معتزلہ(پہلی قسط)
ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ
معتزلہ ایک فرقے کا نام ہے جو دوسری صدی ہجری کے آغاز میں سن ۱۰۵ھ تا ۱۱۰ھ کے دوران واصل بن عطاء الغزال نامی ایک شخص کی کوششوں سے نمودار ہوا تھا۔
یہ فرقہ اپنے زمانے میں رائج افکار ورجحانات کا ملغوبہ تھا۔دھیرے دھیرے یہ ایک بڑا فرقہ بن گیا۔ اس کے بہت سارے افکار ونظریات “جہمیہ” فرقے سے مأخوذ ہیں۔جلد ہی اس فرقے کے بداثرات اسلامی قلمرو کے بیشتر علاقوں میں بھی پھیل گئے۔
شیخ جمال الدین القاسمیؒ لکھتے ہیں:’’اس فرقے میں ایک سے بڑھ کر ایک باکمال اشخاص پیدا ہوئے اور ایک زمانے میں اس کا حلقۂ اثر بہت وسیع تھا۔ بہ کثرت لوگ اس سے وابستہ اور منسوب تھے۔عراقی شیعہ سب کے سب معتزلی تھے۔ ہندوستان، شام، ایران کے شیعہ، اور یمن میں زیدی شیعہ تمام تر معتزلی تھے۔ اصولی طور پر یہ سبھی لوگ مذہبِ اعتزال پر قائم تھے جیسا کہ علامہ مقبلیؒ نے ’’العَلَمُ الشامخ‘‘ میں تصریح فرمائی ہے۔ بلاشبہ یہ مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد ہے جسے کروڑوں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔لہٰذا یہ سمجھنا سادہ لوحی اور جہالت کی بات ہے کہ “جہمیہ” اور “معتزلہ” قلیل التعداد فرقے تھے اور اب مٹ گئے ہیں، اس لیے ان کے عقائد ونظریات کو پڑھنے اور ان کی تردید وتغلیط میں وقت لگانے کی اب چنداں ضرورت نہیں ہے۔ ایسی بات اگر کوئی کہتا ہے تو وہ یقینا مختلف مسلم ممالک کی آبادیوں میں پھیلے افکار وخیالات کا علم نہیں رکھتا اور رائج الوقت فکر وفلسفے سے نابلد اور جاہل ہے۔‘‘(تاریخ الجہمیۃ:ص۵۶۔ فرق معاصرۃ تنتسب إلی الإسلام:۲/۸۲۱۔ الخلافۃ ونشأۃ الأحزاب الإسلامیۃ، محمد عمارہ:ص۲۷۳)
معتزلہ فرقے کی سربراہی اور نمائندگی متکلمین کی ایک جماعت نے کی ہے جسے یونانی فلسفے اور یونانی منطق کے چسکے نے فتنے میں ڈال دیا تھا۔ ہندی فلسفے اور فارسی ادب کے یہ لوگ گرویدہ اور شیفتہ تھے۔یہ سب کے سب، یا ان کی بڑی اکثریت فارسی نژاد تھی۔ ان لوگوں نے یونانی فلسفے کو اٹل مان کر اس کے خلاف پڑنے والی قرآنی آیات کی بے جاتاویلیں کیں اور یونان کی بت پرستانہ عقلیت سے ہم آہنگ نہ ہونے والی احادیث نبویہ کا انکار کردیا۔ یہ لوگ یونانی فلاسفہ اور حکماء کو پیغمبرانِ دانش وبینش سمجھتے تھے اور عقلِ انسانی کو خدائی کا درجہ دیتے تھے جو کبھی غلطی نہیں کر سکتی ہے۔(السنۃ ومکانتھا فی التشریع:ص۷۔ الفرق بین الفرق:ص۱۲۷۔ الملل والنحل:۱/۳۲۔ موقف المعتزلۃ من السنۃ النبویۃ ومواطن انحرافھم عنھا، ابولبابہ حسین: ص۴۲-۴۶)
