر کی جو حسب ذیل ہیں:
1)مثنوی اخگر نامہ (2) شعلۂ عشق (3) جوش عشق (4) دریائے عشق (5) اعجازِ عشق (6) خواب و خیال (7) معاملاتِ عشق وغیرہ۔ ان کے علاوہ شعرائے اردو کا ایک تذکرہ ” نکات الشعراء ” 1165ھ مطابق 1752ء میں تحریر کی جسے اردو زبان کا پہلا تذکرہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔
یہ بھی پڑھیں👇👇👇
ماخوذ: انتخابِ کلامِ میر، تاریجِ ادب اردو
انتخاب ِ کلامِ میر سے ماخوذ غزل مع تشریح یو ٹیوب پہ👇👇