*اے اہلِ ادب آؤ☆یہ جاگیر سنبھالو*
{رگھوپتی سہائے فراقؔ گورکھپوری 1896 تا 1982}
محمد سلمان قاسمی بلرامپوری✍
نصف صدی قبل اردو اورہندی کے حوالے سے ایک پیشین گوئی کی گئی تھی
،،،اب سے بچاس برس بعد میرا خیال نہیں میرا یقین ہے کہ ہماری زبان رومن رسم الخط مستقل اختیار کر لیگی ہندی اور اردو کا قدیم و جدید رومن رسم الخط میں دیدہ زیب شکل میں نہایت سستے داموں میں ملنے لگے گا،،،
پچاس برس قبل اس حقیقی خدشے کا اظہار کرنے والا اپنی انا کا اسیر، بلا کا ذہین،حاضر جواب ،شگفتہ ذہن، گنگا جمنی تہذیب کا علمبردار ، مقبول شاعر ،عظیم نقاد، معروف دراک، محبِ وطن ایسا عبقری جسکی ہر جنبشِ ادا پر سینکڑوں مضامین و مقالے لکھے گئے اور سلسلہ تا ہنوزجاری ہے۔اور آگے بھی انشاء اللہ جاری رہیگا۔۔
جی ہاں۔۔۔اس ہمالیائی شخصیت کا نام ہے فراقؔ گورکھپوری۔۔۔
فراقؔ کا پورا،نام رگھوتی سہائے فراقؔ گورکھپوری ہے
آبائی وطن۔۔۔بنوار پار تحصیل ،بانس گاؤں، گورکھپور ہے
والد گورکھ پرشاد زمیں دار تھے،پیسے سے وکیل اور ایک اچھا شاعر تھے عبرتؔ ،تخلص ،اختیار کرتے تھے
اردو اور فارسی کی تعلیم گھر پر حاصل کی میٹرک گورکھپور سے کیا
بی اے سینٹرل کالج الہ آباد سے پاس کیا۔
آگرہ یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا۔۔
اسکے بعد درخواست اور انٹرویو کے بغیر الہ آباد یونیورسٹی میں لکچرر مقرر ہوئے۔۔
شاعری میں ناصریؔ وسیم خیر آبادیؔ، ریاض خیر آبادیؔ، سے اصلاح لی
فراقؔ سقراط اور والٹیر کے سلسلے کے کڑی تھے،اور امیر خسرو کے سلسلے کے فقیر انکی شش پہلو شخصیت نےاردو زبان و ادب کو نئی سمتیں دیں،اپنی حاضرجوابی،بذلہ سنجی،ذہانت علم ودانش،اور سخن فہمی سے ناقابلِ فراموش حد تک نئی نسلوں کو متاثر کیا
اردو نظم کی ایک درجن سے زائد کتابوں کے ساتھ اردو نثر کی بھی نصف درجن سے زائد کتابیں لکھی ہیں۔۔
فراق کے شعری مجموعے،،،روحِ کائنات، روپ، غزلستان،شعرستان،نغمہ نما، پچھلی رات، گلبانگ، رمزو کنایات،مشعل،تحفۂ خوشتر وغیرہ ہیں
اور نثری مجموعے اردو کی عشقیہ شاعری، حاشیئے، اردو غزل گوئی،ہمارا سب سے بڑا دشمن ،اردو ساہتیہ کا اتہاس،اندازے، من آنم
وغیرہ ہیں آخر الذکر خطوط کا مجموعہ ہے
منشی پریم چند کے ناول اور شخصیت سے متاثر تھے
1920 میں فراقؔ مہاتما گاندھی کی تحریک عدمِ تعاون کی حمایت کے چلتے جیل گئے تھے۔۔
بیسویں صدی کا اگر جائزہ لیا جائے تو حالیؔ اور فراقؔ کے سوا بیک وقت اپنے عہد کا ممتاز شاعر اور ممتاز ناقد نہیں ملیگا۔
فراق بہت حاضر جواب اور بذلہ سنج تھے۔۔۔
ایک مرتبہ کسی مشاعرے میں ساحر لدھیانوی سے کہا آجکل تم آثارِ قدیمہ پر بہت اچھا شعر لکھ رہے ہو
تاج محل پر کیا خوب لکھا ہے
*اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لیکر*
*ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق*
