محمد رسول اللہ: معنی اور مفہوم

(ایمانیات سیریز: 2)

محمد(ﷺ) رسول اللہ: معنی اور مفہوم

ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ

کلمۂ طیبہ کا نصف ثانی اللہ کے آخری نبی اور رسول محمد مصطفی ﷺ کی رسالت ونبوت کے اقرار واعتراف پر مشتمل ہے۔

آپﷺ کو اللہ تعالیٰ نے پوری انسانیت کی طرف پیغمبر بناکر بھیجا ہے۔ ارشادِ باری ہے:{قُلْ یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنِّیْ رَسُولُ اللّہِ إِلَیْْکُمْ جَمِیْعاً} (اعراف، ۱۵۸)’’اے محمدؐ، کہو کہ اے انسانو! میں تم سب کی طرف اللہ کا پیغمبر ہوں۔‘‘

محمدﷺ کے والد کا نام عبداللہ اور والدہ کا نام آمنہ تھا۔عرب کے معزز ترین قبیلے کے شریف ترین خاندان بنو ہاشم میں پیدا ہوئے۔ سالِ ولادت ۵۷۰ء ہے۔ پیدائش سے پہلے باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔چند سالوں بعد ماں بھی رخصت ہوگئی۔ چنانچہ آپؐ کی پرورش پہلے دادا عبدالمطلب نے کی اور ان کی وفات کے بعد بڑے چچا ابو طالب نے کی۔

نبوت ورسالت سے سرفراز ہونے سے پہلے چالیس سال کا عرصہ (۵۷۰ئ- ۶۰۱ئ) محمدﷺ نے اپنے قبیلے اور مکی سماج میں رہتے ہوئے گزارا۔آپﷺ کی زندگی مثالی تھی۔ راستی، نیکوکاری،صدق شعاری اور امانت داری میں آپ کی مثال دی جاتی تھی۔لوگ نام سے زیادہ آپﷺ کو آپ کے لقب ’’الصادق الامین‘‘ سے جانتے تھے۔نوجوانی میں آپ نے اونٹوں کو چرانے کا کام بھی کیا، بعدازاں تجارت اور کاروبار میں مصروف ہوگئے۔

مکہ میں ہر طرف بت پرستی پھیلی تھی، مگر آپﷺ بچپن سے حنیف رہے،یعنی ملتِ ابراہیمی پر رہتے ہوئے ایک اللہ کی عبادت کرتے تھے۔ بتوں اور بت پرستانہ رسوم ورواج سے دور اور نفورتھے۔

عمرِ مبارک کے چالیس برس مکمل ہوگئے تو آپﷺ مکہ سے متصل ایک پہاڑ-جبل النور- میں کافی اونچائی پر واقع ایک غار-حرائ- میں غور وفکر کے لیے جانے لگے۔ اسی غار میں ایک روز وحی نازل ہوئی اور قرآن کے نزول کا آغاز ہوگیا۔

سورۂ علق کی ابتدائی آیات سے یہ مبارک سلسلہ شروع ہوا:{اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ٭خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ ٭ اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ٭الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ٭عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ} (علق، ۱- ۵) ’’پڑھو اپنے رب کے نام کے ساتھ، جس نے پیدا کیا، جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق فرمائی، پڑھو اور تمہارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا، انسان کو وہ علم دیا جسے وہ پہلے نہیں جانتا تھا۔‘‘

اس پہلی وحی کے ذریعے سے اعلان کر دیا گیا کہ اللہ کے آخری نبیﷺ کی بعثت اول روز سے علم وآگہی اور ہدایت وروشنی کے دور کا افتتاح ہے۔ اس کے بعد سے تیئیس سال تک جستہ جستہ قرآن نازل ہوتا رہا۔

ابتداء میں تین سال تک آپﷺ نے دعوتِ دین کو پوشیدہ رکھا۔صرف انفرادی ملاقاتیں کرکے معدودے چندلوگوں کو اسلام کی دعوت دی گئی۔ تین سال بعد آپﷺ نے حکمِ الٰہی کے مطابق دعوت کا اعلان کر دیا۔اس کے بعد دس سال تک علانیہ مکہ میں اسلام کی دعوت دی جاتی رہی۔ اس مدت میں اللہ کے رسولﷺ اور صحابۂ کرامؓ نے کفارِ قریش کی طرف سے سخت ترین مظالم وشدائد اور تکالیف برداشت کیں۔