ڈاکٹر محیی الدین فرماتے ہیں:’’ملتِ اسلامیہ میں سب سے پہلے معتزلہ نے یونانی فکر وفلسفے سے مدد لی اور اپنے نظریات وافکار کی تائید میں فلسفیانہ طریقۂ استدلال اپنایا۔نظّام معتزلی، ابو الہذیل معتزلی اور جاحظ معتزلی وغیرہ کے اقوال پر غور کیا جائے تو وہ صاف صاف یونانی فلاسفہ کے آراء واقوال کا چربہ یا ترجمہ نظر آتے ہیں۔ان میں کچھ لوگ تھے جو فلسفۂ یونان سے اخذ واستفادہ کرتے تھے مگر اس میں اپنی طرف سے بھی کچھ ردّ وبدل اور حذف واضافہ کر ڈالتے تھے۔” (مقالات الإسلامیین، مقدمۂ تحقیق:۱/۲۳۔ فجر الإسلام:ص۴۷۴۔ ضحی الإسلام:۳/۹۶-۹۵)
فرق وعقائد پر لکھی گئی کتابوں میں جہاں معتزلہ کے تصورات و افکار پر گفتگو کی جاتی ہے یا ان کے کسی اصول کا تجزیہ اورمطالعہ ہوتا ہے، وہاں ان کی جو عبارتیں نقل ہوئی ہیں ان سے صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ عجمی فلسفے اورفکر سے بری طرح متاثر اور مرعوب تھے۔مثلاً ان کی کسی بھی نمائندہ شخصیت کے بارے میں بہ طورِ خوبی یہ لکھا جاتا ہے کہ انھوں نے فلاسفہ کی کتابوں کا خوب مطالعہ کیا تھا اور ان کی باتوں کو معتزلی افکار میں سمو لیا تھا۔ [قد طالع کثیرا من کتب الفلاسفۃ وخلط کلامھم بکلام المعتزلۃ](الملل والنحل:۱/۵۳-۵۴)
یا مثلاً یہ کہ انھوں نے یہ رائے فلاسفہ سے مستعار لی ہے۔[اقتبس ہذا الرأی من الفلاسفۃ](مرجعِ سابق: ۱/۵۰)
یا یہ کہ فلاں مسئلہ انھوں نے اپنے فلاسفہ برادران سے سیکھا ہے۔[ہذا قول أخذوہ عن إخوانھم من المتفلسفۃ](مقالات الإسلامیین:۲/۲۷۷)
یا یہ کہ علّاف معتزلی نے ارسطو سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔[قد أخذ العلاف کثیرا عن أرسطوطالیس](مقالات الإسلامیین:۲/۲۷۸۔ تاریخ المذاہب الإسلامیۃ:ص۱۳۰-۱۳۱)
معتزلہ متکلمین نے ابتداء میں غیر اسلامی مذاہب وادیان کے مناظرین و متکلمین سے پیکار لی تھی۔ اس کے بعض اچھے اثرات بھی مرتب ہوئے، مگر جب انھوں نے اپنے فہمِ دین کو حق وباطل کی کسوٹی بنادیا تو اپنی جائز حد سے تجاوز کرگئے اورخالص عقل پرستانہ نہج اور طریقۂ استدلال پر دین کی تفہیم وتعبیر کرنے لگے۔ ان کے فکر وفلسفے پر عقلیت کا بھوت سوار ہوگیا اور اسلام جو دینِ فطرت ہے اور جس میں ذہن ووجدان دونوں کی رعایت کی گئی ہے،اس کی تعلیمات میں عملاً تحریف اور بدلائو کی نوبت آگئی۔
عقل اور فلسفے کی غلامی کا طوق گلے میں ڈال کر معتزلہ نے اسلام کا مطالعہ کیا تو ان کے نتائجِ فکر شدید انحراف اور گمراہی کی عکاسی کرنے لگے۔یہ اپنے زمانے کے عقلی ثمرات اور تجریبی نتائج (pragmatic implications)کو حتمی ویقینی سمجھنے کی غلطی کر بیٹھے۔ یہ لوگ اپنے دور کے افکار ونظریات سے متاثر ہوئے اور انھوں نے مسلمانوں میں بہت سے فکری رجحانات کو متاثر کیا۔(دیگر فرقوں سے معتزلہ کی تاثرپذیری اور اثر آفرینی کے لیے دیکھیں مقالات الإسلامیین: ۱/ ۱۸۷۔ رسائل العدل والتوحید، محمد عمارہ:۱/۷۹۔ ضحی الإسلام:۳/۲۰۷۔ فرق معاصرۃ تنتسب إلی الإسلام:۲/ ۸۶۵۔ الشیعۃ الاثناعشریۃ ومنھجھم فی التفسیر:ص۵۶۲۔ المعتزلۃ واتجاھھم العقلی واثرہ فی تطور الفکر الإسلامی الحدیث:ص۴۲۰-۴۲۲۔ الاتجاہ الاعتزالی فی الفکر الإسلامی،عبد العال:ص۱۱۶ – ۱۲۸)
