مذہب بیزاری
مولانا صابر حسین ندوی
مذہب کو نہ ماننے والے، خواہشات کی اتباع کرنے والے، دنیا کو اپنی زندگی کا کل اثاثہ سمجھنے والے، مَن مرضی کرنا اور اپنے آپ کو کھلی فضا میں آزاد جانور سمجھنے والے، جنگل کی طرح بغیر ضابطے، قوانین اور اصول کے ہی ادھر اُدھر منہ مار کر پوری زندگی گزارنے والے ہمیشہ یہ شکایت کرتے رہتے ہیں کہ مذاہب میں سختی بہت ہے، عمل کا مطالبہ، حق کا ساتھ دینا، زندگی کو قید و بند میں ڈالنا اور اپنے اوپر بندشیں لگانے کا مطالبہ بہت زیادہ ہے۔ دراصل یہ لوگ چاہتے ہیں کہ انہیں شتر بے مہار چھوڑ دیا جائے، وہ مجنون اور پاگل بن کر ایک ایسی زندگی کے خواہاں ہوتے ہیں جس میں کوئی روک ٹوک اور پابندی نہ ہو، انہیں صحیح غلط کی تمیز بتانے والا، حیوان اور انسان کے درمیان فرق ملحوظ رکھنے کی تلقین کرنے والا، جائز و ناجائز کی باتیں بتانے والا نہ ہو؛ بالخصوص مغربی دور نے انسانی دماغ کچھ اس طرح مسحور کردیا ہے کہ وہ حیوانیت کو آزادی اور انسانیت کو دشواری سمجھنے لگے ہیں۔مذاہب کے اعتبار سے خود کو ڈھالنے کے بجائے آسمانی تعلیمات اور اقدار کو اپنی ہوس و خواہش کے موافق بنانا چاہتے ہیں۔
ان کی اسی ضد کو پوری کرتے ہوئے سینٹ پال نے عیسائیت میں سیندھ لگا دی، عیسائیت پر ابھی ایک صدی بھی نہ گزری تھی کہ آپ کی تعلیمات پر نقب زنی کردی گئی، ایک خدا کے بجائے تین خداؤں کا تصور ڈھونس دیا گیا۔ اس سے پہلے موسی علیہ السلام کی تعلیمات کو انہیں لوگوں نے مسخ کیا، بنی اسرائیل نے حضرت موسی علیہ السلام کی لائی ہوئی کتاب پر عمل نہ کیا یہاں تک کوہ طور ان پر مسلط کردیا گیا، وہ معجزات کی دنیا میں رہنے کے عادی ہوگئے، ہر چیز کو اللہ تعالی کی جانب سے براہ راست سننے، دیکھنے اور جاننے کا مطالبہ بڑھتا گیا، اور آج بھی ان کی نسلیں یہی کررہی ہیں۔ تمام آسمانی مذاہب کو مشکوک کر دینے کے بعد اسلام کو بھی اسی ڈگر پر ڈال دینا چاہتے ہیں۔وہ آئے دن اسلام پر اعتراضات کرتے ہیں؛ بلکہ انہوں نے ہی مستشرقین کا گروہ ایجاد کیا تاکہ اسلامی تعلیمات کو شکوک و شبہات سے پر کردیا جائے، اس پر لوگوں کا اعتماد متزلزل کردیا جائے اور یہ ثابت کردیا جائے کہ اس وقت اب ایک نئے دین کی ضرورت ہے؛ یا کم از کم اس میں تبدیلی اور سدھار درکار ہے۔بہت سے مفکرین اور جدید تعلیم یافتہ جنہوں نے انہیں گلیاروں سے روزی روٹی کمائی ہے اور انہیں کے نصاب سے اپنی ذہنی و فکری پرواز پائی ہے، وہ بھی اسی کے حامی ہوگئے ہیں۔ اصل میں یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مذہب کو نہ ماننے والے اور خواہشات کے پیچھے سرپٹ دوڑنے والے ہمیشہ انکار و رد کی پالیسی اختیار کرتے ہیں، اگر یہ نہ ہوسکے تو جو موجود ہے اسی کو بدلنے اور اس کی جگہ دوسرا حکم لے آنے کا مطالبہ کرتے ہیں، بھلا اس کی کیا ضمانت ہے کہ تم نے اس سے انکار کیا، اب اس کی جگہ دوسرا حکم آئے گا تو اسے مان لوگے؟ بات صرف اتنی ہے کہ یہ ضلالت و گمراہی کو اپنا مقدر مانتے ہیں، ان کے سامنے روحانیت کھیل تماشہ ہے، زندگی ہی سب کچھ ہے، موت کے بعد اللہ تعالی کی لقاء اور جزا و سزا کچھ نہیں ہے۔
