قرآن مجید،سرچشمۂ علم وہدایت
(ذکی الرحمٰن غازی مدنی جامعۃ الفلاح اعظم گڑھ)
اللہ احکم الحاکمین نے اپنے آخری رسول حضرت محمد مصطفیﷺ کو سارے جہان والوں کی رہنمائی کے لیے مبعوث فرمایا تھا۔ آپﷺ کی نبوت ورسالت سابقہ انبیاء ورسل کے برخلاف کسی خاص قوم یا مخصوص علاقے یا علاحدہ ملک ووطن کے لیے نہیں تھی،بلکہ ساری انسانیت کے لیے پیغامِ رشد وہدایت اور سرچشمۂ خیرو سعادت تھی۔گمراہی کے اندھیروں میں ٹھوکریں کھاتی انسانیت کے لیے آپﷺ کا وجودِ مسعود نعمتِ لاثانی ثابت ہوا۔ آپﷺ قافلۂ انسانیت کے وہ سالار بنے جس کی رہنمائی میں کارواں کی راہ کبھی کھوٹی نہیں ہوتی۔آپ نے بھٹکتی نوعِ انسانی کا ہاتھ تھام کر اسے واپس صراطِ مستقیم تک پہنچایا اور دینِ اسلام کی شکل میں ایسا جامع ومانع نظامِ زندگی مرحمت فرمایا جس میں تمام انسانوں کے لیے دارین کی خیریت، کامرانی اور سعادت رکھی گئی ہے۔
اپنے آخری نبی کی تائید وتوثیق کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ حکیم کی شکل میں ایک لازوال ابدی معجزہ عطا فرمایا۔ قرآنِ کریم بیک وقت معجزہ بھی ہے اور انسانی زندگی کے لیے ربِ کائنات کا پسند فرمودہ فائنل دستور ومنشور بھی آپﷺ نے نورِ قرآن کے ذریعے گمراہی کا پردہ چاک کر دیا اور جہالت وسفاہت کا اندھیرا دور فرمادیا۔زندگی کی چول دوبارہ اپنی جگہ بیٹھا دی اور دنیا کا رُخ تبدیل کر دیا۔ ارشادِ باری ہے:
{ قَدْ جَاء کُم مِّنَ اللّہِ نُورٌ وَکِتَابٌ مُّبِیْن٭ یَہْدِیْ بِہِ اللّہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہُ سُبُلَ السَّلاَمِ وَیُخْرِجُہُم مِّنِ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ بِإِذْنِہِ وَیَہْدِیْہِمْ إِلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْم} (مائدہ، ۱۵-۱۶)
’’تمہارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی آگئی ہے اور ایک ایسی حق نما کتاب جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں سلامتی کے طریقے بتاتا ہے اور اپنے اذن سے ان کو اندھیروں سے نکال کر اجالے کی طرف لاتا ہے اور راہِ راست کی طرف ان کی رہنمائی کرتا ہے۔ ‘‘
قرآن مجید جس طرح تصفیۂ اخلاق، تزکیۂ نفس اور روحانی تربیت کی بہترین کتاب ہے، اسی طرح آگے چل کر ملتِ اسلامیہ کے تمام اسلامی علوم فنون کا سرچشمہ ومنبع بھی یہی کتاب بنی ہے۔ مثلاً فنِ کتابت کو لیجئے۔ اسلام سے قبل بہت ہی کم لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔حجاز میں صرف سترہ آدمی تھے جو خواندہ تھے،لیکن قرآنِ پاک کی برکت سے یہ فن بہت جلد پورے عالمِ اسلام میں اور پھر تمام عالم میں پھیل گیا۔
قرآن مجید میں پیغمبرِ اسلام کو اسوۂ حسنہ قرار دیا گیا ہے، اس لیے مسلمانوں نے آنحضرتﷺ کی سیرتِ مبارکہ کے ایک ایک جزئیے کو قلم بند کیا اور اس کی اپنی جان سے زیادہ حفاظت کی۔اس طرح سیرو مغازی کے فن کی بنیاد پڑگئی۔پھر آپ کے افعال واقوال کو جانچنے اور پرکھنے اور قرآن مجید کے حقائق کو سمجھنے کے لیے مسلمانوں نے حدیث کی تدوین کی طرف توجہ کی اور اس راہ میں بڑے بڑے محیر العقول کارنامے انجام دیے۔اس طرح فنِ حدیث ایجاد ہوا۔
پھر چونکہ قرآن کو عربی ادب اور عربی زبان کی صرف ونحو (گرامر) کے بغیر سمجھ نہیں سکتے تھے،اس لیے انہوں نے ان فنون کی طرف التفات کیا اور ان کو باقاعدہ مدوّن ومرتب کرکے کہیں سے کہیں پہنچا دیا۔ اور چونکہ قرآن مجید کی فصاحت وبلاغت اس وقت تک سمجھ میں نہیں آسکتی تھی جب تک کہ فصاحت وبلاغت کے قواعدو ضوابط اور اس سے متعلق علوم وفنون نہ معلوم ہوجائیں، اس بنا پر علمِ معانی وبیان وبدیع کی طرف متوجہ ہوئے اور اس میں وہ وہ موشگافیاں کیں کہ آج غالباً عربی کے یہ فنونِ ثلاثہ ہی مشرق کی تمام زبانوں کے لیے فصاحت وبلاغت کے مسائل ومعیارات کا سرچشمہ بنے ہوئے ہیں۔