فراقؔ نے کہا اب ایسا کرو جامع مسجد پر لکھ ڈالو
*اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لیکر*
*ہم غریبوں کی عبادت کا اڑایا ہے مذاق*
فراقؔ جگرؔ سے حد درجہ متاثر تھے اپنے تعزیتی خط میں لکھتے ہیں کہ ایک بار جگر صاحب نے مجھ سے پوچھا تم حیات بعد الممات کے قائل ہو یا نہیں تو میں نے کہا اس سے فرق نہیں پڑتا کہ میں کس چیز کا قائل ہوں کس چیز کا نہیں میں تو بس شرافت کا قائل ہوں یہ جواب سنکر جگرؔ کا دل بھر آیا
سچ بات تو یہ ہے ۔۔۔۔۔
یہ جواب میں نے جگرؔ صاحب سےمتاثر ہوکر دیا تھا۔۔
آگے لکھتے ہیں میری زندگی کا سب سے بڑا دکھ جگرؔ کی موت ہے اور سب سے بڑا سکون جگرؔکی یاد ہے
*اب یادِ رفتگاں کہ بھی ہمت نہیں رہی*
*یاروں نے کتنی دور بسائی ہے بستیاں*
فراق کو تقسیمِ ہند کا بڑا قلق تھا لکھتے ہیں،،،ہر مسلمان قائد تھا ،اپنے محلے میں ،اپنے شہر میں،اپنے صوبے میں مگر قائدِ اعظم نے سب چوپٹ کردیا،،،
فراق کو انکی خدمات کے صلے بہت سارے ایوارڈ سے نوازا گیا،ساہتیہ ایوارڈ،گیان پیٹھ ایوارڈ،غالب ایوارڈ، نہرو ایوارڈ،ساہتیہ اکیڈمی،پدم بھوشن، وغیرہ
فراقؔ کے بیحد عزیز دوست شاعر جوشؔ ملیح آبادی لکھتے ہیں،،، اپنے فراق کو میں قرنوں سے جانتا ہوں مسائلِ علم و ادب پر جب زبان کھولتے ہیں تو لفظ و معنی کے لاکھوں موتی رولتے ہیں، اور اس افراط سے سامعین کو اپنی کم سوادی کا احساس ہونے لگتا ہے جو شخص یہ تسلیم نہیں کرتا کہ فراقؔ کی عظیم شخصیت ہندوستان کے ماتھے کا ٹیکہ اردو زبان کی آبرو،اور شاعری کے مانگ کا صندل ہے وہ خدا کی قسم کور مادرزاد ہے،،،
زندہ باد فراقؔ پائندہ باد،
*میری گھٹی میں پڑی تھی ہوکے حل اردو زباں*
*جو بھی میں کہتا گیا حسنِ بیاں بنتا گیا*
رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں
،،، فراقؔ کو اس صدی کے موجودہ پچاس سالوں کے منفرد غزل گویوں کے صف اول میں جگہ مل چکی ہے اور یہ امتیاز معمولی نہیں ہے،،،،
مجنوں گورکھپوری لکھتے ہیں
،،، فراق کی شاعری نہ صرف اردو ادب بلکہ سارے ملک اور قوم کے لئے باعثِ فخر ہے فراقؔ جیسی جید اور جامع شخصیتیں روز بروز نہیں پیدا ہوتیں
*مرے اشعار پر سر دھنتی جائینگی نئی نسلیں*
*بچا کر وقت رکھے گا یہ دستاویزِ انسانی*
،گفت و شنید ،میں ظفر ادیب لکھتے ہیں،،،فراق گورکھپوری میرؔ و مومنؔ کے درمیان کی چیز ہے،،،
*فراقؔ وہ شعر پڑھنا اثر میں ڈوبے ہوئے*
*کہ یاد میرؔ کی انداز کی دلا دینا*
جس طرح فراقؔ نے اپنی غزلوں نظموں اور رباعیات سے اردو ادب کو مالا مال کیا ہے اسی طرح اردو تنقید اور انگریزی ادب سے اردو قارئین کو آشنا کیا ہے۔فراق کی شاعری میں سوندھی مٹی کے خوشبو کے ساتھ دعائے نیم شبی کا اعجاز بھی ہے زندگی اور حیات کے فلسفے کے ساتھ وطن سےارضی رشتوں کی وضاحت بھی ہے سہلِ ممتنع اور سادگی تو انکی شاعری کا طرۂ امتیاز ہے جس میں بے پناہ بلاغت اور معنی کی زیریں لہریں چھپی ہوئی ہیں