نئے دور میں مخالفین دین نے جس وسیع پیمانے پر اعتزالی افکار وآراء سے فائدہ اٹھایا ہے، وہ شایدکسی بھی دوسرے فرقے سے نہیں اٹھایا گیا۔ جدید منکرینِ حدیث کی ساری تگ وتاز اور سارا علمی وفکری سرمایہ یہی اربابِ اعتزال کا استفراغ اور جوٹھا ہے۔قدیم معتزلہ کے اصولوں اور نظریوں کی آڑ میں جدید لادینیت پسندوں اور ملحدوں کو اپنی فکر پھیلانے کا آج بھی خوب موقع مل رہا ہے۔(دیکھیں المؤامرۃ علی الاسلام، انور الجندی:ص۲۱۔ موقف المعتزلۃ من السنۃ، ابو لبابہ:ص ۱۶۹- ۱۷۲۔ تاریخ المذاہب الإسلامیۃ:ص۱۳۱۔جدید اسلامی فکر، ایک تنقیدی جائزہ)
ایک سیاسی وفکری مسلک کی حیثیت سے معتزلہ کی شروعات اس مباحثے یا مناظرے سے جوڑی جاتی ہے جو جلیل القدر تابعی حضرت حسنؓ بصری اور واصل بن عطاء کے درمیان ہوا تھا۔ وجہِ نزاع یہ تھی کہ کبائر کا ارتکاب کرنے والے مسلمان کا اخروی انجام کیا سمجھا جائے۔درس کی مجلس میں کسی نے یہ سوال حضرت حسنؓ سے پوچھا، مگر واصل بن عطاء جوحاضرین میں موجود تھے، وہ ان سے پہلے بڑھ کر بولے اور اسے جہنمی قرار دینے لگے۔ حضرت حسنؓ بصری نے ان کی رائے کو غلط بتایا اور تردیدمیں دلائل پیش کیے، مگر وہ نہیں مانے اور حضرت حسنؓ کے حلقۂ درس سے نکل گئے۔ان کے کچھ ہم نوا بھی ساتھ ہی اٹھ گئے۔ ان لوگوں نے اپنا الگ ایک حلقہ بنالیا۔ اعتزال عربی زبان میں علاحدگی کو کہتے ہیں۔شروعات میں واصل اور ان کے تلامذہ کے لیے یہ لقب بولا گیا اور پھر رفتہ رفتہ یہی ان کی عرفیت اور پہچان بن گئی۔ بیشتر علماء نے ان کے نام کے سلسلے میں یہ علت بیان کی ہے۔(دیکھیں الملل والنحل، شہرستانیؒ:۱/۴۰۔ الفرق بین الفرق، بغدادیؒ:ص۱۱۶۔ فرق معاصرۃ تنتسب إلی الاسلام:۲/ ۸۲۲۔ الخلافۃ ونشأۃ الأحزاب الإسلامیۃ، محمد عمارہ:ص۱۷۹-۱۹۸)
مگر ڈاکٹر احمد امین نے اس رائے کو کمزور بتایا ہے، البتہ انھوں نے بھی وجہِ تسمیہ کے بارے میں کوئی مضبوط رائے پیش نہیں کی۔ بہرحال اس فرقے کا آغاز جس طرح سے بھی ہوا ہو،یہاں اس کے فکری اصولوں سے بحث مطلوب ہے۔ یہ دیکھنا مقصود ہے کہ اپنے خود ساختہ اصولوں کی وجہ سے وہ احادیثِ نبویہ کے ذخیرے کے بارے میں کا کیا رویہ اپنانے پر مجبور ہوئے اور اس کے کیا بد اثرات ان کی تحریروتقریر میں منعکس ہوئے۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
(جاری)