حج کو آنے والے مختلف قبائل کے لوگوں کے سامنے بھی آپﷺ اسلام کا پیغام پیش کرتے تھے۔ایسے ہی ایک موقعے پرچند اہلِ مدینہ نے اسلام قبول کر لیا۔ اب دھیرے دھیرے مکہ سے مسلمانوں نے مدینے جانا شروع کر دیا۔

اس وقت مدینے کا نام یثرب تھا۔ نبیﷺ نے سن ۶۲۲ء میں مکہ سے مدینہ ہجرت کی۔ اس وقت عمرِ مبارک تریپن سال تھی۔ قریش کے سربرآوردہ لوگوں نے مدینے میں مسلمانوں کی بڑھتی اجتماعیت دیکھی تو آپﷺ کے قتل کی سازش رچی اور اس کی کوشش کی۔ اس موقعے پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ کو مدینہ ہجرت کرجانے کا حکم دیا۔

مدینے میں آپﷺ دس سال رہے۔ انسانوں کو دینِ حق کی طرف بلاتے اور اسلام قبول کرنے والوں کو نماز، زکوٰۃ اور دیگر اسلامی احکام کی تعلیم دیتے رہے۔مدینہ منورہ میں قیام کے دوران (۶۲۲ئ-۶۳۲ئ)اللہ کے رسولﷺ نے اسلامی تمدن وتہذیب کی بنیاد رکھی اور مسلم سوسائٹی کے خدوخال سنوارے۔ چنانچہ ہر نوع کی غیر اسلامی عصبیت اور وابستگی کا خاتمہ فرمایا۔ علم کی نشر واشاعت پر زور دیا۔ عدل واستقامت، بھائی چارے، باہمی تعاون، نظم وضبط کی پابندی جیسی اعلیٰ صفات سے لوگوں کو آراستہ کیا۔

بعض مخالف قبیلوں نے اسلام کے خلاف یورش کی جس کے نتیجے میں بہت سی جنگیں اور چھڑپیں ہوئیں۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے اپنے دین اور اپنے رسولﷺکی نصرت فرمائی اور لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے۔ مکہ مکرمہ اور جزیرۃ العرب کے بیشتر شہر اور قبیلے اپنی مرضی اور ارادے سے اسلام میں داخل ہوگئے اور پورے خطے میں دینِ اسلام کا بول بالا ہوگیا۔

ماہِ صفر سن گیارہ ہجری میں آپﷺ کو مرض الوفات لاحق ہوا۔آپﷺ اللہ کا پیغام پہنچا چکے تھے، خدائی امانت ادا کر دی تھی اور دین کی تکمیل فرماکر اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے واسطے سے اپنی نعمت کا اتمام کر دیاتھا۔ اس کے بعدآپﷺ کی ارضی مہلتِ زندگی پوری ہوگئی۔ ابتداء بخار سے ہوئی، پھر مرض بڑھتا گیایہاں تک کہ دوشنبہ کے دن، ربیع الاول سن گیارہ ہجری میں آپ اپنے ’’الرفیق الاعلیٰ‘‘ اللہ وحدہ لا شریک سے جا ملے۔عیسوی لحاظ سے آٹھ جون سن ۶۳۲ء تاریخِ وفات بنتی ہے۔عمرِ مبارک ترسٹھ سال تھی۔ مسجدِ نبوی کے پہلو میں واقع ام المومنین حضرت عائشہؓ کے حجرے میں تدفین ہوئی۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔

آپ خاتم الانبیاء تھے۔ آپؐ کے بعد اب کوئی نبی نہیں آئے گا۔{مَّا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُمْ وَلَکِن رَّسُولَ اللَّہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْن} (احزاب،۴۰)’’محمدؐ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔‘‘اللہ تعالیٰ نے آپ کے اوپر اپنی عظیم ترین کتاب قرآن نازل فرمائی تھی جو آج بھی من وعن موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گی۔ اس کے اندر چاہ کر بھی کوئی آمیزش یا آویزش نہیں کی جاسکتی ہے۔ یہ ایک خدائی وعدہ ہے جو اٹل اور غیر مبدّل ہے۔