*حیات ہو کہ اجل سب سے کام لے غافل*
*کہ مختصر بھی ہے کارِ جہاں دراز بھی ہے*
فراقؔ اردو کی برائی نہیں سن سکتے تھے۔۔اردو زبان کو مذہبی چشمے سے دیکھنے والوں سے بہت چراغ پا ہوتے۔۔۔
ایک بار کسی نے فراقؔ سے کہا کہ اردو بھی کوئی زبان ہے؟ یہ سراسر طوائفوں کی زبان ہے۔ آئیئے ،جائیئے، بیٹھئیے،کریئے،،وغیرہ۔۔۔
فراق نے کہا ہاں صحیح ہے ۔۔تمہارے باپ نے تمہاری ماں کے ساتھ ایساویسا(………………..)کیا تبھی تم دنیا میں تشریف لائے ہو۔۔۔
معترض کی کھِسیاہٹ دیکھنے لائق تھی۔
فراق کی شاعری میں ژرف نگاہی،داخلیت،فقرہ بازی، حسن و جمال کی دلکشی، دیومالائی تصورات،وجدانی انبساط،سرشاری چوٹیلا پن، لہجے کی گھلاوٹ، بلا کی سحر انگیزی، طرزِ ادا کی ندرت،فنی رموز، جمالیاتی رچاؤ،کلاسیکی بدیعییات، جراتِ نظارگی،عالمی ادب کے معیار و اقدار سے آشنائی،نظری وعملی مسائلِ فکر کی بلندی،تجسیم کاری،تسلسلِ روانی رچاؤ اور بہاؤ کا احساس،
الغرض فراقؔ کی شاعری میؔر کے لہجے کی توسیع کرتی ہے
*غزل کے ساز اٹھاؤ بڑی اداس ہے رات*
*نوائے میؔر سناؤ، بڑی اداس ہے رات*
*جو ہوسکے تو ادھر کی بھی راہ بھول پڑو*
*صنم کدے کی ہواؤں بڑی اداس ہے رات*
آئیئے فراقؔ کے اشعار کی جانب چلتے ہیں پہلے چند وہ معروف اشعار جو زبان زد ہیں ملاحظہ کریں
*موت کا بھی علاج ہو شاید*
*زندگی کا کوئی علاج نہیں*
*ہم سے کیا ہو سکا محبت میں*
*خیر تم نے تو بے وفائی کی*
*مدتوں سے تیری یاد بھی نہ آئی ہمیں*
*اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں ہے*
*کوئی سمجھے تو اک بات کہوں*
*عشق ۔۔۔۔۔۔توفیق ہے گناہ نہیں*
فراقؔ ظاہری شخصیت میں جتنے لاپرواہ تھے انکی شاعری میں اتنی ہی زیادہ سنجیدگی ملتی ہے۔
*بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں*
*تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں*
فراقؔ بیسویں صدی کے ابتدائی پچاس برسوں کےمختلف سماجی معاشی انقلابات کے عینی گواہ ہیں
*ہر عقدۂ تقدیر جہاں کھول رہی ہے*
*ہاں دھیان سے سننا یہ صدی بول رہی ہے*
جمالیاتی تہذیب اور محبوب کا سراپا ایسا کھینچتے ہیں جہاں حضرتِ خضر بھی ڈانواڈول ہونے لگتے ہیں
*سنبل کے تروتازہ چمن ہیں زلفیں*
*بےصبح کی شب ہائےختن ہیں زلفیں*
*خود خضر یہاں راہ بھٹک جاتے ہیں*
*ظلمات کے مہکے ہوئے بن ہیں زلفیں*
بندھے ٹکے استعاروں تشبیہوں اور جمالیاتی فرسودگی سے فراقؔ نے بڑے سلیقے سے غزل کو آزاد کیا حسن کو مختلف زاوئیے سے پیش کرکے بڑے فنکارانہ انداز میں حقیقی کیفیات میں تصویر کشی کی ہے اردو غزل کو ایرانی اثراندازی سے ممکنہ حد تک بچایا ہے یہی وجہ ہے فراقؔ کی غزل کا خاص وصف ہندوستانیت ہے
*آئی ہے کچھ نہ پوچھ قیامت کہاں کہاں؟*
*آکے لےگئی مجھکو محبت کہاں کہاں؟*