*قرآن مجید میں ایسے لوگوں کی نفسیات کا تذکرہ ملتا ہے، ایک جگہ ارشاد باری تعالی ہے: وَ اِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِمْ اٰیَاتُنَا بَیِّنٰتٍ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَیْرِ ہٰذَاۤ اَوْ بَدِّلْہُ ؕ قُلْ مَا یَکُوْنُ لِیْۤ اَنْ اُبَدِّلَہٗ مِنْ تِلْقَآیِٔ نَفْسِیْ ۚ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰۤی اِلَیَّ ۚ اِنِّیْۤ اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ، قُلْ لَّوْ شَآءَ اللّٰہُ مَا تَلَوْتُہٗ عَلَیْکُمْ وَ لَاۤ اَدْرٰىکُمْ بِہٖ ۫ۖ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ (یونس:١٥-١٦) “جب ان پر ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں جو بالکل واضح ہیں تو جولوگ ہماری ملاقات کا یقین نہیں رکھتے ، وہ کہتے ہیں : اس کے سوا کوئی اور قرآن لاؤ ، یا اس میں کچھ ترمیم ہی کردو ، آپ فرمادیجئے ، مجھے کیا حق ہے کہ میں اپنی طرف سے کوئی رد و بدل کردوں ، مجھ پر جو کچھ وحی کی جاتی ہے ، میں تو صرف اسی کی پیروی کرتا ہوں ، اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے بھی بڑے دن ( یعنی قیامت )کے عذاب کا ڈر لگتا ہے، آپ کہہ دیجئے ، اگر اﷲ کو منظور ہوتا تو میں اس کی تلاوت تمہارے سامنے نہیں کرتا ، اور نہ اﷲ تم لوگوں کو باخبر فرماتے ؛ کیوں کہ میں تو اس سے پہلے بھی تمہارے درمیان ایک عمر گزار چکا ہوں ، کیا تم سمجھتے نہیں ہو ؟” – – – –
اس آیت کے ذیل میں فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی حفظہ اللہ رقمطراز ہیں” اللہ تعالیٰ کی شریعت کا مقصد یہ ہے کہ انسان کی خواہشات اعتدال سے باہر نہ ہوجائیں ، انسان کی بہت سی خواہشات اخلاقی تقاضوں کے مغائر ہوتی ہیں اور بہت سی دوسرے انسانوں کے ساتھ حق تلفی اور ظلم و زیادتی کے بغیر پوری نہیں ہوسکتیں ، شرعی قوانین کے ذریعے انھیں پابند کیا جاتا ہے کہ ان کا کوئی عمل ظلم و زیادتی ، بد اخلاقی اوربے شرمی کے دائرہ میں نہ آجائے ؛ اسی لئے جو لوگ اپنی نفسانی خواہشات کے غلام ہوتے ہیں اور جو اپنے آپ پر کنٹرول رکھنا نہیں چاہتے ، انھیں یہ احکام ناگوار گزرتے ہیں ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام جب تورات لے کر آئے ، تو ان کی قوم کو یہی اعتراض تھا کہ اس میں جو سخت احکام آگئے ہیں ، ان میں تبدیلی کی جائے ، یہاں تک کہ ان پر کوہِ طور اُٹھالیا گیا ، تب جاکر انھوں نے تورات پر عمل کرنے کی ہامی بھری ، (البقرۃ : ۶۳) اسی طرح قرآن مجید کے بارے میں اہل مکہ کا مطالبہ تھا کہ یا تو دوسرا قرآن مجید اُتارا جائے یا قرآن مجید کے موجودہ احکام میں تبدیلی لائی جائے ، اسی کی تردید کی گئی ہے اورآپ ﷺ کی زبان سے کہلایا گیا ہے کہ قرآن مجید اللہ کی بھیجی ہوئی کتاب ہے ، ہمیں اس میں ادنیٰ درجہ کی تبدیلی کا بھی حق نہیں — ہردور میں مذہب بیزار اور نفس کے پرستار لوگوں کا یہی مزاج رہا ہے کہ وہ خدائی تعلیمات میں تبدیلی کے خواہاں رہتے ہیں ، موجودہ دور میں پردہ کی مخالفت ، سود ، قمار اور شراب کی اجازت ، زنا اور ہم جنسی کے تعلق کو درست ٹھہرانا وغیرہ اسی نوعیت کے مسائل ہیں ، اِن اُمور سے متعلق قریب قریب تمام مذاہب کی تعلیمات یکساں ہیں ، ہر مذہب میں سود ، قمار ، زنا ، ہم جنسی اور بے پردگی کی ممانعت ہے ؛ لیکن پھر بھی مغربی دنیا اپنے آپ کو عیسائی یا یہودی کہنے کے باوجود ان احکام کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے اور خواہشات کی غلام بنی ہوئی ہے” ۔* (آسان تفسیر قرآن مجید)
✍🏻 *محمد صابر حسین ندوی*