محمدﷺ کے رسول ہونے کی گواہی دینے کا مطلب یہ ہے کہ آپؐ کی بتائی خبروں کی تصدیق کی جائے،آپؐ کے دیے حکموں کی تعمیل کی جائے اور جن چیزوں سے آپ نے روکا ہے انھیں چھوڑ دیا جائے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہم آپﷺ کی لائی ہوئی شریعت کے مطابق اور آپؐ کے سکھائے طریقے پر اللہ رب العزت کی عبادت اورطاعت بجالائیں۔

محمدﷺ کی رسالت پر ایمان لانے کا مطلب ہے کہ میں ان تمام خبروں کو سچ جانوں جو آپؐ نے بتائی ہیں۔ چاہے ان کا تعلق امورِ غیب سے ہو جیسے روزِ آخرت، جنت اور اس کی نعمتیں اور جہنم اور اس کی سزائیں وغیرہ، یا پھر اس کا تعلق روزِ قیامت کے واقعات سے ہو یا ان علامات سے ہو جو آخری زمانے میں قیامت سے پہلے ظاہر ہوں گی، یا پھر ان کا تعلق پچھلی قوموں سے ہو۔ سابقہ انبیاء نے کس طرح اپنی قوموں کو دعوت دی اور انھوں نے کس انداز میں جواب دیا، اس بارے میں اگر اللہ کے نبیﷺ نے ہمیں کچھ بتایا ہے تو ہمیں اس کی تصدیق کرنا ہوگی۔

آپﷺ کے حکم کی تعمیل کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ جو بھی حکم آپؐ جاری فرمائیں ہم فی الفور اس کی اطاعت کریں کیونکہ ہمارا پختہ ایمان ہے کہ آپؐ کی زبانِ مبارک سے کوئی بات غلط نہیں نکل سکتی۔ آپﷺ جو کچھ فرماتے ہیں وہ سب اللہ کی طرف سے وحی ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:{ مَّنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّہَ}(نسائ،۸۰)’’جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے دراصل اللہ کی اطاعت کی۔‘‘

آپﷺ کی اطاعت ہی میں یہ بھی شامل ہے کہ جن حرام کاموں اور بری چیزوں سے آپؐ نے روکا ہے ہم ان سے فی الفور باز آجائیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ ان حرام چیزوں سے اللہ کے نبیﷺ نے کسی حکمت ومصلحت کی وجہ سے ہمیں باز رکھا ہے، گاہے یہ حکمت ومصلحت ہماری سمجھ میں آجاتی ہے اور گاہے ہماری محدود عقل اور علم اس کا ادراک نہیں کر پاتے۔ لیکن ہر صورت میں ہمیں یقینِ واثق ہونا چاہیے کہ آپﷺ کے احکام وتعلیمات کی تعمیل میں ہی دنیا وآخرت کی سعادت اوربرکت ہے اور اسی کے ذریعے سے ہم رحمتِ الٰہی کے مستحق ہو سکتے ہیں۔ ارشادِ باری ہے:{وَأَطِیْعُواْ اللّہَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُون}(آلِ عمران، ۱۳۲) ’’اور اللہ اور رسول کا حکم مانو، توقع ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا۔‘‘

ہم یہ بھی ایمان رکھتے ہیں کہ جو بھی جانتے بوجھتے اللہ کے نبیﷺ کے حکم کی مخالفت کرتا ہے وہ دردناک عذاب کا مستحق بنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:{ فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِہِ أَن تُصِیْبَہُمْ فِتْنَۃٌ أَوْ یُصِیْبَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ}(نور،۶۳) ’’تو رسول (محمد ﷺ) کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرنا اور گھبراناچاہیے کہ وہ کسی فتنے میں گرفتار نہ ہو جائیں یا ان پر دردناک عذاب نہ آجائے۔‘‘

نبیِ کریمﷺ کو نبی ماننے کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ ہم اللہ کی عبادت اسی طریقے سے کریں جو آپﷺ نے بتایااور سکھایا ہے۔ اس تقاضے کے ضمن میں بہت سی باتیں آجاتی ہیں۔ مثلاً ہمیں زندگی کے ہر معاملے میں نبیﷺ کی زندگی کو ہی اسوہ اور نمونہ بنانا چاہیے۔ اللہ کے رسولﷺ کی سنت، چال ڈھال، روزمرہ معمولات،آپؐ کے اقوال وافعال اور پسند وناپسندکا معیار ہردنیاوی معاملے میں ہمارا مطمحِ نظر بن جائے۔