*اب امتیازِ عشق و ہوس نہیں رہا*
*ہوتی ہے تیری چشمِ عنایت کہاں کہاں؟*
جسم و جمال کی لطافت عمدہ لطیف خیال اور محبوب کا سراپا دیکھئے جو عشقیہ جذبات سے پُر ہے
*ذرا وصال کے بعد آئینہ تو دیکھ اے دوست*
*تیرے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی*
انسان خواہ کہیں بھی چلا جائے
اپنی مٹی اور وطن سے جڑا رہتا ہے
فراقؔ صاحب گورکھپور کی گلیوں کو یاد کررہے ہیں لڑکپن اور جوانی جن میں بیتی تھی
*وہ گلیاں یاد آتی ہیں جوانی جن میں گزری تھیں*
*بڑی حسرت سے لب پہ ذکرِ گورکھپور آتا ہے*
آغازِ آفرینش سے الجھی ہوئی گتھی کو سلجھانے کی کوشش کا تذکرہ دیکھیئے
*جو الجھی تھی آدم کے ہاتھوں*
*وہ گتھی آج تک سلجھا رہا ہوں*
آقاؐ کی رحمت اللعٰلمینی دیکھیئے فراق کی نعتیہ شاعری پیغمبر برحقؐ سے غیر معمولی عقیدت کا اظہار قابلِ دید ہے
*انوارِ۔۔۔۔۔۔بے شمار معدود نہیں*
*رحمت کی شاہراہ مسدود نہیں*
*معلوم ہو تم کو محمد کا مقام*
*وہ امتِ اسلام میں محدود نہیں*
اور یہ بھی دیکھیئے
*تکمیلِ معرفت ہے محبت رسولﷺ کی*
*ہے بندگی خدا کی اطاعت رسولﷺ کی*
عشق کی تعریف کوئی ایسے کرسکتا ہے ؟حقیقی اور مجازی کو دو لفظوں میں بتا دیا
*عشق خود اپنی تعریف یوں کرگیا*
*اہرمن اہرمن ایزداں ایزداں*
شاعرانہ تعلی جو ہر شاعر کے یہاں پایا جاتا ہے۔۔فراقؔ کی دیکھئے جو حقیقت پر مبنی ہے
*ختم ہے مجھ پہ غزل گوئی دورِ حاضر*
*دینے والے نے وہ اندازِ سخن مجھکو دیا*
*آنے والی نسلیں تم پر رشک کرینگی ہم عصرو*
*جب یہ دھیان آئیگا انکو تم نے فراقؔ کو دیکھا ہے*
فراقؔ مرنے سے دو تین سال قبل بلکل مفلوج ہوچکے تھے مہیب تنہائی اور نوکروں کی بے اعتنائی بیوی کو پہلے ہی تنگ آکر چھوڑ چکے تھے۔۔بھائی اور دیگر خاندان والوں نے توجہ نہیں دی ٹائم پر دوائی، کھانا اورچائےبھی دشوار ہونے لگا تھا۔۔انکی تنہائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک دن گھر میں اکیلا پاکر ایک چور گھس آیا ۔۔۔پیسہ مانگنے پر فراقؔ نے کہا میرے پاس نہیں ہے۔۔نوکر بازار گیا ہے واپس آکر اس سے دلوادینگے تب تک تم مجھ سے بات کرتے رہو اور میری کسمپرسی تنہائی میں کچھ دیر میرے ساتھ رہو
اور چور بھی فراقؔ کے سامنے بیٹھکر انکی باتیں سننے لگا بالآخر نوکر آیا۔۔۔اور چور پیسے پاکر چلاگیا۔۔
آخر کار علم و ادب کے اسٹیج پر طوفان برپا کرنے والے اس فنکار پر روشنی مدھم ہوتے ہوتے بجھ گئی ایک عظیم مگر متنازعہ زندگی پر پردہ کرگیا ایک طوفان اپنی ہی شدت سے تھک کر موت کی آغوش میں چپ چاپ سر رکھکر سوگیا۔۔مگر علم و ادب کے باب میں گرانقدر اضافہ کرگیا۔اور اپنی اساطیری شخصیت کو۔۔ہمیشہ کے لئے عالم ادب کے نصاب میں داخل کرگیا
*مرگِ فراقؔ پر کچھ لوگ کہہ رہے تھے*
*جاگا ہے عمر بھر کا رو رو کے سوگیا*
محمد سلمان قاسمی بلرامپوری
بزنس ایڈوائزر اینڈ ریسرچ اسکالر
8795492282..