اسی طرح علمِ فقہ، اصولِ فقہ اور علم الکلام کا اصل منبع وسرچشمہ بھی قرآن فہمی اور اس کے معانی کی تحقیق وجستجو ہی کو سمجھنا چاہیے۔لیکن قرآن مجید نے جن علوم کو پیدا کیا ان میں دینی ومعاشرتی اعتبار سے سب سے زیادہ اہم اور ضروری علم، علمِ تفسیر ہے۔ شروع شروع میں جب تک نبیِ کریم ﷺ اس دنیا میں تشریف فرمارہے قرآن مجید کے معانی ومطالب کو مدوّن کرنے کی کوئی ضرورت پیش نہیں آئی۔ اول تو صحابۂ کرامؓ خود اہلِ زبان تھے اور اس بنا پر آیاتِ قرآنی کا صحیح مفہوم ومصداق متعین کرنے میں اور اس کی فصاحت وبلاغت کی حقیقت اور گہرائی دریافت کرنے میں کسی علم وفن کی دستگیری کے محتاج نہ تھے۔ پھر اگر کوئی لفظ مشترک ہوتا تھا، یا اصولِ فقہ کی اصطلاح میں مجمل ومشکل ہوتا تھا تو آنحضرتﷺ کا قول وفعل خود اس کی تشریح وتوضیح اور اس کے معنی کی تعیین کردیتا تھا۔ اور اگر پھر بھی کوئی اشکال باقی رہ جاتا تھا تو وہ آنحضرتﷺ سے براہِ راست اس کی حقیقت اور صحیح مفہوم ومراد دریافت کر لیتے تھے۔
صحابۂ کرام کے بعد تابعین کا دور آیا اور ان کا طرزِ عمل یہ تھا کہ وہ قرآن مجید کے معانی ومطالب کی تحقیق، ناسخ ومنسوخ کی پہچان،مجمل ومشکل کی توضیح میں صحابۂ کرامؓ کی طرف رجوع کر لیتے تھے اور بس۔ انہیں یہ ضرورت محسوس نہ ہوتی تھی کہ قرآن مجید کے علوم کو باقاعدہ مدوّن کیا جائے۔ لیکن اسلام کی روشنی جس دم عرب سے نکل کر عجم، اور عربی نہ جاننے والی قوموں اور ملکوں میں پھیلنے لگی تو اب گمراہی اور غلط فہمی سے بچانے کے لیے ضروری ہوگیا کہ قرآن مجید کے مطالب ومفاہیم کو مدوّن کیا جائے اور اس کے متعلقہ علوم وفنون کی بھی تدوین کردی جائے، اسی سلسلے میں علم التفسیر کی بنیاد پڑی اور اس کی تکمیل کے لیے مختلف مکاتبِ فکر قائم ہوئے اور ہر مکتبِ فکر نے فہمِ قرآن کے لیے سنت سے استدلال واستمداد کو ناگزیر قرار دیا۔
اس حساب سے امتِ مسلمہ کے لیے دینِ اسلام کی اساس وبنیاد قرآنِ کریم اور اس کا نبوی بیان یعنی سنتِ محمدی ہی قرار پائی۔انہی دو بنیادوں پر اسلام کی پوری دعوت اور پیغام قائم اور دائم ہے،انہی سے رشد وہدایت کی شعائیں پھوٹتی اور پھیلتی ہیں اور نوعِ انسانی کے لیے دنیا اور آخرت کی سعادت اور کامرانی کا نسخۂ کیمیا انہی دو مصدروں میں پنہاں ہے۔ملتِ اسلامیہ کو بالکل ابتداء سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہوگئی تھی کہ اس دنیا میں اس کی عزت وشوکت تمام تر اس امر پر منحصر ہے کہ وہ اپنے رب کی کتاب کا اور اپنے رسولﷺ کی سنت کا التزام واتباع کرے۔ چنانچہ ہر زمانے میں مسلمانوں نے صدقِ دل سے اپنے محبوب نبیﷺ کی اِس وصیت کو سنا اور اسے حرزِ جاں بنایا کہ ’’میں نے تمہارے بیچ دو چیزیں ایسی چھوڑی ہیں جن سے وابستہ رہتے ہوئے تم گمراہ نہیں ہوسکتے۔وہ دو چیزیں اللہ کی کتاب اور میری سنت ہیں اور ان دونوں میں جدائی نہیں ہو سکتی تاآنکہ حوضِ (کوثر) پر ملاقات ہوجائے۔‘‘[ترکت فیکم شیئین لن تضلوا بعدہما کتاب اللہ وسنتی ولن یتفرقا حتی یردا علی الحوض](مستدرک حاکمؒ:۳۱۹۔ سنن ترمذیؒ:۳۷۸۸۔مسند بزارؒ:۸۹۹۳۔سنن دار قطنیؒ:۴۶۰۶)
مطلب یہ ہوا کہ قرآن وسنت کے احکام، مشترکہ طور پر ہر زمانے میں قائم ودائم اور قابلِ عمل رہیں گے اور رہتی دنیا تک انسانیت کے لیے مینارۂ رشد وہدایت بنے رہیں گے تاآنکہ عالمِ گیتی کے خاتمے کا فیصلۂ خداوندی ظہور پذیر ہوجائے اورتمام انسانوں کو حساب کتاب کے لیے واپس بلا لیا جائے۔