جس قدر کوئی بندہ اللہ کے رسولﷺ کی سنت وسیرت اختیار کرتا ہے، اسی قدر وہ اللہ کا محبوب اور بلند درجات پر فائز ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:{قُلْ إِن کُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّہَ فَاتَّبِعُونِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَاللّہُ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ}(آلِ عمران،۳۱)’’اے نبی، لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطائوں سے درگزر فرمائے گا۔ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔‘‘

آپﷺ کو نبی ماننے کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ آپؐ کی لائی شریعت کو ہر لحاظ سے مکمل سمجھا جائے۔ اللہ کے نبیﷺ نے دین کے جملہ احکام وشرائع کو مکمل شکل میں امت تک پہنچا دیا ہے۔ اس لیے اب کسی کے لیے بھی جائز نہیں کہ وہ دین میں ایسی عبادت ایجاد کرے جو اللہ کے رسولﷺ نے بیان نہیں فرمائی۔ اسلامی شریعت ہر زمانے اور خطے کے لیے سازگار اور قابلِ عمل ہے۔ قرآن وسنت میں موجود احکام پر مشتمل یہ شریعت آخری شریعت ہے۔ یہ باری تعالیٰ کا نازل کردہ دستور ہے جس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔عدم سے وجود میں لانے والے اور انسان بنانے والے خالق سے بڑھ کر بھلا کون ہوسکتاہے جو ہماری مصلحت ومنفعت کا علم رکھتا ہو؟

درگاہِ رب میں عبادات کے قبول ہونے کی دو شرطیں ہیں۔ ایک یہ کہ عبادت کرنے والے کی نیت خالص اللہ کے لیے ہو اور دوسرے یہ کہ وہ عبادت نبیِ کریمﷺ کی لائی شریعت کے مطابق ہو۔ان میں سے کوئی ایک شرط بھی فوت ہوجائے تو بارگاہِ رب میں عبادت قبول نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:{فَمَن کَانَ یَرْجُو لِقَاء رَبِّہِ فَلْیَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحاً وَلَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہِ أَحَداً}(کہف،۱۱۰)’’پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو، اسے چاہیے کہ صالح عمل کرے اور بندگی میں اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے۔‘‘ کوئی عمل نیک اسی وقت ہوتا ہے جب کہ وہ اللہ کے نبیﷺ کی سنت اور شریعت کے مطابق ہو۔

دین میں بدعت ایجاد کرنا حرام ہے۔ جو شخص کوئی ایسا عمل یا عبادت کا طریقہ روشناس کرائے جس کا ثبوت اللہ کے رسولﷺ کی سنت اور شریعت میں نہیں ملتا تو وہ اور اس کا طریقہ دونوں مردود ہیں۔ مثال کے طور پر کوئی نماز کو مختلف طریقے پر پڑھنا شروع کر دے تو وہ نبیﷺ کے حکم کا مخالف اور گناہ گار ہے اور اس کا یہ عمل اس کے منھ پر مار دیا جائے گا۔اللہ کے نبیﷺ نے صاف فرمایا ہے کہ جو ہمارے دین میں نئی چیز ایجاد کرے جو اس کا حصہ نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔ [من أحدث فی أمرنا ہذا مالیس منہ فہو رد](صحیح بخاریؒ:۲۵۵۰۔ صحیح مسلمؒ:۱۷۱۸)

محمدﷺ کی رسالت پر ایمان رکھنے کا تقاضا یہ بھی ہے کہ آپؐ سے محبت کی جائے۔ مومن کے لیے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت دیگر تمام محبتوں پر بھاری ہے۔ اللہ کے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: ’’کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اس کے والد، اولاد اور دیگر تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائوں۔‘‘[لایؤمن أحدکم حتی أکون أحب إلیہ من والدہ وولدہ والناس أجمعین](صحیح بخاریؒ:۱۵۔صحیح مسلمؒ:۴۴)

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمی

اپنی راۓ یہاں لکھیں